Tuesday 9 October 2018

Ijlas Ulmaye Keram


اسلامی نہج پر فرد کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح میں
 علماء کرام کا اہم کردار

معاشرے میں علماء کرام کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، قرآن و حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ موجود ہے. وارثین انبیاء کہہ کر ان کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ان پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ بھی واضح ہیں . علماء کرام قائدین امت اور اسلام کے ترجمان ہے.

لہٰذا بلا تفریق مسلک و منہج مل جل کر امت کے متحدہ مقاصد کے حصول اور اقامت دین کی کوشش کرنا، امت کے تمام دینی و اخلاقی، معاشرتی و سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے. جسے انجام دے کر وہ عند اللہ بہترین اجر کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں اپنے رتبہ بلند کو برقرار رکھ سکیں گے.

جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے آج مورخہ 7 اکتوبر 2018 کو مسجد اشاعت اسلام کے توسیعی حصے میں ایک اجلاس عام بعنوان 'اسلامی معاشرے کے قیام میں علما کرام کا کردار' منعقد ہوا، جس میں مختلف مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول سے ہوا. امیر حلقہ دہلی و ہریانہ جناب عبد الوحید نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جب کہ مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب، سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا.

اس پروگرام کا ایک حصہ مذاکرہ بہ عنوان: 'اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟' تھا_اس کے کے پانچ ذیلی نکات تھے _ اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مسلک کے علماء کرام نے ان نکات پر اظہار خیال کیا.مولانا ولی اللہ سعيدی، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مفید باتیں پیش کیں.
پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کے فکر انگیز اختتامی خطاب اور دعا پر ہوا.

مولانا مفتی سہیل قاسمی نے اس اجلاس میں نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کے اختتام پر ظہرانے کا نظم کیا گیا تھا.

امید ہے کہ یہ اجلاس امت کے اتحاد اور اصلاح معاشرہ کے لیے مفید اور علماء کرام کی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوگا.
Ijlas Ulmaye Keram 7 Oct 2018
محب اللہ قاسمی

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Khabib 🆚 McGregor (world champion)


میرے ساتھ اللہ ہی کافی ہے۔فاتح فائٹر خبیب

ہرمسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس لیے وہ  اپنی زندگی کو اپنے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق اور انھیں اپنا آئیڈیل مان کر گزارنے کو نہ صرف عقیدت و محبت سے تعبیر کرتا ہے بلکہ اسی میں اپنی کام یابی بھی تصور کرتاہے۔

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ  ایک موقع سے جب آپ ؐ کسی غزوہ میں شریک ہوئے، تو راستے میں ایک درخت پہ اپنی تلوار لٹکا کر اس کے سایے میں لیٹ گئے۔ تبھی ایک دشمن آیا اور آپ کی تلوار لے کر کہنے لگا: ’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘جواب میں آپ ؐ نے فرمایا :اللہ! یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے تلوار اپنے قبضے میں لیا ۔اسی طرح مصارعت رکانہ کا واقعہ بھی کافی مشہور ہے جب ایک معروف پہلوان نے آپ کو کشتی لڑنے کی دعوت دے اور خود کو ماہراور تجربہ کار پہلوان مانتے ہوئے مقابلہ میں آپ کو شسکت دینے کی بات کی۔ سیرت کے اوراق گواہ ہے کہ آپ نے اسے تین بار پچھاڑا اور چت کردیا۔

ایسے ہی گزشتہ روز امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں UFC کے تحت مکے بازی کا خطر ناک مقابلہ ایک جاں باز مسلم فائٹر خبیب عبداللہ مینوپووچ نورماگدوف اور دنیا کے خونخوار ،خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ کونر میگریگرکے ساتھ ہوا۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ 

اگر خبیب کی ویڈیو، جو نیٹ پر دست یاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا خبیب اسے حرام کہہ کر نکار دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا ۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ میرے ساتھ میرا اللہ ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔

ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہ ہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے خبیب نے اسے پیٹا ،  اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں  اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والےمیگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی ۔

