Sunday 20 May 2018

Taraweeh ki Ahmiyat

تراویح کی اہمیت
رمضان کا مبارک مہینہ جیسے ہی سایہ فگن ہوتا ہے ۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس مہینے میں اللہ تعالی کا خاص کرم ہوتا ہے۔ نوافل اجروثواب میںفرائض کے برابرہوجاتے ہیں۔ اس لیے نوافل کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ تراویح درحقیقت قیام لیل ہے۔ یعنی رات کو نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنا اور سننا۔ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ہم احادیث نبویﷺ کا مطالعہ کریں توجس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ کا رمضان کے روزے سے متعلق یہ ارشاد ہے:

" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔
اسی طرح آپ نے اس مبارک مہینے کے قیام لیل کے سلسلے میں بھی یہ ارشاد فرمایا:

وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (متفق علیہ)
جس نے رمضان کے مہینے میں قیام لیل (رات کو کھڑے ہوئے کر نوافل ) کا اہتمام  ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔

اس روایت سے صلوۃ تروایح کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں صحابہ کرام ؓ مسجد میں انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں تراویح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سب کو یکجاکیا اور ان کی امامت فرمائی۔ صحابہ کرام کا نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگا تو تیسرے دن آپ ؐان کی امامت نہیں فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے اس لیے آپ نے اس روزتراویح کی نماز نہیں پڑھائی ۔‘‘

اس کے بعد صحابہ کرامؓ بدستور انفرادی طور پریا چھوٹے چھوٹے گروپ میں ابوبکر ؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمر کے عہد خلافت کی ابتدا میں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عمر ؓنے ایک موقعے پر مسجد میں لوگوں کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا تو انھیں ایک امام پر جمع کیا اور اسی کی اقتدا میں نماز تراویح کا اہتمام شروع ہوگیا۔تک سے لے کر آج تک دنیا کے ہر گوشے میں جہاں مسجد ہے وہاں تراویح کا باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مکمل قرآن سننے اور سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔

معزز سامعین کرام!  حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہم اس نماز کو اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اللہ تعالی ہی سے ثواب کی امید کے ساتھ نماز پڑھیں تو یقینا اللہ تعالی ماہ رمضان میں قرآن کریم کی سننے کی برکت سے ہمارے گزشتہ گناہوں کومعاف فرمائے گا۔

اس لیے تعداد رکعات میں الجھنے یا اس کے سنت، یا سنت مؤکدہ یا واجب ہونے نہ ہونے کے مسائل میں پڑنے کے بجائے اگر آپ نفل ہی سمجھ کر پڑھ رہے ہیں تو ضرور پڑھیں۔ یہ ہمارے اجر میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ نبی کریمﷺ اس ماہ مبارک میں بہ کثرت نوافل کا اہتمام کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں رمضان کی رحمتوں اوربرکتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین

Friday 18 May 2018

Ramzan Mubrak Insani Zindagi ke liye mahe Tarbiyat



رمضان مبارک انسانی زندگی کے لیے ماہ تربیت

رمضان کا مبارک اورمقدس مہینہ جس میں خداکی رحمتوںاوربرکتوںکا نزول ہوتاہے ،اس کی سب سے اہم عبادت ’’صوم ‘‘ یعنی روزہ رکھناہے ۔روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک خودکوکھانے پینے اورجماع (شہوانی خواہشات) کی تکمیل سے رکنے کوکہتے ہیں۔

اللہ نے اپنے کلام پاک میں روزے کو صوم سے تعبیر کیاجس کی حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن سے قبل عرب میں ’’صائم ‘‘اس گھوڑے کوکہاجاتاتھا جسے بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کے لیے خاص قسم کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ مشکل اوقات میں زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکے ۔رمضان میں بھی خدااپنے بندوںکو بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کا حکم دے کریہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ وہ شرائع واحکام کے متحمل ہوسکیں ۔

 اس لحاظ سے رمضان المبارک کو ماہ تربیت کہاجا تا ہے کیوں کہ خدااپنے بندوںکو روزے کے ذریعے ایک خاص چیزکی تربیت دیتاہے جسے ’’تقویٰ‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہا۔لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون:’’تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔‘‘روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے جو انسان کو صبروضبط کا عادی بناتاہے کیوںکہ نفس اورخواہشات پر قابوپانے کی بہترتربیت روزوںکے ذریعہ ہوتی ہے۔
تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کامیابی اورحصول مقاصدکے لیے نہایت ضروری ہے،اس کے بغیرکسی بھی مقصدیامشن میں کامیابی حاصل کرنامشکل ہے۔ہرچیزکی نشونمااوراس کے ارتقاء کے لیے تربیت کی خاص ضرورت ہے۔خواہ انسان کا علمی،عملی ،فکری لحاظ سے ذاتی نشونماہویاپھر خاندانی ،سماجی، سیاسی اورافرادسازی کے اعتبارسے معاشرتی ارتقاء ہوہرجگہ تربیت کی ضرورت ہے۔

