Saturday 27 August 2016

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت Peace and Human the basic requirement for society

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت



      ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ جس معاشرے میںرہ رہا ہے ، اس میں اسے سماجی برابری کا درجہ حاصل ہو۔وہ اونچ نیچ، ظلم و استحصال اور ہر طرح کے خطرہ سے آزاد رہ کرامن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔اسے ناحق قتل کیاجائے نہ بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔

      اپنے اس حق کے حصول اور اس کی حفاظت کے لیے وہ کوشش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ حق کی حمایت میں اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے ۔ وہ اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتا کہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟ اس کی زد میں اس کا سگا بھائی ہے یا کوئی اور! اس کے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں!!اسے صرف یہ خیال ستاتا ہے کہ ظلم انسان پر ہورہا ہے، خون ایک بے قصور انسان کا بہ رہا ہے۔ جو اسی کی طرح دنیا میں چلتا پھرتا اور آدم کی اولاد ہے۔


      انسانوں پر ظلم ہوتا دیکھ  کر تڑپ اٹھنا انسان کا وہ جذبہ ہے جو انسانیت کی روح ہے۔ یہ جذبہ جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے۔ انسان اپنے اندر ایک حساس دل رکھتا ہے جو عدل کی حمایت میں کسی ظالم قوت کی پروا نہیں کرتا۔ اگر یہ جذبہ عام انسانوں کے اندر کارفرما نہ ہو تو پھر پوری دنیا تباہ و بربادہ ہوجائے گی۔ ہر طرف ظلم وستم کا ہی بول بالا ہوگا ۔ روشنی قید کرلی جائے گی اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، جس میں کوئی بھی جی نہیں سکتا ،حتی کہ ظالم بھی نہیں ، کیوں کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو ختم ہوجاتاہے۔اس صورت میں ظالم کوظلم توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک کہ ایک انسان اس ظالم کوحیوانیت سے نکال کر انسانیت کی طرف لانے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے ،جو انس و محبت کا تقاضا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

      اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ ! میں مظلوم کی مددتو کرتا ہوں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے۔(بخاری،کتاب المظالم والغضب)

      جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ماحول حددرجہ خراب ہوتا جارہاہے۔ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کو دنیا میں اس بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہاہے۔اس سے دنیا میں جینے کا حق چھینا جارہاہے۔ بے گناہوں، معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے۔غیرت مندماؤں اور بہنوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے۔


      اس کے بعد جب ہم اپنے پیارے وطن کا جائزہ لیتے ہیں۔تو یہاں بھی پچھلے چند سالوں میں ہمیں قریب قریب وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ذات پات،اونچ نیچ کا فرق ، جس کے نتیجے میں ہونے والی خود کشی،بے جا گرفتاریاں، خوں ریزی بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کا باشندہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہونے کا ڈر لوگوں کے دلوں میں سمارہا ہے۔ اس سے اس کے وجود کی سند مانگی جاتی ہے۔ پتہ نہیں، کون کس وقت دروازے پر دستک دے اور دروازہ کھلتے ہی اسے دبوچ لیاجائے ، بے بنیاد الزام کے تحت مدتوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک سزابھگتنے کے لیے ڈال دیا جائے۔ پھر کئی سالوں کے بعد عدالت سے باعزت بری ہونے کا اعلان کیا جائے۔


      ایسے میں بنیادی حقوق کی بات کرنے والے،امن وامان کے خواہاں لوگوں اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کو بھی ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اجالوں سے کہا جارہاہو کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی پاؤں پسارنے کی۔ تمھیں دکھتا نہیں کہ ابھی چاروں طرف اندھیروں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں تو اپنی ٹمٹاتی روشنی سے کیا کرے گا ، پھر یا تو یہ روشنی بجھادی جاتی ہے ، یا ٹمٹماتا ہواچراغ بے یار و مدد گار خود ہی دم توڑ دیتا ہے۔ مگر اندھیروں کو پتہ نہیں کہ یہ ہلکی سی روشنی اور دم توڑتا ہوا چراغ اپنے حوصلوں سے ان بے شمار جگنؤوں میں قوت بھر رہا ہے، پھر وہ تمام بے تاب ہو کر ایک ساتھ جگمگانے لگیں گے۔ آخر میں یہ کالی رات اور اندھیروں کا سایہ دھیرے دھرے فنا ہوجائے گا۔


