Tuesday 5 February 2013


سکون قلب- انسان کی اہم ضرورت

اسباب وآلات کی اس کائنات میں انسانوں کی مختلف ضرویات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے انھیں نہ معلوم کتنے مصائب و آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ خاص طورسے موجودہ دور میں لوگوں نے اپنی زندگی کا ایک الگ معیارمتعین کر رکھاہے۔اسبابِ تعیش کے حصول کے مقصدنے انھیں اس قدرمصروف کردیاہے کہ ان کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ ! اگرکچھ ہے توصرف مال ودولت کا حصول ،معیارزندگی کا خیال!جس نے انسانوںکی زندگی کو بے حال اور پرملال کردیاہے۔انھیں غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوں نہیں ! دھن ہے تو مال بٹورنے کا، اگر کچھ ہاتھ آگیا تو  مزید کی خواہش۔گویاانسان ہر حال میں بے حال ہے ،اس کا چین وسکون کہیں کھو گیا ہے، جولاکھ تلاش وجستجوکے باوجودبھی انھیں میسر نہیں!سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی خالی ہے۔آرام آشائش کی تمام چیزوں کے باوجودبھی سکون قلب کا طلب گار ہے۔
انسان یہ بھول گیاہے کہ اگردنیا دارالاسباب ہے تو اس کائنات کا خالق مسبب الاسباب ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ دنیا کی تمام راحتیں ان ہی روپیوںپیسوںسے خریدی جاسکتی ہے تویہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔کیوںکہ ان راحتوں سکون کا مالک صرف اللہ ہے جو سوکھی روٹی کھلاکرچٹائی پربھی گہری نیندکی نعمت عطاکردیتاہے،جس سے مختلف اقسام کے کھانا کھاکرنرم گداز بستروں پرسونے والے محروم ہیں۔قلبی سکون کے حصول پر آج لاکھوںروپے صرف کئے جاتے ہیں ۔مگرعلاج نہ دارد!کوئی حل نہیں ملا۔
معلوم ہواکہ اصل راحت وسکون کہیں اورہے۔اس کے لیے تلاش کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔وہ صحیح سمت ہے اللہ کا ذکرجس کے متعلق اللہ  تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکراللہ تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸)
خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔
اللہ نے انسانوںکی ہرطرح رہ نمائی کی ہے اوران کی جوبھی ضروریات ہوسکتی ہیں وہ تمام پیداکردی ہے ۔انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت اطمینان قلب ہے۔اس کا حصول خدا سے تعلق کے بغیرممکن نہیں ہے ۔اگرانسان اللہ سے تعلق پیدا کرتاہے تواسے کسی ضرورت کا فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔کیوںکہ رب العالمین سے اس کا تعلق ہے جوساری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس طرح انسان یکسوہوجائے گاجواطمینان قلب کی لیے نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 فاذکرنی اذکرکم (البقرۃ:۱۵۲)’’تم مجھے یادکروںمیں تمہیں یادکروںگا۔‘‘
قرآن کی اس آیت میں اوران جیسی آیات میں جہاں ’ذکر‘کا لفظ آیاہے اس سے مراد ہے : ہروہ کام جسے اللہ نے انسانوں کے لیے ضروری قراردیاہے ، جس سے اللہ کاقرب حاصل ہو۔ ذکرزبان سے ہو جیسے اللہ تعالی کی تسبیح و تحمید اوراس کی عظمت کو بیان کرنا،یادل سے ہو،جیسے کائنات کی پھیلی ہوئی چیزوںمیں اللہ تعالی کی ذات اورصفات کے دلائل تلاش کرنا، یا پھراعضاء و جوارح سے ہو۔ جیسے اللہ کی اطاعت کرنامثلاخودکو نماز، روزہ ،حج اورزکوۃ وغیرہ عبادات کا پابند بنانا ۔
 انسان اگراللہ تعالی سے لولگائے ۔اس کی اطاعت کرے۔اس کواپنا حاجت رواں مشکل کشاسمجھے اورہرپل خداکویاد کرے،توپھر اللہ تعالیٰ اس کے مشکلات حل کرے گا اور ہرطرح سے اس کی مددفرمائے گا۔ اس طرح اللہ تعالی کی یادسے انسان مشکل حالات میں بھی قلبی سکون پاسکتاہے جو اس کے لیے بڑی کام یابی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اذکراللہ کثیراً لعلکم تفلحون(جمعہ :۱۰)
اللہ کوکثرت سے یادکروتاکہ تم فلاح پاؤ۔
