Friday 1 February 2013

قرآن کریم کی دعوتِ فکر وعمل

قرآن مجید تمام انسانوں کو تعمیر اور مثبت افکار کی دعوت دیتا ہے

     نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔خالق ِ حقیقی کے علاوہ اورکوئی برحق اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ انسان کے لیے کون سی چیزبری ہے اور کون سی اچھی ہے۔کس طرح معاشرے کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی نظامِ حیات  تجویزکرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت ِ کاملہ سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔
     قرآن مجید تمام انسانوںکو تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ کائنات کی بیشتر مخلوقات پر انسان کوفضیلت حاصل ہے ۔ ضروری ہے کہ انسان  نظم کائنات کو سمجھے اورقرآن میں غور و تدبرسے کام لے۔ قرآن مجیدکے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن ہدی اللناس ہے۔ یعنی تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔کے سرسرخلاف ہے۔قرآن بنی نوع انسان کو دنیا کی تخلیق اور اس کے نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
     وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63(
     ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیداکیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کردیتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔(عنکبوۃ :63-61(
     اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے ، اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے ،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم حاصل کرنا، اس میں غوروتدبر اور اس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:
     کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
     یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(ص:29(
     اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک بیش قیمت کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کی ترغیب دیتا ہے:
افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24(
’’ کیاان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
     ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میں غور و فکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔
حسن بصری ؒفرماتے ہیں :
نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔
     قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیاکریں عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔(مدارج السالکین :485/1(
ابن قیمؒ کہتے ہیں :
لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ
’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدارکس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو،پھرکہاںسے تم کو دھوکہ لگتاہے؟(مومنون:89-84(
     خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن عموماًشیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا اغلب ہے۔ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ بظاہرخالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار وخیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک جانور میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکی زندگی شعور سے عاریہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔ قرآن اس ضمن میںلوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
     إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ(190) الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا۔(191(
’’     مین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اور زمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں ) پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190(
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے بچے اسے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ کا بھی نظم کرتے ہیں۔یہ کوشش اس لیے ہوتی ہے کہ طلباء میں مزیدان گہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگریہی لوگ کتابِ الٰہی پر غورنہیں کرتے جو اللہ تعالی کی نازل کردہ مقدس کتاب ہے ،جس میں زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی کے طالب ہیں، اسی طرح کچھ لوگ اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غور وفکرکرتے ہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔نبی کریم نے فرمایا:
ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا
 ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘
     لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈریا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تو اگر وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے ، جب تک اس کا مطلب سمجھ نہ لے ،اسے سکون نہیں ملتا۔ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔قرآن تو خالق کائنات کا پیغام ہے،اس میں دین و دنیا دونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ؟زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیناکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’    اوررسول نے کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
     اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ) قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبر وتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوں سے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2(
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہر ٹھہر کر اورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔
حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترتیل کے ساتھ تلاوت فرماتے ۔ جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم(
    آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔
    مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:
)    ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118(
’’اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔
فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:
    کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1(
’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غور سے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
     عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ، عام لوگوںکا نہیں ۔یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
     مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’     بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوںسے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔ پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(
     ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
          انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ ۔
’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن(
    قرآن تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیا اور اس پر غورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل بھی مشکل ہوجائے گا یہ عام انسانوں کے لیے بڑی محرومی کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہو ،پھر بھی وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔
٭٭٭

Wednesday 30 January 2013

Bahmi Razamandi Burai ke liye jawaz nahi ban sakti

 باہمی رضا مندی برائی کے لیے جواز نہیں بن سکتی

                                    محب اللہ قاسمی 


    رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوںکوقوی اور مضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔

     مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاترہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔
    مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔

     بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
     اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری کی قباحت
    رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر زنا کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔ زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ‘‘زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔ ’’ (بنی اسرائیل :۳۲(
اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

    جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔ اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:
    ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میںسے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوںنے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پرروک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

    اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

     آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروںتمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیاپریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟

     ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوںسے کرسکتے ہیں۔

     آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اورفحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
    اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیں گے۔ چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔ آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کر دیا تھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:

’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔“ (شعب الایمان للبیہقی(
ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ(
    یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے:
    اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔
)شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔

Sunday 27 January 2013

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما
محب اللہ قاسمی
اسلامی تعلیمات کی روسے حق گواورانصاف پسند قائد کی بڑی اہمیت اورفضیلت ہے۔ اس کے برعکس نام ونمود کے خواہاں اور مفادپرست قائد ورہنما  کا انجام دنیا میں ذلت اورآخرت میں عذاب جہنم ہے۔اگرمردمومن قیادت کی بات کرے گا توظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر اسلامی قیادت کا ہی تصورہوگااورجب بات اسلامی قیادت کی ہوگی جس کی طرف آیات واحادیث اشارہ کرتی ہیں تواس زمرے میں تمام قائدوپیشواآئیں گے۔ایسی صورت میں ہمیں  نبی کریم ؐ کی سیرت سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ بے شمارپہلوؤں کی حامل ہے ۔آپ ؐ کے اندرجوبھی صفات تھیں وہ کمال درجہ کی تھیں۔ ان اوصاف کاملہ کے سبب آپ پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہیں:لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃاس لیے اگرکوئی شخص ایک اچھا معلم بننا چاہتا ہے تواسے اپنے آپ کوآئیڈیل بناناہوگا۔ایک شخص خوداچھا والد،اچھا شوہر،اچھا داعی یا پھر اپنی قوم کا ہمدرد،مفکرومدبرقائداوررہنمابنناچاہتاہے تواسے چاہیے کہ وہ آپ کی پیروی کرے۔ اس موضوع پرغور کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوںکوسمجھنا ہوگا ۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ قیادت کے معنی ومفہوم کیاہیں؟  قیادت کے معنی ہیں کہ اسلام جس اجتماعیت کا خواہاں ہے اس کوبرقراررکھتے ہوئے اعلیٰ مقصدکے حصول کی کوشش کی جائے ۔قرآن کریم میں ارشادالٰہی ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا   oیَآٰ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ                                                                                                                             )النسائ:۵۸،۵۹(
مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقینا اللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوںکی جوتم میں سے صاحب امر ہوں۔ (النسائ:۵۸،۵۹(
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
اذاکان ثلاثۃ  فی  سفر فلیؤ مر  احدہم  (ابوداؤد(
جب تین آدمی سفرمیں ہو تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ                                    )متفق علیہ(
تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔
مطلب یہ کہ جس طرح وقتی طورپر سفر کے دوران منزل مقصودتک پہنچنے کے لیے ایک امیرکارواں کامنتخب کرناضروری ہے اسی طرح اجتماعی زندگی کے قافلے کواعلیٰ مقاصدکے حصول کے لیے ایک قائدورہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ وہ کام یابی سے ہم کنار ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ قائد کی بڑی اہمیت ہے۔ جیساکہ قائد اعظم نبی کریم ؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ’امیرکی اطاعت کرواگرچہ وہ کالاحبشی ہی کیوںنہ ہو۔
قائد کے اوصاف
جس طرح سونا اپنی خوبیوںکی وجہ سے کھراقرارپاتاہے، اسی طرح قائداپنے اوصاف کی وجہ سے ایک کامیاب قائدو رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ قائدورہنما کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو،وہ حسن اخلاق سے متصف ہو،حق گواورانصاف پسندہو،دوررس، امانت دارہو،قوم کا ہمدرد وغم گسارہواوردین کی حفاظت،دنیاکانظم، مظلوموںکوانصاف دلانا اورظالموںکوظلم سے روکنا جیسے واجبات کا پابند ہو۔تاکہ سلطنت کی ترقی ہو ، لوگوںکوامن واطمینان حاصل ہو اورفساد کا خاتمہ ہو۔ علامہ اقبال نے ان اوصاف کواس شعرمیںیکجاکرنے کی کوشش کی ہے:
نگہہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
حضورپرنورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بہ حیثیت قائدآپ کی امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری وشجاعت اورکمال علم وعمل کی مکمل تصویر تھی۔اسی طرح وہ جہدو مشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کابھی اعلی نمونہ تھی۔ آپؐ نے اپنی قائدانہ بصیرت سے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ، بدکاری و بداخلاقی سے معمورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان، اخوت اوربھائی چارہ اورانسانیت کادرس دے کرانسانیت کوایمان وحقائق کی روشنی سے منور کیا۔
آپ ؐ نے انسان کو اس کی حیثیت بتائی کہ اس کا سر،جن دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہے ان سے ہزارگنابہترخوداس کی ذات ہے، جسے رب العالمین نے پیداکیاہے۔ لہٰذا عبادت خالق کائنات ہی کی ہونی چاہیے، نہ کہ کسی غیر کی یا خودتراشیدہ بتوںکی۔
            آپ ؐ نے اپنی قوم کے اندر پھیلے ہوے غروروتکبراور حسب ونسب پر فخر کو ختم کیا۔ آپ نے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے۔ اے لوگو!بلاشبہ تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیںہے۔ سواے تقویٰ کے۔‘بہ حیثیت قائدورہنماآپ ؐکی پوری زندگی ظلم و ناانصافی کے خلاف برسرپیکار رہی۔
آپؐ مظلوم، بے کس اورلاچارکی حمایت کرتے تھے۔آپؐ نے لوگوںکو ظلم سے روک کر اور مظلوموں کو انصاف دلاکر ظالم اورمظلوم دونوںکی مددکی۔ اس طرح آپ نے ظلم وفساد کا سدباب کرکے انسانوں کو جینے کاسلیقہ عطاکیا۔
ایک قائد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مفتوحہ ممالک سے انتقام کے بجائے اسے سدھرنے اورسنبھلنے کا موقع دے۔ چنانچہ آپؐ نے فتح مکہ کے وقت انتقاماقتل عام نہیں کروایا،  بل کہ)لاتثریب علیکم الیوم ۔اذھبواوانتم الطلقائ(کی بشارت دی اور عفوو  درگزر کا اعلان عام کرکے ایساکارنامہ انجام دیا جسے تاریخ انسانی کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق زندہ درگورکی جانے والی بچیوں کوزندہ رہنے کا قدرتی حق دلوایا اور اس کی پرورش وپرداخت کو لائق تحسین قراردیا اورایسا کرنے والے کو جنت کا حقدار ٹھہرایا ۔
میدان جنگ میں آپؐ نے ہمیشہ بہادری اوردلیری کامظاہرہ کیا۔آپ کا بارعب چہرۂ مبارک کبھی دشمنوںسے مرعوب نہیںہوا۔ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا:’انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں نبی ہوں، اس میں ذرابھی جھوٹ نہیں،میں عبدالمطلب کا بیٹا (پوتا) ہو یہ درس تھااستقامت وبہادری کا، جوقائد کا بہتر ین وصف مانا جاتاہے۔
مشاورت ایک کامیاب قائد کا وصف خاص ہے ۔آپ نے اس کے تصور کوعام کیا۔ چنانچہ جب بھی کبھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا فوراً آپ ذی صلاحیت اورتجربہ کارصحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اوران کے مشورے سے اس کا حل نکالتے ۔جب کہ آپ نبی اوررسول کی حیثیت سے بذات خود اقدام کرسکتے تھے۔مگرآپ ؐ نے اجتماعیت میںمشاورت کی اہمیت کوباقی رکھنے کے لیے یہ طریقہ عام کیا۔
آپؐ کی قائدانہ زندگی انسانیت کی تعمیر کے لیے وقف تھی ۔نفاذ قانون میںآپ ؐنے یکسانی برتی ۔دنیامیںکوئی ایسا نمونہ نظرنہیں آتا، جس نے مساوات اوربرابری کواس خوبی سے نافذ کیا ہو۔ دنیاکے ہر سماج میں کچھ لوگ قانون سے بالا ترہوکرجوجی میں آئے کرلیتے ہیں۔یہ روش انصاف کے سراسرخلاف اور سبب فسادہے۔ آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذکیاجس میںعرب وعجم ،امیر و غریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابر اور یکساں دِکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’بخدااس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تومیںاس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘۔
بہ حیثیت قائد آپ نے یہ تصوربھی عام کیاکہ رعیت کوحق ہے کہ وہ قائد کے ہراس کا م پر بازپرس کرے جوغیرضروری ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:’ بہترین اسلام بیکارو غیرمناسب کام ترک کرناہے۔‘اسی طرح اگرکسی مزدورنے اپنا کام مکمل کیا ہے توفوراًاس کا حق دیاجائے۔آپ نے فرمان جاری کیا’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی مزدوری دے دی جائے۔   رعیت کے ساتھ حسن ظن اور حسن معاملہ سے پیش آیاجائے، اورغیراخلاقی رویہ اختیارنہ کیا جائے۔ نبیؐ کا فرمان ہے:
جوشخص چھوٹوں پہ شفقت اوربڑوں کا  ادب واحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابوداؤد(
کوئی قائد جب کسی کوکسی معاملے کا والی بنائے توقرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر نہیں بل کہ اس کی اہلیت کی بنیادپر۔ آپ کے چچا عباسؓ نے کسی معاملے کی ذمہ داری طلب کی توفرمایا’ : اے میرے چچا! یہ ذمہ داری کسی کومطالبہ پرنہیں سونپی جاتی
اسی بناپر عمرؓ نے فرمایا’ : جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کوولی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔
قائد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ان تمام چھوٹی چھوٹی باتوںپر نظررکھے جن کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ آپٖ نے بازارکا معائنہ کیا اور ناپ تول میں کمی کوناپسند کیا۔آپ ؐ نے اشیاے فروخت کی خوبی وخامی واضح کرنے کا حکم صادرکیا۔عام طورپر ہونے والے فساد زبان سے سرزدہوتے ہیں، اس لیے آپ نے گفتگوکے آداب سکھلائے اورحق گوئی کوایمان کا وصف قراردیا۔ جب کہ جھوٹ ،غیبت ،چغلی اورٹوہ میں لگے رہنے کو شیطانی عمل قراردیا۔صبروتحمل اورقناعت کو اپنایا اورفرمایاکہصبرمشکلات کوختم کردیتا ہے اورصبرکرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔  ‘‘یہ پاک اِرشاد عام لوگوں کودنیامیں مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ افرادسازی کا فریضہ انجام دے۔ تاکہ قوم کی مختلف ضرورتوں کے لیے مختلف ذی استعداداورباصلاحیت افراد تیارہوں،جو آنے والے دنوںمیں قیادت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آپ ؐنے فرمایا: انسان سونے چاندی کی کان کے مانند ہیں۔ علم وصلاحیت ایک نعمت ہے لہذا اس کا صحیح استعمال ضروری ہے،  جس کے بارے میں قیامت کے دن صاحب علم وبصیرت افرادسے بازپرس ہوگی۔
آپ ؐ ہمیشہ اپنی امت کے لیے فکرمندرہتے تھے اور اپنی ضرورتوں پران کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ حتی کہ آپؐ نے بعض مواقع پربھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھا جسے دیکھ کرصحابۂ کرام اشکبارہوجاتے تھے۔پرعزم ،باہمت قائد کبھی مشکل حالات سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ آپؐ کو طائف میں نادانوں نے لہولہان کیا اور قوم کے لوگوں نے آپ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شعب ابی طالب میں آپ کواورآپ کے خاندان کو نظربندکردیا،مگرآپ اپنے موقف پرجمے رہے اورآپ کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہیں آئی ۔ یہ ایک قائد کی تڑپ تھی کہ آپ ہمیشہ اپنی امت کی فلاح ونجات کے لیے دست بہ دعارہتے تھے اوربارگاہ الہیٰ میں ’’امتی امتی‘‘ کی صد الگاتے تھے۔
آپؐ نے یہ بھی احساس عام کیا کہ ہرشخص کسی نہ کسی حیثیت سے قائدو رہنما ہے۔  اسے اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔  روز قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگااس سے ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی ۔آپ ؐنے اپنے آخری حج میں صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے ارشادفرمایا: ’ کیامیں نے تم لوگوں تک خداکا پیغام (دستور حیات)پوراپورا پہنچایا دیا ہے‘؟صحابہ نے جواب دیا:ہاں۔
یہ سیرت طیبہ کی محض ایک جھلک ہے ۔طوالت کے خوف سے تفصیل سے گریز کیاگیا۔ سیرت النبی  میں آپ کے عملی کردار کے بے شمارواقعے ایسے ہیں، جن میں کامیاب قائداپنے اوصاف، اپنے کرداراورفرائض تلاش کرسکتاہے۔ اگر قائدین امت اوررہنمایانِ ملت نے ان اوصاف کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے قوم وملت کی باگ ڈورسنبھالی توپھرخداکی مددونصرت شامل حال ہوگی اورانھیں ان کے اہداف اورنصب العین کے حصول سے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
٭٭٭





Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...