Tuesday, 28 December 2021
Har ek baat pe kahte ho tum ke tu keya hai
Wednesday, 20 October 2021
Aaah ....Mere Dost ke Walid ka Inteqal
آہ.... میرے دوست
کے والد کا انتقال
یوں
تو میرے بچپن میں بہت سے دوست ہوئے، جسے حتی الامکان نبھانے کی میں نے بڑی کوشش کی
اور آج بھی نبھانے کی سعی کرتا ہوں. کچھ پٹنہ میں اسکولنگ کے دوران دوست اور کلاس
میٹ ہوئے تو کچھ وہاں سے لوٹ کر گاؤں آیا تو گاؤں میں کچھ بچپن کے یار بنے تو کچھ
مدرسے میں میرے دوست ہوئے تو کچھ دارالعلوم دیوبند میں ملک مختلف حصوں سے کلاس میٹ
کی شکل میں بھی دوست بنے. اب دہلی میں ہوں تو یہاں بھی میرے بہت سے ساتھی اور دوست
ہیں.
لیکن
ابھی میں جس دوست کا ذکر کر رہا ہوں وہ میرے پچپن کا ایسا دوست ہے جہاں سے میں نے
جانا کہ دوستی کسے کہتے ہیں. چھٹیا یعنی چھوٹے یہ اس کا نام نہیں ہے. اس کے گھر
والے اور گاؤں لوگ اسے پیار سے اسی نام سے بلاتے ہیں ویسے اس کا اصل نام مطیع اللہ
ہے. جو میری ہی طرح اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے. آج صبح (15 اکتوبر 2021)
واٹس ایپ پر فاطمہ چک گروپ کے ذریعہ اطلاع ملی کہ ان کے والد محترم محمد معراج
صاحب کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا. انا للہ وانا الیہ راجعون!
موصوف
ایک نیک صفت، جفا کش، محنتی اور کم گو انسان تھے. نماز کے پابند اور گاؤں کی مسجد
میں اذان دینے کے خواہش مند رہتے، جس کے لیے وہ وقت سے پہلےمسجد پہنچنے کی تیاری
کرتے اور وقت پر اذان دیتے تھے. وہ کافی محنتی تھے یہی وجہ ہے کہ بڑی محنت سے
تجارت کی اور اللہ نے اس کی برکت سے گھر میں خوش حالی عطا کی. مکان بنایا اپنے دو
بیٹوں کو تجارت میں لگایا اور انھیں بھی آگے بڑھایا. ایک چھوٹا لڑکا جسے کافی پڑھایا
لکھایا. اس طرح ایک بیٹی اور تین بیٹے سب کی شادی کر اپنی ذمہ داری پوری کی.
اللہ
تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ان کی کمی کوتاہیوں کو معاف کرے،
ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس اعلی مقام بخشے اور اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی
سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے. محب اللہ قاسمی
Yadgar Sham Maulana Abdul Ghaffar sb se Mulaqat
یادگار شام
کی خوبصورت ملاقات
مغرب سے قبل
جب میں اپنے دفتر کے کچھ کام میں مصروف تھا اچانک شمس الحسن چا کا فون آیا. کہنے
لگے:
"محب اللہ میں کئی دنوں سے دہلی شاہین باغ میں ہوں پرسوں گھر
واپسی ہے. میں چاہتا ہوں کہ مولانا عبد الغفار صاحب سے ملاقات کروں تمہیں فرصت ہو
تو چلو"
بڑوں کی بات
میں جلدی نہیں ٹالتا جب کہ وہ کسی اچھے کام کے لیے کہہ رہے ہوں اور یہ بات تو ایسی
تو جو میری خواہش کی تکمیل تھی. کیوں کہ مولانا عبدالغفار صاحب واحد ایسی محترم
شخصیت ہیں جو میرے اور میرے والد مرحوم کے مشترک استاذ ہیں جو علوم دینیہ کے علاوہ
سائنس، ریاضی اور اردو ہندی کے ساتھ انگریزی میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں.
... خیر میں فوراً تیار ہوا اور شمس الحسن چا اور ڈاکٹر اسد
اللہ صاحب کے ہمراہ تین اشخاص پر مبنی یہ قافلہ بعد نماز مولانا مولانا کے گھر
جوگابائی ایکسٹینشن جامعہ نگر پہنچا.