      مگر ساتھ ہی اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ وہ تعیش پسند انسان جس کے اندر نہ حس ہے نہ وہ انسانی جذبات سے سرشارہے کہ قربانی دے، اگر تھوڑی بہت ہمت جٹا بھی لے تو خوفناک انجام اس کے سامنے ویڈیو کی طرح گھومتارہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس میں خود کو جھونک دینے سے کتراتا ہے اور یہی ڈر اور خوف ظالم اندھیروں کو اپنا سایہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتاہے، پھرانسانوں کی بستی میں حیوانیت اور درندگی کاکھیل شروع ہوجاتاہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد اپنوں کی غلامی میں جینا ہوگا؟کیااب امن قائم نہ ہوگااور یہ خوف یوں ہی برقرار رہے گا اور خونی کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔ جس کی لپیٹ میں وہ معصوم اوربے قصور انسان ہیں، جو عدل وانصاف اور اس روشنی کے خواہاں ہیںجو اندھیروں کا پردہ چاک کردے۔اس لیے انسانیت کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،جس کاانسان کے خالق و مالک نے قرآن کریم میں اعلان کیا ہے:


’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


اگر لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے ،وہ خوف کے سائے میںروشنی کے بجائے اندھیرں میں بھٹکتے رہے۔تو انسانیت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اندھیروں کے پرستارتوپوری قوت سے انھیں اجالا ثابت کرکے لوگوں کو مصیبت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونا ، انصاف کی اس لڑائی کو جاری رکھنے، ان کے مکر وفریب اور پروپگنڈے کو ختم کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ساتھ ہی ان جگنؤوں کو بلا خوف و خطر ایک ساتھ جگمگانا ہوگا، تاکہ وہ سب مل کر ایک خورشید مبین بن جائیں ، اندھیرے خود ہی دم توڑ دیںاور امن کا پرندہ قید سے آزاد ہو۔


ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

Saturday 20 August 2016

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات Peace & Humanity in ISLAM

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات
محب اللہ قاسمی                                                                                         

لفظ ’امن ‘خوف کی ضدہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،لیکن اس کا استعمال اردوہندی زبان میں یکساں طورپر ہوتا ہے۔ اس میں چین، اطمینان، سکون و آرام کے علاوہ صلح وآشتی اور پناہ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔امن معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان اور درندہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ معاشرہ کی تعمیروترقی کے لیے امن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ روزاول سے ہی یہ ایک اہم مسئلہ رہاہے اورآج کے پرفتن دورمیںیہ مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے حضرت محمدﷺ تک جتنے بھی انبیاء اس دنیامیں تشریف لائے، انھوںنے امن وامان کی بحالی، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اورحقوق کی ادائیگی کو اہمیت دی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑاوران کے فرزندحضرت اسماعیل ؑ جب خانہ کعبہ کی تعمیرمیں لگے ہوئے تھے ، اس وقت انھوںنے شہر مکہ کے لیے یہ دعا فرمائی تھی :

رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًااے میرے پروردگاراس شہر(مکہ)کو جائے امن بنادیجئے۔ (ابراہیم:۳۵)

 
اگرموجودہ دور کا جائزہ لیاجائے تو تعصب، ذاتی منفعت کے بے جاحصول اور فرقہ پرستی نے ایسا ماحول بنادیاہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھا جاتا۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جاتی ہیں۔ عبادت گاہیں منہدم کردی جاتی ہیں۔بے قصور لوگ قصوروار قرار دیے جاتے ہیںاورناکردہ جرم کی پاداش میںانھیں انسانیت سوز تکالیف کا سامناکرنا پڑتا ہے،انصاف کی عدالت سے جب تک ان کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا ہے تب تک ان میںسے کچھ اپنی نصف عمراندھیری کو ٹھری میں گزار چکے ہوتے ہیں جب کہ کچھ انصاف کی امید میں اس جہاں کوہی الوداع کہہ جاتے ہیں۔
 انسانی زندگی امن وطمینان کی خواہاں ہوتی ہے، اس لیے ہرمذہب میں امن واطمینان عدل وانصاف اورسلامتی کو نمایاںمقام حاصل ہے۔امن کا پیغام دینے والا مذہب ’’دین اسلام‘‘ جس کے بارے مخالفین نے عام لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈا کررکھا ہے اوراسے دہشت اور وحشت کا معنی بنادیا ہے۔ مگر تاریخ  اس پر گواہ ہے اور اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسند حضرات، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام درحقیقت انسان کوامن وسلامتی کاپیغام دیتا ہے۔ جس کی تعمیرآپسی محبت اورباہمی مساوات سے ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل سرزمین عرب کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ عرب قوم ایسی ظالمانہ ، وحشیانہ اورجابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لیے سینکروں جانیں لینی یادینی پڑیں ،مگرانھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی۔ گویا انتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اوروقعت نہ تھی۔ تعصب کا حال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کو ستاتا اور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔ لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصد بھلا دیاتھااورخودتراشیدہ بتوںکواپنا معبود حقیقی سمجھ کران کی پرشتس کرناان کامعمول اور خود ساختہ راہ اختیارکرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیدا کرنا ان کا شیوہ بن چکاتھا۔اس کے نتیجے میں ظلم وزیادتی،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور بداخلاقی کابازارگرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ و بربادہوچکی تھی اورامن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔ ایسے پرخطرحالات میں جب انسانیت دم توڑرہی تھی ’’اسلام‘‘نے آپسی محبت کاپیغام سناتے ہوئے انسانی جان کی قدروقیمت بتائی اور بدامنی کے ماحول پر روک لگادی۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭ’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


