Saturday 15 March 2014

kamzoor Momin se Taqatwar mumin behtar




قوم وملت کی صلاح وفلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں  امن وامان قائم ہو، انسانوں  کو جانی ومالی تحفظ حاصل ہو، انھیں  وہ حقوق دیے جائے جن کے وہ مستحق ہیں ۔  ظلم وزیادتی کا خاتمہ ہو،ایسے قوانین کا عملی نفاذہوجوزندگی کے تمام گوشوں  کو محیط ہوں ۔ جہاں  لوگ ایک دوسرے کے درد وغم سے آشناہو ں اور بھائی چارگی کا ماحول پایاجاتا ہو۔  پڑوسیوں کا خیال کیا جاتا ہو اورلوگ ایک دوسرے کے درکھ درد میں  شریک ہوتے ہوں ۔ جہاں ایسا نہیں  ہوگاوہاں  معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا اور لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں گے اور  انسانیت سسک سسک کردم توڑنے لگے گی اور ظلم کا بول بالا ہوگا ۔ چاروں طرف اندھیرا ہوگا اور  لو گ خوف ہراس کے سائے میں  زندگی گزاریں گے ۔ ایسے میں  نہ ملک ترقی کرسکے اور نہ قوم کامیابی سے ہم کنار ہوسکے گی۔
موجودہ دورکا مشاہدہ ہمیں  بتاتاہے کہ اس میں  وہ تمام خرابیاں  آچکی ہیں  جن سے معاشرہ بدحال ہے ،جس میں  ظالم ظلم کرتے ہوئے بھی نادم نہیں  ہے ، طاقتور کمزوروں کو ستا رہا ہے، اکثریت اقلیت کے وجودکوتسلیم کرنے سے گریزکررہی ہے اور ان کے جان کے درپردہ ہے۔  بستیاں  جلائی جارہی ہیں ، جن کے بنانے اور سنوارنے میں  انسان اپنی آدھی عمرکی محنت لگاتا ہے، پہ درپہ ہونے والے فسادات سے انسانیت دم بخود ہے۔ ان کی خبروں سے اخبارات بھرے نظر آتے ہیں ، ان کی بے بسی اور لاچاری کی شائع شدہ تصاویرسے اقبال کا یہ مصرع ذہن میں  تازہ ہوتاہے     ؎
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ معاشرے میں  دوطرح کے گروہ پائے جاتے ہیں  ایک وہ جوتعصب کی بنیاد پر انسانیت کا گلاگھونٹتے ہیں  اور فساد کا ماحول پیداکرکے معاشرے کوتباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں  دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو امن وامان کے خواہاں ہوتے ہیں  اور  معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں میں  سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں ۔ کوئی کسی کا وجودتسلیم کرنے کو تیارنہیں  ،ایسا ہوبھی نہیں  سکتا کیوں کہ یہ دونوں دومتضاد چیزیں  ہیں  ۔ اسی وجہ سے ان کاآپسی ٹکراؤ اور  تصادم یقینی ہے ،جو روز اول سے چلا آرہاہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان میں  جو غالب ہوگا معاشرہ کی صورت حال ویسی ہی بھلی یا بری ہوگی۔
ایسے ماحول کے لیے اسلامی تعلیمات کیاہیں  ؟اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ اسلام کے علم بردارطاقت ور ہوں ۔  وہ قوت ،خواہ ایمانی لحاظ سے ہو،جیسے خداپر کامل یقین ،اپنے موقف پر استقامت ،مشن کے لیے ہرممکن راہ اختیار کرنے کاعمل ،فکر کی مضبوطی اور شریعت اسلام کوہی مکمل نظام حیات ہونے کا قولی وعملی دعوی ۔ یا پھرجسمانی قوت مثلاً مخالف گروہ کے حملے اور فسادات سے نمٹنے کے لیے دفاعی طاقت ،جس کے لیے جسمانی ورزش،ایسے کھیل جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہو،دوڑ،تیراکی،کشتی اور اسلحہ بازی وغیرہ کی مشق ۔