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دلوںکوبھی زنگ لگتا ہے اوراسے بھی زنگ ایسے ہی کھاجاتا ہے جیسے لوہے کوزنگ کھاتا ہے۔دل کو بھی ایسی ہی پیاس لگتی ہے جیسے کھیتی کو پیاس لگتی ہے، وہ بھی ایسے ہی خشک ہوجاتا ہے جیسے کھیتی خشک ہوجاتی ہے۔لہذا قلب کو بھی ان چیزوںکی ضرورت ہوتی ہے جواس کے زنگ کودورکردے اوراس کی پیاس بجھائے۔علامہ ابن قیم ؒکا بیان ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمہؒ سے سنا،وہ فرماتے تھے:اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسے ہی ہے ،جیسے مچھلی کے لیے پانی،تواس مچھلی کا کیاحال ہوگا جوپانی سے جداہوجائے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سے بندوںکا تعلق بہت گہرا ہونا چاہیے جس کا واسطہ ذکرہے ۔ اس لحاظ سے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اللہ کا ذکرہے جو دلوں کوزندگی بخشتاہے اوراسے چین وسکون فراہم کرتاہے۔اس لیے لازما ہمہ وقت اللہ ذکرکرنا چاہیے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً oوَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً
اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ کوکثرت سے یادکرواورصبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔)سورۃ احزاب:۴۲)
اس کائنات میں انسان ہرطرح اپنے دشمنوںسے گھراہواہے ،نفس امارہ اسے برائیوں پرآمادہ کرتاہے ،نفسانی خواہشات اورشیطان اسے ہلاکت کی اورلے جاتاہے ۔ایسے میںایک ایسے محافظ کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ان کے تمام دشمنوں سے محفوظ رکھے۔اس کے خوف سے دل پرسکون اورمطمئن رہے ۔اس کا یہ محافظ اللہ کا ذکراور اس کی کثرت ہے ۔
 وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً
کثرت سے ذکر(اللہ کویاد)کرنے والے مرداورکثرت ذکر کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کی مغفرت اوران کے لیے اجرعظیم تیارکررکھاہے۔                (احزاب35)
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مامن قوم یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ، وغشیتہم الرحمۃ،ونزلت علیہم السکینۃ، وذکرہم اللہ فیمن عندہ۔
جو کوئی  جماعت اللہ کا ذکر کرتی ہے توفرشتے انھیں گھیر  لیتے، ان پر  رحمت سایہ فگن ہوجاتی ہے اور  ان پر سکینت (اطمینان قلب ) نازل ہوتی ہے، پھراللہ تعالی اپنی مجلس (فرشتوں)میں ان کا ذکر کرتاہے۔‘‘(مسلم ،ترمذی(
        ذکرالٰہی  دل کی زندگی ہے،شرح صدرکا طریقہ ہے،جس سے مصیبتیں ختم ہوتی ہیں اور غم دورہوتاہے۔ انسان کا دشمن شیطان دوربھاگ جاتاہے۔اللہ تعالی کو کثرت سے یادکرنا اس کے ربط وتعلق میں اضافہ کرتاہے ۔ذکرکے بغیرانسان کا دل مردہ ہو جاتا ہے ۔
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔  )متفق علیہ(
 ایک عام قائدہ ہے کہ انسان ان ہی چیزوںکویادرکھتا ہے جس کی اس کے نزیک اہمیت ہوتی ہے،ایسے میں اللہ سے زیادہ اہم بندوں کے نزدیک اورکون ہوسکتاہے ۔اس لیے انسان کو اس کا ذکرلامحالہ کرناچاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولذکراللہ اکبر(عنکبوت :۴۵)
اللہ کا ذکرہرچیز سے بڑا ہے۔
اس طرح خداکا ذکراس کی عظمت کودل میں جاںگزیں کرتاہے جس سے انسان برے کاموںسے بچ جاتاہے ۔یہی برے اعمال انسانوں کے دلوں کو ملامت کرتارہتاہے جواس کی پریشانی اورتشویش کا باعث بنتاہے۔ اس لیے کامیابی اورسکون پانے کے لیے اللہ کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الا انبئکم بخیراعمالکم، وازکاہا عندملیککم، وارفعہا فی درجاتکم، وخیرلکم من انفاق الذہب والورق،  وخیرلکم من ان تلقواعدوکم فتضربوا اعناقہم ویضربوااعناقکم؟  قالوا: بلی،  قال: ذکراللہ                                                       (ترمذی ،ابن ماجہ(
’’کیامیں تمہیں وہ عم نہ بتاؤں جوتمہارے مالک (یعنی اللہ)کے نزدیک اچھا اورپاکیزہ ہے اورتمہارے درجات میں سب سے بلند اوراللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے تمہارے کفارکی گردنیں مارنے اوران کے تمہاری گردنیں مارنے سے بھی افضل ہیں۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاکیوںنہیں ،اے اللہ کے رسولؐ آپ نے فرمایا:یہ اللہ کا ذکرہے۔‘‘
عربی کا مقولہ ہے’’ الانسان عبدالاحسان انسان احسان کا غلام ہوتاہے ۔اس لیے کوئی شخص اگرکسی کی مدد کرتا ہے تووہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ہمہ وقت اسے یاد کرتاہے ،اس کے احسان کونہیں بھولتا۔ جب کہ اللہ تعالی کے اتنے احسانات ہے انسان اس کوشمارنہیں کرسکتاہے۔ مگراس کے باجودانسان اپنے مال واسباب اوراولادکی وجہ سے دنیاوی معاملات میں اس قدر منہمک ہوجاتاہے کہ وہ اپنے خداکوہی بھول جاتا ہے جن کے احسانات کے سہارے وہ جی رہا ہوتاہے اورتمام بھروسہ ان مادی اسباب پر کربیٹھتا ہے۔خودکوبڑاسمجھنے لگتا ہے ،جس کے نتیجے میں تکبرکا شکارہوجاتاہے ۔ یہی تکبرغضب الہی بن کراس کے زوال کا ذریعہ بن جاتاہے اور انسان خدا کی رحمتوںسے کوسودورہوجاتا ہے جواس کے دل کے بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے تنبیہ فرمائی :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(منافقون:۹)
