Saturday 25 June 2016

Nanha Rozedar


ننھا روزہ دار


       اس رمضان میں ایک بچہ جس کے والد کے پاس تراویح کے بعد گھر سے مس کال آئی۔کال بیک کرنے پر پتا چلا فون پر اس کی ماں یعنی بچے کی دادی تھی۔ گھر کے حال و احوال پوچھے۔ سب خبر خیریت لی۔ پھر انھوں نے بچے یعنی اپنے پوتے کا سارا قصہ بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ 

       بتانے لگی رفیع اللہ پابندی سے شوقیہ کھانے کے لیے سحری میں اٹھتا اور سحری کھا کر سو جاتا تھا ۔اسی طرح ایک دن وہ اٹھا پھر سحری کرکے پورے دن کے روزہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا جب اسے کھانا دیا گیاتو وہ اسے لے کر کمرے میں چلا گیا اور ہاتھ گیلا کر کے باہر نکلا پھر کچھ دیر بعد اس نے کھانا چھپا کر بکری کو کھلا دیا۔جب عصر کا وقت ہوا، اس کی آواز پست، جسم گرم اور چہرہ مرجھانے لگا، سب کو لگا گرمی کی چھٹی ہے دھوپ میں کھیلتا رہتا ہے اسی لیے ایسا ہوا ہوگا۔

        خیر اسے بستر پر لٹا دیا گیا اور تنبیہ کی گئی کہ دھوپ میں نہیں نکلنا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ یہ چھوٹا معصوم بچہ روز ہ سے ہے۔

        وقت اس بچے کے لیے کچھوے کی رفتار میں منزل کی طرف بڑھ رہا تھا حسب معمول افطار لگایا گیا بچے دسترخوان کے ارد گرد جمع ہو گئے تبھی اس کے دوست نے اپنی امی سے پوچھا: رفیع اللہ کہاں ہے؟
        امی نے جواب دیا اسے بخار ہو رہا ہے ،اس لیے لیٹا ہوا ہے اور تم بھی سن لو سارا دن ادھر ادھر دھوپ میں کھیلتے رہتے ہو اب گھر سے باہر نکلنا بند!

        یہ سب سن کر اس نے کہا ...ماں! وہ تو .....روزے سے ہے!! اور تیزی سے اس کے کمرے کی طرف دوڑا۔ ور اس کے پاس جا کربولا رفیع ..رفیع ..چل اب ٹائم ہونے والا ہے..! 

       یہ سنتےہی اس کے جسم میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی وہ تیزی سے دسترخوان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ گھرو الےاسے کچھ کہتے مؤذن صاحب نے اللہ اکبر کی آواز لگا دی۔ اس آواز نے سب کو روزہ کھولنے میں مصروف کر دیا...! 


Thursday 9 June 2016

رمضان المبارک اور معمولات نبوی ؐ Ramzan aur Mamulat Nabi


رمضان المبارک اورمعمولات نبوی ؐ
                                                               محب اللہ قاسمی

     ماہ رمضان المبارک اپنے ساتھ بے شمار فضائل و برکات لیے ہوئے ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاپاتے ہیں جو اپنے معمولات زندگی میں  تبدیلی لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں  یا جو پیارے رسول حضرت محمد  ﷺ کی حیات طیبہ اور معمولات کواپنی زندگی میں  جاری کرنے  کے خواہاں  ہوتے ہیں ۔ نبی ؐ کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے ۔ہمیں  چاہیےکہ رمضان المبارک میں  آپ کے معمولات کو جانیں  اور ان پر عمل کرکے اپنی زندگی میں  تبدیلی لائیں  ، کیوں  کہ ہم اس ماہ میں  اپنی تربیت پر جس قدرتوجہ دیں  گے اسی قدر دیگر مہینوں  میں  بھی ہم اللہ کی رضاجوئی اور اس کے احکام کی پابندی کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارسکیں گے۔
     اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے سے ہی رمضان کی تیاری میں  مصروف ہوجاتے تھے۔چنانچہ آپؐ معمول سے زیادہ عبادت و ریاضت کا اہتمام شروع کردیتے تھے۔ شعبان کے آخری راتوں  میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں  رمضان کی آمدکی خوشخبری سناتے ۔
آپؐ کایہ بھی معمول تھا کہ صحابہ کرامؓ کو رمضان کی خوش خبری دیتے تھے ۔ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں  کہ نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :
’’رمضان کا مہینہ آچکا ہے، جومبارک مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے ہیں ۔اس ماہ میں  جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں  اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں شیاطین کو باندھ دیاجاتاہے۔اس ماہ مبارک میں  ایک ایسی بابرکت رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے ،جواس ماہ مبارک کی سعادتوں سے محروم ہوگیا تووہ محروم ہی رہا۔ ‘‘(احمد ،نسائی)

