Tuesday 8 January 2013

Bimar Muashra aur Islami Talimat


بيمارمعاشرہ اور اسلامی تعلیمات کی ضرورت

 محب اللہ قاسمی 

       مریض کو دوا کا خوف دلاکر اسے بغیرعلاج مارنا ، اس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوںکو آگاہ کرنا اوراس سے پوری طرح دوررہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظام- اسلام - سے انسانوںکو ڈراکراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔

        موجودہ دورکے ماحول اورحالات نے آج پوری انسانیت کوایسا مریض بنادیاہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا  علاج بتانے سے گریز کیا جارہا ہے ،اس کواسلام اوراسلامی تعلیمات سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اورانسان کے تمام فکری وعملی اوراخلاقی بیماریوںکا علاج صرف اورصرف اسلام کے پاس ہے۔ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تویہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئیں ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگران کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن پر دن بڑھتی جارہی ہیں۔مثلاً آج دنیا بھرمیں ایڈزجیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہماراملک بھی اس کی زد میں ہے۔اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں مگر کوئی یہ کہنے کوتیارنہیں ہے کہ ناجائزتعلقات ہی اس خوفناک بیماری کی اصل وجہ ہے۔ خرابی کی ایک بڑی وجہ عریانیت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے دوش بدوش مخلوط پارٹیوں میں نظرآتی ہیں۔ یہ صورت حال نفسیاتی طورپر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ناگہانی کیفیت اور بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔کبھی کبھی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پھر ہم واویلامچاتے پھرتے ہیں، جب کہ خودکردہ را علاج نیست۔  
     
        وطن عزیز کا باشندہ ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ یہاں خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ جب کہ عورتوںکوسیتااورلکشمی کے روپ میں دیوی کا درجہ دیاجاتاہے۔اس معاملے میں اب ہماری راجدھانی (دہلی) بھی شرمسار ہے، جہاں سے قانون کومنظوری حاصل ہوتی ہے اوراسے پورے ہندوستان میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے بہت سے واقعات فسادات کے دوران ہوتے رہے ہیں ان میں عورتوںکی عزت تارتارکی جاتی رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے صرف چند ہی جنسی جرائم میڈیاکے ذریعے نمایاںہوتے ہیںاوربہت سے معاملات کومتأثرہ خاتون پر دباؤبناکر پس پردہ ہی ختم کردیاجاتاہے ۔        

        یہ بات لائق تحسین ہے کہ اس شرمناک اوروحشیانہ واقعے کے خلاف عوام سڑکوںسے لے کر ایوان تک نہ صرف آواز بلندکررہے ہیں بلکہ ان مجرمین کے لیے پھانسی تک کی سزاکا مطالبہ کررہے ہیں اور سخت ترین قانون سازی کی بات بھی کی جارہی ہے۔  یہ چیز قابل غور ہے کہ بعض مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کے مطابق جب بدکاروں،چوروں ،شرابیوںاور بھیانک جرائم میں ملوث افرادکو سزادی جاتی ہے تو مغربی ممالک سمیت ہندوستان میں بھی ان سزائوںکو اہانت آمیز،رسواکن اورظالمانہ قانون قراردے کر ہنگامامچایاجاتاہے،جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ جہاں جہاں ان جرائم کے لئے سخت سزائیں دی جاتی ہیں وہاں ان کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

انسداد جرائم کی تدابیر
       آج حکومت کے ذمہ داروں کوبھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسدادکے لیے کیا کریں۔تمام دانش وراورارباب حل وعقدان جرائم کاحل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوںکا تعین ،ان کی چوکسی، بسوں میںسی سی ٹی وی کیمرے اورلائٹ جلائے رکھنے کی تاکیداور اس فعل بدمیں ملوث افراد کواذیت ناک سزاکی بات کہی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرمناک فعل کو  انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزادی جانی چاہیے ۔مگرحل کے طورپرصرف یہی باتیں کافی نہیںہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کردینا یا بورڈ لگاد ینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوںمیں سی سی ٹی وی کیمرے لگادینے سے انسان کا ضمیراوراس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں؟ اس لیے تمام دانش وران اورارباب حل و عقد کوچاہئے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام  کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات  اورتعزیراتی قوانین کابھی مطالعہ کریں،پھرانھیں عملی جامہ پہنائیں۔ کیوںکہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آزمودہ ہیں۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
       اسلام انسانوںکومعاشرتی زندگی تباہ وبربادکرنے والی چیزوںمثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ،فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروںکی عزت وناموس کاخیال رکھنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں اور گھراورحجاب کو قیدسمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوںاورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربدکا شکار ہوجائیں ۔ 

خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
       اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوںکا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔مثلاً انھیں اپنے  بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُن (النور:۳۱(

اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱(
دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء  الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً )سورۃ احزاب 59:)
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹(
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروںمیں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا:
 وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا۔ 
’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔  نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۳۳(
اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوںکو ان کی طرف مائل کرے ،یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:
ایما امرأۃ استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا ریحہا فہی زانیۃ’’


ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی(
رسول اللہ  ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صنفان من اہل النار لم ارہما: نساء کاسیات عاریات، مائلات ممیلات، رؤوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا  (مسلم(
 ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیںگی اورنہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔‘‘ (مسلم(
       علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوںکے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوںکو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوںکے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ

       اسی طرح مردوںکوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے)  عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیںچہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لاتقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ، وساء سبیلا۔

’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی )ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲ (
   موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو،اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے:
ایاکم والدخول علی النساء عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری(

       اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے:
اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب: ۵۳(
انسان کی تخلیق جس ساخت پر ہوئی ہے اس میں جنسی خواہش بھی رکھی گئی ہے جس کی تکمیل کے لیے اورعدم اسطاعت پر کنٹرول کے لیے جائزطریقہ (نکاح ،شادی روزہ وغیرہ) بتایا ۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
یا معشرالشباب من استطاع الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری(
’’اے نوجوانوںکی جماعت تم میں سے جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہئے اور(یہ طریقہ) نگاہوںکو نیچی رکھنے اورشرم گاہ کومحفوظ رکھنے کے لیے بہترہے اورجوشخص اس کی سکت نہ رکھتاہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ یہ اس کی جنسی خواہش کو کچلنے کے لیے بہترہے۔‘‘ (بخاری(
معلوم ہوا کہ جس جوان شخص میں نکاح کی صلاحیت ہے اوروہ بیوی کے حقوق کی ادائی اور اس کے اخرجات برداشت کرسکتاہے اسے بلاتاخیرشادی کرلینی چاہیے۔ لیکن کسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتواسے اپنی جنسی خواہش کو قابو میںرکھنے کے لیے روزہ رکھنا چاہیے۔ ایسے مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کہتاہے:
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ (مؤمنون:5(
’’ )وہ مؤمنین کامیاب ہیں) جو لوگ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (مؤمنون:۵ (
دوسری جگہ ارشادربانی ہے:
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحاً حتی یغنیہم اللہ من فضلہ 
’’جولوگ نکاح کا موقع نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں۔‘‘ (النور: ۳۳(
تعزیری قانوناس کے باوجود اگرکوئی شخص ڈھٹائی کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کا جرم انجام دے توایسی صورت میں گویا اس نے معاشرے کوگندہ اورنسل انسانی کو تباہ وبربادکرنے کی کوشش کی ہے ۔اس لیے اس  کے مرتکب شخص کے لیے اسلام عبرتناک سزاکاحکم دیتاہے:
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْن
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزادیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجو در ہے۔‘‘ (النور:۲ (
        مذکورہ سزااس شخص کے لیے ہے جو غیرشادی شدہ ہو اوراس کارفحش کوانجام دے، رہا شادی شدہ زانی تواس کی سزا رجم (سرِ عام پتھر مار کر ہلاک کرنا) ہے۔
معاشرے پربدکاری کے اثرات
       بدکاری کے بدترین اثرات اوراس کی قباحت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
اذا ظہرالزنا والربا فی قریۃ  فقد احلو بانفسہم عذاب اللہ (شعب الایمان للبیہقی(
’’جس بستی میں بدکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘
ایک جگہ اورارشادہے:
لم تظہرالفاحشۃ فی قوم حتی یعلنوا بہا الا فشا فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم الذین مضوا )ابن ماجۃ(
)’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔(ابن ماجۃ(‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا وآخرت کے انجام بد سے آگاہ کیا۔آپؐ کا ارشادہے:
یا معشرالمسلمین ایاکم والزنا فان فیہ ست خصال ثلاث فی الدنیا ثلاث فی الآخرۃ، فاما التی فی الدنیا فذہاب البہائ، ودوام الفقر، وقصرالعمر، واما التی فی الآخرۃ: سخط اللہ، وسوء الحساب، ودخول النار۔
       اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچوں، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصائل ملتی ہیں تین دنیا میں اورتین آخرت میں، رہے تین دنیاوی پریشانیاں: چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقر، عمر کی تنگی اور تین آخرت میں: اللہ تعالی کی ناراضگی، بدترین مواخذہ اور جہنم کا داخلہ۔
 (شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(
جب معاشرے میں بدکاری عام ہوگی تو پھر پاک دامن خاتون کا تلاش کرنا آسان نہ ہوگا اورنہ ہی پاکباز مرد ملیں گے۔بدکاری کے اثر کا بین ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتاہے جس نے ایسے بدترین انسان کے لیے اس کے ذوق کے مطابق فیصلہ سنایاہے:
الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۳(
’’زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اورزانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یا مشرک۔ اورحرام کردیاگیا ہے اہل ایمان پر ‘‘
     (النور:۳)مذکورہ اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کے پیش نظر اتنا توواضح ہے کہ اسلام میں بدکاری کا تصور ہی محال ہے چہ جائے کہ کوئی اسلام کو مانتاہو اوراس فعل  قبیح کو انجام دے ، اس سے نہ صرف وہ شخص بدنام یا نامراد ہوتاہے جو اس میں ملوث ہے بلکہ معاشرے پر بھی اس کا بہت برااثرپڑتاہے حتی کہ اس فحاشی وزناکاری کے عام ہونے کے سبب معاشرہ قحط، رزق کی تنگی اورنت نئی بیماریوںکا شکار ہوجاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کرسکتے ہیں۔
اسلامی قوانین معقولیت پرمبنی ہیں
قرآن کا اعلان ہے :
ولکم فی القصاص حیاۃ  
تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے:(بقرۃ:179)
   قصاص بدلے کو کہاجاتا ہے ،جیسے کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو قتل کیاتو اس کے بدلے اس کو قتل کیاجائے گا۔ بظاہر اس میں ایک جان کا مزیداتلاف ہے مگرقرآن کہتاہے کہ اس میں زندگی ہے۔وہ اس طورپر ہے کہ دوسرے لوگ قتل جیسے سنگین جرم سے بچ جائیں گے۔اس معنی میں یہ آیت تعزیرات کے لیے بہت ہی معنی خیزہے۔کیوںکہ مجرم کو سزادینا مجرم پرظلم کرنا نہیں بلکہ جرائم کی روک تھام جو عین انصاف ہے کیونکہ جب اس نے کسی انسان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبروکا احترام نہیں کیاتوگویاوہ یہ اعلان کررہاہے کہ اس کے ساتھ بھی احترام نہ کیاجائے بلکہ اسے سزادی جائے۔رہی بات تعزیرات اورسزاؤں کے رسواکن ہونے کی تو یہ واضح رہے کہ تعزیرات کسی اعزازمیں دی جانے والی چیز نہیں ہے، حساس لوگوںکے لیے سزارسواکن ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے جرم کے مطابق ہی سزاکے درجات متعین کئے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیںجن کا معمولی مرض ہوتا ہے۔ان کا علاج بغیر آپریشن کے ہوسکتاہے جب کہ بعض مریض ان کا علاج عمل جراحت کے بغیرممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر جسم کا کوئی عضو خراب ہوگیاہو اوراس کے جسم میںباقی رہنے سے دوسرے اعضا کے بھی متاثرہونے کا خطرہ ہوتودوسرے اعضاکو محفوظ رکھنے کی خاطراس عضو کوکاٹ کر الگ کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔اسی میں معقولیت اور معاشرے کی زندگی ہے۔    اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا پھینکنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔ll

Monday 7 January 2013


یکساں پیمانہ كمال ایمان کے لئےضروری
 محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gmail.com
موجودہ دورمیں اگرہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیزنمایاں طور پر نظرآتی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں نے دوپیمانے بنار کھے ہیں۔ایک پیمانہ اپنے لیے اوردوسرا پیمانہ دوسروں کے لیے۔ وہ اپنے لیے بہتری کی خواہش رکھتے ہیں اوردوسروں کے لیے برا چاہتے ہیں۔ اپنے لیے تو یہ پسند کرتے ہیںکہ دوسرے لوگ ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،لیکن وہ خود دوسروں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتے۔وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا خوب خیال رکھیں لیکن وہ خوددوسرے لوگوںکا ذرہ برابربھی خیال نہیں رکھتے اوران کے ساتھ رواداری اورخندہ پیشانی کے ساتھ بالکل پیش نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی اخلاقی بیماریاں عام ہیں۔ اسلام نے ایک صالح اور پرامن معاشرے کے لیے یکساں رویے کو ضروری قراردیاہے اوراسے ایمان کا نمایاںوصف قراردیاہے۔رسول اللہ ﷺکا ارشادہے:
 ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن(کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروںکے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ’’ (متفق علیہ(

آج مسلم معاشرہ کایہی حال ہوگیاہے۔مسلمان خودتوچاہتے ہیں کہ انھیں کسی طرح کا نقصان یاگزندنہ پہنچے مگروہ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔جب ہم اپنے لیے نقصان برداشت نہیں کرسکتے تو پھرہمیں دوسروں کے نقصان بھی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مثل مشہورہے کہ جو دوسروں کے لیے گڈھا کھودتاہے وہ خودگڈھے میں گرتاہے۔ چوںکہ آج ہمارا معاشرہ اس گندی حرکت کا شکارہے لہذا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ پریشانیوںاورمصیبتوںکا شکار ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی شکایت اوربرائیاں بیان کرتے ہیں،ہرکس وناکس کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں ،دوسروںکی عزت وناموس کا بالکل خیال نہیں رکھتے اوران کی کمزوریاںمزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جب کہ وہی لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ دوسرے لوگ ان کی برائیاں بیان کریں۔شیخ سعدی نے ایسے موقع کے لیے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’
جو شخص تمہارے سامنے کسی کی برائی کررہاہوتا ہے ،وہ یقینا کسی اورکے سامنے تمہاری بھی برائی کرے گا۔‘‘

