Sunday, 17 July 2022

QURBANI Sirat e Ibrahim Quiz (Report)

 




امت مسلمہ کو حضرت ابراہیمؑ کی سیرت اور ان کے مشن سے واقف کراتے ہوئے قربانی کا مقصد بتایا جائے: محب اللہ قاسمی

قربانی -سیرت ابراہیم کوئز کا کامیاب تجربہ

طویل عرصے سے میں سوچ رہا تھا کہ  ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ میں  لوگ قربانی کے مسائل سنتے ہیں اسے جاننے کی کوشش کرتےہیں۔ اسی طرح عیدالاضحی پر لوگ خطیب حضرات سے حضرت ابراہیم ؑ پر تقریریں سماعت کرتے ہیں ۔مگر ان نوجوانوں میں اتنی دلچسپی نہیں رہتی یا پھر سنی ان سنی کر جاتے ہیں کیوں نہ انھیں جوڑے رکھا جائے اور دلچسپ انداز میں ان کے درمیان قربانی کے ہلکے پھلکے مسائل بھی بتا دیے جائیں اور سیرت ابراہیمؑ اور ان کے مشن سے واقف بھی کرا دیا جائے۔ اس طرح وہ  تمام حضرات بھی اپناجائزہ لے لیں جو ان واقعات کو جانتے  ہیں مگر کچھ چیزیں ذہن سے محو  بھی ہوجاتی ہیں ، ان میں خاص طور پر ہماری مائیں اور بہنیں بھی شامل ہیں جو اپنی دیگر ضروری مصروفیات کے سبب اس جانب متوجہ نہیں ہو پاتیں!

لہذا اسی مقصد کے تحت اس ماہ ذی الحجہ کی مناسبت سے 5 جولائی کو قربانی -سیرت ابراہیم کوئز جو گوگل فارم پہ تیار کیا گیا اور اس کا لنک سوشل میڈیا کے ذریعہ ان تمام حضرات تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جو سیرت ابراہیم سے واقفیت اور قربانی کے مقصد اور اس کی اہمیت کو جاننا چاہتے تھے۔

الحمدللہ ہمارے دوست و احباب کی محنت اور شرکاء کی دلچسپی کے باعث ملک اور بیرون ملک سے 1000سے زائد لوگوں نے اس میں حصہ لیا، جن میں سب سے بڑی تعداد 383 مہاراشٹرا کی تھی ۔پھر تلنگانہ 109اور کرناٹک 106 کی رہی ۔یہ بتانا بہت اہم ہوگا کہ اس میں نصف سے زائدتعداد خواتین کی تھی ۔اس کوئز کے حل کے لیے  زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا وقت درکار تھا۔سوالات ایسے تیار کیے گئے تھے کہ کوئی شخص اسے مکمل کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان سوالات کے اختتام  پر برائے تبصرہ ایک کمنٹ باکس بھی رکھا گیا تھاجس میں شرکاء کے تاثرات اور وہ اس سے قبل راقم کے 4 کوئز میں سے کسی اور میں حصہ لیا تھا یا نہیں؟ یہ پوچھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں  جو کمیٹ اور تبصرے آئے ہیں ان سے مزید حوصلہ ملا اور خوشی ہوئی کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیاگیا ہے۔ الحمدللہ تعالی اس میں کامیابی ملی کہ لوگوں تک پیغام ابراہیمؑ کو پہنچا سکا جس کے ذریعہ لوگوں میں سیرت ابراہیم ؑکو جاننے ،سمجھنے کا شوق اور ولولہ پیدا ہوا۔

34 سوالات پر مبنی اس کوئز کے بہت سے دلچسپ سوالات میں سے دو سوالات بطور نمونہ پیش ہے:

آج کل کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ قربانی میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی جگہ کیک کاٹنا یا اس رقم کو غریبوں میں خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ شرعی طور پر کیا بہتر ہے؟

1 رقم غریبوں میں خرچ کرنا            2 قربانی کرنا    3 کیک کاٹنا

دوسرا سوال تھا کہ حضرت اسماعیلؑ کے سلسلہ نسب سے ایک ہی نبی مبعوث ہوئے ان کا نام کیا ہے؟

حضرت محمد ﷺ              حضرت عیسیؑ           حضرت یحیؑ

الغرض 100 نمبرات کے اس کوئز میں 76حضرات نے 100 میں 100 نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی۔ جب کہ81حضرات نے100 میں 97نمبر لے کر دوسری پوزیشن پر قبضہ جمایا اور 2حضرات نے 100 میں 96 نمبر لے کر تیسری حاصل کی چوں کہ 120 حضرات نے 100 میں 94 نمبرات حاصل کر اپنی چوتھی پوزیشن بنائی۔ یہ بتانا اہم ہوگا کہ394 حضرات نے 90 سے زائد نمبرات حاصل کیے ہیں۔ اس لیے یہ بھی قابل ذکر ہیں ۔ان سب کو بہت بہت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ساتھ ہی انھیں بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں جنھوں نے کوشش کی اگرچہ ان کے نمبر کم آئے۔

میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ امت مسلمہ کو پیغام ابراہیم سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے ساتھ ہی میری کوئی کمی یا کوتا ہی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرمائیں اور میری اس کوشش کو شرف قبولیت بخشے آمین۔ 

نوٹ: یہ اس کوئز کا لنک تھا https://forms.gle/vSR4iYVaSiQmu5fq5

جسے اب بھی اوپن رکھا گیا ہے تاکہ اب بھی کوئی حصہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے مگر ہمارے رکارڈ میں شمار نہیں ہوگا-

                        محب اللہ قاسمی

 

Tuesday, 28 December 2021

Har ek baat pe kahte ho tum ke tu keya hai

مجھے تو پسند ہے ہی میرے بیٹے کو بھی چچا غالب کا یہ شعر بہت پسند ہے.
ہر یک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

Wednesday, 20 October 2021

Aaah ....Mere Dost ke Walid ka Inteqal

 

آہ.... میرے دوست کے والد کا انتقال

یوں تو میرے بچپن میں بہت سے دوست ہوئے، جسے حتی الامکان نبھانے کی میں نے بڑی کوشش کی اور آج بھی نبھانے کی سعی کرتا ہوں. کچھ پٹنہ میں اسکولنگ کے دوران دوست اور کلاس میٹ ہوئے تو کچھ وہاں سے لوٹ کر گاؤں آیا تو گاؤں میں کچھ بچپن کے یار بنے تو کچھ مدرسے میں میرے دوست ہوئے تو کچھ دارالعلوم دیوبند میں ملک مختلف حصوں سے کلاس میٹ کی شکل میں بھی دوست بنے. اب دہلی میں ہوں تو یہاں بھی میرے بہت سے ساتھی اور دوست ہیں.

لیکن ابھی میں جس دوست کا ذکر کر رہا ہوں وہ میرے پچپن کا ایسا دوست ہے جہاں سے میں نے جانا کہ دوستی کسے کہتے ہیں. چھٹیا یعنی چھوٹے یہ اس کا نام نہیں ہے. اس کے گھر والے اور گاؤں لوگ اسے پیار سے اسی نام سے بلاتے ہیں ویسے اس کا اصل نام مطیع اللہ ہے. جو میری ہی طرح اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے. آج صبح (15 اکتوبر 2021) واٹس ایپ پر فاطمہ چک گروپ کے ذریعہ اطلاع ملی کہ ان کے والد محترم محمد معراج صاحب کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا. انا للہ وانا الیہ راجعون!

موصوف ایک نیک صفت، جفا کش، محنتی اور کم گو انسان تھے. نماز کے پابند اور گاؤں کی مسجد میں اذان دینے کے خواہش مند رہتے، جس کے لیے وہ وقت سے پہلےمسجد پہنچنے کی تیاری کرتے اور وقت پر اذان دیتے تھے. وہ کافی محنتی تھے یہی وجہ ہے کہ بڑی محنت سے تجارت کی اور اللہ نے اس کی برکت سے گھر میں خوش حالی عطا کی. مکان بنایا اپنے دو بیٹوں کو تجارت میں لگایا اور انھیں بھی آگے بڑھایا. ایک چھوٹا لڑکا جسے کافی پڑھایا لکھایا. اس طرح ایک بیٹی اور تین بیٹے سب کی شادی کر اپنی ذمہ داری پوری کی.

 ادھر کافی دنوں سے آپ بہت بیمار چل رہے تھے. چوں کہ موت ایک حقیقت ہے سو موت نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ دار فانی کو چھوڑ گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے. 25 جنوری 2019 کو میرے والد محترم کے انتقال کا سانحہ پیش آیا اور آج دو سال بعد میرے دوست کے والد چل بسے. اولاد کے لیے والد کا سایہ عاطفت کیسا ہوتا ہے اسے وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ان کی کمی کوتاہیوں کو معاف کرے، ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس اعلی مقام بخشے اور اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے.       محب اللہ قاسمی

 

Yadgar Sham Maulana Abdul Ghaffar sb se Mulaqat

یادگار شام کی خوبصورت ملاقات

مغرب سے قبل جب میں اپنے دفتر کے کچھ کام میں مصروف تھا اچانک شمس الحسن چا کا فون آیا. کہنے لگے:

"محب اللہ میں کئی دنوں سے دہلی شاہین باغ میں ہوں پرسوں گھر واپسی ہے. میں چاہتا ہوں کہ مولانا عبد الغفار صاحب سے ملاقات کروں تمہیں فرصت ہو تو چلو"

 بڑوں کی بات میں جلدی نہیں ٹالتا جب کہ وہ کسی اچھے کام کے لیے کہہ رہے ہوں اور یہ بات تو ایسی تو جو میری خواہش کی تکمیل تھی. کیوں کہ مولانا عبدالغفار صاحب واحد ایسی محترم شخصیت ہیں جو میرے اور میرے والد مرحوم کے مشترک استاذ ہیں جو علوم دینیہ کے علاوہ سائنس، ریاضی اور اردو ہندی کے ساتھ انگریزی میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں.