چاند دیکھنے کا اہتمام
     رمضان کی تاریخ کا پتہ لگانے کے لیے چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا ضروری ہے ۔ اس کے پیش نظر نبی کریمﷺ کا معمول تھا کہ آپ صحابہ کرامؓ کو لے گاؤں  کے باہر کھلی جگہ  جاتے اور چاند دیکھتے اور دوسروں  کوبھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔
لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ "  فی روایۃ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، إِلَّا أَنْ يُغَمَّ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ۔(متفق علیہ(
’’جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ رکھنا شروع نہ کرو، او ر جب تک (شوال کا) چاند نہ دیکھ لو افطار نہ کرو(روزہ ختم نہ کرو)پھر اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سےچاند تم کو نظر نہ آئے تو اس کا اندازہ کر لو۔ دوسری روایت میں  یہ الفاظ آئے ہیں ۔ ’’مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ پس روزہ رکھنا شروع نہ کرو جب تک کہ (رمضان کا) چاند دیکھ لو۔ اگر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ تم کو نظر نہ آئے تو (شعبان کے ) تیس دن پورے کرو۔(متفق علیہ(
     پتہ چلا کہ رویت ہلال کی بڑی اہمیت ہے۔ ضروری ہے کہ چاند دےکھنے کا اہتمام کیا جائے، محض کلنڈرپر بھروسہ کرلینا درست نہیں ۔

روزہ کا اہتمام
     یوں  تو آپ ؐ ہر ماہ ایام بیض کے روزوں  کا اہتمام کرتے تھے اور شعبان کے مہینہ میں  بہ کثرت روزہ رکھتے تھے، مگر رمضان کے پورے مہینے کا روزہ رکھتے۔ جب سے اس مہینے کے روزوں  کی فرضیت نازل ہوئی تب سے تاعمر آپ نے ماہ رمضان کے مکمل روزہ کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ کے روزہ کی فضیلت اور بلاعذر اس کے ترک کرنے کی ممانعت اور وعید بھی سنائی۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:
 مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِْبِهِ (متفق علیہ(
’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب(ثواب کی امید) کے ساتھ، اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں  گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔‘‘(متفق علیہ(
     روزہ ایک ایسا عمل ہے جو  بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے۔ کیوں  کہ کوئی دنیا کو دکھانے کے لیے کسی کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے مگر تنہائی میں  کھاپی سکتا ہے۔اس کے باوجود وہ صرف اس لیے ایسا نہیں  کرتا کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ اس لیے وہ شیدید گرمی میں  پیاس کی شدت کو برداشت کر لیتا ہے ، بھو ک کی بے چینی کو جھیل لیتا ہے مگر پانی کا ایک قطرہ یا کھانے کا کوئی لقمہ وہ اپنے گلے سے نیچے نہیں  اتارتا۔ آپ ؐ نے روزے کے اجر کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْك (بخاری(
’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہوتاہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لیے ہے اورمیں  ہی اس کا بدلہ دوں گا۔بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لیے چھوڑدیتاہے۔‘‘  (بخاری(
     نبی کریمﷺ حالت روزہ میں  مسواک کرتے،سرمہ لگاتے، وضوکے دوران ناک میں  پانی ڈالتے ، کلی کرتے، البتہ مبالغہ سے بچتے تاکہ پانی حلق سے نیچے نہ اترآئے۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ان سب چیزوں  سے روزہ نہیں  ٹوٹتا جب تک کہ کوئی شخص اختیاری  طور پرقدرتی راستے سے کو ئی چیز پیٹ حلق یا دماغ داخل نہ کر لے۔ بھول کر کوئی شخص کچھ کھا پی لے تو اس سے بھی روزہ نہیں  ٹوٹتا۔