جہاں  تک ایمانی قوت کا تعلق ہے توایک مومن کواپنے مشن میں  کامیاب ہونے کے لیے یہ لازمی جزہے۔  اس کے بغیر کسی کامیابی کا تصور محال ہے۔ چنانچہ اس کی طرف  ہمیشہ توجہ دلائی جاتی ہے ،برابرتقریروں اور تحریروں سے اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے جلسوں میں  اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے، مگر دوسری طاقت جواللہ کوبے حدمحبوب ہے ،اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نازک حالات کے پیش نظر اپنے محبوب بندوں سے فرمایا:
’’اورتم لوگ ،جہاں   تک تمہارابس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیارکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کواوران دوسرے اعداء کوخوف زددہ کروجنھیں  تم نہیں  جانتے مگراللہ جانتاہے ۔)سورۃ انفال60:)
خداکی اس سرزمین پر قانون صرف خداکا ہی چلنا چاہیے ۔  وہ ظلم وبربریت کو پسند نہیں  کرتا لہذا عدل وانصاف کا قیام ہونا چاہیے۔ وہ بری باتوں کوپسند نہیں  کرتا،اس لیے نیکی کا کام کرنا چاہیے۔  مذکورہ تمام اعمال وافعال خداکوماننے والا اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہی بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔  مگرچوں کہ یہ کام آسان نہیں  ہے اس لیے انھیں  اپنے اندرجہاں  ایک طرف ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے وہیں  باطل گروہ سے ٹکراؤ کے وقت دفاعی قوت وصلاحیت کی ضرورت ہے ،جس میں  تمام مسلمانوں  کو ایک ساتھ مل کرتعان علی البروالتقوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ خودانتہائی طاقت وراوربہادرتھے ، جب کشتی کے لیے کوئی للکارتاتوبڑے سے بڑے پہلوان کوپچھاڑدیتے تھے۔ ایک موقع پر آپ ﷺنے اسلام کی مددونصرت کے لیے حضرت عمربن خطاب ؓ کے ایمان کے لیے خاص طورسے دعا کی جواس زمانے میں  ایک بہادرطاقت ور انسان کی حیثیت سے معروف تھے:
اللہم ایدالاسلام بعمربن الخطاب خاصۃً  (ابن ماجہ،مستدرک حاکم)اے اللہ خاص عمربن خطاب ؓ سے اسلام کو قوت دے۔ اللہ نے دعاقبول فرمائی ۔ حضرت عمرفاروق اعظم ؓنے بعدمیں جوکارنامے انجام دیے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔
نبی کریم ؓنے صحابہ کرام میں  ان دونوں  قوتوں (ایمانی قوت اور دفاعی صلاحیت ) کو پروان چڑھایا۔ اس لیے ہم صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھتے ہیں  توان میں  جہاں  ایمان کی حلاوت اور  حمیت ملتی ہے، وہیں  وہ جنگی لحاظ سے مضبوط ،طاقتور اور  بہادر دکھائی دیتے ہیں ۔  جنگ بدرکا واقعہ ہے کہ جب کفارومشرکین(عتبہ ،شیبہ اور  ولید ) نے دعوت مبارزت دی توان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے اولاًانصارمیں سے تین صحابہ کرامؓ آگے آئے،مگرمشرکین نے اپنے یعنی قریش میں  سے اپنا مقابل طلب کیا ،جس پر تین نہایت قوی اور جنگی فنون کے ماہر حضرات آگے آئے،جنھوں نے اپنے مقابل کا کام تمام کیا۔ وہ تھے عبیدۃن الحارثؓ، حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ صرف حضرت عبیدۃبن الحارثؓ معمولی زخمی ہوئے۔ اتنے مضبوط اور بہادرہوتے تھے صحابہ کرام ؓ!
قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے  اوصاف کا تذکرہ ان الفاظ میں  کیا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں  اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفار پر سخت اور  آپس میں  رحیم ہیں ۔
اس کی تفسیرمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں  ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفارپر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں  ہیں  کہ انھیں  کافرجدھرچاہیں  موڑدیں ۔ وہ نرم چارہ نہیں  ہیں  کہ کافرانھیں  آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔  انھیں  کسی خوف سے دبایانہیں  جاسکتا۔  انھیں  کسی ترغیب سے خریدانہیں  جاسکتا۔ کافروں میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ انھیں  اس مقصد ِ عظیم سے ہٹادیں  جس کے لیے سردھڑکی بازی لگاکرمحمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ (اورآپس میں  رحیم ہیں )یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں  ہے۔  اہل ایمان کے مقابلے میں  وہ نرم ہیں ،رحیم و شفیق ہیں ،ہمدردوغمگسارہیں ۔ اصول اور مقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی وسازگی پیداکردی ہے۔ ‘‘(ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگرکوئی شخص کسی مومن کی جان کے درپے ہوتوایسی صورت میں  اس کے لیے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رحم وکرم کی بھیک مانگنے کے بجائے دفاعی صورت اختیار کرنا لازمی ہو جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی جان اور  اپنے مال کی حفاظت کی خاطر دفاعی صورت میں  اگرکسی مسلمان کی جان چلی جائے تو اسلام نے اسے شہیدکا اعزاز بخشا ہے ۔  دفاعی صورت کے لیے قوت ضروری ہے اور اس کا صحیح استعمال جرأت وبہادری کے ذریعے ہوتاہے ۔
نبی کریمؐ نے اس تعلق سے اپنی امت کو بڑی ہی جامع بات بتائی جومعاشرے کی فلاح و بہبود اور  قیام امن وامان کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
المؤمن القوی خیرواحب الی اللہ من المؤمن الضعیف وفی کل خیر احرص علی ماینفعک واستعن باللہ ولا تعجزوان اصابک شیٔ فلاتقل انی لو فعلت کان کذا وکذاولکن قل قدراللہ وماشاء فعل فان لوتفتح عمل الشیطان   (مسلم)
’’مومن ِ قوی بہتر اور خداکے نزدیک محبوب ترہے مؤمن ضعیف سے۔ اور یوں تو ہر ایک میں  بھلائی اور خیرپایاجاتاہے۔ جو چیز تیرے لیے نافع ہو اس کا حریص ہو اور خداسے استعانت طلب کراور عاجز نہ ہو اور اگرتجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہہ کہ اگر میں  ایسا کرتاتوایسا ہوتا بلکہ کہہ کہ خدانے یہی مقدرفرمایا اور اس نے جوچاہا کیا، کیوں کہ ’’اگر‘‘شیطان کے کام کا دروازہ کھولتاہے۔ ‘‘ (مسلم)
مذکورہ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ ضعف اور کمزوری، خواہ ایمانی ہو یا جسمانی، کسی بھی صورت میں  پسندیدہ نہیں ہے۔  اس لیے اللہ کے نزدیک  مضبوط مؤمن کمزورسے بہتر ہے، کیوں  کہ اس سے دینی ودنیوی امورکے مصالح کاحصول ہوتاہے۔ ساتھ ہی خیر کی طرف رغبت اور  اس بھلائی کے حصول میں  کسی طرح کا عجزظاہر کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے۔  عجز ضعف کی علامت ہے جوانسان کو اپنے مشن میں  استقامت سے روکتی ہے اور اسے متزلزل کردیتی ہے۔  مومن کا یہ شیوہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کا پابندرہے اگرکامیابی ملی توفبہاورنہ توغم نہ کرے یہ من جانب مقدر تھا۔
صحت وتندرستی سے متعلق اسلامی تعلیمات
صحت وتندرستی انسانی قوت کا راز ہے ،جب کہ مرض اس کے لیے دیمک کی مانندہے جو انسان کی صحت کومتأثر کرتاہے۔ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوی ہو جس کے لیے اسے اپنی صحت کا بھرپورخیال رکھنا ہوگا۔ یہ صحت ایک نعمت سے کم نہیں  اس کا شکریہ ہے کہ اس کا خیال اور  اس کا صحیح استعمال کیاجائے۔
