Sunday 15 May 2016

Behtareen Insan Video The Best Man

INTRODUCTION Book: ( Personality Development In light of Islam ) ''شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی تبصرہ

INTRODUCTION My Book ''Shakhsiyat ki Tameer Islam ki Raoshni Men'

باسمہ تعالیٰ

نام کتاب : شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی

مؤلف : جناب مولانا محب اللہ قاسمی

ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔۲۵
MARKAZI MAKTABA ISLAMI PUBLISHERS
D-307, Dawat Nagar, Abul Fazl Enclave, 
Jamia Nagar, New Delhi-110025
Phone: 91-11-26981652, 26984347
صفحات:  ۱۳۴ قیمت:  ۷۵ روپے
تبصرہ نگار: اشتیاق احمد قاسمی،استاذ دارالعلوم دیوبند

     اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی ہدایت و رہنمائی کے ذرائع پیدا فرمائے۔ ایک تو انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ دوسرے ان کے ساتھ ہدایت نامہ عنایت فرمایا، واسطہ حضرت جبرائیل کا بنایا، انبیائے کرام کی صحیح تعداد صحیح رویات میں مروی نہیں، اسی طرح سے ہدایت ناموں(صحائف) کی تعداد بھی متعین نہیں۔ گویا بے شمار انبیائے کرام کو بے شمار صحائف عنایت فرمائے، تاکہ ان کی روشنی میں اپنی اپنی امت کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائیں۔ بڑی بڑی کتابیں چار بڑے بڑے پیغمبران پر نازل فرمائیں، غرص یہ کہ اللہ تعالی نے کتاب اللہ کے ساتھ رجال اللہ کا سلسلہ قائم فرمایا، رجال اللہ کا سلسلہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا اور کتاب اللہ کا سلسلہ قرآن پاک پر مکمل ہوگیا، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت ، و رہنمائی کے لیے آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ کافی ہیں، انھیں سے شخصیت کی تعمیر ہوگی اور ہوتی رہے گی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس موضوع کی محنت ،تقریر و تحریر دونوں گوشوں سے اہل علم کرتے رہے ہیں۔

ابھی میرے سامنے جناب محب اللہ قاسمی صاحب کی کتاب ہے۔ موصوف نے ہدایت انسانی کے لیے اس کی تصنیف کی ہے، مختلف موقعوں سے اخبارورسائل میں تذکیری مضامین لکھے ہیں، اس میں ایمانیات اور اخلاقیات سے متعلق اسلامی تعلیمات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔ یہ کتاب ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔پوری کتاب پر نظر ڈالنے کے بعد بڑی خوشی ہوئی کہ نوخیزقلم کار نے اپنے سوز دروں کو نہایت ہی سلیقے سے سپرد قرطاس کیا ہے، ان کو پڑھ کر قارئین متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔بہترین انسان بننے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے اور کن کن بہیمی صفات کو اپنا کر انسان بدترین بن جاتا ہے ، تخلیہ اور تحلیہ کی اصطلاح کو ذکر کیے بغیر مصنف نے اس موضوع کو تمام قارئین کے لیے بالکل آسان زبان میں لکھا ہے، زبان رواں دواں اور اسلوب متانت آمیز ہے۔

تصوف اور احسان کے موضوع کو تزکیہ ٔ نفس کے عنوان سے لکھا ہے، زندگی میں انقلاب صرف کتاب سے نہیں برپا ہوتا ہے، اس کے لیے صحبت صالحین بھی اسی قدر ضروری اور لازمی ہے۔ مذکورہ کتاب میں اس پہلو پر خاطر خواہ نہیں لکھا گیا۔ صفحہ نمبر ۴۴پر تھوڑا سا مواد ہے، مگر جس موضوع پر کتاب ہے ، اس میں اتنی مقدار کافی نہیں ہے۔ضروری تھا کہ اس کی حیرت انگیز انقلابی تاثیر پر بھی مواد اکٹھا فرما کر قارئین کو محظوظ کرتے ۔

اللہ تعالی موصوف کی محنت کو قبول فرمائے اور زبان و قلم سے دین حنیف کی خدمت کی توفیق بخشے۔کتاب کتابت ، طباعت، ٹائٹل اور زبان و بیان کے لحاظ عمدہ اور قابل قدر ہے۔ امید ہے کہ قارئین کی بارگاہ میں محبوبیت کا شرف حاصل کرے گی۔ و باللہ التوفیق!