... خیر میں فوراً تیار ہوا اور شمس الحسن چا اور ڈاکٹر اسد اللہ صاحب کے ہمراہ تین اشخاص پر مبنی یہ قافلہ بعد نماز مولانا مولانا کے گھر جوگابائی ایکسٹینشن جامعہ نگر پہنچا.

الحمدللہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد مولانا محترم سے میری یہ ملاقات ہو رہی تھی اور بڑے بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے سو ہم لوگوں نے بھی تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل اس مختصر سی محفل میں متنوع موضوعات پر سیر بحث گفتگو کی اور بہت کچھ سیکھا. رخصت کی اجازت سے قبل اپنی تین کتابیں (شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں، رمضان المبارک اور شخصی ارتقاء ، افسانوی مجموعہ کشمکش) مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیں آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے صاحب زادے کی تصنیف کردہ ایک کتاب نشان راہ ہمیں عنایت کی جسے لے کر ایک یاد گار شام کی خوبصورت ملاقات کے ساتھ ہم لوگ واپس چلے آئیں.

اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ مولانا کو بہ صحت و عافیت رکھے اور ہمیں دین پر عمل کرتے ہوئے خدمت دین کا جذبہ عطا کرے آمین.       محب اللہ قاسمی

Wednesday, 11 August 2021

Faramosh hote elaqae Idare

 

فراموش ہوتے ہمارے قدیم علاقائی ادارے

ہم اپنے ان پرانے اداروں کو کھوتے چلے جا رہے ہیں جو کبھی ہماری بنیادی اور ٹھوس تعلیم و تربیت کا ذریعہ رہے ہیں. جن کے فارغین کو اعلی تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی اور اونچے اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں دقتوں کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر وہی درس گاہیں آج اپنی مدد اور توجہ کے لیے اپنی پلکیں بچھائے محسنین و مخلصین کی راہ دیکھ رہی ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی حالت زار کو سدھاریں۔  انھیں پھر سے وہ مقام دلانے اپنا تعاون کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔

 

ایسی درسگاہوں میں سے ایک درس گاہ اسلامی گڑھیا ہے، جو ہمارے ضلع شیوہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گرچہ یہ گاؤں اور یہ ادارہ  میری گزرگاہ نہیں ہے،  مگر علاقے اور میرے نانیہال کے مضافات میں ہونے کے سبب کئی بار یہاں سے گزرنا ہوا ہے. مگر آج جب وہاں سے گزرا تو دل چاہا کہ ذرا رک کر اسے دیکھوں آخر اتنا قدیم ادارہ اس قدر بے توجہی کا شکار کیوں ہے. کچھ لوگوں سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی، اسی گاؤں کے ایک دوست کے گھر گیا مگر اس سے ملاقات نہ ہوسکی.دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ قدیم ادارہ جو عرصہ پہلے ابتدائی تعلیم کے لیے کافی مشہور رہا ہے، جس سے  گاؤں علاقے کے لوگوں نے  بھرپور استفادہ کیا ہے، مگر گزرتے وقت اور لوگوں کی بے توجہی کے سبب اب یہ ادارہ اس قدرفعال نہیں رہا جس کے سبب وہ مشہور تھا.

خیر میں بھی جلدی میں تھا، مجھے کہیں اور بھی جانا تھا چوں کہ گاؤں میں کم ہی دن کے لیے جانا ہوتا ہے پھر واپسی کی بھی جلدی رہتی ہے۔سو یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہوا کہ ان شاءاللہ دوبارہ آؤں گا تو اس کی مزید تفصیلات جان کر اس کی بہتری کے لئے جو کچھ ہو سکے گا کوشش کروں گا.

براہ کرم آپ حضرات بھی اپنے اپنے علاقے کے ان اداروں کی خبر خیریت لیتے رہیے جس کے سبب علاقے میں علم کا چراغ روشن ہوا اور اپنی شعاؤں سے جہالت کے اندھیارے دور ہوئے۔ ورنہ تاریکیاں کب پیر پسار لے کچھ کہا نہیں جاسکتا.

محب اللہ قاسمی

Per Lagayen ham

  पेड़ लगाएँ  मामूली खताओं को चलो माफ़ करें हम और पेड़ लगा कर के फेज़ा साफ़ करें हम आलुदगी इतनी है की दम घुटने लगा है माहौल से भी चाहिए इंसाफ़ करे...