Monday 17 March 2014



اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندرون میں  ایک محتسب اور نگراں  رکھا ہے،جسے ضمیر کہاجاتا ہے ضمیر جب تک جاگتا رہتا ہے،سب کچھ ٹھیک رہتاہے مگراس کے مردہ ہوتے ہی اعضائے جسم اچھے برے کی تمیز کھودیتے ہیں  اور انسان نفس کی رومیں  بہہ جاتاہے۔
ضمیر کے بیداررہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں  ہوتا، بلکہ معاشرے میں  جب بھی برائی ،بدعنوانی یا ناجائز  کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان وشوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے ، اس وقت انسان کا ضمیرشیطانی روپ اختیار کرلیتاہے اور وہ معاشرے میں  منفی کردارانجام دینے لگتاہے۔  آغاز میں  وہ اس فعل بد اور منفی کردارکو چیلنج کے طورپر لیتاہے۔ مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کرکے معاشرے میں  پسندیدہ نگاہوں  سے دیکھے جارہے ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ایسا کرے چنانچہ وہ اپنی محنت اور کوشش کو تیز کردیتا۔ جب تک اسے اس فعل کے برے انجام کا احساس ہوتاہے تب تک وہ اس دلدل میں دھنس چکاہوتا، جس سے نکلنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور  غربت کا خوف اسے اس دلدل میں  مردہ زندگی بسرکرنے کے لیے مجبورکرتاہے ۔
پھروہ جھوٹ، رشوت،چوری ،قتل وخوں ریزی کا بازارگرم کردیتاہے ،جس سے معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً رشوت خوری ایک بہت برا فعل ہے۔  حق دارسے حق چھین کرغیرمستحق کوحقداربنانے کے لیے یہ فعل بدانجام دیا جاتا ہے۔  اس فعل میں  رشوت دینے والااوررشوت لینے والادونوں  ملوث ہوتے ہیں  ۔ کیوں کہ ایک شخص اگروہ حقدارنہیں  ہے تو کیوں دوسرے کا حق لینے کی کوشش کر رہا ہے ، پھریہ جانتے ہوئے کہ اس میں  صاحب حق کی حق تلفی ہوگی رشوت لینے والا اس غلط اور ناجائز طریقے سے اس کی مددکررہاہے۔ اسی لیے دونوں  گنہگار ہوں گے۔  اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کی مددکرتے وقت اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس کے عوض مال کا مطالبہ کرے یالاچارشخص اس کو پیسہ دینے کے لیے مجبورہوقرآن کریم میں  یہ صفت یہودیوں  کی قراردی گئی ہے:
سَمّاعون الکذب اکالون للسحت۔ (المائدۃ:42)
’’یہ لوگ جھوٹ کو سننے والے اور حرام کا مال کھانے والے ہیں ۔ ‘‘
حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ نے سحت سے مراد رشوت لی ہے۔ نبی کریمﷺ نے رشوت کا لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے:
لعن رسول اللہ علی الراشی والمرتشی
’’رسول اللہ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والوں پر لعنت فرمائی۔ ‘‘مسنداحمد کی روایت کے مطابق آپ کا ارشادہے:
مامن قوم یظہر فیہم الربا، الا اخذوا بالسنۃ، وما من قوم یظہر فیہم الرشا، الا اخذو ابالرعب
’’جس قوم میں  سودعام ہوجائے وہ قحط سالی کا شکار ہوجاتی ہے اور  جس قوم میں  رشوت عام ہوجائے وہ خوف ودہشت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ‘‘
رشوت کا یہ طریقہ نہ صرف مشکلات پیداکرتاہے، بلکہ زندگی کوبھی خطرے میں  ڈال دیتا ہے۔  مثلاً آج مکانات تیارکیے جاتے ہیں  توان میں  اس قدر پیسہ نہیں  لگتاجس قدراس کے بیچنے والے اپنا بھاؤرکھتے ہیں ۔  یا دیگراشیاء جوانسانوں  کی بنیادی ضرورتوں میں  سے ہیں ۔ مگرجب بلڈر یا تاجرسے اس سلسلے میں  معلوم کیاجاتاہے تووہ کہہ دیتے ہیں  کہ ہمیں  ان چیزوں  کی تیاری میں  بہت زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے ، اس کے بغیر ہم انھیں  تیارنہیں  کرسکتے ۔