Wednesday 4 May 2016

ظلم سے نفرت عدل سے محبت Hate evil, love justice

ظلم سے نفرت عدل سے محبت
                                                                      محب اللہ قاسمی
اس وقت دنیا کے حالات بہت ہی خراب ہیں۔ ایک طرف فرقہ پرستی کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف عیش و عشرت میں ڈوبی قیادت جسے انسانوں کے امن وامان اور فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں۔ جس کے نتیجہ میں ایسا ماحول بناہوا ہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھاجاتا۔ عدل و انصاف کا فقدان ہے۔ انسانیت اور ہمدردی گویا ختم ہوتی جارہی ہے۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جارہی ہیں۔ عام شہریوں پر بم برسائے جارہےہیں۔ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے ہیں جن پر اسپرے کرکے بڑی بے رحمی سے انھیں دائمی نیند سلایا جارہاہو۔ عبادت گاہیں منہدم کرکے ان پر قبضہ جمالیاجاتا ہے۔ بے قصورلوگوں کو ملزم بنا کر قید کیا جارہاہے، پھرانھیں ناکردہ جرم کی پاداش میں انسانیت سوزتکالیف کا سامناکرنا پڑتاہے، انصاف کی عدالت سے جب تک بے گناہ ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا تب تک ان میں سے کچھ انسان تو اپنی زندگی کی آدھی عمراندھیری کوٹھری میں بتاچکے ہوتے ہیں جب کہ کچھ انصاف کی امید میں اس جہاں کو الوداع کہہ کردنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
مگر نہ عدالت پوچھتی ہے کہ ان بے قصوروں پر جھوٹا الزام لگا کر اتنے عرصے تک جیل میں کیوں رکھا گیا اور نہ ان افسران کو اس گھٹیا حرکت پر سزا دی جاتی ہے۔ جب کہ وہ ملزم عدالت سے باعزت رہا ہوکر بھی سماج میں بے عزت اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آخر کیوں ؟
عدالت پر اسی لیے تو بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہاں سے سب کو انصاف ملے گا مگر غور کیا جائے تو کیا یہ انصاف ہے؟

اگر نہیں ! تو ہمیں عدالت سے انصاف واقعی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ اگر یہ مجرم نہیں ہے تو پھر ان واقعات و فسادات کے پیچھے کوئی تو مجرم ہے پھر اصل مجرم کو کیوں نہیں سامنے لایا جاتا تاکہ واقعی انصاف ہوسکے۔ ساتھ ہی ان قائدین کو جنھوڑنا چاہیے جو ہماری امن و حفاظت اور فلاح بہبود کی قسمیں کھا کر اقتدار کی سیج سجائے سوررہے ہیں۔
اس ظلم کے خلاف اجتماعیت کے ساتھ آواز لگانے کی ضرورت ہے ۔ ایسی آواز جو ہمارے قائدین کو خواب غفلت سے بیدار کرسکے اور ظالمین کو ظلم سے روک سکے اور مضبوط عدلیہ کے ساتھ انصاف کو بلندی حاصل ہواور ظلم کا خاتمہ ہوسکے۔ ورنہ ہم آپس میں ہی اختلاف و انتشار کے شکار رہیںگے جس کی وجہ سے آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیںگے اور یک بعد دیگرے ہم سب ظلم کا نوالہ بن جائیںگے۔
اللہ ہم سب کی حفاظت کرے ظلم سے نفرت اور عدل سے محبت کی توفیق دے۔

