Tuesday 12 February 2013

بہترین انسان کون ؟ Who is the best man


بہترین انسان کون ؟

اس کائناتِ رنگ وبومیں بہت سے انسان بستے ہیں۔ان میں کچھ اچھے ہوتے ہیںاورکچھ برے ۔ دنیا کا ماحول چاہے جتنا خراب ہوگیاہومگر آج بھی لوگ اچھے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اوران کے پاس بیٹھ کر سکون ِقلب حاصل کرتے ہیں۔ برائیوں کے فروغ کے باوجود اچھائیوںکی طرف راغب ہوتے ہیںاوربرے لوگوںسے نفرت کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں رحم دلی قائم ہو۔کسی کوتکلیف پہنچے تو قریب اور دور ہرجگہ کے لوگ ہمدردی کے لیے جمع ہوجائیں ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ انسان کے اچھے یابرے ہونے کا معیارکیاہے ؟
 نبی کریم ﷺ نے واضح انداز میںاس کاجواب دیاہے۔آپؐ کی تربیت کا ایک منفرد انداز تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ تم میں سے بہترین انسان کون ہے؟۔ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ صحابہ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺآپ ضرور ارشاد فرمائیں ۔ نبی ؐ نے فرمایا:
’’خیرکم من یرجی خیرہ ویومن شرہ  (ترمذی:باب الفتن(
          تم میں بہتر ین شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
معلوم ہوا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے لیے نفع بخش ہو اورلوگ اس سے پوری طرح محفوظ ومامون ہوں۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ نفع کا خواہشمندہوتاہے اورنقصان اسے گوارانہیں ہوتا۔یہی مزاج اسلام کا بھی ہے وہ چاہتاہے کہ انسانیت کوفروغ ملے اور انسانوںکو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ دی جائے۔اسلام خدمت خلق کا وسیع تصورپیش کرتاہے۔جوانسان دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے وہی بہترین انسان ہے۔اللہ نے دنیاکی جتنی بھی چیزیں پیدا کیں وہ انسان کی خدمت میں لگی ہیں۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرالناس انفعہم للناس(بیہقی شعب الایمان(
لوگوںمیں سب سے بہتروہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ 
انسان کو دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ مزیدنفع بخش ہونا چاہیے ،اسے دوسروںکوفائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔نفع خواہ دین کا ہویا دنیا کا، البتہ دین کا نفع دنیاکے نفع سے بہترہے ۔ اگرکوئی شخص دین کی بات پہنچاتاہے ۔ انسانوں کو اللہ کے احکام کی تعلیم دیتاہے تو وہ شخص بہترین مانا جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے انسان کی ضرورت پوری کی اوراس کے کام میں اس کی مددکی تو یہ بھی نفع پہنچانے کی ایک صورت ہے۔ اسے سخاوت یا ہمدردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص بھی اچھا انسان ماناجائے گا۔ اگروہ دوسرے کوکوئی نفع نہ پہنچائے توکم ازکم ان کوتکلیف بھی نہ پہنچائے ۔ اگروہ تکلیف پہنچانے سے بازنہ آئے تووہ شخص بدترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ؐ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :تم میں بدترین انسان وہ ہے جس سے خیرکی توقع نہ کی جائے اورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں۔(ترمذی:باب الفتن (
قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے ۔یہ انسان کو بہترین انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے ۔ خلوص کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والا یقینا اچھاانسان ہوگا، انسانیت کی تعمیراورترقی کا نسخہ قرآن مجید ہے اس میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ،(بخاری(
 تم بہترین انسان وہ ہے جوقرآن سیکھے اور سکھائے۔
انسان اپنے کردارسے ہی اچھا یابراسمجھا جاتاہے ۔ ایک اجتماعی زندگی، جواسلام میں پسندیدہ ہے،اس کی تعمیرکی بنیاد ہی انسان کے اعمال اور کردار پر ہے اگر انسان کا رویہ اچھا نہیں ہوگا تونہ صرف اجتماعیت کی بقا ممکن نہیں ہے بلکہ معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔ نت نئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اجتماعیت ٹوٹ پھوٹ کربکھرجائے گی اوروہ معاشرہ ہی اختلاف و انتشار کاشکار ہوکر رہ جائے گا، جس پر انسانی زندگی کا چین وسکون موقوف ہے۔
انسان کے اچھے اعمال اس کی بہترین شخصیت کے غماز ہوتے ہیں ۔ جب نیک انسان دنیاسے چلا جاتا ہے توبھی ان اچھے کارناموں کو لوگ یادکرتے ہیں اوران سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کے اعمال حسنہ صدقہ جاریہ بن کراس کے قلب وروح کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔اس لیے وہ شخص یقینابہترمانا جائے گا جس نے عمربھی لمبی پائی اوراعمال بھی اچھے کئے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؐ سے ایک دیہاتی نے سوال کیاکہ اے اللہ رسولؐ  ’’من خیرالناس ؟  (لوگوںمیں بہترین انسان کون ہے؟)  آپ نے ارشاد فرمایا:
 ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘(ترمذی(
جس کی عمرلمبی ہواوراس کے کام اچھے ہوں۔
انسان کا کردار بنانے ،سنواراوراسے نکھارنے کے لیے ہی نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی۔آپ نے اپنا مشن واضح کرتے ہوئے فرمایا:
                     انمابعثت لاتمم مکارم الاخلاق،(مسند احمد(
’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔‘‘اچھے اخلاق ہی سے انسان اچھا بنتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:ان من اخیرکم احسنکم اخلاقا۔ بخاری ( تم میں بہترین انسان وہ ہے جو تم میںاخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھاہو۔)اخلاق انسانیت کازیورہے اس سے شخصیت میں حسن پیداہوتاہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایا
       البرحسن الخلق  (مسلم(
نیکی حسن اخلاق ہے۔
جوشخص بااخلاق ہوگا اس سے خیرکی ہی توقع کی جاتی ہے ۔ یہ صفت جس شخص کے اندرہے وہ بہترین انسان ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں،جن کا معاشرے میں بہت نام چلتاہے اوران کی تعریفیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں اور اپنے گھروالوں اور اہل وعیال کے لیے بہت برے ہوتے ہیں۔ان کے حقوق ادانہیں کرتے، ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اوران کی اصلاح وتربیت سے غافل رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ حقیقت میں اچھے انسان نہیں ہیں۔اچھے انسان وہ ہیں وجواپنے گھروالوں کے لیے بھی اچھا ہو۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
 خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی ۔ (ترمذی)
 تم  میں بہترشخص وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے بہترہواورمیں اپنے اہل وعیال کے بہتر ہوں۔
معاشرے کو پرامن بنانے اورانسانیت کو اس کے حقوق دلانے کے لیے عدل و انصاف کا قیام ناگزیرہے۔ جو شخص جونظام حیات کودرست رکھنے کے لیے انصاف کا علمبردار ہو اور اسے فیصلہ کرنے کاموقع ملے توغیرجانب دارہوکر پوری ایمانداری کے ساتھ انصاف کرے، وہ بہترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
فان خیرالناس احسنہم قضاء    (ابن ماجہ(
’’بہترین انسان وہ ہے جوفیصلہ کرنے میں اچھاہو۔‘‘
انسانوں کے کچھ ایسے افعال وکردارہوتے ہیں جودوسرے لوگوںکے دلوںپر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں ۔ان کی خوبی ان کی پہچان بن کرلوگوںکو راغب کرتی ہے۔نبی کریم ﷺ سے دریافت کیاگیا :
ای الناس افضل؟ قال :کل مخموم القلب ،صدوق اللسان۔(ابن ماجہ(
اے اللہ کے رسول بہترین انسان کون ہے؟ تو آپؐ نے ارشادفرمایاکہ جوصاف دل اور راست گوہو۔
آپﷺ کوجوامع الکلم کا اعزازحاصل ہے ۔آپ ؐ کا یہ کمال ہے کہ آپ مختصرگفتگومیں پوری بات کہہ دیتے تھے۔مذکورہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔آپ ؐنے اپنے اس مختصرقول میں ان دوجملوں میں ایک اچھے انسان کی پوری شناخت واضح کردی ہے۔ صدوق اللسان سے مراد وہ شخص ہے جوقول وعمل ،نیت وارادے ، ایفائے عہد وغیرہ کے اعتبارسے سچا ہو۔جس کا دل آئینہ کی طرح صاف ہواوراس میں گناہ یاسرکشی نہ ہو۔ایسا شخص ایک صالح معاشرے کے لیے مفید ہوتاہے اس سے استفادہ کی خاطر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اس طرح وہ لوگوںمیں محبوب ہوتاہے۔
٭٭٭

Tuesday 5 February 2013


سکون قلب- انسان کی اہم ضرورت

اسباب وآلات کی اس کائنات میں انسانوں کی مختلف ضرویات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے انھیں نہ معلوم کتنے مصائب و آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ خاص طورسے موجودہ دور میں لوگوں نے اپنی زندگی کا ایک الگ معیارمتعین کر رکھاہے۔اسبابِ تعیش کے حصول کے مقصدنے انھیں اس قدرمصروف کردیاہے کہ ان کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ ! اگرکچھ ہے توصرف مال ودولت کا حصول ،معیارزندگی کا خیال!جس نے انسانوںکی زندگی کو بے حال اور پرملال کردیاہے۔انھیں غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوں نہیں ! دھن ہے تو مال بٹورنے کا، اگر کچھ ہاتھ آگیا تو  مزید کی خواہش۔گویاانسان ہر حال میں بے حال ہے ،اس کا چین وسکون کہیں کھو گیا ہے، جولاکھ تلاش وجستجوکے باوجودبھی انھیں میسر نہیں!سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی خالی ہے۔آرام آشائش کی تمام چیزوں کے باوجودبھی سکون قلب کا طلب گار ہے۔
