Saturday 29 September 2012


امید مومن کا وصف خاص


محب اللہ قاسمی

امید کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ہر شخص کے جذبات براہ راست اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر زندگی کے قافلہ کارواں دواں ہونا محال ہے۔کہتے ہیں ناامید ی کفر ہے اورامید پر دنیا قائم ہے۔یہ امید ہی ہے جس کی بناپر تاجر اپنی دوکان کھولتاہے اورصبح سے شام تک وہیں دلجمعی کے ساتھ بیٹھتاہے ،اسے توقع ہوتی ہے کہ اسے اچھا منافع ملے گا۔کسان زمین کھودکراس میں بیج ڈالتاہے اس امیدکے ساتھ کہ اس سے ڈھیروںغلے کی پیداوارہوگی۔ والدین اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں کہ آئندہ وہ ایک اچھا انسان اورقوم وملک کا معمارہوگا۔گویا کہ زندگی کے ہرشعبے میں انسان کسی نہ کسی نوعیت کی امید ضرور رکھتاہے اورامیدوںکے سہارے اپنے منصوبوںکوعملی جامہ پہنانے کی کوشش میں لگارہتاہے۔’ امید ‘کی حقیقت کیاہے ،اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔


امید کوعربی زبان میں رجاء کہتے ہیںکسی کام کے کامیابی سے پاجانے کی توقع ۔اس کی ضدمایوسی ہے۔ امید کے دواصطلاحی معنی بیان کئے جاتے ہیں :ایک معنی ہیں: اللہ سے درگذراور مغفرت کی توقع رکھنا۔‘دوسرے معنی ہیں :زندگی میں کشادگی وفراوانی کا  انتظاراورمصائب وآلام سے نجات کی توقع ۔علامہ ابن قیم نے پہلے معنی کو اس انداز سے بیان کیاہے:

‘‘امید دراصل بندگی ہے ورنہ انسانی اعضا و جوارح اطاعت کے لیے آمادہ ہی نہ ہوتے ۔ اسی طرح اس امیدکی خوشبواگرنہ ہوتی تو ارادوں کے سمندرمیں اعمال کی کشتی ہی نہ چلتی ’’
ابن حجرؒ وغیرہ نے بھی امید کے اصطلاحی معنی بیان کیے ہیں ۔
یہ واقعہ ہے کہ امید انسانی تخیلات میں جان پیداکرتی ہے۔ان تخیلات کوعملی پیکرمیں ڈھالنے کا کام انسانی اعضاء وجوارح مل کرانجام دیتے ہیں ۔ایک قول ہے یمان خوف اورامید کے مابین ہے۔اس کے مطابق ایک مومن کے اندریہ دونوںاوصاف ہیں تویہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل میں ’ ایمان‘ ہے ۔قرآن کریم میں اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاگیا:

جولوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اورجوکچھ ہم نے ان کو دیاوہ یوشیدہ اورعلانیہ طورپر خرچ کرتے ہیں وہ لو گ ایسی تجارت کے متوقع ہیں ،جس میں کوئی خسارہ نہ ہوگا۔نیزفرمایا : یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔

پھریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جوبھی عمل کرے اگراس نے اللہ سے امید باندھ رکھی ہے تواللہ اس کی امید کے مطابق اسے عطاکرتاہے ۔


ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے گھر پہنچے جومرض وفات میں تھا۔آپؐ نے فرمایا:تمہیں کیسا محسوس ہوتاہے ؟اس نے کہااے اللہ کے رسول بہ خدا مجھے اللہ سے بہتری کی امید ہے اوراپنے گناہوںکا خوف بھی ہے۔آپ نے فرمایا اس مقام پر ایک بندے کے اندرجب یہ دونوںباتیں ہیں تواللہ اسے امید کے موافق عطاکرے گااوراس کو ان گناہوں
کے خوف سے محفوظ کردے گا۔ایک حدیث قدسی ہے، جس کے راوی حضرت انس ؓ ہیں۔اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:اللہ کہتاہے کہ’’ اے ابن آدم تونے مجھے یاد کیا اورمجھ سے امید باندھی میں نے تیرے تمام گناہوںکو بخش دیااورمیں بے نیاز ہوں‘‘۔نبی ؐ نے فرمایاکہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اوراس کے شر سے محفوظ رہیں۔اللہ کے رسولؐ نے ہمیں ایک دعاسکھائی جسے ہم دعائے قنوت کہتے ہیں اوروترکی نماز میںروزانہ ہم دعائے قنوت میں ’ونرجوارحمتک ‘کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اے خدا ہم تیری رحمت کی امید کرتے ہیں۔