الحمدللہ
تقریباً دو دہائیوں کے بعد مولانا محترم سے میری یہ ملاقات ہو رہی تھی اور بڑے
بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے سو ہم لوگوں نے بھی
تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل اس مختصر سی محفل میں متنوع موضوعات پر سیر بحث گفتگو کی
اور بہت کچھ سیکھا. رخصت کی اجازت سے قبل اپنی تین کتابیں (شخصیت کی تعمیر اسلام کی
روشنی میں، رمضان المبارک اور شخصی ارتقاء ، افسانوی مجموعہ کشمکش) مولانا محترم کی
خدمت میں پیش کیں آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے صاحب زادے کی تصنیف کردہ ایک کتاب نشان
راہ ہمیں عنایت کی جسے لے کر ایک یاد گار شام کی خوبصورت ملاقات کے ساتھ ہم لوگ
واپس چلے آئیں.
اللہ تعالیٰ
سے یہی دعا ہے کہ مولانا کو بہ صحت و عافیت رکھے اور ہمیں دین پر عمل کرتے ہوئے
خدمت دین کا جذبہ عطا کرے آمین. محب اللہ قاسمی
Wednesday, 11 August 2021
Faramosh hote elaqae Idare
فراموش ہوتے ہمارے قدیم
علاقائی ادارے
ہم اپنے ان پرانے اداروں کو کھوتے چلے جا رہے ہیں جو کبھی
ہماری بنیادی اور ٹھوس تعلیم و تربیت کا ذریعہ رہے ہیں. جن کے فارغین کو اعلی
تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی اور اونچے اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں دقتوں
کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر وہی درس گاہیں آج اپنی مدد اور توجہ کے لیے اپنی پلکیں
بچھائے محسنین و مخلصین کی راہ دیکھ رہی ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی حالت زار کو
سدھاریں۔ انھیں پھر سے وہ مقام دلانے اپنا
تعاون کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔
ایسی درسگاہوں میں سے ایک درس گاہ اسلامی گڑھیا ہے، جو
ہمارے ضلع شیوہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گرچہ یہ گاؤں اور یہ ادارہ میری گزرگاہ نہیں ہے، مگر علاقے اور میرے نانیہال کے مضافات میں ہونے
کے سبب کئی بار یہاں سے گزرنا ہوا ہے. مگر آج جب وہاں سے گزرا تو دل چاہا کہ ذرا
رک کر اسے دیکھوں آخر اتنا قدیم ادارہ اس قدر بے توجہی کا شکار کیوں ہے. کچھ لوگوں
سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی، اسی گاؤں کے ایک دوست کے گھر گیا مگر اس سے ملاقات
نہ ہوسکی.دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ قدیم ادارہ جو عرصہ پہلے ابتدائی
تعلیم کے لیے کافی مشہور رہا ہے، جس سے گاؤں علاقے کے لوگوں نے بھرپور استفادہ کیا ہے، مگر گزرتے وقت اور
لوگوں کی بے توجہی کے سبب اب یہ ادارہ اس قدرفعال نہیں رہا جس کے سبب وہ مشہور
تھا.
خیر میں بھی جلدی میں تھا، مجھے کہیں اور بھی جانا تھا چوں
کہ گاؤں میں کم ہی دن کے لیے جانا ہوتا ہے پھر واپسی کی بھی جلدی رہتی ہے۔سو یہ
کہہ کر وہاں سے رخصت ہوا کہ ان شاءاللہ دوبارہ آؤں گا تو اس کی مزید تفصیلات جان
کر اس کی بہتری کے لئے جو کچھ ہو سکے گا کوشش کروں گا.
براہ کرم آپ حضرات بھی اپنے اپنے علاقے کے ان اداروں کی خبر
خیریت لیتے رہیے جس کے سبب علاقے میں علم کا چراغ روشن ہوا اور اپنی شعاؤں سے جہالت
کے اندھیارے دور ہوئے۔ ورنہ تاریکیاں کب پیر پسار لے کچھ کہا نہیں جاسکتا.
محب اللہ قاسمی
Monday, 9 August 2021
Ham Keun hain Pareshan Kabhi Ghaur Kiya hai
Muslim Bachchion ki be rahravi
مسلم بچیوں کی بے راہ روی اور ارتداد کا مسئلہ محب اللہ قاسمی یہ دور فتن ہے جہاں قدم قدم پر بے راہ روی اور فحاشی کے واقعات رو نما ہو رہے ہیں ...