Monday 17 March 2014



اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندرون میں  ایک محتسب اور نگراں  رکھا ہے،جسے ضمیر کہاجاتا ہے ضمیر جب تک جاگتا رہتا ہے،سب کچھ ٹھیک رہتاہے مگراس کے مردہ ہوتے ہی اعضائے جسم اچھے برے کی تمیز کھودیتے ہیں  اور انسان نفس کی رومیں  بہہ جاتاہے۔
ضمیر کے بیداررہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں  ہوتا، بلکہ معاشرے میں  جب بھی برائی ،بدعنوانی یا ناجائز  کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان وشوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے ، اس وقت انسان کا ضمیرشیطانی روپ اختیار کرلیتاہے اور وہ معاشرے میں  منفی کردارانجام دینے لگتاہے۔  آغاز میں  وہ اس فعل بد اور منفی کردارکو چیلنج کے طورپر لیتاہے۔ مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کرکے معاشرے میں  پسندیدہ نگاہوں  سے دیکھے جارہے ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ایسا کرے چنانچہ وہ اپنی محنت اور کوشش کو تیز کردیتا۔ جب تک اسے اس فعل کے برے انجام کا احساس ہوتاہے تب تک وہ اس دلدل میں دھنس چکاہوتا، جس سے نکلنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور  غربت کا خوف اسے اس دلدل میں  مردہ زندگی بسرکرنے کے لیے مجبورکرتاہے ۔
پھروہ جھوٹ، رشوت،چوری ،قتل وخوں ریزی کا بازارگرم کردیتاہے ،جس سے معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً رشوت خوری ایک بہت برا فعل ہے۔  حق دارسے حق چھین کرغیرمستحق کوحقداربنانے کے لیے یہ فعل بدانجام دیا جاتا ہے۔  اس فعل میں  رشوت دینے والااوررشوت لینے والادونوں  ملوث ہوتے ہیں  ۔ کیوں کہ ایک شخص اگروہ حقدارنہیں  ہے تو کیوں دوسرے کا حق لینے کی کوشش کر رہا ہے ، پھریہ جانتے ہوئے کہ اس میں  صاحب حق کی حق تلفی ہوگی رشوت لینے والا اس غلط اور ناجائز طریقے سے اس کی مددکررہاہے۔ اسی لیے دونوں  گنہگار ہوں گے۔  اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کی مددکرتے وقت اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس کے عوض مال کا مطالبہ کرے یالاچارشخص اس کو پیسہ دینے کے لیے مجبورہوقرآن کریم میں  یہ صفت یہودیوں  کی قراردی گئی ہے:
سَمّاعون الکذب اکالون للسحت۔ (المائدۃ:42)
’’یہ لوگ جھوٹ کو سننے والے اور حرام کا مال کھانے والے ہیں ۔ ‘‘
حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ نے سحت سے مراد رشوت لی ہے۔ نبی کریمﷺ نے رشوت کا لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے:
لعن رسول اللہ علی الراشی والمرتشی
’’رسول اللہ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والوں پر لعنت فرمائی۔ ‘‘مسنداحمد کی روایت کے مطابق آپ کا ارشادہے:
مامن قوم یظہر فیہم الربا، الا اخذوا بالسنۃ، وما من قوم یظہر فیہم الرشا، الا اخذو ابالرعب
’’جس قوم میں  سودعام ہوجائے وہ قحط سالی کا شکار ہوجاتی ہے اور  جس قوم میں  رشوت عام ہوجائے وہ خوف ودہشت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ‘‘
رشوت کا یہ طریقہ نہ صرف مشکلات پیداکرتاہے، بلکہ زندگی کوبھی خطرے میں  ڈال دیتا ہے۔  مثلاً آج مکانات تیارکیے جاتے ہیں  توان میں  اس قدر پیسہ نہیں  لگتاجس قدراس کے بیچنے والے اپنا بھاؤرکھتے ہیں ۔  یا دیگراشیاء جوانسانوں  کی بنیادی ضرورتوں میں  سے ہیں ۔ مگرجب بلڈر یا تاجرسے اس سلسلے میں  معلوم کیاجاتاہے تووہ کہہ دیتے ہیں  کہ ہمیں  ان چیزوں  کی تیاری میں  بہت زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے ، اس کے بغیر ہم انھیں  تیارنہیں  کرسکتے ۔
ایسے تاجراپنی مصنوعات کی قیمت کو مناسب رکھنے کے لیے رشوت میں  تو کمی نہیں  کرپاتے کیوں کہ وہ ان کے بس میں  نہیں  ہوتا،مگروہ میٹیریل میں  کمی کردیتے ہیں  جس سے وہ مکان یا سامان ،انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتاہے۔  آئے دن اس طرح کے واقعات اخباروں میں  پڑھنے کو ملتے ہیں ۔  جب کہ رشوت کا یہ مال سفید پوش سرمایہ کاروں کی جیب میں  جاتاہے ،اولاً ایسے واقعات کی چھان بین نہیں  ہوتی، اگر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں  کچھ کارروائی ہوئی بھی توصرف وہ لوگ گرفت میں  آتے ہیں جو رشوت دینے والے ہوتے ہیں ۔  مگر پس پردہ رہنے والے سفیدپوش سرمایہ داروں   کا کچھ نہیں  بگڑتا۔ اس طرح رشوت اور بدعنوانی کا عام رواج ہوجاتاہے ۔ پھر اندرونی طور پراس کاربدکی مدح سرائی یا اس کومزے لے لے کر بیان کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے تب یہ رویہ ان کے ارد گرد رہنے والے عام لوگوں میں  اس برائی کو پیداکرنے کا محرک بن جاتاہے ،جومعاشرے کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔
غورکرنے کی بات ہے کہ ایک شخص جواپنے بچے کو اس کی ذہانت کے سبب بڑاڈاکٹریا انجینئربناناچاہتاہے ،تاکہ معاشرے میں  اس کی تحسین ہواوروہ لڑکا آئندہ اس کے لیے بڑے بینک کا اے ٹی ایم ثابت ہو،جس میں  ہروقت روپے بھرے ہوں ۔  تو وہ اس کے لیے ڈونیشن کے طور پرلاکھوں ، روپے صرف دیتاہے۔  پھرجب یہ بچہ بڑاہوکر اپنی تعلیم مکمل کرلیتاہے تواپنے باپ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ضمیرکا سودا کرتا ہے اور رشوت کا کھیل شروع کر دیتا ہے۔
موجودہ دورمیں  ایسی ہی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، جو رشوت خوری کی بنیادپرکھڑی ہو۔  ایسے میں  دوسرے لوگ اس میدان میں  پیچھے کیوں رہیں  ، اس میں  عزت بھی ہے اور پیسہ بھی۔  ایسا ہی کچھ معاملہ ملک کے ان نیتاؤں کا بھی ہے جو انتخاب میں کامیابی کے بعد ملنے والے بے حساب پیسوں  کے لیے لاکھوں ،کروڑوں روپے انتخابی مراحل میں  بے دریغ خرچ کرتے ہیں ۔  پھراس کے بعد وہ کیاکرتے ہیں  ۔  اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں  ہے۔ یہی حال تمام معاملات میں  ہے،شایدہی کوئی جگہ ہوجواس سے خالی ہو۔
معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اس کی تعمیر وترقی یا اس کے برعکس تخریب وتنزلی کا معاملہ بھی اس میں  رہنے والے افرادکے کارناموں  سے ہی وجودمیں  آتاہے۔  اگر ہم چاہتے ہیں  کہ ہمارا معاشرہ پرامن اور خوشحال رہے توہمیں  ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا فریضہ انجام دینا ہوگا ۔  ورنہ معاشرے کے افرادبڑی تعداد میں  جرائم میں  ملوث ہوں گے اور اسباب تعیش کے حصول، مال واساب کے غرور میں  چور ہوکروہ دوسروں کوبھی اس مایا جال میں  پھنسانے پر مجبورکریں  گے۔
ضمیرکو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں  اسلامی احکام کو ملحوظ خاطررکھنا ہوگا۔  ہمہ وقت یہ تصور ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے۔  اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے ۔  اصل زندگی آخرت کی ہے۔  جب ہم اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوں گے اور  مضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں  گے توپھرہمارا ضمیرہمیشہ بیداررہے گا اور ہم احساس کمتری کا شکار ہوکرعارضی دنیاکوترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی ،اس کی راحت اور وسکون فوقیت دیں گے ۔
٭٭٭


Saturday 15 March 2014



ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اس کامعاشرہ اور  ماحول چاہے جتنا بھی خراب ہومگر وہ نیکی اور  خیرکے کاموں  میں سبقت کرے وہ اتنابلندکرداراورباہمت ہوکہ اسے مخالف ماحول متزلزل نہ کرسکے ،وہ اپنے اندرکسی ایسی کمزوری کو جگہ نہ دے جس کے سبب مخالف اسے اپنا شکار بناسکے ۔  ضروری ہے کہ بندہ مومن دنیا کی محبت ،بے جا تکلفات اور خواہشات کی کثرت کو دل سے نکال کرسادہ زندگی گزارے ،ایسا شخص معاشرے کے لیے بے حد مفید اور  قوم وملت کے لیے بہت کار آمدثابت ہوتا ہے ،  جو کام بھی وہ کرتاہے، اس میں  اس کی نیت خالص ہوتی ہے ،وہ ذاتی مفادسے بالاترہوکربے لوث خدمت انجام دیتاہے ۔  اللہ ایسے مخلص بندوں سے بہت خوش ہوتاہے اور انھیں  کامیابیوں سے ہم کنارکرتاہے۔
اس کے برعکس اگرانسان دنیا کی محبت میں  مبتلااوراس کی لذتوں  کا شیدائی ہوجائے تو اس کے اندرکم زوری آجاتی ہے جواس کی ہمت اور  حوصلہ کوپست کردیتی ہے،وہ اپنے مشن پر قائم نہیں رہ پاتا ۔ دھیرے دھیرے وہ خداکا نافرمان ہوجاتاہے ، اس کی عزت نفس فناہوجاتی ہے اور  ایک اچھے انسان کی حیثیت سے اس کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔  لوگ اس کے قریب بھی جانا پسند نہیں  کرتے، حتی کہ وہ انسانیت کے ادنیٰ مقام سے بھی گرجاتاہے ۔
نبی کریمﷺ نے اس پہلوکو سمجھانے کے لیے ارشادفرمایا:
’’ عنقریب ایک وقت آئے گاجب قومیں  تم پر ٹوٹ پڑیں  گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کوکھانے کے پیالے کی طرف بلاتے ہیں ۔ ‘‘ایک شخص نے کہاکہ کیا ایسا اُس زمانے میں  ہماری قلت تعدادکی وجہ سے ہوگا؟ آپؐ نے جواب دیا:’’نہیں ‘‘ تم تواس زمانے میں  کثیرتعدادمیں  ہوگے۔  لیکن تمہاری حیثیت اس خس وخاشاک کی طرح ہوگی جودریااورسیلاب کے جھاگ کے ساتھ ملا ہوا ہوتاہے۔  اللہ تمہارے دلوں میں  ’وہن‘ڈال دے گا‘‘ایک شخص نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول !’وہن‘ کیاہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘۔ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔  (ابوداؤد)
زندہ قوم وہ ہوتی ہے جسے اپنی زندگی کی پرواکم اور  اپنے مقصدکی فکرزیادہ ہوتی ہے،اس کے ہرفردکوپورایقین ہوتاہے کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے ۔ اس لیے وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کرتاہے جواللہ تعالیٰ نے اس پرخیرِامت کا فردہونے کی حیثیت سے ڈالی ہے۔  وہ کسی سے مرعوب نہیں  ہوتا۔ دنیا کی چمک دمک کوثانوی درجہ دیتاہے اسے اپنا مقصودحیات نہیں  سمجھتا، اس موت کو جواطاعت الٰہی کی راہ میں  آئے وہ اپنے لیے قابل فخرگردانتاہے۔