روزہ کی فرضیت
۲ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ روزہ ہرمقیم ،عاقل ،بالغ مسلمان مردعورت پر فرض ہے۔اللہ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   ١٨٣؁ۙ
’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں(امتوں)پرفرض کیے گئے تھے۔‘‘  (البقرۃ:۱۸۳)
اس لیے بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہ عظیم ہے جس کی قضا پوری عمراداکرنے سے بھی پوری نہیں ہوتی۔
شہر القرآن
خدا نے اس مقدس کتاب کو مبارک ماہ میںنازل فرماکرہمیشہ کے لیے انسانوںکی ہدایت ،تربیت اوررہنمائی کے لیے ایک گائڈبک بنادیا۔قرآن اس بات کی اچھی تربیت دیتاہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوںمیںاس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور جہاں جس کام کا حکم ہے اسے کیاجائے اورجن چیزوںسے منع کیاگیاہے ،اس سے بازرہاجائے۔
اس طرح خدااس ماہ میںاپنے بندوںکو عبادت واطاعت ،زبان وشرم گاہ کی حفاظت ، غریبوںاورحاجتمندوںکی ضرورت پوری کرنے کی صراحت وقت کی نزاکت،اورہرطرح کے فرائض وحقوق کی ادائیگی کے لیے پوری زندگی لگن اورریاضت کی تربیت دیتاہے کہ بندہ اس ماہ کی عملی مشق سے آئندہ دنوںمیںرضائے الٰہی کی مطابق زندگی بسرکرے اورخودکوجہنم کی آگ سے بچاکرخداکے انعام (جنت)کا مستحق بنائے۔ اس طرح وہ معنوی اعتبارسے پوری زندگی ’’صائم ‘‘ہوتا ہے جس کا بدلہ خدااسے دیتارہے گا۔
شہراللہ
 اس ماہ مبارک کو ’’شہراللہ ‘‘اور’’شہرالمواساۃ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اس ماہ میں ان تمام چیزوںکی تربیت دی جاتی ہے جس سے انسان اپنے خداکا فرمابردار بن کر آئندہ یک سالہ منصوبۂ حیات کی تکمیل، اپنے خالق ومالک کی ہدایت کے مطابق کرسکے۔ جس طرح ایک فوجی جنرل اپنی فوج کوکسی مہم پربھیجنے یا کسی جگہ چوکسی کے لیے متعین کرتاہے ، تواس سے قبل وہ اپنے فوجیوں کوخاص مدت تک ٹریننگ دیتاہے اوران سے سخت ریاضت بھی کرواتاہے تاکہ اس کے فوجی اپنے ذمے سونپے گئے کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں ۔ چنانچہ جو اس میں جتنی دلچسپی لیتا ہے وہ اسی قدرپختہ ،تجربہ کارہوجاتاہے اوروہ فوجی ،جرنل کی نگاہ میں محبوب بن جاتاہے۔
ٹھیک اسی طرح خدانے اس مہینے میں روزے کا حکم نازل فرماکر اپنے بندوںکونیک کام کرنے کی ترغیب دی کہ اس میں اداکیے گئے فرض کا ثواب سترگنازیادہ اورنوافل، فرائض کے برابرہوگا تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ عبادات کا عادی بنے اوراس کے دل میں یہ اثر پیدا ہوکہ جس طرح وہ خداکے منع کرنے پر اس ماہ (روزے کی حالت )میںدسترخوان پرموجود حلال چیز کے باوجود،اسے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، ٹھیک اسی طرح دیگرماہ میں وہ یہ عزم کرے کہ خداکی حرام کردہ چیز کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔
یہ خداکا مہینہ ہے، لہذا جو اپنی کڑی ریاضت کے ذریعے اپنی تربیت کرے گا، وہ آئندہ دنوںمیں شیطان کے مکروفریب کا ڈٹ کرمقابلہ کرسکے گا۔یہی اس حدیث کا مطلب ہے جس میں اگلے پچھلے گناہ کی معافی کا اعلان ہے:حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے (اگلے) پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔              )بخاری ومسلم(                                                          
اس کے ساتھ ساتھ وہ خداکا محبوب بھی ہوگا۔ارشادنبویؐ ہے:’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہوتاہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوںگا۔بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لیے چھوڑدیتاہے۔‘‘  (مسلم(

شہرالمواساۃ
اس ماہ کوشہرالمواساۃ(غم خواری کا مہینہ)بھی کہاگیاہے ۔ایک مالدارصاحب ثروت شخص جس کے پاس ہرطرح کی نعمت وآشائش موجودہے اس کے باوجود طلوع فجرسے غروب آفتاب تک اس کاان نعمتوںکوہاتھ نہ لگانااوربھوک وپیاس سے بے چین رہنا اس بات کی تربیت دیتاہے کہ ایک غریب بے بس مسکین ولاچار جس کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیںاس کی ضرورت پوری کی جائے۔ اس طرح خداپنے بندوںکے اندرغم خواری کی تربیت دیتاہے تاکہ لوگ اپنے مال واسباب میں ان کا حق سمجھ کر ، زکوٰۃ وصدقات اورخیرات کے ذریعہ ان کی مدد کرے۔

جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:

اس ماہ مبارک جس میں انسانی زندگی کی مکمل تربیت کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیتاہے اورجہنم کے دروازے بند کردیتاہے تاکہ اس کی پربہارفضا میںنیک کام کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور اپنی جس نیکی سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ،خواہ عبادات کے ذریعہ یا اچھے اورنیک معاملات کے ذریعہ ،چنانچہ اس کا ایسا اثرہوتاہے کہ ہرشخص روزے سے ہوتاہے اورنیکی کی طرف دوڑتا ہوا نظرآتاہے جس پر خدااپنے فرشتوںمیںفخرکرتاہے۔شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس مبارک ماحول کو خراب نہ کرسکے۔
اگرانسان اپنی تربیت نہ کرے تووہ درندہ صفت حیوان بن جاتاہے اورمعاشرہ ایک خوفناک جنگل کی مانندہوجاتاہے جبکہ انسان انس ومحبت کا پیکراورباہمی تعلقات کا خوگرہوتاہے ۔اس لیے اس ماہ مبارک میںاسے اپنی ہرطرح تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کا دل بغض،بخل ،خودغرضی ،حرص وحسد،کینہ ،خودپسندی ،شہرت پسندی ،تنگ دلی اورتکبر جیسی ناپاک چیزوںسے نفرت کرنے لگے اوربہترین انسان بن کر خداکے محبوب بندہ بن جائے جس سے قوم وملت کو فائدہ ہو۔   ورنہ تواس جہاںمیں انسان اوربھی ہیں۔

Thursday 10 May 2018

Sila Rahmi



صلہ رحمی

    رشتہ داروں میں بھی اتنی نفرت نہ ہو کہ لوگ رشتہ داری سے ہی نفرت کرنے لگے... صل من قطعک...(ان سے رشتہ جوڑوں جس نے تم سے رشتہ توڑا) کو سامنے رکھنے والے بھی انسان ہیں جو ممکن ہے کہ تحمل نہ کر سکے اور معاملہ بہت سنگین ہو جائے.
وصلوا الأرحام
اس لئے رشتہ داروں پر توجہ دیں، ان کا خیال رکھیں اور اپنے کسی قسم کے مکر و فریب سے انھیں تشدد کا نشانہ نہ بنائیں. صلہ رحمی کا یہی تقاضا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے   
            محب اللہ قاسمی


دینی تعلیم
    لوگ اپنے بچوں کو اردو تو پڑھانا نہیں چاہتے جس کا نتیجہ ہے اب عصری تعلیم گاہوں سے بھی اردو ختم کی جا رہی ہے اسی طرح مکتب میں بھیجنا نہیں چاہتے وہ نماز جنازہ تو دور ٹھیک طرح سے کلمہ نہیں پڑھ سکتے.
اب بتائیں کہ اس میں علماء کیا کریں جنہوں نے اردو جو ہماری تہذیب کا حصہ ہے جس میں دینی تعلیم کا ذخیرہ ہے اس کو اب تک پروان چڑھانے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دی ہے اور مسلسل ممبر و محراب سے دینی تعلیم کی اہمیت اور اس کی فرضیت پر زور دے رہے ہیں...پھر بھی روش خیال لوگوں کے عتاب کا شکار وہی بے چارے مولوی...کہ انھوں نے نماز جنازہ پڑھانا کیوں نہیں سکھایا؟  ارے بھائی کس نے آپ کو دینی تعلیم کے حصول سے روکا؟
            محب اللہ قاسمی


Wednesday 9 May 2018

Isteqbale Ramzan aur Hamari Zemmedariyan




استقبال رمضان اور ہماری ذمہ داریاں
                                                         محب اللہ قاسمی
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بہت جلد ماہ رمضان اپنے فضائل برکات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک کی عبادات، ثواب اور ماحول میں برکت بڑی برکت رکھی ہے۔ گویا نیکوں کا موسم بہار آنے والا ہے۔ اس لیے ہم اس ماہ مبارک کا استقبال کریں۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا:

’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا، توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیا اس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی، یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔ اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا، یا دودھ کا گھونٹ پلایا، یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایا اس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔ جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔(مشکوۃ)

اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس ماہ تربیت سے اپنی تربیت حاصل کریں۔ عبادت و ریاضت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خصوصی دلچسپی لیں اور ابھی سے ہی آنے والے بابرکت مہینے کی تیاری شروع کردیں۔ اگر ہم نے منصوبہ بند کوشش سے اس ماہ مبارک سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو اس ماہ مبارک کی نیکوں اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے مالامال نہیں کیا تو رمضان المبارک جس طرح پہلے آتا رہا ہے آنیوالا بھی رمضان آئے گا، گزر جائے گا اور ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

اس لیے آئیے ہم لوگ ابھی سے اس کی تیاری میں لگ جائیں اور تقوی کی تربیت کے اس مہینے سے مستفید ہونے کا منصوبہ بنائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...