Tuesday 16 February 2016

راعی، رعیت اور احساس ذمہ داری Pastor, people, and sense of responsibility


راعی، رعیت اور احساس ذمہ داری

انسانوں کے درمیان باہمی ربط و تعلق کا ہونا فطری عمل ہے۔ کوئی انسان تنہااور دوسروں سے الگ تھلک رہ کر زندگی نہیں بسرکرسکتا ہے۔خواہ معاش و معیشت کا مسئلہ ہو یا امن و حفاظت کا، اسے لازما باہمی تعاون کی ضرورت ہوگی، وہ ضرورت مند ہوتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ خیر خواہی اس کی نگہبانی کرے اور وقت ضرورت اس کی مدد کرے ۔ایسے شخص کو ’راعی‘کہتے ہیں اورجس کی حفاظت نگہبانی کی جاتی ہے اسے  ’رعیت‘ کہتے ہیں۔یہ زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے۔ایک مشہورحدیث میں اس کی بھرپور وضاحت کی گئی ہےجو بخاری و مسلم کے علاوہ احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی آئی ہے۔اللہ کے رسول  نے ارشاد فرمایا:
 " كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔(بخاری)
’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت لوگ اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔امیر اور خلیفہ ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مرد اپنے اہل خانہ کا ذ مہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اوراس سے اس کی ذمہ داری سے متعلق بازپرس ہوگی۔ خادم اپنے آقا کے ساز و سامان کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی نگرانی سے متعلق باز پرس ہوگی۔ پس ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت افراداور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ ‘‘
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ،ؓ جو خلیفہ ثانی حضرت عمربن الخطابؓ کے صاحب زادے ہیں ،نوعمری میںمشرف بہ اسلام ہوگئےتھے۔اپنے والدمحترم کےساتھ ہجرت کی ۔ جنگ احد میں شرکت کی اجازت چاہتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سےاجازت نہیں دی تھی۔پہلی جنگ، جس میں آپ شریک ہوئے، جنگ خندق ہے۔آپ بچپن سے ہی ذہین اورسریع الفہم تھے۔اس دور میںکتاب و سنت کے مشہورجید علما میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ زہد وتقوی میں بھی آپ بہت مشہور تھے۔ آپ ہر نماز کے لیے وضو کرتے اور وضو اور نماز کے درمیان اکثر تلاوت کرتے ۔دوران تلاوت آپ بے ساختہ روپڑتے۔ آپؓبڑے مجاہد بھی تھے۔ آپؓ نے بہت سی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کی ہیں اور اپنے والد اورحضرت ابوبکرؓ اور اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ کے واسطے سے بھی نقل کی ہیں۔آپ سے مروی کل روایات ۲۶۳۰ ہیں۔جن میں سے ۱۶۸؍روایات بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔ حضرت امام مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ۶۰سال تک آپ مدینہ میں تشنگان علوم کی پیاس بجھاتے رہے۔آپ ؓنے ۸۷؍سال کی عمرپائی ۔۷۳ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔ اللہ آپ سے راضی ہو اور آپ کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
اسلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے جوفطرت کا تقاضا ہے۔اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو ذمہ داری کا احساس ہو۔حدیث بالا سے جہاںاسلام میں حکومت و امارت کا تصورواضح ہوتا ہے اور حکمرانوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ وہیںیہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تمام انسان بہ حیثیت انسان ذمہ دارہیں۔ ان سےان کی رعیت(ماتحت افراد) کے سلسلے میں بازپرس ہوگی۔
راعی‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ’چرواہا‘ہے ۔یہاں اس سے مرادفرض شناس ذمہ دار ہے۔جس طرح چرواھےکی ذمہ داری ہے وہ اپنے جانوروں کوچرانے کے لیے سبز چراگاہوں میں لے جا ئے، درندوں ، چوروں رہزنوں سے ان کی حفاظت کرے اور شام کو گھر واپس لائے تو مناسب جگہ پر باندھے اور انکی دیکھ بھال اور پوری نگرانی کرے۔
امیر ،خلیفہ اورحاکم وقت بہ حیثیت خلیفہ اور حکمران عوام کا محافظ اور نگراںہوتاہے۔ ان کی ضروریات کی فکرکرنا اورانھیں خدشات و خطرات اور مشکلات سے محفوظ رکھنا ،اس کی ذمہ داری ہے ۔ ایسا کرنے پر ہی رعایہ اور عوام پرامن اور خوش حال زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔لیکن   اگر وه لاپروائی کرے گا تو وہ الله کے نزدیک مجرم اورسزاکا مستحق ہوگا ۔ رعایہ کے ذمہ ان کی سمع و طاعت واجب قرار دی گئی ہے۔ اگر وہ کسی شر اور برے کا حکم نہ دے بلکہ اچھے اور خیر کے کاموں کاکوئی حکم دے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ   (النسا:59)
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں ۔