مومن کے اسی عزم وارادے کو کھوکھلا کرنے والے شیطان کے چندخطرناک حربے ہیں ۔ ان میں  سے ایک دنیا کی محبت ہے جوانسان کوآخرت سے غافل کردیتی ہے،نبی کریم نے فرمایا:
لایزال قلب الکبیرشابافی اثنین :فی حب الدینا وطول الامل(متفق علیہ)
بوڑھے شخص کا دل دوچیزوں کے معاملے  میں  جوان ہوتاہے :ایک دنیاکی محبت اور دوسری بہت زیادہ کی آرزوئیں ۔
ایک مسلمان کویقین ہوتاہے کہ دنیا فانی ہے،اسے ایک دن ختم ہوناہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ،جہاں  خداکے حضورپیش ہو کرہر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔  آخرت کی زندگی بہترہے جوہمیشہ باقی رہے گی۔ (والآخرۃ خیروابقی)اس دنیا کا ہرانسان اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہاں  ہرپیداہونے والا محض چند روز کی زندگی لے کر آیا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں  کہ کب اس کی سانس رک جائے گی اور کب وہ دنیاسے چلاجائے گا۔
جوشخص دنیا کی محبت میں  گرفتار ہوجاتاہے وہ عیش کوش ہوجاتاہے جب کہ عیش کوشی مسلمانوں کا شیوہ نہیں  ، ایسے شخص کو اللہ پسند نہیں  کرتا،حقیقت میں  عیش کوش  خداکے بندے نہیں  بلکہ دنیا کے بندے ہوتے ہیں  جوخودکودنیاکے سپردکرکے اس کے بن جاتے ہیں ۔  اسی بناپر نبی کریم ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو گورنربناکر یمن کی طرف بھیجاتو فرمایا:
تم عیش وعشرت میں  پڑنے سے خود کو بچانا ۔  کیوں کہ خداکے بندے عیش کوش نہیں  ہوتے۔ ‘‘(مسنداحمد)
ایک شخص نبی کریمؐ کی طرف سے گورنربناکرایسی جگہ بھیجاجارہا ہے جہاں  دنیا کی لذت ،عیش وعشرت کا ساراسامان مہیاہے ، اسے اسلام کا طریقہ بتایاجارہاہے کہ تم دیگر دنیا پرست حکام کی طرح دنیا میں  ملوث نہ ہوجانا کہ اپنی ذمہ داری سے ہی غافل ہوجاؤ ۔  خداکے بندے جھوٹی شان شوکت سے بچتے ہیں  ،ان کے اندر احساس ذمہ داری کوٹ کوٹ کربھرا ہوتا ہے ۔
دنیا کی محبت یک بہ یک کسی دل میں  پیدانہیں  ہوتی ہے، ابتدامیں  اس کا لالچ پیداہوتا ہے ،پھرانسان آخرت سے اعراض کرتے ہوئے اس پر پل پڑتاہے۔ امام قرطبی نے اس سلسلے میں  فرمایا:
ہوداء عضال ومرض مزمن، ومتی تمکن من القلب فسدمزاحہ،واشتدعلاجہ، ولم یفارقہ داء ولانجع فیہ دوائ، بل اعباالاطبائ، وبئس من برئہ الحکماء والعلماء۔
یہ ایک سنگین اور مہلک مرض ہے جس دل میں  جاگزیں ہوجاتاہے تواس کا مزاج بگڑجاتاہے اور اس کا علاج دشوارہوجاتاہے۔ یہ مرض کسی طرح پیچھا نہیں  چھوڑتا۔ کوئی دوا کام نہیں  کرتی ۔  اطباء اس کے علاج سے مایوس ہوجاتے ہیں  اور حکماء اس کی شفایابی سے بے بس ہوجاتے ہیں ۔
جب انسان کے دل میں  دنیا کی محبت جاگزیں  ہوتی ہے تووہ درازی عمراورکثرت مال کا خواہاں  ہوجاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہودکی خصلت بدقراردیتے ہوئے فرمایاہے:
وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاۃٍ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ۔
تم انہیں  سب سے بڑھ کرجینے کا حریص پاؤگے حتی کہ یہ اس معاملے میں  مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتاہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے،حالانکہ لمبی عمربہرحال اسے عذاب سے دورنہیں  پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں  ،اللہ توانھیں  دیکھ ہی رہاہے۔ ‘‘(آیت:بقرۃ۹۵)
جب انسان دنیا کا گرویدہ ہوجاتاہے تووہ اندھاہوکررہ جاتاہے،اسے اچھا برا کچھ سجھائی نہیں  دیتا،اس کا دل پتھرکی طرح سخت ہوجاتاہے۔ اسے اپنے مفادکے علاوہ کسی سے کوئی سروکارنہیں  رہتاہے۔ وہ عیش وآسائش کی اس دلدل میں  ایساپھنستاہے کہ پھراس سے نکلنا اس کے لیے مشکل ہوجاتاہے۔ جوموت کی یاداسے اس دلدل سے نکال سکتی تھی مگراسے وہ فراموش کردیتاہے۔ دنیا کے لہو ولعب میں  مصروف ہوکر لایعنی چیزوں میں  مبتلا ہوجاتاہے ۔  اس طرح وہ مسلسل دھوکے میں  رہتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ۔
’’خوب جان لوکہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سواکچھ نہیں  کہ ایک کھیل اور  دل لگی اور  ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں  ایک دوسرے پر فخرجتانا اور مال واولاد میں  ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کودیکھ کر کاشت کارخوش ہوگئے پھروہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی ۔ پھروہ بھُس بن کررہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں  سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔  دنیاکی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ نہیں  ۔ ‘‘  (حدید:20)
دنیا کی محبت انسان کے اندرسے انفاق اور ایثارکا جذبہ ختم کردیتی ہے ۔ پھروہ اجتماعیت کی زندگی سے ہٹ کرذاتی منفعت کے حصول میں  زندگی گزارنے لگتاہے ۔  دوسروں کے لیے اس کے دل میں  نرمی یا ہمدردی باقی نہیں  رہتی ۔ وہ اس بات سے غافل ہوجاتاہے کہ وہ جس جگہ رہ رہاہے اس کا پڑوسی کس حال میں  ہے ۔ چہ جائے کہ وہ خدمت خلق کے دیگر کام انجام دے۔ جب کہ نبی کریم نے فرمایا:
ماآمن بی من بات شبعا وجارہ جائع (ترمذی)
وہ مجھ پر ایمان نہیں  رکھتا جو خودتوسیرہوکرکھائے اور مزے کی نیندلے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان اس دنیا میں  اتنا مست رہتا ہے اور  اس کی محبت میں  اس قدرمگن رہتاہے کہ اسے کچھ احساس نہیں کہ وہ دن مہینے اور سال کھورہا ہے ۔ ا س قدرغافل ہے کہ اس فانی زندگی کے عوض آخرت کی زندگی کوفراموش کررہاہے جوباقی رہنے والی ہے۔
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِیْ إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء  أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
 جورزق ہم نے تمہیں  دیاہے اس میں  سے خرچ کروقبل اس کے کہ تم میں  سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ’’اے میرے رب،کیوں نہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں  صدقہ دیتااورصالح لوگوں میں  شامل ہوجاتا۔ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتاہے تو اللہ کسی شخص کو ہرگزمزیدمہلت نہیں  دیتااورجوکچھ تم کرتے ہو،اللہ اس سے باخبرہے۔  ‘‘  (سورۃمنافقون11-10 )
بعض حکمانے ایسے لوگوں پر اظہارتأسف کرتے ہوئے کہا:
کیف یفرح بالدنیا من یومہ یہدم شہرہ،وشہرہ یہدم سنتہ،وسنتہ یدہم عمرہ، کیف یفرح من عمرہ الی اجلہ، وتقودہ حیاتہ الی موتہ۔
’’وہ شخص دنیا پاکر کیوں خوش رہ سکتاہے جس کے دن،مہینے ،سال تیزی سے گزررہے ہوں اور اس کی زندگی موت سے قریب ہورہی ہو۔ ‘‘
یہ بات درست ہے کہ دنیا کے بہت سے کام ایسے ہیں  جن کے لیے دنیاوی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔  ان کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے۔  انسان کی زندگی اور  دنیاکی مثال کشتی اور پانی کی سی ہے جوایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں  کیوں کہ کشتی پانی پر ہی چلتی ہے۔ مگریہ بات پیش نظررہنی چاہیے کہ اگرکشتی میں  پانی بھرجائے تو کشتی تباہ وبربادہوکررہ جاتی ہے۔ لہذا دنیا اور اس کی محبت اگر انسان کے سینے میں  بھرجائے تواس کا ہلاک ہونا اور اس کی آخرت کا تباہ وبربادہونا یقینی ہے۔
موجودہ دورمیں  لوگ مسلمانوں کے بہت سے مسائل اور پریشانیوں کا ذکرکرتے ہیں  اور  ان کوبنیادبناکراسے دنیاحاصل کرنے کی دوڑمیں  پیچھے رہ جانے کی وجہ قراردیتے ہیں ۔ جب کہ حقیقت میں  یہ کوئی مسئلہ نہیں  ہے ،کیوں کہ ایک مسلمان کی کامیابی اخروی فلاح نجات میں  ہے اسی میں  دنیاوی مسائل کا حل بھی مضمرہے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ لوگ بھی اس مقابلے میں  بہت پیچھے ہیں  جن کے پاس مسلمانوں  کی طرح دنیاکا حصول اتنابڑامسئلہ نہیں  ہے۔ بلکہ عیش وآرام اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی جی رہے ہیں ،مثلاً موجودہ دورکے کلیدی عہدوں پر فائزہوس پرست ذمہ داران وسیاسی لیڈران جن کے ذلت آمیز، شرمناک اور غیراخلاقی واقعات کی خبریں  آئے دن اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔
شیطانی گروہ مسلسل کوشش میں  ہے کہ دنیا کی محبت مومن کے دل میں  ڈال دے ۔ یہ دنیامختلف صورتوں میں  جلوہ گرہوتی اور مومنوں کولبھانے کی کوشش میں  رہتی ہے ۔  مسلمانوں کواللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دنیا کے مکروفریب سے دور رہنا چاہیے کیوں کہ حب دنیا ایمان کے منافی ہے ۔
                                ٭٭٭


kamzoor Momin se Taqatwar mumin behtar




قوم وملت کی صلاح وفلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں  امن وامان قائم ہو، انسانوں  کو جانی ومالی تحفظ حاصل ہو، انھیں  وہ حقوق دیے جائے جن کے وہ مستحق ہیں ۔  ظلم وزیادتی کا خاتمہ ہو،ایسے قوانین کا عملی نفاذہوجوزندگی کے تمام گوشوں  کو محیط ہوں ۔ جہاں  لوگ ایک دوسرے کے درد وغم سے آشناہو ں اور بھائی چارگی کا ماحول پایاجاتا ہو۔  پڑوسیوں کا خیال کیا جاتا ہو اورلوگ ایک دوسرے کے درکھ درد میں  شریک ہوتے ہوں ۔ جہاں ایسا نہیں  ہوگاوہاں  معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا اور لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں گے اور  انسانیت سسک سسک کردم توڑنے لگے گی اور ظلم کا بول بالا ہوگا ۔ چاروں طرف اندھیرا ہوگا اور  لو گ خوف ہراس کے سائے میں  زندگی گزاریں گے ۔ ایسے میں  نہ ملک ترقی کرسکے اور نہ قوم کامیابی سے ہم کنار ہوسکے گی۔
موجودہ دورکا مشاہدہ ہمیں  بتاتاہے کہ اس میں  وہ تمام خرابیاں  آچکی ہیں  جن سے معاشرہ بدحال ہے ،جس میں  ظالم ظلم کرتے ہوئے بھی نادم نہیں  ہے ، طاقتور کمزوروں کو ستا رہا ہے، اکثریت اقلیت کے وجودکوتسلیم کرنے سے گریزکررہی ہے اور ان کے جان کے درپردہ ہے۔  بستیاں  جلائی جارہی ہیں ، جن کے بنانے اور سنوارنے میں  انسان اپنی آدھی عمرکی محنت لگاتا ہے، پہ درپہ ہونے والے فسادات سے انسانیت دم بخود ہے۔ ان کی خبروں سے اخبارات بھرے نظر آتے ہیں ، ان کی بے بسی اور لاچاری کی شائع شدہ تصاویرسے اقبال کا یہ مصرع ذہن میں  تازہ ہوتاہے     ؎
