Sunday 22 March 2015

Qiyadat aur Ehsas-e-zimmedari

 اور احساس ذمہ داریقیادت


انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:

ید اللہ علی الجماعۃ (ترمذی) جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

    اس لیے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ہے۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتۃ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔ عوام اس کی رہ نمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے آپؐ کا ارشاد ہے:



    اذاکان ثلاثۃ فی سفرفليؤمراحدہم (ابوداؤد)
جب تین آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔

    قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہ نما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گے، جانثاری کے جذبے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے۔ لیکن اگر اس کے برعکس سربراہ اگر خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے اور ؂ 
’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘
کے مصداق عایا کے مسائل سے آنکھیں موندلے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ 

    نبی کریمؐ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ (متفق علیہ)
    تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔

    احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپؐ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓامیرالمومنین ہیں ، بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کس مپرسی میں گزری ۔مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوں نے پوری دور اندیشی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔ قیصر وکسری کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں ،جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔

    تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سنگ والی بکری بھی بغیر سنگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی۔ جب کہ ان کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس ، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی۔مگر بہ حیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اس (قوم ) سے خدمت وصول کرنے کے لیے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لینا ہے۔ ٹھاٹ باٹ کے لیے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے ، جس کے لیے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں کیوں کہ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے ، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:


    إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا oیَاآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ (النساء:۵۸،۵۹(

    مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناًاللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امرہوں۔(النساء:۵۸،۵۹)


    پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:

لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ (ابن ماجہ)
    اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔

    دور حاضر میں پر غیر مذہبی رہ نما اور مذہبی رہ نماؤں کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان بگھارنے میں صرف کرتے ہیں۔ جب کہ قریب میں رہنے والا غربت اور استحصال کی چکی میں پستا ہے۔

    آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔

    جب کہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا۔ حتی کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔ 
    ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے ؂


مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

Thursday 26 February 2015

AAP se Musalman Khush Magar Maroob Nahin

عآپ کی کامیابی سے مسلمان خوش مرعوب نہیں

روم کے خلاف ایرانیوں کی زبردست فتح پر کفار مکہ خوش ہورہے تھے کہ وہ بھی بت پرست اور فارسی بھی مجوسی ہونے کے سبب آتش پرست تھے۔ جب کہ رومیوں کی شکست کے بعد دوبارہ اس کی فارس پر فتح کی پیشن گوئی پر مسلمانوں کا خوش ہونا مشرکین مکہ کے رد عمل میں تھا کہ رومی بھی اہل کتاب اور مسلمان بھی اہل کتاب تھے۔یہ خوشی اس لیے ہر گز نہ تھی کہ مسلمان رومیوں کی فتح سے مرعوب ہوگئے تھے اوراس خوشی میں مدہوش ہوکر وہ اپنا نصب العین بھول گئے تھے ۔
         واقعہ یوں ہے کہ صحابہ ؓنے عہد رسالت میں جب ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح کی پیشن گی خوشخبری قرآنی آیات کے ذریعہ سنی :
         الم ۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ (الروم:۱۔۵)
 حضرت ابوبکر ؓ کفار مکہ کے درمیان مذکورہ آیات بار بار پڑھ کر سناتے تھے۔اس پر مشرکین مکہ نے کہا :” تمہارا نبی کہتا ہے کہ اہل روم چند سالوں کے اندر فارس والوں پر غالب آجائیں گے کےا یہ سچ ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اس کے جواب میں کہا :” آپ نے سچ فرمایا“۔
         مشرکین مکہ نے کہا :” کیا تم اس پر ہمارے ساتھ شرط لگاتے ہو؟
         چنانچہ سات سال کے ساتھ چار جوان اونٹنیوں پر معاہدہ ہوگیا۔ ( یہ واقعہ شرط لگانے کی حرمت سے قبل کا ہے)
 جب سات سال گزرگیا اور کوئی واقعہ نہیں ہوا تو مشرکین بہت خوش ہوئے ۔ مگر مسلمانوں پر یہ بات شاق گزرنے لگی۔ جب اس بات کا ذکرآپ سے کیا گیا تو آپ نے دریافت کیا: ”تمہارے نزدیک بضع سنین (چند سالوں) سے کیا مراد ہے؟
ابوبکرؓ نے بتایا:” دس سال سے کم مدت ۔ “آپ نے فرمایا:” جاو ان سے مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ کرلو۔
          چنانچہ انھوں نے شرط میں اضافے کے ساتھ ان کے درمیان مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ طے کرلیا۔ابھی دوسال گزرے بھی نہ تھے کہ روم اور فارس دونوں کی باہم جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا۔اس سے مسلمانوں کی وہ خوشی دوبالا ہوگئی ،جس خوشی کا اظہار وہ چند سال قبل پیشن گوئی پر کر رہے تھے۔
          اس واقعہ کی تفصیل کے بعد مسلمان یقیناموجودہ حالات میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر خوش ہوگاجس نے ہزاروں بے قصور انسانوں کے قاتل ، ظالم و جابر اور انسان دشمن’ زبر‘ پارٹی کو اس کی پہچان بتا کر ’زیر‘کیاہے۔جس پارٹی نے سنامی جیسی لہر بن کر اس وحشی انسان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا،جوانسانیت کو منہ چڑھاتے ہوئے جھوٹی شہرت و مقبولیت کی بلند ی پر پہنچ رہا تھااورعام انسانوں کی جھونپوریوں کو خاکسترکرکے اس پر ظلم و بربریت کی فلک بوس عمارت کھڑی کر رہاتھا۔
         سبھی جانتے ہیں کہ یہ امر اتنا آسان نہ تھا مگر دنیا بھلے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ اچھی سوچ رکھنے والے اور اس پر جان نثار کرکے انسانیت کی بقااور اس کی تحفظات پر مرمٹنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جو جہد مسلسل کے ساتھ اپنے مشن کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی زور لگادیتے ہیں۔ جس کی مثال اکثر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
         یہ الگ بات ہے کہ لوگوں کو تشویش ہے کہ یہ کامیابی ایک وقتی کامیابی تو نہیں جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھنے کو ملاتھا۔پھربدعنوانی کو ہر سطح سے اکھاڑپھینکنے والی پارٹی اور ظلم کے خلاف عدل قائم کرنے کا عزم رکھنے والی پارٹی کی کامیابی کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ اس کی منصوبہ بندی کیا ہوگی؟ کس حدتک وہ فسطائی قوتوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگی؟یہ کچھ سوالات ہیں جن کا فی الوقت کوئی جواب قبل ازوقت ہوگا۔
         مگر اتنا تو ہے کہ جس دل میں ذرا سی بھی محبت ، انسان دوستی ہوگی اور وہ انسانوں کی جان کا احترام کریں گے وہ لوگ اب اس صورت حال میں کسی نہ کسی حد تک ظالم کا ساتھ دینے سے کترائیں گے اور اس کی سوچ بدلنے پر مجبور کریں گے کہ انسان کو انسان تسلیم کرتے ہوئے اس کے تحفظ،امن وامان کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے، جس کے لیے ماحول کو سازگار بنایاجاسکے۔اس لحاظ سے اس پارٹی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ اس کے اچھے کاموں میں تعاون بھی کیاجاسکتا ہے جو اسے آئندہ بھی کامیابی سے ہم کنار کری گا۔
         اس لحاظ سے جب بھی ظلم وجابریت پر انسانیت کی جیت ہوگی ۔ مسلمانوں کو یقینا خوشی ہوگی اور یہ خوشی مرعوبیت کی بنا پر نہیں بلکہ اس پارٹی کی نیک تمناوں عوام کی خدمت گزاری اور ایک اچھے مقصد کے لیے عام آدمی سے ربط وتعلق کی بنیاد پر ہے۔ اس  کے عزم وحوصلے کی قدردانی کی بنیادپر ہے جو کام عزم و حوصلہ اور سیاسی بیداری کے ساتھ مسلمانوں کے کرنے کا بھی ہے، جس کے لیے مسلمان اپنے مشن اور نصب العین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دینی فریضہ کی ادائیگی بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہیں ، تو انشاءاللہ من جد وجد کے تحت وہ بھی اس دنیا میں اپنے مشن میں غالب ہوںگے۔ ساتھ ہی اس پارٹی کو اسلامی تعلیمات سے روشناس بھی کرائی جائے جو دعوتی نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہوگا اور ہم اپنے اس مقصد کے حصول میں بھی بڑی مدد ملے گی ،جو مسلمان کی اصل خوشی کی بات ہوگی۔