حالت روزہ میں  مکروہات سے اجتناب
     روزے کی حالت میں  جائز چیزوں  (کھانے ،پینے اور بیوی سے جنسیتعلق)کے استعمال پر اللہ نے روک لگادی ہے۔یہ اس بات کی تربیت ہے کہ انسان بقیہ تمام حالتوں  میں  بھی اللہ کے احکام کی پابندی کرے گا۔ پھر روزہ رکھ کر انسان برے اور گندے کام کرے اس کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے۔ روزے میں  تو یہ اور بھی ناپسندیدہ عمل ہوجاتاہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے روزے کی حالت میں  ایسے عمل سے بچنی کی سختی سے ہدایت دی ہے۔ آپ ؐکا فرمان ہے۔
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ "(بخاری(
’’جس نے جھوٹ بولنا اورغلط کام کرنا نہیں  چھوڑا ،اللہ تعالی کو ایسے شخص کے روزہ کی حالت میں  کھانا پینا چھوڑنےکی کوئی ضرورت نہیں  ہے۔‘‘
     اسی طرح آپؐ نے غیبت ، چغلی ،جھگڑا فساداور لوٹ مار جیسے برے عمل سے بھی سختی سے رکنے کی تاکید کی ہے ورنہ روزہ دار کو بھوک پیاس اور رت گجے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں  آتا:
 كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ (سنن الدارمی(
’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں  کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا انھیں کچھ حاصل نہیں  ہوتا، اور کتنے ہی راتوں  کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں  جنھیں  اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں  ہوتا۔‘‘(سنن الدارمی(

تلاوت قرآن اور تراویح
      نزول قرآن انسانیت پر اللہ کی بڑی مہربانی ہے ۔یہ کتاب تمام انسانوں  کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہےاور رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس لحاظ سے رمضان کو قرآن سے خاص مناسبت ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ(البقرۃ(
ماہ رمضان جس میں قرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں  کے لیے ہدایت ہے‘۔
 آپ ﷺماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن کا دورہ فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔
آپ ؐ اس ماہ مبارک میں  قیام لیل کا خاص اہتمام کرتےتھے۔ تراویح درحقیقت قیام لیل ہے۔ یعنی رات کو نماز میں  کھڑے ہوکر قرآن پڑھنا اور سننا۔ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ہم احادیث نبویﷺ کا مطالعہ کریں  توجس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ کا رمضان کے روزے سے متعلق یہ ارشاد ہے:
" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ(
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘‘۔
     اسی طرح آپ نے اس مبارک مہینے میں  قیام لیل کے سلسلے میں  بھی یہ ارشاد فرمایاہے:
وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (متفق علیہ(
جس نے رمضان کے مہینے میں  قیام لیل (رات کو کھڑے ہوئے کر نوافل ) کا اہتمام  ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘‘۔
     اس روایت سے صلوۃ تروایح کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں  صحابہ کرام ؓ مسجد میں  انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپوں  کی شکل میں  تراویح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں  ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سب کو یکجاکیا اور ان کی امامت فرمائی۔ صحابہ کرام کا نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں  نماز پڑھنے کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگا تو تیسرے دن آپ ؐان کی امامت نہیں  فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں  یہ نماز فرض نہ ہوجائے اس لیے آپ نے اس روزتراویح کی نماز نہیں  پڑھائی ۔‘‘
اس کے بعد صحابہ کرامؓ بدستور انفرادی طور پریا چھوٹے چھوٹے گروپ میں  حضرت ابوبکر ؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کی ابتدا میں  نماز پڑھتے رہے۔ ایک موقعے پر حضرت عمر ؓنے مسجد میں  لوگوں  کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا تو انھیں  ایک امام پر جمع کیا اور اسی کی اقتدا میں  نماز تراویح کا اہتمام شروع ہوگیا۔تب سے آج تک دنیا کے ہر گوشے میں  جہاں  مسجد ہے وہاں  تراویح کا باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں  مکمل قرآن سننے اور سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔

نوافل کی کثرت
     اس ماہ مبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابرکردیاجاتا ہے۔  آپ ؐ نوافل کا خاص اہتمام کرتےاور صحابہ ؓ کو اس کی اہمیت دلاتے ہوئے فرمایا :
 مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ (مشکوۃ(
’’جس نے اس ماہ مبارک میں  کوئی نیک کام(نفل) انجام دیا وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے دیگر مہینے میں  کوئی فرض ادا کیا ہو۔ اور جس نے کوئی فرض ادا کیا وہ ایسے ہے جیسے دیگر مہینے میں  اس نے ستر فرض ادا کیے ہوں ۔‘‘