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ معاشرے میں  دوطرح کے گروہ پائے جاتے ہیں  ایک وہ جوتعصب کی بنیاد پر انسانیت کا گلاگھونٹتے ہیں  اور فساد کا ماحول پیداکرکے معاشرے کوتباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں  دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو امن وامان کے خواہاں ہوتے ہیں  اور  معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں میں  سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں ۔ کوئی کسی کا وجودتسلیم کرنے کو تیارنہیں  ،ایسا ہوبھی نہیں  سکتا کیوں کہ یہ دونوں دومتضاد چیزیں  ہیں  ۔ اسی وجہ سے ان کاآپسی ٹکراؤ اور  تصادم یقینی ہے ،جو روز اول سے چلا آرہاہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان میں  جو غالب ہوگا معاشرہ کی صورت حال ویسی ہی بھلی یا بری ہوگی۔
ایسے ماحول کے لیے اسلامی تعلیمات کیاہیں  ؟اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ اسلام کے علم بردارطاقت ور ہوں ۔  وہ قوت ،خواہ ایمانی لحاظ سے ہو،جیسے خداپر کامل یقین ،اپنے موقف پر استقامت ،مشن کے لیے ہرممکن راہ اختیار کرنے کاعمل ،فکر کی مضبوطی اور شریعت اسلام کوہی مکمل نظام حیات ہونے کا قولی وعملی دعوی ۔ یا پھرجسمانی قوت مثلاً مخالف گروہ کے حملے اور فسادات سے نمٹنے کے لیے دفاعی طاقت ،جس کے لیے جسمانی ورزش،ایسے کھیل جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہو،دوڑ،تیراکی،کشتی اور اسلحہ بازی وغیرہ کی مشق ۔
جہاں  تک ایمانی قوت کا تعلق ہے توایک مومن کواپنے مشن میں  کامیاب ہونے کے لیے یہ لازمی جزہے۔  اس کے بغیر کسی کامیابی کا تصور محال ہے۔ چنانچہ اس کی طرف  ہمیشہ توجہ دلائی جاتی ہے ،برابرتقریروں اور تحریروں سے اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے جلسوں میں  اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے، مگر دوسری طاقت جواللہ کوبے حدمحبوب ہے ،اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نازک حالات کے پیش نظر اپنے محبوب بندوں سے فرمایا:
’’اورتم لوگ ،جہاں   تک تمہارابس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیارکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کواوران دوسرے اعداء کوخوف زددہ کروجنھیں  تم نہیں  جانتے مگراللہ جانتاہے ۔)سورۃ انفال60:)
خداکی اس سرزمین پر قانون صرف خداکا ہی چلنا چاہیے ۔  وہ ظلم وبربریت کو پسند نہیں  کرتا لہذا عدل وانصاف کا قیام ہونا چاہیے۔ وہ بری باتوں کوپسند نہیں  کرتا،اس لیے نیکی کا کام کرنا چاہیے۔  مذکورہ تمام اعمال وافعال خداکوماننے والا اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہی بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔  مگرچوں کہ یہ کام آسان نہیں  ہے اس لیے انھیں  اپنے اندرجہاں  ایک طرف ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے وہیں  باطل گروہ سے ٹکراؤ کے وقت دفاعی قوت وصلاحیت کی ضرورت ہے ،جس میں  تمام مسلمانوں  کو ایک ساتھ مل کرتعان علی البروالتقوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ خودانتہائی طاقت وراوربہادرتھے ، جب کشتی کے لیے کوئی للکارتاتوبڑے سے بڑے پہلوان کوپچھاڑدیتے تھے۔ ایک موقع پر آپ ﷺنے اسلام کی مددونصرت کے لیے حضرت عمربن خطاب ؓ کے ایمان کے لیے خاص طورسے دعا کی جواس زمانے میں  ایک بہادرطاقت ور انسان کی حیثیت سے معروف تھے:
اللہم ایدالاسلام بعمربن الخطاب خاصۃً  (ابن ماجہ،مستدرک حاکم)اے اللہ خاص عمربن خطاب ؓ سے اسلام کو قوت دے۔ اللہ نے دعاقبول فرمائی ۔ حضرت عمرفاروق اعظم ؓنے بعدمیں جوکارنامے انجام دیے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔
نبی کریم ؓنے صحابہ کرام میں  ان دونوں  قوتوں (ایمانی قوت اور دفاعی صلاحیت ) کو پروان چڑھایا۔ اس لیے ہم صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھتے ہیں  توان میں  جہاں  ایمان کی حلاوت اور  حمیت ملتی ہے، وہیں  وہ جنگی لحاظ سے مضبوط ،طاقتور اور  بہادر دکھائی دیتے ہیں ۔  جنگ بدرکا واقعہ ہے کہ جب کفارومشرکین(عتبہ ،شیبہ اور  ولید ) نے دعوت مبارزت دی توان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے اولاًانصارمیں سے تین صحابہ کرامؓ آگے آئے،مگرمشرکین نے اپنے یعنی قریش میں  سے اپنا مقابل طلب کیا ،جس پر تین نہایت قوی اور جنگی فنون کے ماہر حضرات آگے آئے،جنھوں نے اپنے مقابل کا کام تمام کیا۔ وہ تھے عبیدۃن الحارثؓ، حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ صرف حضرت عبیدۃبن الحارثؓ معمولی زخمی ہوئے۔ اتنے مضبوط اور بہادرہوتے تھے صحابہ کرام ؓ!
قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے  اوصاف کا تذکرہ ان الفاظ میں  کیا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں  اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفار پر سخت اور  آپس میں  رحیم ہیں ۔