تین چیزیں معاشرے کی بہتری اورافرادکوزیوراخلاق سے آراستہ کرنے سے یا یوںکہیں کہ حقوق العبادسے متعلق ہیں ۔غریبوں کوکھانا کھلایاجائے، ان کی ضرورتوںکا لحاظ رکھاجائے،ان کی مزاج پرسی کی جائے۔سلام کوعام کیاجائے اورصلہ رحمی کا رواج ہو، اس لیے کہ اس سے امت آپس میں گھل مل کر رہے گی اورمضبوط بنیاد کی طرح ہوگی۔چوتھی بات یہ کہی گئی کہ رات کے آخری حصے میں نماز ( تہجد) کا اہتمام کرو ، تاکہ اللہ سے قربت اورلگاؤ میں اضافہ ہو، ساتھ ہی دیگرامور(عبادات اورمعاملات) میں خلوص وللہیت پیدا ہوجائے، جس سے توکل علی اللہ کی کیفیت پیداہو۔آخر میں اس کا نتیجہ بیان کیاگیاہے کہ جب تم ایسا کروگے توجنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ ایک مومن کا رشتہ دوسرے مومن سے بھائی چارگی پر مبنی ہوتاہے ۔ اس کے باجود مومن کا رشتہ بھی ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مؤمن بھائی کی تکلیف کوخوداپنی تکلیف محسوس کرتاہے ، اس کی جان ،مال ،عزت وآبروکی حفاظت اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصورکرتاہے اور یہی ایمان کی کیفیت اوراس کا تقاضا ہے۔قرآن کہتاہے :
’’مؤمن توسب بھائی بھائی ہیں۔ ’’  (الحجرات:۱۰)

ایک مسلمان کواپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اوراس کی ضرورتوں کاخیال رکھنا ہے۔اس طرزعمل میں بھی خود اس کا فائدہ ہے ،کیوںکہ اس کے بدلے میں اللہ تعالی اس کاخیال رکھے گا ۔اگروہ دوسروںکا خیال رکھے گا اوراس کی عیب جوئی کے بجائے ،پردہ پوشی کرے گا تو خدابھی اس کی پردہ دری فرمائے گا۔اگرانسان اپنے اوپراپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندرکی بہت سی خرابیاںاور اخلاقی گراوٹیں خودبہ خود ختم ہوجائیں گی ۔ ایسا شخص اپنے معاشرے میں چلتا پھرتاعملی نمونہ ہوگا جسے دیکھ کر لوگ بھی اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے جسے اصلاح امت کا کارعظیم سمجھاجائے گا۔

Thursday 3 January 2013

Salahiyaton ki pahchan aur Uswa Nabwi


صلاحیتوں كی پہچان اوراسوۂ نبوی 

دنیا میں تمام انسان صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں۔کسی میں کوئی صلاحیت ہوتی ہے تو کسی میں کوئی اور،کسی میں کم توکسی میں زیادہ ۔ اسی وجہ سے دنیاکا ہرکام ہرانسان بخوبی انجام نہیں دے سکتا اورنہ وہ تنہا اجتماعی اہداف کے حصول میں کامیاب ہوسکتاہے۔ بل کہ جس میں جس کام کی صلاحیت موجود ہو وہ اس کام کو ہی بہ خوبی انجام دے سکتاہے۔اس لیے کاموںکی صحیح طریقے سے انجام دہی کے لیے افراد سازی ضروری ہے۔ لیکن افرادکو وہی مقام دینا ہوگا جو ان کے شایان شان ہو۔عربی میں اسے وضع الشی فی محلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گھر سے لے کر دفتر،کمپنی اور اقتصادیات کے تمام شعبوںسے جڑا ہوا ہے ۔ ایک کامیاب امیرکارواں کی یہ بہت بڑی خوبی مانی جاتی ہے کہ اس میں منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے افرادسازی کا ملکہ ہو،اسے صلاحیتوں کوپرکھنے کا کمال اورتفویض کار کا ہنر حاصل ہو۔ آج معاشرے میں جوخرابیاں درآئی ہیں ان میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کسی اہم ترین کام کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی ہے جوکسی بھی لحاظ سے اس کا اہل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک باکمال اورباصلاحیت شخص کو نظرانداز کردیاجاتاہے ۔جس کی صلاحیتوںسے قوم وملت اور معاشرے کی بہتری ہوسکتی ہے۔نبی کریم نے ایک عام اصول بیان فرمایاہے 
انزلواالناس منازلہم۔   ﴿ابوداؤد﴾
’’لوگوں سے ان کے اپنے مرتبے کے مطابق پیش آؤ‘‘۔