سحری میں  تاخیر اور افطار میں  جلدی کرنا
      طلوع فجر سے پہلے کچھ کھانے پینے کو سحری کہتے ہیں  ۔سحری کرنا آپؐ کا معمول تھا ۔آپ سحری میں  تاخیر کرتے تھے ۔ آپؐ صحابہ ؓ کوبھی اس کے لیے آمادہ کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے سحری میں  برکت رکھی۔ نیز آپ ؐ کا ارشاد ہے:
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل (ابن ماجہ(
’’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ (دوپہرکے وقت سونے)کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔‘‘
اسی طرح آپ کا معمول تھا کہ آپ افطار میں  جلدی کرتے ۔افطار میں  جلدی کرنا اصل میں  اظہار عبودیت کی علامت ہے۔ اللہ کا حکم ہے روزہ رکھا ، وقت پورا ہوتے ہی اللہ کا حکم ہوا فوراً افطار کیا۔افسوس کہ اس پر توجہ نہیں  دیاجاتا افطارکا وقت ہوچکا ہوتا ہے مگربہت سے لوگ بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں  یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ دوچار منٹ رک جانے سے کچھ نہیں  ہوتا ۔جب کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ یہ یہودیوں  کا طریقہ ہے کہ جب تک آسمان میں  ستارے نظر نہ آجائیں  وہ افطار نہیں  کرتے تھے اور اس تاخیر کو قابل اجروثواب مانتے تھے۔ آپ ؐ وقت ہوتے ہی فوراً افطار کرتے اور صحابہ کو بھی اس کی اہمیت کا احساس دلاتے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا:
لا یزال الناس بخیر ماعجلوا الفطر۔(متفق علیہ(
لوگ بھلائی پر رہیں  گے جب تک کہ افطار کرنے میں  جلدی کرتے رہیں گے۔(متفق علیہ(
     افطار کا وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے۔آپ ؐافطار سے قبل دعا کرتے اور جو میسر آتا اس سے افطار کرتے، خاص طور سے آپؐکھجور یا پانی سے افطار کرتے تھے۔
افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے :
اللھم  لک صمت وبک امنت  وعلی رزقک افطرت  ( ابو داؤد (
افطار کےبعد یہ دعا بھی ثابت ہے :
 ذھب  الظما وابتلت  العروق وثبت  الاجران  شاء اللہ ۔ (ا بو داؤد (

ہمدردی اور مواساۃ
     آپ ؐ نے اس پورے مہینے کو ہمدردی و مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ ہےکہ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ جو پورے سال بے سروسامانی کی وجہ سے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں  ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اب جب کہ وہ بھی روزے کی حالت میں  ہے تواللہ کے ان محتاج بندوں  کی امداد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یوں  تو آپ ؐ بڑے فیاض اور سخی تھے مگررمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آپ عطا ،بخشش و سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی،آپ ؐ ہر قیدی کو رمضان بھر کے لیے رہا کردیتے تاکہ وہ اس ماہ سے استفادہ کرے اور ہر سائل کو کچھ کچھ نہ کچھ دیتے خالی واپس نہیں  کرتے تھے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل شہر رمضان اطلق کل اسیر وا عطی کل سائل(بیہقی فی شعب الایما ن(
’’رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ؐ ہر اسیر (قیدی) کو رہا کردیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔‘‘
     آپ نے روزہ دار کے افطار کرانے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (بیہقی، محی السنہ(
’’جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے یا کسی غازی کے لیےسامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملےگا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکھنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔‘‘
مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُعْطَى هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ، أَوْ تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ    (مشکوۃ(
’’جس نے ماہ رمضان میں  کسی روزے دار کو افطار کرایا اس کے لیے اس کے گناہوں  معافی اور جہنم سے چھٹکارا ہے اور اس کے لیے روزہ دار اس کے اجر میں  کمی کے بغیرروزہ دار کے برابر ہی اجر ہوگا۔صحابہ ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم میں  تو ہر شخص روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں  رکھتا؟آپؐ نے فرمایا: اسے بھی یہی اجر ملے گا روزے دارکودودھ کا گھونٹ پلائےیا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرائےیاپانی کا گھونٹ پلاے،اور جو روزہ دار کو سیراب کرے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا حتی کہ وہ جنت میں  داخل کر دیا جائے گا۔‘‘
     آپ ؐ رمضان کے مہینے میں  اپنے تحتوں  کےساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ان سے کم کام لیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے:
 مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ(مشکوۃ(
’’جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکاکام لیااللہ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘


تلاش شب قدر ،اور اعتکاف
     رمضان المبارک کے تین عشروں  کو اللہ کے رسول ﷺ نے تین حصوں  میں  تقسیم کرتے ہوئے ان کے فضائل بیان کیے ہیں  کہ اس کا پہلا عشرہ ’رحمت‘دوسرا’مغفرت‘ اور تیسرا ’جہنم سے چھٹکارے ‘کا ہے۔اس لیے مطلوب یہ ہے کہ تیسرے عشرے میں  غفلت کی چادرہٹاکر اس میں  زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کرکے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں  اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارہ پائیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں  (اللہ کی عبادت )میں  جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں  نہیں  کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں  آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوں کوبھی جگاتے تھے۔(بخاری(
     رمضان کے آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی ایک طاق رات میں  شب قدرجیسی عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے اللہکا فرمان ہے ۔
’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں  اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔اس رات میں  فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامر خیر کولے کراترتے ہیں ۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر(
      نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں  عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں  پڑھیں ،ذکرواذکارمیں  لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں  گے۔(متفق علیہ(
     حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں  وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں  اترتے ہیں  اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں  جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں ،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔
     اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں ، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں  حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں  اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں  نے اس رات کی تلاش میں پہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں  نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوں میں  ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں  بیٹھے تھے انھیں  چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں ۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں  نے دیکھا کہ میں  اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں  (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں ۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوں کی طاق تاریخوں میں  تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )
     جہاں  تک شب قدر کی تعیین تعلق ہے تو اس سلسلے میں  بہت سی احادیث ہیں ۔ایک حدیث میں  ہے :
تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان             یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں  تلاش کرو۔
 بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپؐ کا ارشاد ہے :
تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔    یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں  تلاش کرو۔
     اگرآخری عشرے کی طاق راتوں  (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوں میں  دائراور ہر رمضان میں  منتقل ہونے والا قراردیاجائے توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ میں جوتعیین شب قدرکے متعلق آئی ہیں ،تطبیق جمع ہوجاتی ہے۔  اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں  منتقل ہونے والی رات قرار دیاہے۔
آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواور اس کاہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں  حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں  شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں  بھی انھیں  میسرہوتی ہیں  جس میں  شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔


شب قدرکی دعا
     حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں  شب قدرکوپاؤں توکیا دعاکروں ۔آپ نے فرمایا:یہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘(قرطبی)۔ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں  اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں  میری خطائیں  معاف فرمائیے۔


رمضان،سفراور جہاد فی سبیل اللہ
     اللہ کے رسول ﷺ نے ماہ رمضان المبارک میں  سفر بھی کیا اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لیے عزوات بھی کیے ۔اس طرح آپ نے کئی بار حالت سفر میں  روزہ بھی رکھا اور کئی بار صحابہ کے درمیان پانی منگواکر روزہ توڑبھی دیا تاکہ صحابہ کو حالت سفر میں  اور جنگی ضرورت کے پیش نظر کم زوری کا احساس نہ ہو۔غور کریں  تو محسوس ہوگا کہ رمضان کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ گہرامعلوم ہوتا ہے۔ مسلمانوں  کی پہلی جنگ جسے یوم الفرقان سے تعبیر کیا جاتا ہے،یعنی جنگ بدرجسے قرآن نے بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ 17رمضان المبارک کوہوئی ۔فتح مکہ کی سورت میں  حج اور عمرے کی سعات یہ بھی رمضان المبارک میں  حاصل ہوئی ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا اس کے علاوہ بہت سے معرکے رمضان المبارک میں  ہوئے۔اس لیے مسلمانوں  کی بڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے مشکل وقت میں  جب کہ روزہ کی حالت میں  ہوتو اسے مزید مجاہدے کی ضرورت ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوسکے۔