انسان یہ بھول گیاہے کہ اگردنیا دارالاسباب ہے تو اس کائنات کا خالق مسبب الاسباب ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ دنیا کی تمام راحتیں ان ہی روپیوںپیسوںسے خریدی جاسکتی ہے تویہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔کیوںکہ ان راحتوں سکون کا مالک صرف اللہ ہے جو سوکھی روٹی کھلاکرچٹائی پربھی گہری نیندکی نعمت عطاکردیتاہے،جس سے مختلف اقسام کے کھانا کھاکرنرم گداز بستروں پرسونے والے محروم ہیں۔قلبی سکون کے حصول پر آج لاکھوںروپے صرف کئے جاتے ہیں ۔مگرعلاج نہ دارد!کوئی حل نہیں ملا۔
معلوم ہواکہ اصل راحت وسکون کہیں اورہے۔اس کے لیے تلاش کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔وہ صحیح سمت ہے اللہ کا ذکرجس کے متعلق اللہ  تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکراللہ تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸)
خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔
اللہ نے انسانوںکی ہرطرح رہ نمائی کی ہے اوران کی جوبھی ضروریات ہوسکتی ہیں وہ تمام پیداکردی ہے ۔انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت اطمینان قلب ہے۔اس کا حصول خدا سے تعلق کے بغیرممکن نہیں ہے ۔اگرانسان اللہ سے تعلق پیدا کرتاہے تواسے کسی ضرورت کا فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔کیوںکہ رب العالمین سے اس کا تعلق ہے جوساری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس طرح انسان یکسوہوجائے گاجواطمینان قلب کی لیے نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 فاذکرنی اذکرکم (البقرۃ:۱۵۲)’’تم مجھے یادکروںمیں تمہیں یادکروںگا۔‘‘
قرآن کی اس آیت میں اوران جیسی آیات میں جہاں ’ذکر‘کا لفظ آیاہے اس سے مراد ہے : ہروہ کام جسے اللہ نے انسانوں کے لیے ضروری قراردیاہے ، جس سے اللہ کاقرب حاصل ہو۔ ذکرزبان سے ہو جیسے اللہ تعالی کی تسبیح و تحمید اوراس کی عظمت کو بیان کرنا،یادل سے ہو،جیسے کائنات کی پھیلی ہوئی چیزوںمیں اللہ تعالی کی ذات اورصفات کے دلائل تلاش کرنا، یا پھراعضاء و جوارح سے ہو۔ جیسے اللہ کی اطاعت کرنامثلاخودکو نماز، روزہ ،حج اورزکوۃ وغیرہ عبادات کا پابند بنانا ۔
 انسان اگراللہ تعالی سے لولگائے ۔اس کی اطاعت کرے۔اس کواپنا حاجت رواں مشکل کشاسمجھے اورہرپل خداکویاد کرے،توپھر اللہ تعالیٰ اس کے مشکلات حل کرے گا اور ہرطرح سے اس کی مددفرمائے گا۔ اس طرح اللہ تعالی کی یادسے انسان مشکل حالات میں بھی قلبی سکون پاسکتاہے جو اس کے لیے بڑی کام یابی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اذکراللہ کثیراً لعلکم تفلحون(جمعہ :۱۰)
اللہ کوکثرت سے یادکروتاکہ تم فلاح پاؤ۔
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دلوںکوبھی زنگ لگتا ہے اوراسے بھی زنگ ایسے ہی کھاجاتا ہے جیسے لوہے کوزنگ کھاتا ہے۔دل کو بھی ایسی ہی پیاس لگتی ہے جیسے کھیتی کو پیاس لگتی ہے، وہ بھی ایسے ہی خشک ہوجاتا ہے جیسے کھیتی خشک ہوجاتی ہے۔لہذا قلب کو بھی ان چیزوںکی ضرورت ہوتی ہے جواس کے زنگ کودورکردے اوراس کی پیاس بجھائے۔علامہ ابن قیم ؒکا بیان ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمہؒ سے سنا،وہ فرماتے تھے:اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسے ہی ہے ،جیسے مچھلی کے لیے پانی،تواس مچھلی کا کیاحال ہوگا جوپانی سے جداہوجائے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سے بندوںکا تعلق بہت گہرا ہونا چاہیے جس کا واسطہ ذکرہے ۔ اس لحاظ سے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اللہ کا ذکرہے جو دلوں کوزندگی بخشتاہے اوراسے چین وسکون فراہم کرتاہے۔اس لیے لازما ہمہ وقت اللہ ذکرکرنا چاہیے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً oوَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً
اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ کوکثرت سے یادکرواورصبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔)سورۃ احزاب:۴۲)
اس کائنات میں انسان ہرطرح اپنے دشمنوںسے گھراہواہے ،نفس امارہ اسے برائیوں پرآمادہ کرتاہے ،نفسانی خواہشات اورشیطان اسے ہلاکت کی اورلے جاتاہے ۔ایسے میںایک ایسے محافظ کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ان کے تمام دشمنوں سے محفوظ رکھے۔اس کے خوف سے دل پرسکون اورمطمئن رہے ۔اس کا یہ محافظ اللہ کا ذکراور اس کی کثرت ہے ۔
 وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً
کثرت سے ذکر(اللہ کویاد)کرنے والے مرداورکثرت ذکر کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کی مغفرت اوران کے لیے اجرعظیم تیارکررکھاہے۔                (احزاب35)
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مامن قوم یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ، وغشیتہم الرحمۃ،ونزلت علیہم السکینۃ، وذکرہم اللہ فیمن عندہ۔