 اسلام کی نظر میںناحق کسی ایک آدمی کاقتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلام کسی ایک فردکا قتل تودرکنار اس کی ایذاررسانی کوبھی پسند نہیں کرتا۔اللہ کے رسول ﷺکا ارشادہے۔وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ  قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟  قَالَ:   الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُبخدا وہ مومن نہیں بخداوہ مومن نہیں ،بخداوہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا، کون اے اللہ کے رسول ! آپ ؐ نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری5584)
 افراد کے یکجا رہنے سے معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے ، جہاں لوگ آباد ہوتے ہیں وہاں پڑوسیوں کا ہونا لازمی ہے۔ ان کا باہمی میل جول رکھنا اور آپس میں ایک دوسرے اذیت نہ پہنچانا ہی قیام امن ہے۔ اسی لیے پڑوسی پرظم کرنا اسلام کی علامت نہیں ہے خواہ وہ پڑوسی کسی بھی مذہب کا ماننے والاہو،وہ انسان ہے اس لئے ان سے محبت اورحسن سلوک کرنا چاہئے۔اسلام نے ایسے شخص کوبدترین انسان قراردیاہے جس سے نہ خیرکی توقع ہواورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ رہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
 وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَى خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘(ترمذی باب الفتن:2194)

 ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت کا شوق دلاتے ہوئے اسلام کہتاہے ’’  لایرحمہ اللہ من لایرحم الناس‘‘ (جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِرحم وکرم اوردوگذرکرنے والوںپرخدابھی رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔    (ترمذی:1843)
 پیغمبرامن ﷺ کی سیرت نبوت سے قبل بھی اتنی ہی شاہکارتھی جتنی کہ نبوت کے بعد تھی۔ آپ ﷺ امن کے لیے ہمیشہ کوشاں دکھائی دیتے تھے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس کا شاہد ہے ۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی ،بدامنی اورفسادکا ماحول تیزہوگیاتھا۔ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوںکی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول ‘ ہے۔ جوقیام امن ،بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایا:
’’اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تومیں نہ لیتا اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔‘‘
 بعثت سے پانچ سال قبل جب قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کا ارادہ کیاجب حجراسودکو اس کی جگہ رکھنے کی نوبت آئی تو قبائل کے مابین خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ حتی کہ لوگ خون بھرے برتن میں ہاتھ ڈبوڈبوکر مرنے اورمارنے کی قسم کھانے لگے۔ کئی روز گزرجانے کے بعد یہ طے ہوا کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے سے داخل ہواسی کو اپنا حکم بناکر فیصلہ کرالو۔سب اس رائے پر متفق ہوگئے۔ صبح ہوئی اورتمام لوگ جب حرم میں پہنچے تو دیکھا کہ سب سے پہلے آنیوالے محمد ﷺ ہیں۔آپ کو دیکھ کر تمام لوگ بے ساختہ پکار اٹھے:
هذا الأمين، رضيناه، هذا محمد

یہ تومحمد ہیں جوامانت دار ہیں ہم انھیںحکم بنانے کو تیار ہیں۔(الرحیق المختوم،ص:79)
آپ نے ایک چادرمنگائی اور حجراسود کو اس میں رکھ کر فرمایاکہ ہرقبیلہ کا سرداراس چادر کو تھام لے تاکہ اس شرف سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے ۔ اس فیصلہ کو سب نے پسند کیا۔ سب نے مل کر چادر اٹھائی۔اس طرح امن کے علمبردار نے بڑی حکمت سے کام لیا اورآپ کے اس فیصلے پر صلح کے ساتھ ایک بڑے فساد کو خاتمہ ہوا۔ (سیرۃ المصطفی ص:۱۱۳)