اس کی تفسیرمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں  ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفارپر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں  ہیں  کہ انھیں  کافرجدھرچاہیں  موڑدیں ۔ وہ نرم چارہ نہیں  ہیں  کہ کافرانھیں  آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔  انھیں  کسی خوف سے دبایانہیں  جاسکتا۔  انھیں  کسی ترغیب سے خریدانہیں  جاسکتا۔ کافروں میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ انھیں  اس مقصد ِ عظیم سے ہٹادیں  جس کے لیے سردھڑکی بازی لگاکرمحمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ (اورآپس میں  رحیم ہیں )یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں  ہے۔  اہل ایمان کے مقابلے میں  وہ نرم ہیں ،رحیم و شفیق ہیں ،ہمدردوغمگسارہیں ۔ اصول اور مقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی وسازگی پیداکردی ہے۔ ‘‘(ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگرکوئی شخص کسی مومن کی جان کے درپے ہوتوایسی صورت میں  اس کے لیے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رحم وکرم کی بھیک مانگنے کے بجائے دفاعی صورت اختیار کرنا لازمی ہو جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی جان اور  اپنے مال کی حفاظت کی خاطر دفاعی صورت میں  اگرکسی مسلمان کی جان چلی جائے تو اسلام نے اسے شہیدکا اعزاز بخشا ہے ۔  دفاعی صورت کے لیے قوت ضروری ہے اور اس کا صحیح استعمال جرأت وبہادری کے ذریعے ہوتاہے ۔
نبی کریمؐ نے اس تعلق سے اپنی امت کو بڑی ہی جامع بات بتائی جومعاشرے کی فلاح و بہبود اور  قیام امن وامان کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
المؤمن القوی خیرواحب الی اللہ من المؤمن الضعیف وفی کل خیر احرص علی ماینفعک واستعن باللہ ولا تعجزوان اصابک شیٔ فلاتقل انی لو فعلت کان کذا وکذاولکن قل قدراللہ وماشاء فعل فان لوتفتح عمل الشیطان   (مسلم)
’’مومن ِ قوی بہتر اور خداکے نزدیک محبوب ترہے مؤمن ضعیف سے۔ اور یوں تو ہر ایک میں  بھلائی اور خیرپایاجاتاہے۔ جو چیز تیرے لیے نافع ہو اس کا حریص ہو اور خداسے استعانت طلب کراور عاجز نہ ہو اور اگرتجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہہ کہ اگر میں  ایسا کرتاتوایسا ہوتا بلکہ کہہ کہ خدانے یہی مقدرفرمایا اور اس نے جوچاہا کیا، کیوں کہ ’’اگر‘‘شیطان کے کام کا دروازہ کھولتاہے۔ ‘‘ (مسلم)
مذکورہ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ ضعف اور کمزوری، خواہ ایمانی ہو یا جسمانی، کسی بھی صورت میں  پسندیدہ نہیں ہے۔  اس لیے اللہ کے نزدیک  مضبوط مؤمن کمزورسے بہتر ہے، کیوں  کہ اس سے دینی ودنیوی امورکے مصالح کاحصول ہوتاہے۔ ساتھ ہی خیر کی طرف رغبت اور  اس بھلائی کے حصول میں  کسی طرح کا عجزظاہر کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے۔  عجز ضعف کی علامت ہے جوانسان کو اپنے مشن میں  استقامت سے روکتی ہے اور اسے متزلزل کردیتی ہے۔  مومن کا یہ شیوہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کا پابندرہے اگرکامیابی ملی توفبہاورنہ توغم نہ کرے یہ من جانب مقدر تھا۔
صحت وتندرستی سے متعلق اسلامی تعلیمات
صحت وتندرستی انسانی قوت کا راز ہے ،جب کہ مرض اس کے لیے دیمک کی مانندہے جو انسان کی صحت کومتأثر کرتاہے۔ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوی ہو جس کے لیے اسے اپنی صحت کا بھرپورخیال رکھنا ہوگا۔ یہ صحت ایک نعمت سے کم نہیں  اس کا شکریہ ہے کہ اس کا خیال اور  اس کا صحیح استعمال کیاجائے۔
تنگ دستی اگرچہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس تعلق سے اسلامی تعلیمات کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگانا آسان ہو کہ آخراسلام صحت ومرض کے تعلق سے کیاتعلیم  دینا چاہتا ہے اور اس کا مقصد کیاہے؟جسم کو صحت مند، مضبوط اور طاقت وربنانے کے لیے غذا کے ساتھ ساتھ ورزش اور کھیل کود کی بھی ضرورت ہے ۔ اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے بچوں کو کبھی کھیل کودسے منع نہیں  کیا بلکہ اس کے کھیل کودکوپسند کیا۔ آپؐ نے اس مقصدکے تحت چند کھیل کی ہدایت فرمائی ہے۔ جس میں  دوڑ، تیراکی ، کشتی ،تیراندازی وغیرہ نمایاں  ہیں :
’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں  کہ میں  ایک سفرمیں  رسول اللہﷺ کے ساتھ تھی ہم دونوں  نے دوڑلگائی۔ میں  آگے نکل گئی۔  کچھ عرصہ کے بعد جبمیرا بدن فربہ ہوگیاتودوبارہ دوڑکامقابلہ ہوا۔  اس میں  آپ بازی جیت گئے ۔ فرمایایہ پہلے مقابلے کا بدلہ ہے۔ ‘‘   (ابوداؤد)
تیراکی سے متعلق آپؐ کا ارشادہے:’’ہروہ چیزجس میں  اللہ کا ذکر نہ ہو،لہوولعب ہے، سوائے چارچیزوں کے۔ آدمی کا اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرنا،اس کا اپنے گھوڑے کو سدھانا ،نشانات متعین کرکے ان کے درمیان چلنا اور تیراکی کی تعلیم دینا۔ ‘‘ (مناوی فیض القدیر:۵/۲۳۔ صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات: ۲۰۸ (