Saturday 7 February 2015

Iman Sab se Badi Daulat


’ایمان‘ سب سے بڑی دولت

        ’ایمان‘ مسلمان کا وہ ہتھیار ہے ، جس سے وہ اپنے سب سے بڑے دشمن ’شیطان‘کا مقابلہ کرتا ہے۔اس لیے ایمان کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے، تاکہ شیطان سے مقابلہ آرائی آسان ہو۔ اس کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ایمان کی حقیقت سے آشنا ہوں، اس کی قدر وقیمت اور  لذت وحلاوت محسوس کرتے ہوں، اسے اپنی جان سے عزیزرکھتے ہوں۔ اگر ایمان قوی ہو تو دنیا کے مکر و فریب سے مومن کے قدم راہ حق میں ڈگمگاتے نہیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد اہل ایمان کے حوصلے کوبلند اور مضبوط بنا دیتاہے۔اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:
الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافـر(مسلم)
دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنت ہے ۔
جب حقیقت یہ ہو تو ایک مومن اس عارضی دنیا (جو اس کے لیے قید خانہ کے مانند ہے )کو اپنے لیے جنت کیسے تصور کرسکتا ہے، چہ جائے کہ اس کی رنگینی میں کھو کر اس کا ایمان کمزور ہوجائے جو اسے حقیقی جنت میں لے جانے والا ہے، جو اس دنیاسے بدرجہا بہتر ہے جس میں اسے ہمیشہ رہناہے۔
 قُلْ أَذَلِکَ خَیْْرٌ أَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُونَ کَانَتْ لَہُمْ جَزَاء  وَمَصِیْراً oلَہُمْ فِیْہَا مَا یَشَاؤُونَ خَالِدِیْنَ کَانَ عَلَی رَبِّکَ وَعْداً مَسْؤُولاً o  (الفرقا: 16-15)
ان سے پوچھو یہ انجام اچھا ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو ان کے عمل کی جزا اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی، جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہوگی ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمہ ہے، ایک واجب الادا وعدہ ہے۔
’ایمان‘ انسان کی بڑی دولت ہے ۔اگر کسی کے پاس کچھ سرمایا نہ ہو ،بظاہر وہ  غربت کی زندگی جی رہاہو مگر اس کے پاس ایمان ہے تو وہ سب سے بڑا مالدار ہے۔ اس کے پاس دنیوی خزانے کی کنجی نہ ہو مگر نجات کی چابی اس کے پاس موجودہے۔ اس کے برعکس ایک شخص خواہ کتنا ہی مالدار ہو، دنیا کی ساری نعمتیں اور آسائشیں اس کے پاس فراہم ہوں مگراس میں ایمان نہ ہوتو وہ تاریک اور ویران گھر کے مانند ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سماجی طور پر معمولی سمجھا جانے والا مسلمان، جس کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگارہا ہو، مشکلات کا سامنا پامردی سے کرتا ہے۔ اسے سب منظور ہوتاہے مگرپر فریب دنیا کی چمک دمک سے مرعوب ہوکرایمان کا سودا کرنا منظور نہیںہوتا۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمان ہی تھا جس کی بدولت مسلم فوج نے بحر ظلمات میں گھوڑے ڈال دیے ، واپسی کا خیال تک دل میں نہ آیا اور کشتیاں جلادی گئیں۔مگر ان پرکوئی غم اورپژمردگی طاری نہیں ہوئی ان کے سامنے کامیابی و کامرانی کا ضامن اللہ کا فرمان تھا:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
تم نہ دل برداشتہ ہو اورنہ غم گین ہو،تم ہی سربلندرہوگے بشرط کہ تم مومن ہو
جس اہل ایمان کا مقصد دائمی زندگی کی فلاح و نجات ہو ،وہ خوشنودیٔ رب کے طلب گار ہوتے ہیں ۔ وہ صرف کلمہ گو نہیں بلکہ عملاً بھی حق کی گواہی دیتا ہے۔حضرت خبیب بن عدیؓ جنھیں مکہ سے باہر ’ تنعیم ‘میںان کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے پھر سولی پر لٹکا دیا گیا۔حضرت سمیہ ؓ کو نیزہ مار کر شہید کردیا گیا حضرت عمارؓکو زد و کوب کیا گیا،بلال ؓ کو تپتی ریت پر لٹانے کے بعد بھاری پتھر ڈال کر اذیتیں دی گئیں مگر انھوں نے اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا۔حضرت صہیب رومی ؓ جب ہجرت کرکے مدینہ جانا چاہتے تھے کفار مکہ نے ان کے تمام مال و اسباب سب پر قبضہ کرلیا مگر حضرت صہیب رومیؓ کو ذرا بھی افسوس نہیں ہوااورخالی ہاتھ مدینہ منورہ چلے آئے ، آپ ؐ نے ان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تین بار یہ ارشاد فرمایا:
ربح البیع یا ابایحیی!       ’’ابویحیی ! یہ تجارت تمہارے لیے بہت نفع بخش رہی‘‘
انسان کی فطرت ہے کہ وہ چیزوں میں لذت اور ذائقہ تلاش کرتا ہے ،جب وہ لذت شناس ہوجاتا ہے تو پھر اس کا دلدادہ ہو جاتاہے۔ ایمان بھی اپنے اندر ایک خاص لذت رکھتا ہے، مگر یہ لذت ہر شخص کو میسر نہیںہوتی، جیسے ایک بیمار شخص کو لذیذ سے لذیذ چیز دے دی جائے مگر وہ اس کی لذت سے محروم رہتا ہے۔ ایمان کی لذت کون حاصل کرسکتا ہے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاہے:
ثلاث من کن فیہ وجد بہن حلاوۃ الایمان،  ان یکون اللہ و رسولہ احب الیہ مما سواہما، وان یحب المرء لایحبہ الا للہ، و ان یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یقذف فی النار
