انگاروں کی دو زبانوں والا
شخص
ہم تصور کریں کہ ایک ایسا شخص جس کے دوچہرے
ہوں اور اس کے منہ میں دہکتے ہوئے شعلوں کی دوزبانیں ہوں ، وہ اس کا چہرہ کس قدر
بھیانک اور کتنا بدترین ہوگا! اب ذہن میں سوال آئے گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس گھٹیا
اور ناعاقبت اندیش شخص کی کیا پہچان ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے من شرارالناس (بدترین
انسانوں میں سے) قرار دیا ہے؟ تو آئیے ہم
ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ کی زبان مبارک سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کا
ارشاد ہے:
إنّ من شرار الناس ذوالوجہین الذی یأتی ہولاء بوجہ وہولاء بوجہ۔ (مسلم)
’’یقیناً بدترین شخص وہ ہے جو دو منہ رکھتاہو، کچھ لوگوں کے پاس ایک
منہ لے کرجاتا ہے اورکچھ لوگوں کے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘
ایسے انسان کو آپﷺ نے کیوں بدترین انسان قرار دیاہے؟ اس سوال پر ہم غور کریں
گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام، معاشرہ میں امن و سکون اور خوش گوار ماحول دینا
چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں میں باہمی ربط وتعلق مضبوط ہو ۔ایسے
اسباب پیدا نہ ہوں جن کی وجہ سے ان کے درمیان کسی طرح سے قطع تعلق ، یا فساد و
بگاڑ پیدا ہوجائے ۔ لہذا اسلام ان تمام بری خصلتوں اور گھٹیا عادتوں سے مسلمانوں
کو دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دورخی اختیار کرنا ،ان ہی بری خصلتوں میں سے ایک
ہے۔چنانچہ اس کے لیے بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے،تاکہ مسلمان اس بری عادت سے بچیں۔آپؐ
نے فرمایا:
من کان لہ وجہان فی الدنیا، کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار۔(ابوداؤد)
’’جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ
کی دو زبانیں ہوں گی۔‘‘
دورخی اختیار کرنے والا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوں میں فساد و بگاڑ پیداکرنے
کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اس عادت بد کو نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے شخص
کو انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ وہ لوگوں کی کم زوریوں کی ٹوہ
میں لگارہتاہے، تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔ اس طرح ان کے مابین قطع تعلق
ہوجائے۔ اسی وجہ سے اس کا دل حسداور کینہ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔
امام غزالیؒ نے دوطرفہ باتیں بنانے والی خصلت بد کوچغل خوری کی خصلت سے بھی
بدتر بتایا ہے۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے، جب کہ یہاں
دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی
دو زبانیں ہوگی۔
یہ وہ برائی ہے جو مسلم معاشرے بھی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں ہمیں خود
کامحاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں وہ بری خصلت ہم میں تو نہیں اگر ہے تو ہمیں اسے فوراً
دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر نہیں ہے
تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
محب اللہ قاسمی