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی نااہل شخص کواتنابڑامرتبہ نہ دے دیاجائے جس کا وہ اہل نہ ہو اورنہ کسی باصلاحیت آدمی کو نظراندازکردیاجائے۔نبی کریم ﷺ  صحابہ کرامؓ  کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ لیتے تھے ، مزیدبہتر بنانے کے لیے ان کی تربیت بھی کرتے تھے اوران کے مطابق انھیں ذمہ داری سونپ کران سے کام لیتے تھے۔
افراد شناسی اورلوگوںکی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے ان کو صحیح مقام ومرتبہ دینا ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔درج ذیل صحابہ کرام ؓ  کو آپ نے ان کی صلاحیت ،فہم وبصیرت اور ہنرمندی کے پیش نظر ان کو مختلف ذمہ داراریاں سونپی تھیں۔
خلفاے راشدین
حضرت ابوبکرصدیقؓ ،جواپنے لقب صدیق سے زیادہ مشہورہیں۔وہ انتہائی سچے اور قول وعمل میں پوری طرح مطابقت رکھتے تھے۔ ایک خاص صفت جوآپ کے اندرتھی یہ کہ وہ طبیعت میں نرمی اور دوسروں کو مبتلائے دردوغم دیکھ کر بے چین وبے تاب ہوجاتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کی شخصیت سے بہت خوش تھے ۔ایک موقع پر حضرت عمروبن العاص نے سوال کیا کہ آپﷺ  کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت کس کی ہے؟آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ابوبکرصدیق ؓ ‘‘۔ایک مرتبہ تو آپﷺ  نے یہ بھی ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کو اپنا خلیل ﴿جگری دوست ﴾بناتاتو میں ابوبکرکواپنا خلیل بناتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتہائی مشکل وقت میں جب کہ آپ ہجرت مدینہ کررہے تھے تو رفیق سفرآپ ہی تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام معاملات میں آپ کوترجیح دیتے تھے ۔
مردوںمیں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ  شخص ہیں جنہوں نے بلاجھجھک اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ۔آپ ﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق کی۔ ہرموقع آپﷺ  کو اپنی ذات پر ترجیح دی ، اپنا مال واسباب آپﷺ  پر لٹادیااور بلاترد دآپ کے فرمان کی تصدیق کی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت میں تھے توآپﷺ  نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ  کو امامت کا حکم دیا یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ آپﷺ  کے بعد آپؓ  ہی خلیفہ بنیں گے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کرامؓ  میںایک عجیب سی مایوسی چھاگئی تھی۔اس وقت آپؓ  نے شاندارخطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:
جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاتھا توبلاشبہ محمدﷺوصال فرماگئے، جو اللہ کی عبادت کرتاہے تویقینا اللہ زندہ ہے جومرتانہیں!پھر اس آیت کی ومامحمد الارسول تلاوت کی :
محمدﷺ  اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں ، پھر کیا اگروہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں توتم لوگ الٹے پاؤں پھرجاؤگے ؟یا درکھو!جوالٹاپھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکرگزار بندے بن کررہیں گے انھیں وہ اس کی جزادے گا۔      ﴿آل عمران:۱۴۴
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اوصاف حمیدہ کے سبب اس لائق تھے بھی کہ انھیں یہ مقام ومرتبہ دیا جاتا۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صلاحیتوںکوپرکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ  نے ان کے لیے دعابھی کی تھی : کہ اے اللہ عمرکے ذریعے اسلام کی مددفرما۔ان کی دلیری ،قوت ارادی اور دوررس افکار و خیالات کے سبب ان کے متعلق آ پ ﷺ نے فرمایا: لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ ۔اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرہوتے۔چنانچہ خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب مسلمانوں نے حضرت عمرؓ  کے ہاتھ پر بیعت کی اورآپ ؓ امیرالمومنین مقررہوئے توآپ ؓ  نے اپنے دورخلافت میں جو کار نامے انجام دیے انھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔آپ کا دل خوف خدا سے لرزاٹھتاتھا ۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصے معروف ہیں ۔آپ ؓ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مصالحت کو پسند نہیں کرتے تھے۔آپ باطل کے لیے ہمیشہ ننگی تلواررہے مگر حق کے لیے موم کی طرح پگھل جانے والے شخص بھی تھے۔راتوںکوگشت کرتے اور غریبوں مسکینوں کا پوراخیال رکھتے اور ان کے لیے وظیفہ جاری کرتے تھے۔