تنگ دستی اگرچہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس تعلق سے اسلامی تعلیمات کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگانا آسان ہو کہ آخراسلام صحت ومرض کے تعلق سے کیاتعلیم  دینا چاہتا ہے اور اس کا مقصد کیاہے؟جسم کو صحت مند، مضبوط اور طاقت وربنانے کے لیے غذا کے ساتھ ساتھ ورزش اور کھیل کود کی بھی ضرورت ہے ۔ اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے بچوں کو کبھی کھیل کودسے منع نہیں  کیا بلکہ اس کے کھیل کودکوپسند کیا۔ آپؐ نے اس مقصدکے تحت چند کھیل کی ہدایت فرمائی ہے۔ جس میں  دوڑ، تیراکی ، کشتی ،تیراندازی وغیرہ نمایاں  ہیں :
’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں  کہ میں  ایک سفرمیں  رسول اللہﷺ کے ساتھ تھی ہم دونوں  نے دوڑلگائی۔ میں  آگے نکل گئی۔  کچھ عرصہ کے بعد جبمیرا بدن فربہ ہوگیاتودوبارہ دوڑکامقابلہ ہوا۔  اس میں  آپ بازی جیت گئے ۔ فرمایایہ پہلے مقابلے کا بدلہ ہے۔ ‘‘   (ابوداؤد)
تیراکی سے متعلق آپؐ کا ارشادہے:’’ہروہ چیزجس میں  اللہ کا ذکر نہ ہو،لہوولعب ہے، سوائے چارچیزوں کے۔ آدمی کا اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرنا،اس کا اپنے گھوڑے کو سدھانا ،نشانات متعین کرکے ان کے درمیان چلنا اور تیراکی کی تعلیم دینا۔ ‘‘ (مناوی فیض القدیر:۵/۲۳۔ صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات: ۲۰۸ (
حضرت عمرؓنے حضرت ابوعبیدۃ جو شام کے گورنرتھےؓ کولکھا:
’’اپنے بچوں کو تیراکی کی تعلیم دواورجولڑنے کے قابل  ہوجائیں  انھیں  تیراندازی سکھاؤ۔ ‘‘ (مسند احمد ،صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات:۲۰۸)
اسلام نے ان تمام چیزوں کوناجائز ،مکروہ اور حرام قراردیاہے جو انسانی جسم کو کسی نہ کسی درجہ میں  بالواسطہ یا بلا واسطہ نقصان پہنچائے۔ کیوں کہ جسم بھی خداکی دی ہوئی ایک امانت ہے جسے ایک حدتک قوی اور بہتررکھنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ اسے عظیم مقاصدٖ(ٖزیرکفالت لوگوں  کی پرورش اور سربلندی ٔاسلام)کے لیے  کام میں  لایا جاسکے۔  اس لیے اسے ناجائز استعمال سے لاغراورناتواں کرنے کا ہمیں  کوئی حق نہیں ۔
ہمارے اسلاف نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں  نافذکیا اور  وقت کی نزاکت کے ساتھ اس راہ کو بھی اپنا یا جس کے لیے انھوں نے بے حد مشق کی ۔  آج ہندوستان آزاد ہے ،اگرتاریخ اٹھاکردیکھی جائے تو ہم بڑے فخرسے کہتے ہیں  کہ علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور خودمیدان میں  کودپڑے ، مسلمانوں نے علمائے کرام کا ساتھ دیا اور  اپنے خون سے اس ملک کوآزادکرایا۔ یہ اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے نہ صرف ظلم وبربریت کا ماحول گرم کیاتھا بلکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی پالیسی بھی تیارکی تھی ۔  ان کا جینا بھی مشکل کردیاتھا۔ ایسی صورت جب بھی پیش آئے گی اس کے لیے یکبارگی کوئی عمل سامنے نہیں  آتا بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے ۔ تاکہ ماحول کے مطابق مسلمان خود کو تیاررکھیں ۔
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
انسان اچھا ہو یا برا،درندہ صفت ہو یا نیک صفت شکل وصورت اور بناوٹ کے اعتبار سے یکساں  دیکھائی دیتاہے اور اس کے توالد وتناسل کا طریقہ  بھی ایک ہی طرح کا ہوتاہے جس کے سبب صحت ومرض بھی انسان کے جسم پریکساں  طورپر اثراندازہوتاہے مگرایک بڑا فرق ہے وہ یہ کہ اس کا عمل ،کردارجینے کا سلیقہ جو اسلام سیکھاتاہے جس سے انسان بہترین اور طاقت ور ہوتا ہے۔ اگراسلام کے ماننے والے اپنی بہتری اور بھلائی کے لیے اللہ کا حکم اور اس کے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑکرکوئی اور  طریقہ اپنائیں  یا چوپائے کی طرح بے مقصد اور بے چارگی کی زندگی گزاریں ، توپھران کو ذلت وپستی اور رسوائی سے کوئی نہیں  بچاسکتا،چہ جائے کہ وہ قوم کے فساد و بگاڑ کو روک سکے یا اس کامقابلہ کرسکے اور نہ کوئی اس کی مددکرسکتاہے۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں  بدلی
نہ ہو جس کو خیال، اپنی حالت کے بدنے کا

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...