 حاکم وقت پر کچھ ذ مہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن کا وہ جوابدہ ہے مثلا:اس کا فرض ہے کہ وہ دین کے ان اصولوں اور بنیادی باتوں کی حفاظت کرے۔لڑنے، جھگڑنے والوں پر اسلامی احکام کو نافذ کرےان کی لڑائی کا خاتمہ کرکے تاکہ انصاف کا چلن ہو۔ساتھ ہی وہ دشمنوں کے مکر و فریب پروپیگنڈوں سے بھی واقف رہے ۔عوام کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، اسلامی ملک کی حدود کو دشمنوں سے محفوظ رکھے تاکہ لوگ معاش کے سلسلے میں امن و اطمینان کے ساتھ نقل و حرکت کرسکیں اور سفر میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی حدود جاری کرے،تاکہ اللہ کی قابل احترام چیزوں اور احکام کی حفاظت کی جائے اور ان کی بے حرمتی نہ ہو اور بندگان خدا کے حقوق ضائع اور برباد نہ ہوں۔طاقتور فوجی تیارکرےاور مضبوط دفاعی انتظام کے ذریعہ سرحدوں کو محفوظ کرے، تاکہ دشمن کسی بھی سرحد پر دست درازی نہ کرسکے اورخون ریزی کو روکا جاسکے۔مال غنیمت اور صدقات کو شریعت کے مطابق بلاکسی زیادتی کے وصول کیا جائے ۔بیت المال سے لوگوں کو جو حق پہنچتا ہو، اس کے مطابق بلاکسی کمی و بیشی ، تقدیم و تاخیرکےدیا جائے۔باصلاحیت امانت دار لوگوں کو کام پر لگایاجائےتاکہ کام ٹھیک ٹھیک انجام پائیں اور مال محفوظ ہوں۔رشتہ داریا تعلقات کی بنیاد پر وہ ذمہ داریوں کو نہ تقسیم کرے کہ بلکہ اسے امانت تصور کرتے ہوئے اس کی اہلیت رکھنے والوں کو ہی اس کا ذمہ دار بنائے ، ورنہ سے خیانت سمجھا جائے گا ۔
حاکم بذات خود کاموں کی نگرانی کرے اور حالات کی تحقیق کرتا رہے تاکہ امت کی قیادت اور ملت کی حفاظت کا فکر واہتمام باقی رہے۔ لذت کوشی اور عیش و آرام میں پڑ کر یا عبادت میں مشغول ہوکر اپنی ذمہ داری سے غافل نہ ہوجائے۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ حاکم وقت کاموں کو مختلف شعبہ جات میں تقسیم کرکے ان کے ذمہ داروں کے حوالے کردیتا ہے جو کام کو برقت اور بہتر شکل میں انجام دینے کے لیے ضروری ہے مگر سستی اور غفلت کے سبب یا دنیا کی چمک دمک سے مست ہوکر خواہش نفس کا شکار ہوجاتے ہیں۔پھر وہ نگرانی باقی نہیں رہ جاتی جس کے سبب بہت سے معاملات خراب ہو جاتے ہیں ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ    26؀ۧ
 ’’ اے دائود ؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے ‘‘ (ص:26)
درج بالا ذمہ داریوں کو اگر حاکم وقت پابندی سے نبھائےاور پوری دیانت داری سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوں۔ جس کا نمونہ آپ نے پیش کیا تھا ،جسے خلفائے راشدین کے دور میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھرایسا حاکم اور ذمہ دارقیامت کے دن رحمن کے عرش کے سایہ میں ہوگا جب کہ کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا۔ رعیت اپنے اس حاکم کے زیر سایہ پرامن اور خوشحال زندگی بسرکرسکے گی ،جو اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق میں درج ہیں۔
ایک مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ۔ اس کے ذمہ اہل خانہ کی کفالت ، ان کی تربیت، ان میں دینی شعور بیدار کرنا، ان کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہود کے ساتھ ان کی بنیادی ضرورتوں کا خاص خیال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔اس کے لیےاگر وہ صحت مند ہےتواس کا محنت مزدوری کرکے حلال رزق حاصل کرنا جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی کفالت کرے اس پر واجب اور ضروری ہے۔اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھتا تو اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کو تاہی کرنے والا ہوگا۔
اسی طرح عورت بھی ذمہ دار ہے ۔شوہر کے گھرمیں موجود نہ ہونے پر اس کے مال و اسباب کی حفاظت ، بچوں کی پرورش اور ان کی نگرانی کی ۔ اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھتی تو وہ اپنی ذمہ داریوںکے  تئیں غیر محتاط سمجھی جائے گی ۔اس سے بھی روز قیامت باز پرس ہوگی۔گھر کا خادم ، نوکر اور وہ سب جو ان کے ما تحت ہیں ، ان سے بھی باز پرس ہوگی کہ وہ اپنے مالک کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتا ہے، کس حد وہ اپنی ذمہ داریوں کواداکر رہا ہے ۔ وہ اپنے کام وقت پر انجام دے رہا ہے۔
اس کے علاوہ حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے احساس ذمہ داری کو بیدار رکھے اور وہ جس درجہ میں بھی ذمہ دار ہے اپنی ذمہ داری کے باز پرسی کا خیال رکھتے ہوئے اسے حسن خوبی اپنا کام انجام دے۔اللہ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو بہ حسن خوبی انجام دینے کی توفیق بخشے ۔



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...