 لفظ ’اسلام‘‘کا مادہ (س ل م) خودسلامتی اورحفاظت کا پتہ دیتاہے۔ اگر غور کریں تودنیا میں تین چیزیں ہی عدل وانصاف اورظلم و جور کا محور ہیں جان، مال اور آبرو۔یہ وہ چیزیں ہیں جن میں انصاف نہیں کیاجائے تویہ امن و سلامتی کو گزندپہنچاتی ہیں۔ اسی کے پیش نظر نبی کریم نے حجۃ الوداع کے طورپر جو تاریخ ساز خطبہ دیا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی:


 " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا’’یقینا تمہارا خون،تمہارا مال اورتمہاری آبروآپس میں (تاقیامت)اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ دن،اس مہینہ میں اوراس شہرمیں محترم ہے۔‘‘ (بخاری:66)


 محسن انسانیت پیغمبراسلام نے دشمنوںکے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا۔ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوارلے لی اورکہنے لگا  ’’من یمنعک منی‘‘  (تمہیں مجھ سے کون بچاسکتاہے؟) آپ نے فرمایا ’’اللہ‘‘یہ سنتے ہی تلواراس کے ہاتھ سے گرگئی آپ نے تلواراپنے قبضے میں لے لی مگراسے معاف کردیا اور اس سے درگزرکیا۔فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توان لوگوں کا قتل کروادیتے ،جنھوںنے آپ سے دشمنی کی تھی ۔ مگرانسانیت کے تحفظ وبقا کے علمبردارحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا  ’’اذہبوا انتم الطلقاء‘‘ جاتم سب آزادہو ۔یہ قیام امن کی بہترین مثال ہے۔ پامالی امن کے اسباب اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فتنہ اور فساد کو جڑسے ہی ختم کردیتاہے ۔ظلم اورفساد کی جو بنیادہے کبر،گھمنڈ،خودغرضی،دورخاپن،غصہ ، حسد اورکینہ وغیرہ اسلام ان رذائل کو سخت ناپسندیدہ عمل قراردیتا ہے اور ان کے مرتکب شخص کی اصلاح بھی کرتاہے،تاکہ امن وامان کی اس فضا کو ان آلودگیوں سے پاک رکھا جاسکے۔ اسلام میں باہمی مساوات کی تعلیم انسان کے گھمنڈکوخاک میں ملادیتی ہے ۔ پھر کبر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اسلام کہتاہے کہ اس دنیا میںکسی کو کسی پر کوئی فضیلت اوربرتری نہیں ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے، جس کواللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔ فتح مکہ کے موقع پرآپ نے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَباكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بالتَّقْوَى ’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتمہارباپ بھی ایک ہی ہے ،جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اورنہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘(مسنداحمد:22871)

 رہی بات حسب ونسب اورخاندان کی تواس کامقصدصرف ایک دوسرے کاتعارف ہے۔ جسے خالق جہاںنے اپنے کلام پاک میں اس طرح بیان فرمایاہے ۔يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْاے لوگو!ہم نے تمہیںایک مرداورایک عورت سے پیداکیا۔(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے)اور تمہیں خاندانوں اورقبیلوںمیںبانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔(الحجرات:۱۳)

 اس کا مشاہدہ مسجدوں میںبخوبی کیاجاسکتاہے ،جہاں تمام افراد بلا امتیاز قد و قامت اور شان شوکت ،کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظرآتے ہیں۔ یہ خوبی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
 
 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

  لہذانام ونسب اور خاندان کی وجہ سے کسی شخص کوکسی پرفخرکرنے کاکوئی حق نہیںاورنہ کسی کی تحقیروتذلیل کرنااس لئے رواہے۔یہی بات قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں کہی گئی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ’’اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اورنہ ہی عورتیںدوسری عورتوںکامذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہترہوں اور نہ ایک دوسرے کوطعنہ دو اورایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ،ایمان لانے کے بعد برا نام رکھناگناہ ہے  اور جو توبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۱)

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و عیاضنہ   کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز 

ہاں!  اگرکسی شخص کو برتری چاہئے تویہ صرف تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور تقوی کا مطلب ہے خداکاخوف پیش نظررکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔ امن وامان کی پامالی میںحب جاہ ومال کابھی بڑادخل ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدارسمجھ کراپنے کو بڑاسمجھنے لگتے ہیں۔ اس کی ہوس میں اندھے،بہرے اورگونگے بن کر ایک گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، جس سے ماحول پر بہت برا اثرپڑتاہے اورمعاشرہغیرمامون ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتاہے۔ اگر مالداری قابل فخرہوتی توقارون سے زیادہ قابل فخرکوئی نہ ہوتا اورہمیشہ اس کا ذکر خیر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔

انسانی زندگی کی کچھ قدریں ہوتی ہیں جن کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے توانسان ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے ۔اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل ،غارتگری،شراب خوری، فحاشی و زنا کاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیاہے۔ تاکہ تمام انسان اس کائنات میں وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ قیام امن کے لیے آخرت کی جوابدہی کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اسلام یہ تصور پیش کرتاہے کہ یہ دنیا فانی ہے،اسے ایک دن ختم ہوناہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ، جہاں خداکے حضورپیش ہو کر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ آخرت کی زندگی بہترہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ (والآخرۃ خیروابقی)۔ عام انسان بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ دنیا میں پیداہونے والا ہر انسان محض چند روزکی زندگی لے کر آیا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سانس کب رک جائے گی اورکب وہ دنیاسے چلاجائے گا۔ اس لیے مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیاکا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام قائم ہوجس میں قیام امن کے لیے عدل و انصاف کواساسی مقام حاصل ہو جو ہرشخص کواس کا حق دے ، کسی کوکسی پر کسی طرح کا ظلم نہ کرنے دے ، امن واطمینان کا خوشگوار ماحول ہو۔

 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔

اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

Tuesday 26 July 2016

تفریح طبع زدہ دلی کا نام ہے Zinda Dili


تفریح طبع زندہ دلی کے لیے ضروری

                                           محب اللہ قاسمی

بذلہ سنجی،خوش طبعی اورمزاح اگر دل آزاری کاسبب نہ بنے توےہ زندہ دلی کی علامت ہے ،جونہ صرف انسان کی پژمردگی کو دور کرتی ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور اجتماعی مقاصدکے حصول میں عام لوگوں کی صلاحیتوںکوپرکھنے اوران سے کام لےنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسلام نے انسان کے فطری مزاج کا بھرپورخیال رکھا ہے،اسی لیے وہ اسے گوشہ نشین ہوجانی یا انسانوں کی آبادی سے دور جنگلوںمیں چلے جانے کا حکم نہیں دےتااور نہ خوش طبعی سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ کسی غم زدہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے پر ابھارتاہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوںاوران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہو۔

مزاح اورخوش طبعی کی تعریف عام لفظوںمیں کی جائے تو اس کے معنی ہنسی مذاق کو کہتے ہیں۔ مگر اس کی شرعی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، تعریف کی جائے تو مزاح ہر اس بات کو کہیں گے جوخوشی کا باعث ہو ،مگر وہ جھوٹی،پھوہڑپن پر دلالت کرنے والی اورغیر شرعی نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو اسے مزاح نہیں سخریہ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے،جو حرام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سےرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بارعب ہونے کے باجود مزاح فرمایاکرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی اجازت تھی۔ سیرت کے بہت سے واقعات اس کے شاہد ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت ام ایمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ مجھے ایک اونٹ عنایت فرمائیے کیوں کہ ہمارے پاس بار برداری کی لیے کوئی جانور نہیںہے۔“حضورﷺ نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوںگا۔ وہ کہنے لگیں:”یارسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ لے کرکیا کروںگی“؟اس پر آپ نے فرمایا: ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ یہ سن کر پوری محفل زعفران زار ہوگئی۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ”یارسول اللہ ، دعا کردیجئے کہ میرا بھی داخلہ جنت میں ہو۔ “ ارشاد ہوا: کوئی بڑھیاجنت میں نہ جائے گی۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رونے لگیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:”کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔یہ سن کر وہ خاتون بے اختیار ہنسنے لگیں۔

ایک دفعہ ایک خاتون حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی:یارسول اللہ ، میرا شوہر بیمار ہے، اس کی شفایابی کے لیے دعا فرمائیے۔“حضور نے فرمایا: تمہارا خاوند وہی ہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟وہ حیران ہوگئیں اور جاکر اپنے شوہر کی آنکھیںغور سی دیکھنے لگیں۔ خاوند نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگیں: حضور نی فرمایاہی کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے“وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ”کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو؟“اب وہ حضور کے لطیف مزاح کو سمجھیں جس کا مقصد ان کی بیمار شوہرکی پژمردگی کو دور کرنا تھا۔
خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک ؓ کی چھوٹے بھائی جن کانام ابوعمیر تھا۔ جب وہ بچے تھے تو انھوں نے اےک ممولا پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ ممولا مرگیا۔ ابوعمیر کو سخت صدمہ پہنچا اوروہ بہت افسردہ ہوگئے۔ حضور نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو فرمایا:
’’یا اباعمیر ما فعل النغیر
اے ابوعمیر تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟ حضور کا ارشاد سن کرابو عمیر ہنسنے لگے۔