رمضان کی آخری رات
     رمضان کی آخری رات جسے سب عید کی ’چاند رات‘ کہتے ہیں  ، اس میں  بہت سے لوگ عبادت میں  مشغول ہوتےہیں  لیکن بہت سے لوگ ہیں  جوعید کی خریداری میں  مصروف ملتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے امت مسلمہ کی مغفرت کی رات سے تعبیر کیا ہے:
         قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أَجْرَهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ
رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ کیاےہی وہ لیلۃ القدر ہے؟ حضورؐ نے ارشاد فرمایا نہیں ، بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپناکام مکمل کرلیتا ہے۔ (مسند احمد (

Mohibbullah    Qasmi
Mob. 9311523016

Tuesday 31 May 2016

Imandari Hamari Asal Pahcan ہماری پہچان

پہچان

تنویر ایک چیک لے کر بینک گیا۔ کاؤنٹر پہ لائن میں کھڑا ہوگیا۔ وہاں لائن میں اور بھی بہت سے لوگ کھڑے تھے۔

اپنی باری پر اس نے اپنا چیک کھڑکی سے اندر کاؤنٹر پر مصروف ملازم کے ہاتھ میں دیا۔چیک بڑی رقم کا نہیں تھا بس دس ہزار روپے لینے تھے۔

ملازم نے چک الٹ پلٹ کیا اور پیچھے چیک پر لکھے اکاؤنٹ نمبر اور دیگر تفصیلات دیکھنے کے بعد پوچھا: پاس بک ہے؟

تنویر نے کہا: نہیں، وہ میں لانا بھول گیا۔

پھر اس نے کہا اچھا کوئی پہچان پتر یا آدھار کارڈ وغیرہ؟

اس نے کہا: ہاں پہچان پتر ہے۔ حالانکہ یہ سب پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ کسی کارڈ کی۔ چیک کی پشت پر تفصیلات درج تھیں۔ وہ غالباً نیا تھا۔

تنویرنے اسے اپنا آئی کارڈ دکھا یا۔
کیشیئرنے چیک پر اپنی ضروری کارروائی کی اس کے بعد 500 کے کئی نوٹ مشین میں ڈال کر گنے۔
مشین نے 26 عدد نوٹ شو کیے۔ اس نے اس سے 6 نوٹ الگ کیے اور 20 تنویر کے حوالے کیا۔

حسب عادت تنویر  نے رقم کانٹر پر ہی گننا شروع کر دیا۔ اچا نک درمیان میں اسے ایک ہزار کا نوٹ ملا اس طرح تنویر نے اس میں 500 روپے زائد محسوس کیے۔ دوبارہ گنا پھر وہی زائد!

تنویر نے کیشیئر سے کہا: بھائی صاحب اس میں 500 روپے زائد ہیں آپ گن لیجئے!

جب اس نے گننا شروع کیا تو واقعی اس میں پانچ سو رپے زائد ملے۔ اس پر وہ تنویر کو حیرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔

موقع مناسب دیکھا تنویر  نے بھی اپنی ایک پنچ لائن رکھ دی:

جناب ایمانداری ہماری اصل پہچان ہے۔ باقی آئی کارڈ تو سب کے پاس ہوتا ہے۔
محب اللہ قاسمی

Friday 20 May 2016

رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں Char Wasiyaten



رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں

عن عبدللہ بن سلام قال: قال رسول اللہ ﷺ :یاا یہا الناس: أفشوا السلام ، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلّوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنۃ بسلام۔  (مسند احمد،ترمذی
اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تونماز( تہجد ) پڑھو، (ایسا کرنے کی صورت میں)سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (احمد،ترمذی)