اس میچ کے ناظرین نے اس حیران کن مقابلہ اور گریگر کی ناقابل یقین شکست پر ایک مسلم بہادر کی تاریخی فتح  اور اس کے بعد خبیب کے انٹرویو کو دیکھ کر یقیناً بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس جاگا ہوگا کہ اسے اپنے سامنے رسولؐ کو اپنا آئڈیل مان کر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہے جو دنیا کے ہر میدان میں ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ہم سب خبیب کی اس کام یابی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
محب اللہ قاسمی

Tuesday 31 July 2018

Story : Saheli Ki Shadi


سہیلی کی شادی

ہنستی کھیلتی چلبلی سی نیک اور خوبصورت بانو اس گاؤں کی پڑھی لکھی لڑکی ہے جہاں کبھی مرد بھی بہت کم پڑھے لکھے ملتے تھے۔ ایک تو گاؤں کی غربت دوسری پڑھائی سے بے توجہی ،جس کے سبب لوگ اتنا نہیں پڑھ لکھ پارہے تھے۔

مگر خاص بات یہ تھی کہ بانوکے والد پڑھے لکھے سرکاری ملازم تھے اور بھائی بھی پڑھا لکھا تھا۔ اس طرح اس کا گھرانا ایک حد تک تعلیم یافتہ تھا۔ بانوں اپنی سہیلیوں کو اللہ رسول کی باتیں پڑھ کر سناتی اور انھیں پڑھنے کے لیے آمادہ کرتی اورلڑکیاں ان کی باتیں بہ غور سنتی ۔

ایک دن بانو اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ کچھ لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں: ارے چل ،منگلو چاچا کے گھر کچھ مہمان آئےہیں۔ سنا ہے شبنم کو دیکھنے لڑکے والے آئے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ لڑکا بھی آیا ہے۔ 

ایک لڑکی اسی درمیان بول پڑی : ہائے اللہ ! لڑکا بھی آیا ہے ۔ کیا وہ بھی لڑکی دیکھے گا؟
ہاں اس کی شرط ہے اور اس سے کچھ پوچھے گابھی؟

اس پر سلمیٰ نے جواب دیا : ہاں ،یہ پہلی بار ہورہا ہے۔

تبھی بانو بولی :تو اس میں برا کیا ہے؟ اچھا ہے۔ شادی ہو رہی ہے۔ کوئی مذاق تھوڑی نا ہے۔ اگر وہ لڑکی کو دیکھے گا تو کیا لڑکی لڑکے کو نہیں دیکھے گی؟ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور جو پوچھنا ہوگا، پوچھ لیں گے۔ چلو ہم لوگ بھی چلتے ہیں نغمہ چاچی کے گھر ۔ شبنم نے ہم لوگو کو بتایا نہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے والے ہیں ؟ یہ بولتے ہوئے ساری سہیلیاں منگلو چاچا کے گھر پیچھے کے دروازے سے پہنچ گئیں۔

نغمہ نے جب ان کو دیکھا تو کہنے لگی: بانو کی اور دیکھتے ہوئے کہنے لگی اچھا ہوا، بانو آ گئی۔ ابھی ہم تیرے گھر بلاوا بھیجنے ہی والے تھے۔جا شبنم کو سنبھال اور اسے کچھ سکھادے۔جانے کیا کچھ بول دے وہاں پر؟

بانو بولی: چاچی تم اب بالکل فکر نہ کرو، ہم لوگ سب سنبھال لیں گے۔جیسے ہی بانو شبنم کے پاس پہنچی،لگی شکاتیں کرنے ۔

’’ کیوں رے تو نے مجھے بتایا نہیں کہ لوگ تجھے دیکھنے آنے والے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ شبنم کچھ بولتی بانو نے کہا : 
’’چپ رہ اب زیادہ مت بول ورنہ بولنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ تجھے تو ابھی بہت کچھ بولنا ہے۔‘‘

پھرسب نے شبنم کو سنوارا ،بہت کچھ سکھایا اور اسے لے کر مہمان کے کمرے میں آئی۔
لڑکا کچھ خاص پڑھا نہیں تھا، پر اس زمانے کسی کو کلام پاک پڑھنا آتا ہو ،اردو ،ہندی لکھ لیتا ہو تو اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا۔ لڑکا بھی بس اتناہی پڑھا تھا پر تھا ہوشیار ۔
اس نے شبنم کو دیکھا اور شبنم نے بھی اسے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آگئے۔ 
اب باری تھی سوال جواب کی۔
لڑکا: تمہارا نام کیا ہے؟
لڑکی : شبنم ...شبنم رانی!
لڑکا.تمہیں قرآن پڑھنا آتا ہے ؟ اردو لکھ سکتی ہو؟؟
شنبم : مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ یہ بول کر وہ چپ ہوگئی ۔