حضرت عمرؓنے حضرت ابوعبیدۃ جو شام کے گورنرتھےؓ کولکھا:
’’اپنے بچوں کو تیراکی کی تعلیم دواورجولڑنے کے قابل  ہوجائیں  انھیں  تیراندازی سکھاؤ۔ ‘‘ (مسند احمد ،صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات:۲۰۸)
اسلام نے ان تمام چیزوں کوناجائز ،مکروہ اور حرام قراردیاہے جو انسانی جسم کو کسی نہ کسی درجہ میں  بالواسطہ یا بلا واسطہ نقصان پہنچائے۔ کیوں کہ جسم بھی خداکی دی ہوئی ایک امانت ہے جسے ایک حدتک قوی اور بہتررکھنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ اسے عظیم مقاصدٖ(ٖزیرکفالت لوگوں  کی پرورش اور سربلندی ٔاسلام)کے لیے  کام میں  لایا جاسکے۔  اس لیے اسے ناجائز استعمال سے لاغراورناتواں کرنے کا ہمیں  کوئی حق نہیں ۔
ہمارے اسلاف نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں  نافذکیا اور  وقت کی نزاکت کے ساتھ اس راہ کو بھی اپنا یا جس کے لیے انھوں نے بے حد مشق کی ۔  آج ہندوستان آزاد ہے ،اگرتاریخ اٹھاکردیکھی جائے تو ہم بڑے فخرسے کہتے ہیں  کہ علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور خودمیدان میں  کودپڑے ، مسلمانوں نے علمائے کرام کا ساتھ دیا اور  اپنے خون سے اس ملک کوآزادکرایا۔ یہ اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے نہ صرف ظلم وبربریت کا ماحول گرم کیاتھا بلکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی پالیسی بھی تیارکی تھی ۔  ان کا جینا بھی مشکل کردیاتھا۔ ایسی صورت جب بھی پیش آئے گی اس کے لیے یکبارگی کوئی عمل سامنے نہیں  آتا بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے ۔ تاکہ ماحول کے مطابق مسلمان خود کو تیاررکھیں ۔
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
انسان اچھا ہو یا برا،درندہ صفت ہو یا نیک صفت شکل وصورت اور بناوٹ کے اعتبار سے یکساں  دیکھائی دیتاہے اور اس کے توالد وتناسل کا طریقہ  بھی ایک ہی طرح کا ہوتاہے جس کے سبب صحت ومرض بھی انسان کے جسم پریکساں  طورپر اثراندازہوتاہے مگرایک بڑا فرق ہے وہ یہ کہ اس کا عمل ،کردارجینے کا سلیقہ جو اسلام سیکھاتاہے جس سے انسان بہترین اور طاقت ور ہوتا ہے۔ اگراسلام کے ماننے والے اپنی بہتری اور بھلائی کے لیے اللہ کا حکم اور اس کے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑکرکوئی اور  طریقہ اپنائیں  یا چوپائے کی طرح بے مقصد اور بے چارگی کی زندگی گزاریں ، توپھران کو ذلت وپستی اور رسوائی سے کوئی نہیں  بچاسکتا،چہ جائے کہ وہ قوم کے فساد و بگاڑ کو روک سکے یا اس کامقابلہ کرسکے اور نہ کوئی اس کی مددکرسکتاہے۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں  بدلی
نہ ہو جس کو خیال، اپنی حالت کے بدنے کا

٭٭٭

Friday 14 March 2014

مادہ پرستی کے اثرات ہمارے اخلاق پر
                                             
انسان اپنے اخلاق و کردار سے ہی پہچا ناجاتاہے۔ بہتر اخلاق اسے انسانیت کے اعلی مقام پر پہنچاتے ہیں ،جب کہ برے اور گندے خصائل اسے ذلیل و رسواکرکے پستی میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ایک اچھا انسان اپنے اخلاق و کردارکو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ اس کی بہتر شناخت اور کامیاب زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اسی وجہ سے دین و شریعت میںبہتر اخلاق اور اچھے اوصاف کی بڑی اہمیت ہے۔ نبی کریم کی بعثت کا مقصد اخلاق کریمہ کی تکمیل ہے۔  جیساکہ آپؐ نے فرمایا:
انمابعثت لاتمم مکارم الاخلاق،(مسند احمد)
’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔ ‘‘ (مسند احمد)
ایک موقع پرآپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
ان من خیرکم احسنکم اخلاقا۔ بخاری
’’ تم میں بہترین انسان وہ ہے جو تم میںاخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھاہو۔ ‘‘(بخاری)
آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پرپہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام وآسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کی سوچ رہاہے۔ لیکن دوسری طرف وہ اخلاق کی اتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔ اگر ہم اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔
مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزہے۔ مال جو انسان کی ضرورت ہے۔  کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی طاعت کے لیے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے۔ اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں ،اسے پانی پر ہی چلایاجاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔
 مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے،پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔  اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ ‘‘(آل عمران:۱۴)
مادہ پرستی نے انسان کے اخلاق کوبری طرح متاثرکیا ہے ،جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماج گاہ بن گیاہے۔ انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہاہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو  سماجی زندگی بہترہوجائے۔ مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے۔ اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے۔  تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے۔ مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے۔ گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میںزیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مادہ پرستی کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اس کی خامی کو کچھ اس طرح پیش کیاہے ؎
                                       یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
                                       حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
                                       یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
                                       پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
معاشرے میں جھوٹ،رشوت ،دھوکہ دھڑی ، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کوانسانی فریضہ سمجھتے تھے،غریبوں کوکھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے۔ ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔ اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ مزدوروںکا خون چوس لینے کے بعد بھی ان کوپوری مزدوری نہیں دیتے۔ گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی تک جاپہنچتا ہے۔  رشتہ داری نبھانا تو درکنار اپنے والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنامادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں ، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہاراہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے ،کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے۔  یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں رسول اللہ ؐ نے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔
مادہ پرستی نے انسانوںکو خونخوار حیوان بنادیا ہے۔  بچوںکا اغواکرنا ، اس کے عوض ان کے والدین سے کثیر رقم کا مطالبہ کرنا ، ان کے ہاتھ پیر کاٹ کران سے بھیک مانگوانا۔ یہ سارے کام مال و دولت کے حصول اور مادہ پرستی کے جذبے سے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔
 ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصدعام لوگوں کو علاج معالجہ کے ذریعہ امراض سے شفایاب کرنا ہے،مگر مادہ پرستی نے ڈاکٹروں پر بھی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیںاور مریضوں کے ساتھ ایک جلاد کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ علاج کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوس لتے ہیں، بلکہ بسا اوقات ان کا غیرضروری آپریشن کرکے ان کے گردے تک نکال لیتے ہیں۔
مادہ پرستی نے خواتین کو بھی اپنے جھانسے میں لے لیاہے اور انھیں مستقبل کے سبزباغ دکھاکر سماج میں ذلیل اور رسوا کیاہے،اس بنا پرازدواجی زندگی تلخ ہورہی ہے۔ مغرب کے تیار کردہ آزادی نسواں اور مساوات کے پر فریب جال میں پھنس کرعورتیں سرِراہ اپنے جسموں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔ معمولی معمولی چیز وں پر ان کی فحش تصاویراس بات کا بین ثبوت ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوںمیںچند ٹکوں کے عوض ان سے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
مادیت کے غلبے نے انسان کو اندھا ،گونگا ،بہرہ بنادیاہے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مرغوباتِ دنیا نے مادیت پرستی میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اپنا چین و سکون کھوبیٹھا ہے،اس کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ !معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے خیال نے اسے بے حال اورپرملال کردیاہے۔ اسے غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوںنہیں ہے؟ جب کہ وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کے خالق کی ہر وقت اس پر نگاہ ہے۔ اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ ہر طرح کی راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو ؎
ایں خیال وہم و گمان است
آج اگر انسانوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرکے ہی وہ اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔**  

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...