آپ کے اندرخلیفہ ہونے کی پوری صلاحیت موجودتھی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتربیت فرمائی تواس کی بدولت آپ نے اسلام اورمسلمانوںکوبہت ہی مضبوط اورمستحکم کیا۔چنانچہ عرب سے باہر طول وعرض میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ کئی مسائل ایسے ہیں جن میںآپ کی رائے کے مطابق قرآن کریم کا نزول ہوا جیسے آیت حجاب وغیرہ۔حضرت ابوبکروعمر ؓ ﴿شیخین ﴾کواللہ کے رسولﷺ  نے قضا کے معاملات کے لیے متعین فرمایا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی آپ دونوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’دووزیر‘‘کے لقب سے مشہورہوگئے تھے۔
 حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد23ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ نے اسلامی مملکت کو مزید وسعت بخشی۔ آپ کے اہم کارناموںمیں مسجدنبوی کی توسیع، قرآن مجید کو رائج رسم الخط میں تحریرکروانا اوراسے ایک مصحف میں جمع کرنا شامل ہے۔اسی وجہ سے آپ کو جامع القرآن بھی کہاجاتاہے۔حضرت عثمان ؓ  نہایت ہی باحیا،فیاض ، محسن ،نرم طبیعت اورخوش اخلاق تھے۔
آپؓ  حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ مناسک حج کو اچھی طرح جانتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بارآپ کو مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ بنایا۔ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا وہ ایک یہودی کے کنویں سے پانی لیتے تھے۔ اس نے منع کردیاتو آپ  کے ایما پر آپ ؓ  نے وہ کنواں خریدکرصحابہ کرامؓ  کے لیے وقف کردیا۔اپنے صلاح وتقوی اور امتیازی صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کی قیادت سنبھالے ہوئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے کہ سن ۳۵ہجری میں عبداللہ بن سبا یہودی کے ہاتھوں اس حال میں شہیدہوئے کہ زبان پر تلاوت جاری تھی۔جسم سے نکلاہوا خون اس آیت: فسیکفیکہم اللّٰہ۔پر پڑاجوہمیشہ کے لیے یادگاربن گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے والوںمیں دوسرے نمبرپر ہیں ۔انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرتربیت پرورش پائی۔علم وحکمت کے ماہر،قرآنیات پر عبور،اللہ والے ایک بہادرصحابی تھے ۔ان کا لقب ابوتراب تھا۔ فاتح خیبرکے لقب سے بھی مشہورہیں۔نبی کریمﷺ  نے جنگ خیبرکے موقع پرارشادفرمایاتھا:
لااعطین الرایۃ رجلا یفتح اللّٰہ علی یدیہ، یحب اللّٰہ ورسولہ ویحبہ اللّٰہ ورسولہ۔ ﴿متفق علیہ﴾
’’میں ایک ایسے شخص کو جھنڈادوںگا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔وہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مختلف طرح کی ذمے داریاں سونپیں ان میں عہدنامے،خطوط نویسی، جنگ کی قیادت وغیرہ شامل ہیں۔ان ذمے داریوںکی ادائیگی میں انھیں بہت سے مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالدبن ولید ؓ  کو فوجی قیادت سونپی چناں چہ انھوں نے بھی اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اورجرأت وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔جس پر ان کو سیف اللہ کا خطاب بھی دیا گیا ۔
حضرت زیدؓ  کوعلم فرائض اورترجمے کاکام سونپاگیا۔حضرت ابی بن کعب کوحفظ قرآن مجید کے سلسلے میں ذمے داری دی گئی جنھوں نے بہت سے حفاظ کرام تیارکیے ۔ جب  تلاوت کرتے تو اپنی خوش الحانی سے فضاکوروح پروربنادیتے تھے۔حتی کہ آپ کی قرأت سننے کے لیے فرشتے بھی آپ کے گردمنڈلانے لگتے تھے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کو کسی معاملے کا والی بنایاتوفرمایاکہ ’اے میرے چچا! میں اس معاملے میں کسی دوسرے کومناسب نہیں سمجھتاکہ اسے والی بناؤں۔‘ اسی بناپر عمرؓ  نے فرمایا:’ جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کووالی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
حضرت معاذبن جبل ؓ  زودفہمی ،قوت استدلال، خوش بیانی اوربلندہمتی کے لحاظ سے ایک منفردممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی :
اعلم امتی بالحلال والحرام معاذبن جبل۔