ایسے تاجراپنی مصنوعات کی قیمت کو مناسب رکھنے کے لیے رشوت میں  تو کمی نہیں  کرپاتے کیوں کہ وہ ان کے بس میں  نہیں  ہوتا،مگروہ میٹیریل میں  کمی کردیتے ہیں  جس سے وہ مکان یا سامان ،انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتاہے۔  آئے دن اس طرح کے واقعات اخباروں میں  پڑھنے کو ملتے ہیں ۔  جب کہ رشوت کا یہ مال سفید پوش سرمایہ کاروں کی جیب میں  جاتاہے ،اولاً ایسے واقعات کی چھان بین نہیں  ہوتی، اگر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں  کچھ کارروائی ہوئی بھی توصرف وہ لوگ گرفت میں  آتے ہیں جو رشوت دینے والے ہوتے ہیں ۔  مگر پس پردہ رہنے والے سفیدپوش سرمایہ داروں   کا کچھ نہیں  بگڑتا۔ اس طرح رشوت اور بدعنوانی کا عام رواج ہوجاتاہے ۔ پھر اندرونی طور پراس کاربدکی مدح سرائی یا اس کومزے لے لے کر بیان کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے تب یہ رویہ ان کے ارد گرد رہنے والے عام لوگوں میں  اس برائی کو پیداکرنے کا محرک بن جاتاہے ،جومعاشرے کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔
غورکرنے کی بات ہے کہ ایک شخص جواپنے بچے کو اس کی ذہانت کے سبب بڑاڈاکٹریا انجینئربناناچاہتاہے ،تاکہ معاشرے میں  اس کی تحسین ہواوروہ لڑکا آئندہ اس کے لیے بڑے بینک کا اے ٹی ایم ثابت ہو،جس میں  ہروقت روپے بھرے ہوں ۔  تو وہ اس کے لیے ڈونیشن کے طور پرلاکھوں ، روپے صرف دیتاہے۔  پھرجب یہ بچہ بڑاہوکر اپنی تعلیم مکمل کرلیتاہے تواپنے باپ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ضمیرکا سودا کرتا ہے اور رشوت کا کھیل شروع کر دیتا ہے۔
موجودہ دورمیں  ایسی ہی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، جو رشوت خوری کی بنیادپرکھڑی ہو۔  ایسے میں  دوسرے لوگ اس میدان میں  پیچھے کیوں رہیں  ، اس میں  عزت بھی ہے اور پیسہ بھی۔  ایسا ہی کچھ معاملہ ملک کے ان نیتاؤں کا بھی ہے جو انتخاب میں کامیابی کے بعد ملنے والے بے حساب پیسوں  کے لیے لاکھوں ،کروڑوں روپے انتخابی مراحل میں  بے دریغ خرچ کرتے ہیں ۔  پھراس کے بعد وہ کیاکرتے ہیں  ۔  اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں  ہے۔ یہی حال تمام معاملات میں  ہے،شایدہی کوئی جگہ ہوجواس سے خالی ہو۔
معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اس کی تعمیر وترقی یا اس کے برعکس تخریب وتنزلی کا معاملہ بھی اس میں  رہنے والے افرادکے کارناموں  سے ہی وجودمیں  آتاہے۔  اگر ہم چاہتے ہیں  کہ ہمارا معاشرہ پرامن اور خوشحال رہے توہمیں  ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا فریضہ انجام دینا ہوگا ۔  ورنہ معاشرے کے افرادبڑی تعداد میں  جرائم میں  ملوث ہوں گے اور اسباب تعیش کے حصول، مال واساب کے غرور میں  چور ہوکروہ دوسروں کوبھی اس مایا جال میں  پھنسانے پر مجبورکریں  گے۔
ضمیرکو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں  اسلامی احکام کو ملحوظ خاطررکھنا ہوگا۔  ہمہ وقت یہ تصور ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے۔  اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے ۔  اصل زندگی آخرت کی ہے۔  جب ہم اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوں گے اور  مضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں  گے توپھرہمارا ضمیرہمیشہ بیداررہے گا اور ہم احساس کمتری کا شکار ہوکرعارضی دنیاکوترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی ،اس کی راحت اور وسکون فوقیت دیں گے ۔
٭٭٭


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...