 اے لوگو!جوایمان لائے ہو،تمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں۔جو لوگ ایسا کریں و ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
دوسری جگہ ارشادہے:’’اورجومیرے ’’ذکر‘‘(درس نصیحت)سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیامیں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھااٹھائیں گے ۔(طہ:۱۲۴)
مولانا مودودیؒ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
 ’’دنیامیں تنگ زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی ۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔کروڑپتی بھی ہوگاتوبے چین رہے گا۔ہفت اقلیم کا فرماںرواںبھی ہوگا توبے کلی اوربے اطمینانی سےنجات نہ پائے گا۔اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائزتدابیرکا نتیجہ ہوںگی،جن کی وجہ سے اپنے ضمیرسے لےکرگردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہرچیزکے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جواسے کبھی امن واطمینان اورسچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔) ‘‘ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی صفحہ:۸۱۹)
حدیث قدسی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ کہتاہے کہ میں بندہ کے گمان کے قریب ہوتاہوںجووہ مجھ سے کرتاہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتاہے ،میں اس کے پاس ہوتا ہوں،جب وہ مجھے اپنے جی میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہو، اگروہ لوگوںمیں میرا ذکر کرتا ہے تومیں بھی اسے بہترین جماعت میں یادکرتاہوں۔‘‘   (بخاری (
صحابہ کرام اورسلف صالحین کا طریقہ بھی یہی رہا کہ وہ سکون قلب کی ضرورت کے پیش نظرذکرالٰہی کوبڑی اہمیت دیتے تھے۔دیگرضروریات ان کے نزدیک ثانوری درجہ رکھتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی ؓاورفاطمہ ؓ کی درخواست کہ انھیں خادم کی ضرورت ہے فرمایا:
 کیامیں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نہ کردوجوتمہارے لیے خادم سے بہترہو؟جب تم اپنے بستر پر (سونے کے لیے )آؤ،تو 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمدللہ اور34 دفعہ اللہ اکبرپڑھ لیاکرو۔یہ تمہارے لیے خادم سے بہترہے۔(بخاری) حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل برابرجاری رہا۔
حضرب عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایاکہ:
الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم ،فاذا سہا وغفل وسوس،فاذاذکراللہ خنس۔
’’شیطان اولاد آدم کے قلب پر سوار رہتاہے، جب وہ نسیان یا غفلت کا شکارہوتاہے تو شیطان اسے وسوسے میں ڈالتاہے، وہ جب اللہ کو یاد کرتاہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتاہے۔‘‘( اثر(
حضرت حسن بصری ؒکہتے ہیں:
لا تفقدوا الحلاوۃ فی ثلاثۃ اشیاء ،فی الصلوۃ ،فی الذکر،فی قرآۃ القرآن ،فان وجدتم ،والا فاعلموا ان الباب مغلق ۔
تین چیزوںکی چاشنی فراموش نہ کرنا۔نماز ،ذکراورتلاوت قرآن کی حلاوت اگرتمہیں میسرہو،ورنہ یادرکھوکہ دروازہ بند ہے۔
آج انسان جس قدرپریشان حال ہے اوراس کا ہرجگہ تذکرہ کرتاپھرتاہے ،کیا اس نے کبھی خداکے سامنے اپنی فریاد رکھی؟کبھی اس نے خداکے اس فرمان )صبراورنماز سے مددطلب کرو-قرآن)کوپیش نظررکھا ؟ جوخداکا ذکراور اس سے تعلق پیداکرنے کا ذریعہ ہے ،پھریہ دنیا کی چیزیں جس کی حیثیت اللہ کے سامنے مکھی کے پرکے برابرنہیں انسان کو قلبی سکون کیسے فراہم کر سکتا ہے!اللہ کے ذکرسے غفلت کی صورت میں شیطان اس پر سوار رہتا ہے جوطرح طرح کے وسوسوںسے اس کے دل کوپریشان رکھتاہے، تو اسے اطمینان قلب کیسے حاصل ہوسکتاہے؟اس لیے قلبی سکون کے حصول کے لیے اللہ کا ذکراس سے تعلق بہرحال ضروری ہے جوانسان کی اہم ضرورت ہے۔     ٭٭