امید کی وضاحت اس کے بالمقابل استعمال ہونے والے لفظ ’ناامید ی‘سے ہوتی ہے۔کیوںکہ معروف اصول ہے چیزیں اپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں۔امید کی ضد ناامیدی ہے ،اسی کو مایوسی بھی کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایاہے (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو)۔امید مومن کا وصف خاص ہے جب کہ ناامیدی کافراورگمراہ لوگوںکی صفت ہے۔اللہ تعالی نے فرمایااللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے صحابہ کرام ؓ کوتین بڑے گناہوںکے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا(اللہ کا شریک ٹھہرانا،اللہ کی گرفت سے خود کومامون سمجھنا اوراللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔انسان کوچاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں امیدوںکوہمیشہ جوان رکھے ۔یہی صفت اسے اپنے مشن کو جاری رکھنے میں کامیاب بناتی ہے۔ وہ ناامید ی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دے ۔اس لیے کہ اس سے قلب بزدل اوربے جان ہو کر ایمان سے محروم ہونے لگتاہے ۔ناامیدی کی کیفیت میں انسان عمل سے کوسوں دور ہوجاتاہے۔ دوسرے لفظوںمیں یوںبھی کہاجاسکتاہے کہ امید کادوسرا نام زندگی ہے اورناامیدی کا نام موت ہے۔امید کے بغیر انسان محض ایک ڈھانچے کی شکل میں رہ جاتاہے ،جس میںکوئی روح نہیں ہوتی۔ شاعرنے خداکی دی ہوئی اس امانت کو جاوداں رکھنے کے لیے یوں کہاہے   ؎

رہے پھولا پھلا یارب چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کریہ بوٹے ہم نے پالے ہیں


یہ امید ہی ہے جوانسان کو نیکی پر آمادہ کرتی ہے۔قرآن کہتاہے تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ 