تبھی بانو بول پڑی:
’’بھائی صاحب ! مانا کہ اسے پڑھنا نہیں آتا، پر گھر کا سارا کام کاج یہی توکرتی ہے ۔ چادر بھی کاڑھ لیتی ہے ، یہ جو پردہ لگاہے نا۔ اس پر یہ بیل بوٹے سب اسی نے بنائے ہیں۔ اس نے پڑھنے پر توجہ نہیں دی ،ورنہ ہم سب سے آگے نکل جاتی۔ اتنی تیز ہے ہماری شنورانی!

لڑکا اپنے ابو کے کان میں کہنے لگا:
’’اگر واقعی یہ اس قدر تیز ہے اور پڑھ سکتی ہے تو پھر شادی پکی، مگر اس شرط کے ساتھ کہ چھ ماہ بعدہماری سگائی ہوگی۔ اس چھ ماہ میں اسے کم ازکم قرآن پڑھنا تو آجانا چاہیے؟

باپ نے کہا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے، یہ پڑھ لے گی!‘‘
پھرسب کے سامنے لڑکے کے والد نے لڑکی کے والدسے کہا:
’’ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے اور اپنے بیٹے کی شرط کا اعادہ کیا۔‘‘
بانو کی اس تیز زبان نے بات توبنا دی اور مہمان چلے گئے، پر چھ ماہ میں شبنم جیسی کند ذہن لڑکی کو پڑھانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ خیر سب نے لڈو کھائے، پر بانو لڈوہاتھ میں لیے یہ سوچ میں غرق ہوگئی کہ کیا شبنم چھ ماہ میں قرآن پڑھ لے گی؟

اتنے میں شنبم نے اس کے ہاتھ کا لڈو اس کے منہ میں ڈال دیا ۔ ارے کھا: اب کیا سوچتی ہے۔ میں اتنی تیز ہوں نا ،تو اب توہی مجھے پڑھائے گی ۔ نغمہ چاچی بھی بول پڑی:
’’ ہاں بیٹی ۔اب یہ عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

بانو نے یہ سارا قصہ اپنی ماں کو آکر بتایا ،ماں نے بھی تسلی دی :
’’ بیٹی! واقعی تونے بہت اچھا کام کیا ۔پرتونےشبنم کی جھوٹی تعریف کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے اب تو ہی اس کے لیے کچھ کر ۔اسے دن رات محنت کرکے پڑھا ،تاکہ وہ چھ ماہ میں اچھی طرح قرآن پڑھنے لگے۔

ماں کی باتیں سن کر بانو کو لگا کہ اب یہ میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا اور اسے نہ پڑھاسکی تو اس کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ بات پھیل چکی ہے۔ اگر رشتہ ٹوٹ گیا تو رسوائی ہوگی۔

پھر کیا تھا۔ بانو نے دن رات ایک کردیے ۔بارش کے موسم میں بھی وہ اپنے گھر سے سپارہ لے کر جاتی اور شبنم کو خوب پڑھاتی،یاد کراتی۔ دھیرے دھیرے وہ اس قابل ہوگئی کہ الفاظ کوپڑھ سکے ۔ ایک دن بانو نے شبنم سے کہا :

’’دیکھ بہن، یا تو تجھے یہ پڑھنا ہے یا پھر مرنا ہے۔ کیوں کہ تو بھی اسے پسند ہے اور وہ بھی تجھے پسند ہے۔ بیچ میں کوئی فاصلہ ہے تو وہ تیری پڑھائی کا ہے۔ بہن! اب وقت کم ہے ۔تجھے اور محنت کرنی ہوگی۔‘‘

یہ بات شبنم کے دماغ میں گھر کر گئی اور اس نے بھی جی جان لگادیا ، جس لڑکی کو حروف پہچاننے میں اتنی دشواری ہورہی تھی کہ بہ مشکل لفظوں کو ملا ملا کر پڑھنے کی کوشش کرتی تھی اب کچھ ہی دنوں میں وہ بہت اچھا قرآن پڑھنے لگی تھی اس طرح اس کی شادی کا خواب اسے پورا ہوتا دکھائی دینے لگا تھا۔