ان کے اسی علم وفہم، سوجھ بوجھ کے پیش نظر اللہ کے رسولﷺ  نے انھیں یمن کا گورنربناکر بھیجا۔ روانہ کرتے وقت آپﷺ  نے ان سے پوچھا: تم لوگوںمیں کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذؓ  نے جواب دیامیں پہلے اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کروںگا ،اگراس میں حکم نہ ملا تو سنت میں تلاش کروںگا اگراس میں بھی نہ ملاتو پھراجتہادکے ذریعے فیصلہ کروںگا۔﴿ترمذی﴾ آپ نے بہت سے مقامات پر ان کو ذمے دار بنایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بہت سی ذمے داریاں ان کو سونپی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اوصاف سے متصف لوگوں کی تعریف کرتے تھے۔آپﷺ  کا ارشادہے:
 خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام
’’جولوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہترہیں‘‘۔
 آپﷺنے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراحؓ  کی خوبیوں کے پیش نظرانھیں ’’امین ‘‘ کا خطاب عطاکیا ۔’’ایک موقع سے یمن کے کچھ لوگ آئے ،اورآپﷺ  سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنت سکھائے آپ نے حضرت ابوعبیدۃ ؓ  کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : ہذاامین ہذہ الامۃیہ ہیں اس امت کے امین ۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
 لکل امۃ امین وامین ہذہ الامۃ ابوعبیدۃ ﴿متفق علیہ﴾
’’ ہرامت کا ایک امین ہوتاہے اس امت کے امین ابوعبیدہ ؓ ہیں‘‘۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک، دانش منداور کم سن نوجوان صحابی جواکثرمیدان جنگ میں شرکت کے لیے کوشاں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرکت کی اجازت کے لیے بے تاب رہتے تھے۔آپﷺ  نے ان کے اس حوصلے اور دانش مندی کے سبب ان کو محض بیس سال کی عمرمیں رومیوں سے جنگ کی قیادت سونپی۔انھیں ایسی فوج کا کمانڈربنایاجس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ موجودتھے۔اس کم سن قائد کا قافلہ آپﷺ  کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ  کے زمانہ خلافت میں روانہ ہوا۔ان کی بہادری نے رومیوں کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکال پھینکا اوریہ فاتح جوان مدینہ میں بہت سے مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا۔سیرت صحابہ سے واقف حضرات کے لیے اس کم سن جوان کی پہچان کے لیے ان کا نام کافی ہوگا۔ ان کا نام حضرت اسامہ بن زیدؓ  ہے۔ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد پر اتنی بڑی ذمے داری سونپی ۔ حضرت عمرؓ  اسامہ سے ملتے توکہتے :مرحباً بامیری﴿میرے امیرخوش آمدید﴾اس پر لوگ تعجب کا اظہار فرماتے توفرماتے: ’’رسول اللہ نے ان کو میرا امیر مقرر فرمایا تھا۔‘‘
 امارت وحکومت یا کسی معاملہ کی ذمہ داری ایک بہت بڑی امانت ہے۔ اس کے لیے بہت غوروخوض کے بعد فیصلہ لیناچاہیے اوراس کے لیے جوشخص مناسب ہو تو سے کسی مخالفت کے بغیرذمہ داری دینی چاہیے اورجواس کے لیے مناسب نہ ہوتو اس کوذمے داری ہرگزنہیں سونپنی چاہیے۔ ورنہ وہ کام تو خراب ہوگاہی ساتھ ہی معاشرہ بھی بہت سی پریشانیوںاوراختلافات کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔کیوںکہ معاشرے کے بہت سے معاملات اس سے جڑے ہوتے ہیں اوربہت سے حقوق اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلیت کی بنیاد پر ذمہ داریوں کی تقسیم کاری کی۔جولوگ اس میں غیرذمہ دارانہ رویہ اختیارکرتے ہیں یا پھرامارت ومنصب محض تعلق اور رفاقت کی بنیادپر بانٹ دیتے ہیں ،ایسے لوگوں کے سلسلے میں سخت پہلواختیارکرتے ہوئے آپﷺ  نے ارشادفرمایا:
مامن راع یسترعیہ اللّٰہ رعیۃ ، یموت یوم یموت، وہوغاش لہا، الا حرم اللّٰہ علیہ رائحۃ الجنۃ۔      ﴿مسلم﴾
’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ لوگوں کا ذمہ داربنائے اور وہ اس میں خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا، فامر علیہم احدا محاباۃ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ، لایقبل اللّٰہ منہ صرفا، ولاعدلا،حتی یدخلہ جہنم۔
جس شخص کو عام مسلمانوںکی ذمے داری سپردکی گئی ہو پھراس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی وجہ سے بغیراہلیت معلوم کیے دے دیا ،اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا،یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ ﴿مسنداحمد﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ امارت وولایت کی تمنا نہ کریں اور نہ اس کی خواہش میں لگے رہیں۔ آپﷺ  نے حضرت عبدالرحمن بن سمرۃؓ  کو ہدایت فرمائی :
اے عبدالرحمن تم عہدۂ امارت طلب مت کرو،اگر تم کوطلب کرنے کے بعد امارت عطا کی گئی توتم اسی کے سپردکردیے جاؤگے اگربلامطالبہ تمہیں یہ عہدہ مل گیاتو اس پر تمہاری مددکی جائے گی۔‘‘     ﴿متفق علیہ﴾