’’جس شخص کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ان کے سبب ایمان کی حلاوت کو پالے گا۔ ایک: جسے اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہو،دوسری: اللہ ہی کی خاطر بندوں سے محبت کرتا ہو اورتیسری: جسے کفر میں لوٹنا ایسے ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینکا جانا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اس حدیث میں حلاوت ایمان کے حصول کے لیے تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اگر ان کا لحاظ رکھا جائے اور ایمان کے تقاضوں پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو تو وہ دین کے کام کو بخوبی انجام دے گا جس کے نتیجے میںاس پر ایمان کے ثمرات مرتب ہوں گے اور وہ ایمان کی چاشنی کو محسوس کرے گا۔
امام نووی ؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں ایمان کی لذت کو حقیقی لذت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ علماء کے نزدیک ایمان کی چاشنی اطاعت ربانی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ دنیا کی زندگی کواطاعت الٰہی پر نچھاور کردینے کا جذبہ رکھتے تھے۔یہ حلاوت ایمان کا اثر ہے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ ایمان کی چاشنی اور اس کی لذت سے محظوظ ہو تو اسے فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ پھر وہ اللہ کا بے حد محبوب ہوجاتاہے۔کوئی مؤمن جس کی مذکورہ کیفیت ہو اور وہ ان ایمانی صفات سے متصف ہو اور اللہ کا قرب حاصل ہوتو اسے ایمان کی حلاوت کا حاصل ہونا لازمی امرہے۔ نبی کریم ؐنے ایمان کی لذت کے حصول کے بارے میں دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایاہے:
ذاق طعم الایمان: من رضی باللہ ربا، و بالاسلام دینا، و بمحمد نبیا و رسلا
’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو پروردگار مان کر ،اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو رسول مان کر راضی ہوگیا۔ ‘‘ (مسلم)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی لذت کے لیے اللہ کو خالق و مالک ماننا اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کرناضروری ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ آپ ؐ سے محبت کی جائے،آپؐ دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوں اور محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ؐ کی مکمل اقتدا کی جائے اور اسلام کی دعوت جسے لے کرآپؐ مبعوث ہوئے ،اس کو عام کیاجائے۔یہ وہ کیفیت ہے جس سے ایمان کی چاشنی ملتی ہے اور اس کی لذت حاصل ہوتی ہے۔
 بہت سی ایسی چیزیں ہیں جس سے ایمان کمزور ہوتاہے۔ اس کے متعلق احادیث وارد ہوئی ہیںمثلاًآپ ؐ کا ارشاد ہے:
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ  (ابن ماجہ)
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔
ماآمن بی من بات شبعان  وجارہ جائع (ترمذی)
وہ مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو خودتوسیرہوکرکھائے اورمزے کی نیندلے اوراس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ 
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ                                         
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن(کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروںکے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔‘‘(متفق علیہ)
لا یستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ ،ولا یستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ 
 بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہ رہے گا جب تک اس کا دل درست نہ رہے ، اوراس کادل اس وقت تک درست نہیں رہتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔(مسند احمد)
لا یزنی الزانی حین یزنی وہو مومن ،ولا یشرب الخمر حین یشرب وہو مؤمن، ولا یسرق حین یسرق وہو مؤمن، ولا ینتہب نہبۃ یرفع الناس الیہ فیہا ابصارہم حین ینتہبہا و ہو مؤمن۔    
’’زنا کرتے وقت زانی مومن نہیں رہتا اورنہ شراب پیتے وقت وہ مؤمن رہتاہے۔ اسی طرح چوری کرتے وقت وہ مؤمن نہیں رہتااورنہ اس وقت مومن رہتاہے جب کسی کا مال لوٹتاہے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔  (بخاری)

اس لحاظ سے ایمان مسلمانوں کی سب سے بڑی دولت ہے ۔اس کے لیے محض زبان سے اقرار اور دل میں عقیدت کا سرسری جذبہ کافی نہیں ہے ۔ تاآنکہ ایمان کی حفاظت نہ کی جائے اور عمل سے گواہی  نہ دی جائے ۔ ہر وہ تقاضا جوایمان کے منافی ہے، تو مردانہ وار اس کامقابلہ کیا جائے۔ یہ چیز حلاوت ایمان کی کیفیت کا عملی مظہر ہے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...