بالآخر وہ دن بھی آیا ۔شبنم دلہن بنی رخصتی کے وقت بانوسے لپٹی ہوئی روروکر ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔بانوسوچ میں پڑ گئی کہ اس کا یہ رونا رخصتی کا ہے،یا اظہارتشکر کا ؟ میں شبنم نے روتے ہوئے کہا:

’’بہن !تیرا مجھ پر یہ احسان والدین سے بڑھ کر ہے۔اسے میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ سب نے مل کر اسے ڈولی میں بٹھا دیا اور وہ پیا کے گھر سدھار گئی۔
                                                  محب اللہ قاسمی

Tabili : Khair o Shar

تبدیلی: خیر یا شر؟

       جو تبدیلی کتاب و سنت کو تبدیل کردے جو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو۔ اس تبدیلی پر کوئی خوشی مناتا ہو تو منائے پر میں اسے ذلت آمیز تبدیلی مانتا ہوں۔

       ہاں اگر یہ تبدیلی کتاب و سنت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ اور عدل وانصاف کے ساتھ مدینہ منورہ کے طرز پر ایک فلاحی ملک بنانے کے لیے ہو جہاں عوام کے پیسے امانت کے طور پر استعمال ہو، بدعوانی اور اخلاقی پستی سے اٹھ کر عوام کے امن و امان اور خوشحالی کے لیے ہو، اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔

       کیا ایک کپتان سے بہتر کپتانی کی امید کی جا سکتی ہے جس نے بلے سے کتاب اڑا دی ہو، آئندہ اس کا بلا اور کہاں کہاں چل سکتا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ میدان میں اترنے والے اس کھلاڑی کو امپائر ٹھیک سے کھیلنے دیتا ہے یا کوئی میچ فکس کر لیتا ہے.

ان شاء اللہ یہ منظر بھی بہت جلد سامنے آ جائے گا کہ کون کس مقصد کے تحت کام کر رہا ہے۔ یوں تو اس صدی میں اس امت کو اپنے قائد سے زیادہ تر دھوکہ ملا اور جو مخلصین رہے ہیں انھیں بر طرف کردیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے؟

محب اللہ قاسمی

Sunday 22 July 2018

Hindustan ko Linchistan na Banayen


ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں

ایک عالم مفتی کو دفاعی تھپڑ مارنے کی وجہ سے مجرم بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسری جگہ  ہجومی دہشت گرد پیٹ پیٹ کر بے بس، بے قصور مسلمانوں اور دلتوں کی جان لے رہے ہیں اور ایسے خونخوار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں سزا دینے کے بجائے دیش کے منتری ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے.

یہ کیسی پالیسی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ان باتوں سے دیش ترقی کر لے گا؟ کیا ان باتوں سے مہنگائی میں کمی آجائے گی؟ بے روزگاری ختم ہو جائے گی؟

یاد رکھیے! دیش کی ترقی عدل و انصاف اور قوم کے وکاس میں ہے، ان کا وناش کر کے قوم کا اعتماد اور وشواش کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا. بھلے ہی آپ ایوان میں اعتماد حاصل کر لیں. پر نہ بھولیں کہ آپ ہندوستان میں وکاس کا وعدہ لے کر آئے تھے. اسے لنچستان بنانے کا نہیں! ہندوستان میں امن و امان اور خوشحالی کی بحالی کےلیے نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ پیار و محبت کی علامت کہا جانے والا تاج محل والے ملک ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں۔

ملی قائدین و سیاسی و رہنما یہ بتائیں کہ بے چاری غریب عوام جو آپ کو اپنا لیڈر اور رہبر مان رہی ہے جب ان کی جان ہی سلامت نہ رہے تو آپ کن کی قیادت کریں گے؟ اور کن کے رہنما کہلائیں گے؟ قائدین ملت قیادت کی ذمہ داری کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے. ظلم و زیادتی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا. مظلوم کی ان سسکیوں میں جہاں ظالم کے خلاف بد دعائیں ہیں وہیں قائدین سے فریادیں اور آہیں بھی. انھیں محسوس کیجئے!
اللہ تعالٰی مظلومین کی مدد فرمائے، قائدین کو احساس ذمہ داری دے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے. آمین
محب اللہ قاسمی



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...