Friday 1 February 2013

قرآن کریم کی دعوتِ فکر وعمل

قرآن مجید تمام انسانوں کو تعمیر اور مثبت افکار کی دعوت دیتا ہے

     نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔خالق ِ حقیقی کے علاوہ اورکوئی برحق اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ انسان کے لیے کون سی چیزبری ہے اور کون سی اچھی ہے۔کس طرح معاشرے کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی نظامِ حیات  تجویزکرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت ِ کاملہ سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔
     قرآن مجید تمام انسانوںکو تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ کائنات کی بیشتر مخلوقات پر انسان کوفضیلت حاصل ہے ۔ ضروری ہے کہ انسان  نظم کائنات کو سمجھے اورقرآن میں غور و تدبرسے کام لے۔ قرآن مجیدکے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن ہدی اللناس ہے۔ یعنی تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔کے سرسرخلاف ہے۔قرآن بنی نوع انسان کو دنیا کی تخلیق اور اس کے نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
     وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63(
     ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیداکیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کردیتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔(عنکبوۃ :63-61(
     اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے ، اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے ،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم حاصل کرنا، اس میں غوروتدبر اور اس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:
     کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
     یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(ص:29(
     اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک بیش قیمت کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کی ترغیب دیتا ہے:
افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24(
’’ کیاان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
     ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میں غور و فکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔
حسن بصری ؒفرماتے ہیں :
نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔
     قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیاکریں عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔(مدارج السالکین :485/1(
ابن قیمؒ کہتے ہیں :
لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ
’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدارکس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو،پھرکہاںسے تم کو دھوکہ لگتاہے؟(مومنون:89-84(
     خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن عموماًشیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا اغلب ہے۔ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ بظاہرخالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار وخیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک جانور میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکی زندگی شعور سے عاریہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔ قرآن اس ضمن میںلوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
     إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ(190) الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا۔(191(
’’     مین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اور زمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں ) پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190(
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے بچے اسے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ کا بھی نظم کرتے ہیں۔یہ کوشش اس لیے ہوتی ہے کہ طلباء میں مزیدان گہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگریہی لوگ کتابِ الٰہی پر غورنہیں کرتے جو اللہ تعالی کی نازل کردہ مقدس کتاب ہے ،جس میں زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی کے طالب ہیں، اسی طرح کچھ لوگ اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غور وفکرکرتے ہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔نبی کریم نے فرمایا:
ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا
 ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘
     لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈریا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تو اگر وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے ، جب تک اس کا مطلب سمجھ نہ لے ،اسے سکون نہیں ملتا۔ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔قرآن تو خالق کائنات کا پیغام ہے،اس میں دین و دنیا دونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ؟زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیناکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’    اوررسول نے کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
     اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ) قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبر وتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوں سے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2(
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہر ٹھہر کر اورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔
حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترتیل کے ساتھ تلاوت فرماتے ۔ جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم(
    آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔
    مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:
)    ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118(
’’اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔
فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:
    کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1(
’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غور سے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
     عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ، عام لوگوںکا نہیں ۔یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
     مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’     بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوںسے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔ پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(
     ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
          انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ ۔
’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن(
    قرآن تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیا اور اس پر غورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل بھی مشکل ہوجائے گا یہ عام انسانوں کے لیے بڑی محرومی کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہو ،پھر بھی وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔
٭٭٭

Wednesday 30 January 2013

Bahmi Razamandi Burai ke liye jawaz nahi ban sakti

 باہمی رضا مندی برائی کے لیے جواز نہیں بن سکتی

                                    محب اللہ قاسمی 


    رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوںکوقوی اور مضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔

     مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاترہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔
    مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔

     بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
     اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری کی قباحت
    رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر زنا کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔ زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ‘‘زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔ ’’ (بنی اسرائیل :۳۲(
اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

    جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔ اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:
    ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میںسے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوںنے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پرروک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

    اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

     آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروںتمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیاپریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟

     ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوںسے کرسکتے ہیں۔

     آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اورفحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
    اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیں گے۔ چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔ آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کر دیا تھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:

’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔“ (شعب الایمان للبیہقی(
ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ(
    یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے:
    اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔
)شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...