بسا اوقات یہ بذلہ سنجی اور حسن مزاح سی لوگوں میں حاضرجوابی پیدا ہوتی ہے اوران کے اندرچھپی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔اس کا نمونہ ہم صحابہ کرام ؓمیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔

ایک مرتبہ سرکار دوعالم ﷺ چند صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے اور سب مل کھجوریں تناول فرمارہے تھے۔ اتنے میں وہاں حضرت صہیبؓ آگئے۔ ان کی ایک آنکھ آئی ہوئی تھی اور انھوں نے اس پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ اگرچہ آشوبِ چشم میں کھجور کھانا مضرہوتاہے، لیکن حضرت صہیبؓ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ وہ آتے ہی کھجوروں پر ٹوٹ پڑے۔حضور نے فرمایا:سبحان اللہ، تمہاری آنکھ دکھ رہی ہی اور تم کھجوریں کھارہے ہو۔انھوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ میں اس آنکھ سے کھارہا ہوں جو اچھی ہے۔ان کا جواب سن کر حضور اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک کا نور ظاہر ہونے لگا۔

Mohibbullah Qasmi



Sunday 24 July 2016

Story: Hamdard ہمدرد

کہانی: 
ہمدرد 
محمد محب اللہ 


’’دلاور ! اس پلاٹ پر کام جاری رکھنا۔یاد رہے کسی مزدور کی تنخواہ میں کمی نہیں ہونی چاہیے ساتھ ہی اگر کسی کی کوئی مجبوری ہو تو ضرور خبرکرنا۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ غربت کی دلد ل سے نکلنے والا شخص غریبوں کے خون پسینے سے اپنا محل تو تعمیر کرلے مگر بدلے میں ان مزدوروں کو یاس و ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے۔ ‘‘میں پندرہ دن کے لیے گاؤں جا رہا ہوں۔ ماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔یہ کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھاکر ناصر اپنے دفترسے نکل ہی رہاتھا کہ منگلو چاچا نے کہا :

’’
صاحب جی ایک 15سال کا جوان لڑکا ریسپشن (استقبالیہ) پر کھڑا ہے۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘ناصر نے پوچھا:’’اس سے پوچھا نہیں ، کیا بات ہے ؟‘‘
منگلو چاچا نے جواب دیا: ’’وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کی تلاش میں بھٹک رہاہے۔مگر بات کرنے سے لگتا ہے کہ وہ تیز اور ہونہارہے۔‘‘

ناصر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’
اسے پڑھائی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی!خیراسے بلاؤ۔یہ کہہ کرناصرواپس اپنے کیبن میں چلاآیااور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔‘‘
منگلوچاچالڑکے کو لے کر حاضرہوا۔
لڑکے نے سلام دعا کے بعد ناصر کے سامنے اپنی بات رکھی:
’’میں ایک غریب ہوں، میرے کئی بھائی بہن ہیں اور والد کمائی سے لاچار ہیں۔ اس لیے میں نوکری کرنا چاہتاہوں۔‘‘

ناصر نے پوچھا:
’’ لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم پڑھائی کررہے تھے اور ذہین بھی ہو۔ پھر پڑھائی کیوں نہیں کی؟ ‘‘
لڑکے نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا:
’’
اب آپ ہی بتائیے اب ایسی حالت میں میرا پڑھنا ضروری ہے یا گھر والوں کے جینے کے لیے بنیادی ضرورتیں پوری کرنا؟ میں ایک جوان ہوں۔ کام کرسکتا ہوں! تو پھر اپنے گھر والوں کے لیے نوکری کیوں نہ کروں۔ دو پیسے ملیںگے تو ان کو کچھ کھلاؤں گا۔ ورنہ ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی، میں خود بھیک مانگ سکتا ہوں مگر میں اپنے والدین کو بھیک مانگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

اس کی باتوں نے ناصر کو گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ اپنی ماضی کی یا دوں میں کھو گیا۔
وہ پڑھنے میں تیز، بااخلاق اورملنسار لڑکا تھا۔اس کے والد اسے پڑھانا چاہتے تھے اس لیے اسے پٹنہ کے اچھے رہائشی اسکول میں بھیجا گیا تھا،جہاں وہ اب دسویں کلاس تک پہنچ چکا تھا۔ مگر ایک دن اس کے گھر سے ایک خط آیا جو اس کے لیے سر پر آسمان سے بجلی گرنے کے مانند تھا۔خیر خیریت کے بعد خط میں لکھا تھا:

’’تمہارا باپ اب بیماری کے سبب بہت معذور ہوگیا ہے ، تھوڑا بہت وہ کما کر بھیجتا ہے جو گھر کے اتنے اخراجات کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرا کے مانند ہے۔ اب ہم لوگ تمہارے تعلیمی اخراجات کیا پورے کریں یہاں گھر پر ہم لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ دن بہ دن قرض پہ قرض کا بوجھ اور اس کا بیاج الگ ! ہم لوگ بہت مشکل میں ہیں۔تمہاری پیاری دادی‘‘

ناصرکا دل پوری طرح ٹوٹ چکا تھا وہ اور پڑھنا چاہتا تھا مگر جب بھی وہ لالٹین کے سامنے اپنی کتاب کھولتا اسے خط کے وہ سارے جملے کانٹے کی طرح اس کے جسم میں چبھتے ہوے محسو کرتا ۔وہ جلتے ہوئے لالٹین کو اپنا دل تصور کرنے لگا جس میں اس کا خون مٹی تیل کے مانند جل رہا تھا۔

دھیرے دھیرے پڑھائی سے اس کا دل ہٹنے لگا اور وہ زمانہ اسکالر شپ کا نہیں تھا یا اسے دیگر کسی کی جانب سے مالی امداد کا سہار ا میسر نہیں تھا ، پھر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اب ان کتابوں کے اواراق پر لکھے ان حروف کو پڑھے اور اس کے گھر والے پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کریں۔

پھر وہ کمائی کے طریقوں کے بارے میں سوچنے لگا، کبھی سوچتا کسی دوکان میں نوکری کرلوں مگر وہاں تنخواہ مہینے پر ملے گی، کبھی سوچتا کہ گاڑی کا کنڈکٹربن جاؤںیومیہ آمدنی ہوگی۔مالک سے بول کر روزانہ پیسے لے لیا کروں گا۔ پھر سوچتا کہ نہیں اس میں بھی چاہے محنت کتنی بھی کر لوںمتعین آمدنی ہوگی اور ماتحتی میں بھی رہنا ہوگا سو الگ ۔ اس لیے سوچا کیوں نہ ڈرائیور بن جاؤں اور کرائے سے آٹو لے کر گاڑی چلاؤں،کرایہ دے کر جو بچا سو اپنا اور خوب محنت کروںگا اور اپنے والدین اور گھر والوں کا فوری سہارا بن جاؤں گا۔ اس طرح اس نے پٹنہ میں ہی اسکول چھوڑ کر ڈرائیو نگ کر نا سیکھ لیا اس طرح وہ ایک اچھا ڈرائیور بن گیااور کمانے لگا۔

کچھ دن بعد جب گھر آیااور گھر والوں کو معلوم ہوا تو اس کے والد کو بڑی تکلیف ہوئی اس نے کہا :
’’بیٹے میں مانتا ہوں کہ میں بہت غریب ہو گیا ہوں اور اب مجھ سے اتنا کام نہیں ہو پاتا مگر !میں ابھی مرا نہیں ہوں۔پھریہ کیا کہ تم نے پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ صبر کرتے یہ مشکل کے دن تھے گزر جاتے‘‘

ناصر نے کہا : ہاں ابا جان! اللہ تادیر ہم پر آپ کا سایہ قائم رکھے۔ میں جانتا ہوں کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہوگی۔ مگر میں کیا کرتا ، میں آپ لوگوں کی پریشانی دیکھ نہیں سکتا ۔ اللہ نے چاہا تو دھیرے دھیرے سارے قرض ادا ہو جائیں گے اور آپ کو بھی کام کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
ناصر گاڑی چلاتا رہا اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہوگیا۔اب وہ دھیرے دھرے گاڑی چلانا چھوڑ کر تعمیر مکان کا کنٹریٹ لینا شروع کردیا اس طرح وہ بہت بڑا کانٹریکٹر اور بلڈرہوگیا۔’’حوصلہ بلڈرگروپس‘‘ کے نام سے اس نے اپنی کمپنی کھولی اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ وہ لوگوں کا بھی ہمدرد بن کر سامنے آیا۔

آج وہ ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔ اس دوران اس کے والد کا انتقال ہوگیا اوروہ اپنی ماں بہن اور بھائیوں کی کفالت اور ان کی پوری ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دینے لگا۔