ذمے داری سونپنے کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ جس کو لوگوں کے کسی معاملہ کی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی وہ مرتبہ میں کم ہے۔ حضرت ابوذرؓ  کوآپﷺ  کے نزیک بہت قدرومنزلت حاصل تھی۔بہت ہی متقی وپرہیزگار صحابی تھے۔ مگرآپﷺ  نے ان کوکسی معاملہ میں ذمہ دارنہیں بنایا۔آپﷺ  نے ان سے ارشاد فرمایا:
یا ابا ذر،انی اراک ضعیفا، وانی احب لک ما احب لنفسی، لا تامرون علی اثنین، ولاتولین مال یتیم۔﴿مسلم﴾
’’اے ابوذرمیں تمھیں کمزورپاتاہوںمیں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوجواپنے لیے پسند کرتاہوں،تم دولوگوںپر بھی ذمہ دارنہ ہونا اورنہ مال یتیم کا ولی بننا ‘‘۔
دوسری جگہ حضرت ابوذرؓ  کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
انہا امانۃ ،وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ، الا من اخذہا بحقہا، وادی الذی علیہ فیہا  ﴿مسلم ﴾
’’یہ امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی و ندامت کا سبب بنے گی۔ سوائے اس کے جواس کا حقدار ہو اوراپنی ذمہ داری کوصحیح طریقے سے انجام دے‘‘۔
سلف صالحین کا طریقہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ  بھی اس کی اہمیت اورنزاکت کے سبب اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔حضرت عمرؓ  کا قول ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا فولی رجلا لمودۃ اوقرابۃ بینہما، فقد خان اللّٰہ ورسولہ والمسلمین۔
’’جس شخص کو مسلمان کے کسی معاملے کا ذمے داربنایاگیا اور اس نے دوستی اورقرابت کی بنیاداس کا کوئی کام کیا۔ اس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
اسی طرح کا معاملہ تابعین وتبع تابعین کا بھی تھا۔
عمربن عبدالعزیزؒ خلیفہ بنائے گئے ۔انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا:مجھ سے خلافت کی بیعت لی گئی جب کہ میں اس کا متمنی نہیں تھا۔لہٰذا آپ لوگ جسے چاہیں اپنا خلیفہ متعین کرلیں۔اس پر مجمع روپڑااوراپنی بھرائی ہوئی آواز میں کہا: اے محترم ہم نے آپ کا انتخاب کیاہے اور آپ سے خوش ہیں۔توعمربن عبدالعزیز بھی روپڑے اورکہا اللہ مددگارہے۔پھر منبرکے گرد موجودلوگوںکویہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ میں تمہیں اللہ سے تقوی اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں۔جواللہ کی اطاعت کرے گا، اس کی اطاعت واجب ہے اورجواللہ کی نافرمانی کرے گاڈ اس کی کوئی اطاعت نہیں۔پھراپنی آواز بلندکرتے ہوئے کہا :تمہارے درمیان جب تک میں اللہ کی اطاعت کروںتم میری اطاعت کرنا اگر میں اللہ کی نافرمانی کروںتوتمہارے ذمہ میری اطاعت لازم نہیں ہوگی۔پھرقصرخلافت کی طرف روانگی کے لیے لوگوں نے سواری پیش کی توآپ نے کہا کہ میں بھی عام مسلمانوںکی طرح ایک مسلمان ہوں،اس لیے میری آمدورفت بھی اسی طرح ہوگی اورقصرخلافت کے بجائے اپنے مکان کا رخ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جواللہ کی خاطرتواضع اختیار کرے گا اللہ اسے بلندمقام عطا کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف ذمہ داری کی نزاکت اورآخرت میںجواب دہی کے احساس کے سبب اسے قبول کرنے سے کتراتے تھے۔بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ، ان پر کوڑے برسائے گئے ۔لیکن انھوںنے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔کیوںکہ ان کے سامنے اپنے بزرگوں کے تاریخی احوال موجودتھے اور ان کے تقوی ودیانت داری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ لہٰذا ان کی نگاہ میں اس احساس ذمے داری کے ساتھ کسی منصب یا ذمے داری کو قبول کرلینا معمولی بات نہیں تھی۔
حاصل کلام یہ کہ قائدین امت کو اس مسئلے پرپوری دیانت داری کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ان پر لازم ہے کہ اپنے بعد آنے والوں کو عمدہ دینی تربیت دیں اور افرادسازی کے ساتھ ساتھ تفویض کارمیں بھی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ذمے داری سونپنے کا فریضہ انجام دیں۔ کیوںکہ یہ ایک امانت ہے جس میں کسی ذاتی منفعت کے پیش نظرخیانت کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔اس سے امت بحران کا شکار ہوگی اورملت کوبہت بڑے نقصان کا سامناہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی نصرت ایسے ذمہ داروںپر نہیں ہوتی جوکسی مفادکے پیش نظرکسی عہدے پر فائز ہوں۔ **

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...