جو کوئی  جماعت اللہ کا ذکر کرتی ہے توفرشتے انھیں گھیر  لیتے، ان پر  رحمت سایہ فگن ہوجاتی ہے اور  ان پر سکینت (اطمینان قلب ) نازل ہوتی ہے، پھراللہ تعالی اپنی مجلس (فرشتوں)میں ان کا ذکر کرتاہے۔‘‘(مسلم ،ترمذی(
        ذکرالٰہی  دل کی زندگی ہے،شرح صدرکا طریقہ ہے،جس سے مصیبتیں ختم ہوتی ہیں اور غم دورہوتاہے۔ انسان کا دشمن شیطان دوربھاگ جاتاہے۔اللہ تعالی کو کثرت سے یادکرنا اس کے ربط وتعلق میں اضافہ کرتاہے ۔ذکرکے بغیرانسان کا دل مردہ ہو جاتا ہے ۔
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔  )متفق علیہ(
 ایک عام قائدہ ہے کہ انسان ان ہی چیزوںکویادرکھتا ہے جس کی اس کے نزیک اہمیت ہوتی ہے،ایسے میں اللہ سے زیادہ اہم بندوں کے نزدیک اورکون ہوسکتاہے ۔اس لیے انسان کو اس کا ذکرلامحالہ کرناچاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولذکراللہ اکبر(عنکبوت :۴۵)
اللہ کا ذکرہرچیز سے بڑا ہے۔
اس طرح خداکا ذکراس کی عظمت کودل میں جاںگزیں کرتاہے جس سے انسان برے کاموںسے بچ جاتاہے ۔یہی برے اعمال انسانوں کے دلوں کو ملامت کرتارہتاہے جواس کی پریشانی اورتشویش کا باعث بنتاہے۔ اس لیے کامیابی اورسکون پانے کے لیے اللہ کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الا انبئکم بخیراعمالکم، وازکاہا عندملیککم، وارفعہا فی درجاتکم، وخیرلکم من انفاق الذہب والورق،  وخیرلکم من ان تلقواعدوکم فتضربوا اعناقہم ویضربوااعناقکم؟  قالوا: بلی،  قال: ذکراللہ                                                       (ترمذی ،ابن ماجہ(
’’کیامیں تمہیں وہ عم نہ بتاؤں جوتمہارے مالک (یعنی اللہ)کے نزدیک اچھا اورپاکیزہ ہے اورتمہارے درجات میں سب سے بلند اوراللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے تمہارے کفارکی گردنیں مارنے اوران کے تمہاری گردنیں مارنے سے بھی افضل ہیں۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاکیوںنہیں ،اے اللہ کے رسولؐ آپ نے فرمایا:یہ اللہ کا ذکرہے۔‘‘
عربی کا مقولہ ہے’’ الانسان عبدالاحسان انسان احسان کا غلام ہوتاہے ۔اس لیے کوئی شخص اگرکسی کی مدد کرتا ہے تووہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ہمہ وقت اسے یاد کرتاہے ،اس کے احسان کونہیں بھولتا۔ جب کہ اللہ تعالی کے اتنے احسانات ہے انسان اس کوشمارنہیں کرسکتاہے۔ مگراس کے باجودانسان اپنے مال واسباب اوراولادکی وجہ سے دنیاوی معاملات میں اس قدر منہمک ہوجاتاہے کہ وہ اپنے خداکوہی بھول جاتا ہے جن کے احسانات کے سہارے وہ جی رہا ہوتاہے اورتمام بھروسہ ان مادی اسباب پر کربیٹھتا ہے۔خودکوبڑاسمجھنے لگتا ہے ،جس کے نتیجے میں تکبرکا شکارہوجاتاہے ۔ یہی تکبرغضب الہی بن کراس کے زوال کا ذریعہ بن جاتاہے اور انسان خدا کی رحمتوںسے کوسودورہوجاتا ہے جواس کے دل کے بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے تنبیہ فرمائی :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(منافقون:۹)
 اے لوگو!جوایمان لائے ہو،تمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں۔جو لوگ ایسا کریں و ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
دوسری جگہ ارشادہے:’’اورجومیرے ’’ذکر‘‘(درس نصیحت)سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیامیں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھااٹھائیں گے ۔(طہ:۱۲۴)
مولانا مودودیؒ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
 ’’دنیامیں تنگ زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی ۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔کروڑپتی بھی ہوگاتوبے چین رہے گا۔ہفت اقلیم کا فرماںرواںبھی ہوگا توبے کلی اوربے اطمینانی سےنجات نہ پائے گا۔اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائزتدابیرکا نتیجہ ہوںگی،جن کی وجہ سے اپنے ضمیرسے لےکرگردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہرچیزکے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جواسے کبھی امن واطمینان اورسچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔) ‘‘ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی صفحہ:۸۱۹)
حدیث قدسی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ کہتاہے کہ میں بندہ کے گمان کے قریب ہوتاہوںجووہ مجھ سے کرتاہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتاہے ،میں اس کے پاس ہوتا ہوں،جب وہ مجھے اپنے جی میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہو، اگروہ لوگوںمیں میرا ذکر کرتا ہے تومیں بھی اسے بہترین جماعت میں یادکرتاہوں۔‘‘   (بخاری (
صحابہ کرام اورسلف صالحین کا طریقہ بھی یہی رہا کہ وہ سکون قلب کی ضرورت کے پیش نظرذکرالٰہی کوبڑی اہمیت دیتے تھے۔دیگرضروریات ان کے نزدیک ثانوری درجہ رکھتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی ؓاورفاطمہ ؓ کی درخواست کہ انھیں خادم کی ضرورت ہے فرمایا:
 کیامیں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نہ کردوجوتمہارے لیے خادم سے بہترہو؟جب تم اپنے بستر پر (سونے کے لیے )آؤ،تو 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمدللہ اور34 دفعہ اللہ اکبرپڑھ لیاکرو۔یہ تمہارے لیے خادم سے بہترہے۔(بخاری) حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل برابرجاری رہا۔
حضرب عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایاکہ:
الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم ،فاذا سہا وغفل وسوس،فاذاذکراللہ خنس۔
’’شیطان اولاد آدم کے قلب پر سوار رہتاہے، جب وہ نسیان یا غفلت کا شکارہوتاہے تو شیطان اسے وسوسے میں ڈالتاہے، وہ جب اللہ کو یاد کرتاہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتاہے۔‘‘( اثر(
حضرت حسن بصری ؒکہتے ہیں:
لا تفقدوا الحلاوۃ فی ثلاثۃ اشیاء ،فی الصلوۃ ،فی الذکر،فی قرآۃ القرآن ،فان وجدتم ،والا فاعلموا ان الباب مغلق ۔
تین چیزوںکی چاشنی فراموش نہ کرنا۔نماز ،ذکراورتلاوت قرآن کی حلاوت اگرتمہیں میسرہو،ورنہ یادرکھوکہ دروازہ بند ہے۔
آج انسان جس قدرپریشان حال ہے اوراس کا ہرجگہ تذکرہ کرتاپھرتاہے ،کیا اس نے کبھی خداکے سامنے اپنی فریاد رکھی؟کبھی اس نے خداکے اس فرمان )صبراورنماز سے مددطلب کرو-قرآن)کوپیش نظررکھا ؟ جوخداکا ذکراور اس سے تعلق پیداکرنے کا ذریعہ ہے ،پھریہ دنیا کی چیزیں جس کی حیثیت اللہ کے سامنے مکھی کے پرکے برابرنہیں انسان کو قلبی سکون کیسے فراہم کر سکتا ہے!اللہ کے ذکرسے غفلت کی صورت میں شیطان اس پر سوار رہتا ہے جوطرح طرح کے وسوسوںسے اس کے دل کوپریشان رکھتاہے، تو اسے اطمینان قلب کیسے حاصل ہوسکتاہے؟اس لیے قلبی سکون کے حصول کے لیے اللہ کا ذکراس سے تعلق بہرحال ضروری ہے جوانسان کی اہم ضرورت ہے۔     ٭٭

Friday 1 February 2013

قرآن کریم کی دعوتِ فکر وعمل

قرآن مجید تمام انسانوں کو تعمیر اور مثبت افکار کی دعوت دیتا ہے

     نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔خالق ِ حقیقی کے علاوہ اورکوئی برحق اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ انسان کے لیے کون سی چیزبری ہے اور کون سی اچھی ہے۔کس طرح معاشرے کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی نظامِ حیات  تجویزکرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت ِ کاملہ سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔
     قرآن مجید تمام انسانوںکو تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ کائنات کی بیشتر مخلوقات پر انسان کوفضیلت حاصل ہے ۔ ضروری ہے کہ انسان  نظم کائنات کو سمجھے اورقرآن میں غور و تدبرسے کام لے۔ قرآن مجیدکے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن ہدی اللناس ہے۔ یعنی تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔کے سرسرخلاف ہے۔قرآن بنی نوع انسان کو دنیا کی تخلیق اور اس کے نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
     وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63(
     ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیداکیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کردیتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔(عنکبوۃ :63-61(
     اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے ، اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے ،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم حاصل کرنا، اس میں غوروتدبر اور اس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:
     کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
     یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(ص:29(
     اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک بیش قیمت کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کی ترغیب دیتا ہے:
افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24(
’’ کیاان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
     ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میں غور و فکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔
حسن بصری ؒفرماتے ہیں :
نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔
     قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیاکریں عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔(مدارج السالکین :485/1(
ابن قیمؒ کہتے ہیں :
لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ
’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدارکس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو،پھرکہاںسے تم کو دھوکہ لگتاہے؟(مومنون:89-84(
     خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن عموماًشیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا اغلب ہے۔ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ بظاہرخالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار وخیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک جانور میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکی زندگی شعور سے عاریہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔ قرآن اس ضمن میںلوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
     إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ(190) الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا۔(191(
’’     مین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اور زمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں ) پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190(
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے بچے اسے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ کا بھی نظم کرتے ہیں۔یہ کوشش اس لیے ہوتی ہے کہ طلباء میں مزیدان گہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگریہی لوگ کتابِ الٰہی پر غورنہیں کرتے جو اللہ تعالی کی نازل کردہ مقدس کتاب ہے ،جس میں زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی کے طالب ہیں، اسی طرح کچھ لوگ اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غور وفکرکرتے ہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔نبی کریم نے فرمایا:
ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا
 ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘
     لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈریا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تو اگر وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے ، جب تک اس کا مطلب سمجھ نہ لے ،اسے سکون نہیں ملتا۔ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔قرآن تو خالق کائنات کا پیغام ہے،اس میں دین و دنیا دونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ؟زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیناکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’    اوررسول نے کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
     اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ) قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبر وتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوں سے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2(
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہر ٹھہر کر اورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔
حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترتیل کے ساتھ تلاوت فرماتے ۔ جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم(
    آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔
    مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:
)    ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118(
’’اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔
فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:
    کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1(
’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غور سے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
     عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ، عام لوگوںکا نہیں ۔یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
     مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’     بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوںسے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔ پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(
     ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
          انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ ۔
’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن(
    قرآن تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیا اور اس پر غورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل بھی مشکل ہوجائے گا یہ عام انسانوں کے لیے بڑی محرومی کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہو ،پھر بھی وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔
٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...