اس حدیث کے راوی حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ ہیں۔ جو مدینے کے مشہور علمائے احبار (یہودی علمائ)میں سے تھے۔جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ،تو لوگوں کا ہجوم آپ ﷺ کے دیدار کے لیے امڈ پڑا۔ اسی ہجوم میں یہ بھی شامل تھے۔نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے ،یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
مذکورہ حدیث کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ کا بیان ہے کہ یہ حضور کی پہلی گفتگو ہے جو انھوں نے آپ ؐ کی زبان مبارک سے سنی تھی۔
حدیث کے متن میںنبی کریم ﷺ نے امت کو چاراہم باتوںکی وصیت فرمائی ہے:
۱۔ سلام کو پھیلانا ۲۔کھانا کھلانا ۳۔صلہ رحمی کرنا ۴۔تہجدپڑھنا
ذیل میں اس حدیث کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
پہلی وصیت : سلام کو عام کرنا
سلام اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے۔ اس کے معنی سلامتی کے ہیں۔ سلام محبت کی کنجی ہے،جس سے مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اجنبیت دور ہوتی ہے اور گھمنڈ جیسی بری خصلت جاتی رہتی ہے۔اس معلق آپ ؐ کا ارشاد ہے:
لاتدخلون الجنۃ حتی تومنوا، ولا تومنوا حتی تحابوا، اولا ادلکم علی شی اذا فعلتموہ تحاببتم : افشوا السلام بینکم (مسلم)
تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ مومن نہ ہوجاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتا دوں جسے تم کرو تو آپس محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔
معلوم ہوا کہ سلام اور محبت دونوں لازم اور ملزوم ہیں، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔یہ اس امت کا شعار ہے ۔اس لیے جب بھی کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ملے تو اسے ضرور سلام کرے۔ رسول اللہ ﷺ جن چیزوں کو مسلمانوں کے باہمی حقوق شمار کیا ہے ۔ سلام ان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عنداللہ مبٰرکۃ طیبۃ ۔(النور:61)
جب گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی بڑی بابرکت اور پاکیزہ ہے۔
پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کی جائے ،بلند آواز سے سلام کیاجائے تاکہ سننے والا اس کا جواب دے سکے ۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے،تنہا شخص گروہ کو سلام کرے ، اسی طرح کسی جگہ پر پہلے سے کچھ لوگ موجود ہیں تو آنے والا سلام کرے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب میں دورۂ حدیث کے سال میں تھا تو میں نے اپنے استاذمفتی سعید صاحب پالنپوری کو دیکھا کہ وہ درسگاہ میں داخل ہوتے وقت پہلے سلام کرتے اور ان سے یہ جملہ بھی سنا : السلام علی من دخل(داخل ہونے والا شخص سلام کرے) ۔
سلام نیکوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے فرمایا: اسے دس نیکیاں ملیں۔ دوسرا شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا ، آپؐ نے فرمایا: اسے بیس نیکیاں ملیں۔ تیسرا شخص آیا ۔ اس نے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘کہا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: اس سے اسے تیس نیکیاں ملیں۔
ہر قوم اور تہذیب میںدو افراد کے باہم ملتے وقت اظہار محبت کے لیے الگ الگ جملے رائج ہیں ،ان میں اسلامی طریقہ اسلام کو سب سے زیادہ جامعیت حاصل ہے۔اس سے نہ صرفملنے والوں کے دلوںمیں محبت اور سرور پیدا ہوتا ہے بلکہ اسے سلامتی بھری زندگی کی دعا بھی ملتی ہے اور اس بات کا وعدہ بھی کہ تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں تم میری زبان وہاتھ سب سے محفوظ ہو۔
دوسری وصیت : کھانا کھلانا
غریبو ں اور یتیموں کو کھانا کھلانا جنت میں داخلہ کا سبب ہے ۔اس سے انسان کے اندر فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اوربخل و حرص اور مال و دولت کی محبت جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً oإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً (الدہر۔۸-۹)
اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں( اور کہتے ہیںکہ )ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔
ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں توہمیں ایسے بہت سے غریب مسکین لوگ مل جائیں گے جنھیںکھانے کو غذا میسر نہیں ہے ۔وہ بھوکے سوجاتے ہیں۔جب کہ قریب ہی کسی شادی یا دیگر تقریب میں بہت سارا کھانا کوڑے اور کچڑے ڈھیرپر پھینک دیاجاتاہے۔اس طرح ایک مال دار گھرانہ تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سوجاتاہے۔ایسا کرنا ایمان کے بالکل منافی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کے تعلق سے ارشاد فرمایاہے:
لیس المومن بالذی یشبع وجارہ جائع الی جنبہ(مسلم)
وہ شخص مومن نہیں جو خود شکم سیر ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔
اس میں مہمان کی ضیافت بھی شامل ہے ، چنانچہ آپﷺ نے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ مہمان نوازی بھی کرے:
من کان یومن باللہ و الیوم الآخر فلیکرم ضیفہ(متفق علیہ)
(جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان نوازی کرے۔)
تیسری وصیت : صلہ رحمی کرنا
رشتہ کو جوڑے رکھنا اور رشتہ داری کو نبھانا۔ایسی صفت ہے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔:
وَاتّقُوا اللّٰہَ الَّذِی تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالأَرْحَامَ (النسائ:۱)
’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
خاص طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَا اِمّا یَبْلُغَنَّ عندک الکبر احدہما او کلہما فلاتقل لہما اوفٍ ولا تنہرہما و قل لہما قولا کریما(سورۃ : اسرائ23)
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے تو تم انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑک کر بات کرو بلکہ ان کے سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘
صلہ رحمی کو دخول جنت کے علاوہ دنیا میںرزق کے اضافہ اور طول عمر کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ او ینسألہ فی اثرہ فلیصل رحمہ(متفق علیہ)
’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ اسکے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘
صلہ رحمی کی ضد قطع تعلق ہے۔ یعنی ذرا ذرا سی بات پررشتہ توڑلینا ،نفرت کرنا ، میل جول ختم کرلینا وغیرہ۔اس کے اثرات کو دیکھے تو یہ صرف تعلقات کو ختم کرنے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ بسااوقات دل میں حسد اور کدورت کو ایسا جنم دیتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بن کر انسان کو ذلیل ورسوا بھی کردیتا ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لا یدخل الجنۃ قاطع الرحم (بخاری)
’’ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رشتہ داری میں ذراسی ناروابات یا کوئی تلخی ہوگئی توبس ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیاجاتاہے اور معاملات کودرست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے اپنے لیے کسرشان سمجھا جاتاہے۔جب کوئی حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے ساتھ حسن ِسلوک کی روش اپنائی جاتی ہے یہ تو بدلہ ہے، صلہ رحمی نہیں ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے واضح طور پر بتادیا :
لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلہا(بخاری)
’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب اس سے قطع رحمی(بدسلوکی وغیرہ) کی جائے تو صلہ رحمی(حسن سلوک ) کرے۔ ‘‘
چوتھی وصیت : تہجد پڑھنا
جب انسان رات کے تہائی حصے میں وضوکرکے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے ،اسے صلوٰۃ تہجد کہتے ہیں۔ اس نماز میں ریا کاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ بندہ اس وقت اللہ کے بالکل قریب ہوتا ہے۔اس سے تعلق اور قربت اس کے توکل میں اضافہ کرتا ہے جو ہر مشکلات کو صبر کے ساتھ جھیلنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔اللہ تعالی اسے مقام محمود پر فائز کردیتا ہے:
و من اللیل فتہجد بہ نافلۃ لک عسی ان یبعثک ربک مقاماً محمودا
اور رات کو تہجد پڑھو! یہ تمہارے لیے فضل (اضافی) ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمھیں مقام محمود پر فائز کردے۔(سورۃاسرا: 79)
دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:
تتجافا جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً و طمعا و مما رزقنہم ینفقون (سورۃ سجدۃ:16)
ان کی پیٹھیںبستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرائض کے بعد جس نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ تہجد ہے۔آپ ؐ نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا:
افضل الصلوۃ بعد الفریضہ قیام اللیل(مسلم)
’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی ہے۔‘‘
تہجد آپؐ پر واجب تھی جب کہ امت پر یہ نفل ہے۔چنانچہ صحابہ ،تابعین اور سلف صالحین تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔ ترمذی کی روایت ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :
علیکم بقیام اللیل فانہ دأب الصالحین قبلکم، قربۃ الی اللہ تعالی، مکفرۃ للسیات، ومنہاۃ عن الاثم ، مطردۃ للداء عن الجسد(ترمذی ،احمد)
اس حدیث کے آخری میں آپ نے تمام نصیحتوں اور وصیتوں کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:تدخلواالجنۃ بسلام، یعنی اگر تم ان ہدایات پر عمل کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کی مذکورہ چارں وصیتوں کی پابندی کی جائے اور اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں لایاجائے تو ہمارا معاشرہ خوش حال اور مثالی اور امن و امان کا گہوارہ ہوگا ۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس حدیث پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...