نرم لہجہ اور خندہ پیشانی بلند کردار کی علامت

                                                                    محب اللہ قاسمی 

انسان خوشی ومسرت کا خوگر ہوتاہے ،اسے تلخی اورشدت ناگوار گزرتی ہے۔ مگر بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات پرقابو نہیں رکھتا اور اپنے نامناسب  رویے میں تبدیلی لانے کو تیارنہیں ہوتا۔اس کے نتیجہ میںشکایت اور غصے کا ماحول پیدا ہوجاتاہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ،جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ملاقات خوشی کے بجائے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے اور گفتگوکے دوران سخت کلامی کی نوبت آجاتی ہے ۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے صحت مند طرزکلام ناگزیرہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کوہدایت فرمائی :
 ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤکہ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے نرم گفتگو کرو شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے اور ڈرے‘‘ (سورۃ طہٰ:۴۲-۴۳)۔
اس آیت کریمہ میںاللہ تعالی نے موسی ؑاورہا رونؑ کو نرم لہجہ میں گفتگوکرنے کا حکم دیا ہے ۔ مخاطب کتناہی بڑا سرکش کیوں نہ ہو،مناسب یہ ہے کہ اس سے سہل ،لطیف اورنرم لہجہ میں گفتگوکی جائے تبھی اصلاح کے مقصدمیںکامیابی کی توقع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاا ارشاد ہے :
’’خوشخبری سناؤ، نفرت مت دلاؤآسانی پیدا کرو مشکل نہ بناؤ‘‘۔(مسلم)
بسااوقات انسان نادانی میں کسی شخص سے ایسی بات کہہ دیتا ہے جوبراہ راست اس کے دل کو زخمی کرتی ہے پھروہ زخم کبھی نہیں بھرتا ۔ ایک محاورہ ہے:زبان کا زخم جسم کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔واضح رہے کہ ایذارسانی اسلام میں حرام ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان وہاتھ سے انسان محفوظ رہیں۔
کوئی آلہ ایساایجاد نہیں ہوا ،جس سے مخاطب کے دل کی کیفیت جانی جاسکے۔البتہ انسان کا چہرہ بتادیتاہے کہ وہ خوش ہے یا ناراض اوریہ کہ وہ  اپنے ملنے والوں کے سلسلے میں کتنا مخلص اورخیرخواہ ہے ۔شیخ سعدی نے کہاتھا :
 ’’تا مردسخن نگفتہ باشد عیب وہنرس نہفتہ باشد ‘‘جب تک انسان بات نہیں کرتاہے اس وقت تک اس کا عیب وہنرچھپا ہوتاہے۔گویا گفتگوکا لہجہ انسان کی شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا:کیامیں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتادوں جس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول  ﷺ آپ ضروربتائیے۔آپ نے ارشادفرمایا:
 ’’اللہ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے ہراس شخص پر جو خوش مزاج ،نرم خو،ملائمت پسند اورلوگوںسے قریب رہنے والا ہو۔‘‘ (مسند احمد(
اسلام انسان کوہرحال میں صابروشاکر رہنا سکھاتاہے ۔اسے چاہیے کہ مصائب کے باوجود اپنی تکلیف کو مسکراہٹوںمیں چھپانے کا عادی بنے۔ اس کا یہ عمل اسے خودبھی خوش رکھے گا اوروہ دوسروںکو بھی خوش رہنے کی ترغیب دے سکے گا۔ اس کا یہ عمل شکرگزاری میں شمار ہوگا جس پر اللہ نے مزیدعطاکرنے کا وعدہ کیاہے۔کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا۔ چہرے کاحساس وبشاش ہونا۔انسانوںکو یہ نسخہ نبی کریم ﷺ نے عطا کیا۔ آپ ؐ اچھی باتوںکو پسند فرماتے تھے، کسی بھی خیرکے کام کو معمولی نہیں سمجھتے آپ ؐنے فرمایا:
’’کسی بھی بھلائی کو ہرگزحقیرنہ جانو اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔‘‘     ( مسلم(
اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملنا ایک پسندیدہ عمل ہے ۔اگرچہ لوگوںکی نظرمیں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہومگراخلاقی اعتبارسے یہ ایک عمدہ صفت اورباہمی محبت کا مظہر ہے۔اسلام نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔آپ ؐ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔حضرت عبداللہ بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کونہیں دیکھا۔(ترمذی(
کسی سے ملتے وقت چہرے پرمسکراہٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ شخص بااخلاق ہے ۔اس خوبی کا حامل انسان اپنے دوسرے بھائی کے دل میں خوشی کی لہرپیداکرتا ہے ۔اگراس کے پاس دینے کے لیے کوئی مادی شئے نہ ہو تب بھی اس کا مسکراہٹ کے ساتھ ملنا خود ایک صدقہ اور نیک عمل ہے۔بسا اوقات چہرے کی مسکراہٹ مریض کے لیے دوا ثابت ہوتی ہےچنانچہ بہت سے اطباکا خیال ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت مسکراہٹ اس کی طبیعت کی بحالی کا سبب ہوتی ہے۔یہ ایک قسم کا عطیہ اوربخشش ہے ۔لوگوںکو عام طورپر اس کا شعورنہیں ہوتا۔
سلف صالحین کا طریقہ رہاہے کہ وہ لوگوںکے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے اورنرم لہجہ اختیارکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ لوگوںکا ایک ہجوم ان سے ملنے کا شائق رہتا تھا ۔جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ فرماتے ہیں :
’’نیکی آسان چیز ہے،خندہ پیشانی ، نرم زبان ۔‘‘(شعب الایمان بیہقی)
یعنی انسان کسی کے ساتھ خندہ پیشانی اور نرم لہجے میں بات کرکے بھی نیکی کما سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی گفتگومیں نرم وشیریں لہجہ اختیارکرے۔یہ طریقہ دل کی سختی کو دورکرے گااوراس کی شخصیت میں نکھارپیدا ہوگا ۔ ہنستاہوا چہراموتی سے زیادہ چمکداراورروشن صبح سے زیادہ دلکش ہوتا ہے،ساتھ ہی یہ صفت صفائی قلب کی عکاس ہوتی ہے۔گفتگوکے آداب میں سے یہ ہے کہ انسان جہاں اپنے مخاطب سے نرم لہجہ اورشیریں کلام کرے ،وہیں وہ اپنے چہرے پہ مسکراہٹ بھی رکھے۔ اس کے بغیرگفتگوکا مؤثرہونا محال ہے۔اگرہم نے اپنی زندگی میں اس کا اہتمام کیا تو اس کے فوائد کا مشاہدہ کریںگے۔ یہ شرف کیاکم ہے کہ یہ نبی کریم ؐ کی اقتداء ہوگی جوہمارے لیے قابل فخرہے۔اس رویے سے اللہ کے اچھے بندوں سے محبت پیداہوگی جو خداسے محبت کی علامت ہے۔ لوگ خندہ رو شخص کے دلدادہ ہوتے ہیںاوران کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔ایک داعی کی سب سے بڑی خوبی اور اس کے بلندکردار ہونے کی دلیل ہے۔  
Top of Form


