Tuesday, 24 October 2017

Ghazal: Bhole Nahi hain ham

غزل

غم توملے بہت مگر، روئے نہیں ہیں ہم
دل کو اداس تو کیا توڑے نہیں ہیں ہم

روکے بہت گئے تری یادوں کے قافلے
بڑھتے رہے قدم کبھی لوٹے نہیں ہیں ہم

کہتے تھے لوگ لوٹ جا مشکل ہے رہ گزر
چادر قنوط کی کبھی اوڑھے نہیں ہیں ہم

یادوں نے کیا مجھ کو بہت مضطرب صنم
راتوں کو کبھی چین سے، سوئے نہیں ہیں ہم

ماں باپ کی محبت و شفقت ہے لازوال
حقا کسی بھی گام پہ بھولے نہیں ہیں ہم

دنیا کی لذتوں نے ہمیں کردیا نڈھال
ورنہ بہت ہیں آج بھی تھوڑے نہیں ہیں ہم

چھیڑوں نہ بار بار ہمیں اے ستم گرو!
تاریخ ہے گواہ کہ کورے نہیں ہیں ہم

حالات زار پوچھتے ہیں، وہ بھی اے رفیقؔ
جن کے جفا و جور بھولے نہیں ہیں ہم


محب اللہ رفیقؔ

Wednesday, 18 October 2017

Beti - Short Story

 کہانی

بیٹی

بشری کو سرکاری نوکری مل گئی۔
جب شام کو گھر آئی ، ماں کے قریب جاکر بولی :
’’ماں ! منہ کھولو؟‘‘

 یہ کہتے ہوئے ڈبے سے مٹھائی نکالی اور جلدی سے ماں کے منہ میں ڈال دی۔
’’ماں آج تیری بیٹی کو نوکری مل گئی‘‘

’’سچ؟؟ میری بچی کو نوکری مل گئی ! اللہ کا شکر ہے! ‘‘یہ کہتے ہوئے ماں کی آنکھ سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔

’’ ماں اب تمہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!۔‘‘ بشری نے کہا۔

’’بیٹا ابھی تیری شادی باقی ہے۔تیرے ہاتھ پیلے کر نے کے لیے سامان تیار کرنا ہے۔ اس لیے میں جب تک کام کرسکتی ہوں کرنے دو۔ ‘‘ماں نے کہا۔

’’نہیں ماں اب تو کام پر نہیں جائے گی۔ بس!اب جو ہوگا میں دیکھوں گی۔‘‘ بشری نے ضد کی۔
’’ ٹھیک ہے۔اب میں کام نہیں کروں گی بس!‘‘

بشریٰ روزانہ صبح دفتر جاتی اور شام کو آتے ہی ماں کی خدمت میں لگ جاتی۔
ایک دن دفتر سے آنے کے بعد بشریٰ نے خلاف معمول ماں سے سنجیدہ لہجے میں پوچھا:

ماں میں نے جب بھی آپ سے ابا کے بارے میں جاننا چاہا تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تو پڑھ لکھ بڑی ہو جائے گا اورتجھے نوکری مل جائے گی تو سب بتاؤں گی۔ ماںاب تو مجھے نوکری بھی مل گئی ہے ! بتاؤ ناابا کے بارے میں،انھوں نے تو ہم لوگوں کو کیوں اکیلا چھوڑ دیا؟

والد کا ذکرآتے ہی ماں کی پلکیں بھیگ گئیں اوربولیں:
       بیٹا وہ درد ناک رات یاد کرکے کلیجہ منہ کوآ جاتا ہے۔ جب تومیری گود میں تھی۔تیرے ابو نے تجھے مارڈالنے کی کوشش کی کہ تو لڑکی کیوں پیدا ہوئی؟ بچانے لگی تو مجھے گھر سے نکال دیا۔میں تجھے لے کر اپنے منہ بولے بھائی محمود کے پاس گئی تاکہ میری مدد ہوسکے، لیکن گاؤں کا معاملہ تھا انھوں نے تمھیں دودھ لاکر دیا اور مجھے مجھے کھانا کھلایا لیکن گھر میں ٹھہرانے کو راضی نہ ہوئے۔آخر کار میں تجھے گود میں لے کر تاریک راہوں کا سفر طے کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔

کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔
پٹنہ میرے لیے نیا شہر تھا۔ نئے لوگ اور الگ طرح کی طرز زندگی دیکھ کرمیں  پریشان تھی مگر ہمت اور حوصلے سے کام لیا۔ اللہ نے ایک نیک بندے کو میرے پاس بھیج دیا۔ اس نے میری حالت دیکھ کرپوچھا۔

میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’صاحب جی! میں غریب دکھیاری ہوں ، میرے شوہر نے مجھے اور بچے کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ اب یہاں کام کی تلاش میںآئی ہوں،کوئی کام مل جائے تو میں اپنے بچے کی پرورش کرسکوں۔‘‘

میری بات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا :
’’ٹھیک ہے !آپ میرے گھر چلیے میری بیوی بچے ہیں ، وہیں گھر یلوکام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانا اور وہیں رہ لینا، جب کوئی اوراچھا کام مل جائے گا تو پھرآپ چاہیں تو رکیںگی ورنہ کہیں بھی جاسکتی ہیں۔ اس طرح سر راہ کہاں بھٹکتی پھریں گی۔ راستے پر ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ‘‘

ان کی باتوں سے انسانیت جھلک رہی تھی۔
پھر میں  تجھے اپنے کندھوں پر اٹھائے ان کے گھر چلی آئی۔ ان کے گھر کاکام کاج کرنے لگی۔ جب تو بڑی ہوئی تو اسکول میں داخلہ کرایا گیا اور میں گھریلو کام کاج کے بعد ایک سلائی سنٹر میں کام کرنے لگی۔ تیرے اسکول کی فیس اور اخراجات پورے ہونے لگے۔

پھرماں نے گہری سانس لی اورتھکی ہوئیآواز میں بولی:
بیٹا ! میں تجھ سے یہ سب واقعہ نہیں بتائی تاکہ تیرے دل میں اپنے والد کے خلاف نفرت نہ پیدا ہوجائے آج تو بڑی افسر بن گئی ہے۔‘‘

میری خواہش ہے کہ تورتن پور جا اور ان کو اپنے ساتھ لیآنا۔انھیں ان ضرورت ہوگی۔یہ کہتے ہوئے ماں نے اپنی بات مکمل کی۔

’’ماں ! ابا نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جب ہمیں ان کی ضرورت تب تو کبھی پوچھا نہیں ، کسی سے معلوم بھی نہیں کیا کہ ہم کہاں ہیں، اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں!میں ان سے ملنے نہیں جاؤںگی۔انھیں یہاں لاؤں گی‘‘

’’نہیں رے! یہ سب تو تقدیر کا کھیل ہے۔ جو ہوا سو ہوا۔ تمھیں خدا کا واسطہ تم ان کو ضرور لاؤگی۔‘‘

ٹھیک ہے ماں!یہ آپ کا حکم ہے تو میں ایسا ہی کروںگی۔ اب رات کافی ہوگئی چلو ہم لوگ کھانا کھائیں پھر سونا بھی ہے۔یہ کہتے ہوئیوہ ٹیبل پر پلیٹ لگانے لگی۔سردی کا موسم تھا ماں کو کھانا کھلانے کے بعد ان کو  ان کے کمرے میں بستر پر لٹا دیا اور لحاف ڈال کر پاؤں دبانے لگی۔ماں گہری نیند سورہی تھی اور میں اپنی جنت کے قدموں میں پڑی اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس مالک نے ہماری آزمائش کے دن پورے کیے۔

٭٭٭
بچوں کی دنیا - اکتوبر2017





Maulan Anzar sb ki Bayezzat rehahi.