سر آپ کہاں کھو گئے؟ اس غریب لڑکے نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
ہاں………ہاں! تو تم کہہ رہے تھے…… کہ اپنی غربت کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے ۔خیر پریشان نہ ہو ۔ہمارے یہاں تو کوئی نوکری نہیں ہے البتہ تمہاری تعلیم کے سارے اخراجات اور گھروالوں کے لیے بھی حسب ضرورت ان کے اخراجات اب میں برداشت کروں گا۔

یہ سن کر اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ۔ اس نے تعجب بھرے انداز میں کہا:
ہاں! سر!کیا ایسا ہو سکتا ہے؟آپ میرے اور گھر والوں کے اخراجات برداشت کریں گے؟
ناصر نے کہا: ہاں! مگر اس کے بدلے مجھے کچھ چاہیے ؟
لڑکا چونکا اور تجسس بھرے انداز میں پوچھا :
کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کیا سر؟ کیا چاہیے؟میں تو کچھ دے نہیں سکتا !!

پھر ناصر نے کہا: تمہیں محنت سے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوگی اور اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ ایک اچھا آفیسر بن کر دکھانا ہوگا۔بولو راضی ہو؟

اس نے کہا: بالکل سر ! آپ فرشہ صفت انسان ہیں، ہمارے لیے مسیحہ کے مانند ہیں۔میں یقینا آپ کے توقعات کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کروں گا۔

ناصر نے اپنے منیجر کو بلا کر اس سے تفصیلات لے کر اس کے گھر ماہانہ رقم بھیجنے اور اس کے کسی اچھے اسکول میں داخلہ کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔

تبھی منگلو چاچا نے آواز دی:
حضور گاڑی آگئی! اور ناصر کا سامان اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے لیے چل پڑا۔ ناصر نے اس لڑکے سے کہا : ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ ! میں پندرہ دن کے لیے گھر جارہا ہوں آنے کے بعد تم سے تمہارے اسکول میں ملوں گا۔
Kahani: Hamdard Published by Bachon ki Dunya Oct 2016



Saturday 25 June 2016

Nanha Rozedar


ننھا روزہ دار


       اس رمضان میں ایک بچہ جس کے والد کے پاس تراویح کے بعد گھر سے مس کال آئی۔کال بیک کرنے پر پتا چلا فون پر اس کی ماں یعنی بچے کی دادی تھی۔ گھر کے حال و احوال پوچھے۔ سب خبر خیریت لی۔ پھر انھوں نے بچے یعنی اپنے پوتے کا سارا قصہ بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ 

       بتانے لگی رفیع اللہ پابندی سے شوقیہ کھانے کے لیے سحری میں اٹھتا اور سحری کھا کر سو جاتا تھا ۔اسی طرح ایک دن وہ اٹھا پھر سحری کرکے پورے دن کے روزہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا جب اسے کھانا دیا گیاتو وہ اسے لے کر کمرے میں چلا گیا اور ہاتھ گیلا کر کے باہر نکلا پھر کچھ دیر بعد اس نے کھانا چھپا کر بکری کو کھلا دیا۔جب عصر کا وقت ہوا، اس کی آواز پست، جسم گرم اور چہرہ مرجھانے لگا، سب کو لگا گرمی کی چھٹی ہے دھوپ میں کھیلتا رہتا ہے اسی لیے ایسا ہوا ہوگا۔

        خیر اسے بستر پر لٹا دیا گیا اور تنبیہ کی گئی کہ دھوپ میں نہیں نکلنا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ یہ چھوٹا معصوم بچہ روز ہ سے ہے۔

        وقت اس بچے کے لیے کچھوے کی رفتار میں منزل کی طرف بڑھ رہا تھا حسب معمول افطار لگایا گیا بچے دسترخوان کے ارد گرد جمع ہو گئے تبھی اس کے دوست نے اپنی امی سے پوچھا: رفیع اللہ کہاں ہے؟
        امی نے جواب دیا اسے بخار ہو رہا ہے ،اس لیے لیٹا ہوا ہے اور تم بھی سن لو سارا دن ادھر ادھر دھوپ میں کھیلتے رہتے ہو اب گھر سے باہر نکلنا بند!

        یہ سب سن کر اس نے کہا ...ماں! وہ تو .....روزے سے ہے!! اور تیزی سے اس کے کمرے کی طرف دوڑا۔ ور اس کے پاس جا کربولا رفیع ..رفیع ..چل اب ٹائم ہونے والا ہے..! 

       یہ سنتےہی اس کے جسم میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی وہ تیزی سے دسترخوان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ گھرو الےاسے کچھ کہتے مؤذن صاحب نے اللہ اکبر کی آواز لگا دی۔ اس آواز نے سب کو روزہ کھولنے میں مصروف کر دیا...! 


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...