Sunday 27 March 2011

Ghardish e Ayyam


روزانہ آفتاب مشرق کے دریچے سے جھانکتاہوا مغرب کے سمندرمیں غروب ہوجاتا ہے ۔  دھوپ چھاؤں ،سردی گرمی ،خزاں بہار،دن مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ انقلاب ہر چیز میں رونماہورہا ہے چاہے وہ دینی،سیاسی،معاشی کیفیت ہو یا معاشرتی حالات ۔ آج پوری دنیااسی کے زیراثرہے جس پرانقلاب کی آندھی چل پڑی ہے مگر آوارہ گرد یہ جھونکاجوانسان کو انسانیت کی شناخت سے الگ کرکے درندہ صفت بنا  دینا  چاہتی ہے۔   ’’ہندو،مسلم ،سکھ ، عیسائی ، آپس میں  سب بھائی بھائی ‘‘ کے گیت گانے والے لوگ ظلم وستم کی داستانیں  تحریرکرنے میں  لگے ہوئے ہیں ۔  جہاں  خوشیاں  ہی خوشیاں ہوتی تھیں  اب وہاں  رونے،کراہنے اور چلانے کی آوازیں  سنائی دیتی ہیں ۔ مسلمان اچھے اخلاق واعلیٰ کرادار ، پاکبازی،عدل پروری اور  حق گوئی وراست روی کی مثال آپ ہواکرتے تھے ۔ آج ان کی اس شناخت کوبگاڑنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ۔

اس ’’گردش ایام ‘‘نے ہمارے معاشرے ،تہذیب وتمدن اور کلچرکوبھی متأثرکیاہے اور  انسیت پسندانسان کواپنے شکنجے میں  دبوچ کراس کی اصل شکل وصورت مسخ کردی ہے ۔  اسے جدت وبدعت پسندبنادیاہے اور کبھی نہ سوکھنے والے ہرے بھرے درخت نما ’’مومن‘‘ کو اپنے حسین فریب کاریوں کے لوکے تھپیڑوں  سے جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
قدم قدم پہ فتنوں کاہجوم ہے۔ خواہشاتِ نفس کی رغبت جس کی تکمیل کے لئے ہرقسم کی سہولتیں  بآسانی فراہم ہورہی ہیں ۔ برائیوں کوعروج اور  اچھائیوں  کو زوال کی دھول چٹائی جارہی ہے۔ لہوولعب کے مراکز آباد ہورہے ہیں ۔  مسجدیں  ویران پڑیں  ہیں ۔ ہونٹوں پے گانوں کے قطار بندھے ہوئے ہیں ۔  جبکہ زبان کلمہ حق سے ناآشناہے بے حیائی وبے شرمی ،بدکاری وبداخلاقی کاشورغل مچاہواہے۔  مزیدبرآں  یہ کہ عورتوں  کو شانہ بشانہ قدم بہ قدم ملاکرچلنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور پردہ کے خلاف بے پردگی کا زور اور دباؤڈالاجارہاہے ۔ جس کے شرمناک اور  خطرناک نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔

اتحادواتفاق کانعرہ توبلندکیاجارہاہے مگر منافرت کی بیج بو کر ظلم وستم کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے۔ کوئی تو میٹھے الفاظ کے کمان سے دل پروارکرہاہے توکوئی اپنے ماضی کے کارناموں کوپیش کرکے لوگوں  پراپنے تسلط کاسایہ ڈالناچاہ رہاہے۔  درحقیقت یہ ریاکاردانشورانِ قوم غم خواری وغم گساری کی حقیقت کومٹاکرملنے والی ’’آرام کرسی‘‘پرنگاہیں جمائے ہوئے ہیں ،انہیں  کوئی فرق نہیں  پڑتاکہ کس کاگھرجل رہاہے ، کس کی جان لی جارہی ہے اور کس کامال واسباب برباد کیاجارہاہے؟