اللہ کا شکر ہے مولانا انظرشاہ صاحب باعزت بری ہوئے!
مگر سوال یہ ہے کہ قید کی مدت اور ان کی عزت بھی واپس ہوگی۔یہ وہ سوال ہے جو ہر بار کسی بے گناہ بے قصور مسلمانوں کی با عزت رہائی پر اٹھتے رہے ہیں مگر آج تک اس پر کوئی عمل در آمد نہ ہو سکا جس کی وجہ سے آئے دن بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور لمبی مدت تک انھیں جیل کی سزا کاٹنی پڑتی ہے 
18-10-2017



🤔

Wednesday, 23 August 2017

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

طلاق پر اب وہ قانون بنائے گا جس نے اپنی بیوی کو بیوی ہونے کا حق نہیں دیا... 🤔🤔🤔



مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند... شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت ہے...شریعت پر عمل کرنا یہ مسلمان کا بنیادی حق ہے.


جب طلاق اور خلع کا کوئی سسٹم باقی نہیں رہے گا تو عورتوں پر وحشیانہ مظالم کا اندیشہ ہے، جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوگا ۔۔۔ طلاق فطری نظام ہے۔#तलाक़

Saturday, 19 August 2017

Bihar Men Sailab ki Tabahkari

بہار میں سیلاب کی تباہ کاری

محب اللہ قاسمی


انس ومحبت انسان کی فطرت کا خاصہ ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیراسے باہمی میل جول اورتعلق کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد محسوس کرتاہے۔ چوں کہ اسلام خودسلامتی ومحبت کا پیغام دیتاہے۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں پر رحم کرے ،ان کی مصیبت میں کام آئے،ان کی مشکلات آسان کرے اوران کا سہارابنے ۔

چند روز قبل بہار میں سیلاب نے قہر برپا کر رکھا ہے ،اس کے 38؍اضلاع میں سے تقریبا 18 سیلاب سے متاثر ہیںجن میں سیمانچل(کشن گنج، سہرسہ، کٹیہار، ارریہ، سوپول اور فوربس گنج ) کا علاقہ بہت زیادہ متاثر ہواہے۔دوسری طرف مدھوبنی دربھنگہ ،مظفرپور،سیتا مڑھی،شیوہراورچمپارن،کے علاقے بھی متاثر ہیں۔جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔کروڑوں اور اربوںکا نقصان ہواہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی پل بہہ گئے ، ٹرین کی پٹریاںپانی میںڈوب گئیں، جس کی وجہ سے آمدو رفت کا سلسلہ پوری طرح منقطع ہوگیا۔اس حادثے نے جہاں انسانیت کودہلا کررکھ دیاہے ،وہیں طوفانی سیلاب سے متاثرہونے والوں کے دردناک حالات ٹیلی ویژن اورسوشل میڈیا پر وائر ل ہورہے ہیں۔ویڈیوز اور تصاویر کی زبانی مصیبت کا شکار لوگ مسلمانوں کو آواز دے ر ہے ہیںکہ اے دردکا درماںکہلانے والو !تم کہاںہو؟ہمارے پاس آؤ !ہماری مدد کرو!!مصیبت میں پھنسے ہم لوگوں کو نکالو!!!

لاچاروں،بے بسوں اور بے کسوں کی صداؤں پر لبیک کہنے والے اورمجبور وپریشان لوگوں کا سہارابننے والے پیغمبرکے امتی ہونے کے سبب مسلمانوںکو چاہیے کہ بلاتفریق مذہب وملت دوسروں کی مددکریں اورجب کبھی ،جہاں کہیں بھی انسانیت کسی مصیبت یا آفت سماوی یا ناگہانی حادثہ کا شکارہوتو ان کا ہمدرد بن کر ان کومشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں۔یہ ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے ۔

اس لیے میری پوری امت سے درخواست ہے کہ وہ اس نیک کام میں آگے آئیںاور مصیبت زدگان کی راحت رسانی کا فریضہ انجام دیں اور خاص طور سے مسلم تنظیمیں اس معاملہ میں دلچسپی لیں۔کیوںکہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں


Muslim Bachchion ki be rahravi

 مسلم بچیوں کی بے راہ روی اور ارتداد کا مسئلہ محب اللہ قاسمی یہ دور فتن ہے جہاں قدم قدم پر بے راہ روی اور فحاشی کے واقعات رو نما ہو رہے ہیں ...