الغرض اجالا آپ ہی کپکپاتاہواسمٹتاجارہاہے جیسے وہ اندھیروں کے لئے جگہ خالی کررہا ہو۔  نیکیاں  پسینہ پسینہ ہوتی جارہی ہیں  جیسے برائیوں کادوردورہ شروع ہونے والاہے۔ ایسے میں  چین وسکون امن واطمیناکی خواہاں انسانی فطرت اس قدر گناہ آلودہ ماحول کو دیکھ کرحیران وپریشان اور تھکی ہوئی آوازمیں بول پڑتی ہے۔ اے گردش ایام تجھے کیانام دوں ……؟ ایسے میں  مسلم معاشرے کے سامنے کئی سوالات گردش کرنے لگتے ہیں ۔ کیا یہ ظلم وستم صرف ہمارے لئے ہی مقدر ہے ؟ ماضی کاماحول کتنااچھاتھا۔ کیاوہ پرامن فضا دوبارہ قائم نہیں  ہوسکتیں  ؟

تاریخ کے آئینے میں اگر واقعات کودیکھیں  توہمیں  معلوم ہوگا کہ ہردورمیں جب جب ظلم وفسادکاعروج ہواہے اسے زوال کا بھی منہ دیکھناپڑاہے ۔ کیوں  کہ حکومت کبھی ظلم وفسادکے ساتھ نہیں چل سکتی ۔ جس طرح پرامن احتجاج کررہے مصریوں  کومارا اور  کچلا جارہاہے۔ دیگر ممالک میں  انسانوں کا خون بہایاجارہاہے اور جس قدر فتنہ پرپا ہے ۔  یہ سب ظلم کی انتہاہے۔  اس لئے ہم بھی عقل وفکرکی روشنی میں  اگردوسری طرف دیکھیں  توہمیں ان منفی خارداروادیوں سے خوشنمااورروشن مستقبل کاراستہ دکھائی دے گا اور وہ ہے انسانیت کو درکار  ’’فکری انقلاب ‘‘جہاں لوگ صحیح اور غلط کی تمیزکرتے ہوئے اقدام کرناپسندکریں ، انسانیت کے درد کومحسوس کیاجائے  اور  ہرقسم کے مفاد پر انسانیت کو ترجیح دی جائے۔ آج انسانیت ایک ایسے ہی انقلاب کی منتظرہے جوانسانیت کے تمام حقوق فراہم کرسکے ، جہاں مساوات اور برابری کواول درجے کی حیثیت حاصل ہو، عدل وانصاف کااعلی معیارقائم ہو۔  ان ہی تمام خوبیوں کے مجموعے کانام ہے ’’اسلام‘‘جس کا طریقۂ کار زندگی کے بے شمار خوشگوار پہلؤوں  کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ جوانسانیت کے لئے بے حدضروری ہے۔

ایسے میں  ایک مسلمان کوجودوسروں کے لئے ایک آئینہ کے مانندہے ۔ اسے’’ گردش ایام‘‘ سے دوچارہوکریااسلامی کلچراورتہذیب میں گھولے گئے مغربیت کے رنگ میں  رنگ کراپنی شناخت اور وقار کومجروح کرنے کے بجائے ان فاسدعناصرکامردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔ جس کے لئے مسلمان کو تاحیات دینی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ان کایہ کردارغیروں کے لئے مشعل راہ اور ظلم وفساد کے سدباب کے لئے سنگ میل ثابت ہو۔

اگرہمارایہ مقصدحیات رہا تواسلام میں  وہ تمام خوبیاں  موجودہیں  جوایک خوشگوارزندگی کے لئے لازمی اور ضروری ہے،جس کے سائے میں  رہ کرانسان کامیاب زندگی گزارسکتاہے ۔ اگراس اسلامی تہذیب اور سوسائیٹی کی تبلیغ واشاعت میں  مشکلات درپیش ہوں تواس کاڈٹ کرمقابلہ کرنا چاہئے گھبراکرقدم پیچھے ہٹانے یامایوس ہونے کی ضرورت نہیں  ،یہ تواس کی ایک آزمائش ہوتی ہیے جس سے مسلمان میں  نکھار پیدا ہوتا ہے    ؎
تندیٔ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
         یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...