Monday 25 February 2019

watan se Muhabbat



حب وطن پرمسلمانوں کوصفائی کی ضرورت نہیں


ایک آدمی کے نماز پڑھنے کو جرم سمجھتے ہوئے اگر کوئی اس پر دہشت گرد ہونے  کا الزام لگائے تو کیا اس کے جواب میں کہا جائے گا  کہ میں نے نماز نہیں پڑھی! اب میں نماز نہیں پڑوں گا!! ہر گز نہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ہاں میں نے نماز پڑھی ہے اور نماز پڑھنا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں دہشت گرد ہوں۔ اسی طرح اگر ایک مسلمان کو محض مسلمان ہونے  کی بنا پر دہشت گرد کہا جائے تو کیا وہ کہے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں! ہزگز نہیں، بلکہ وہ کہے گا کہ میں مسلمان ہوں اور محض مسلمان ہونا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں دہشت گرد ہوں!

عجیب حال ہے _ایک تماشا بنا رکھا ہے۔ کہیں بھی کچھ ہو، فوراً مسلمانوں کی گرفتاری، فوراً ان پر دہشت گردی کا الزام، فوراً غداری وطن کا الزام۔  حد ہے!

جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کون غدار ہے؟ کون ملک میں نفرت کی سیاست کر رہا ہے؟
 اب مسلمانوں کو یہ صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ محب وطن ہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے خون سے  وطن عزیز ہندوستان کو سیچا ہے، ان کے خون میں وطن سے محبت شامل ہے۔ آزادی ہند میں مسلمانوں سے زیادہ کس نے قربانی دی؟ ظاہر  ہے، مسلمانوں نے ہی دی ہے ، یہی دارالعلوم دیوبند ہے جس نے  ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں   اہم کردار نبھایا ہے ! بڑی بے شرمی سے اسے دہشت گردی کا اڈہ بتایا جاتا ہے۔ وہاں کے طلبہ کو گرفتار کر کے انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا انکاؤنٹر کر دیا جاتا ہے۔ یہ صلہ ہے وطن پر قربانی دینے اور اس کے لیے جانفشانی کرنے کا۔

یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم انتشار کا شکار ہیں، ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں۔ حسب تناسب پارلمنٹ میں ہماری نمائندگی نہیں۔ اس وجہ سے ہماری آواز دب جاتی ہے۔ مگر ظلم کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند ہوتی رہیں گی۔

برادران وطن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک سچا مسلمان کبھی اپنے وطن سے نفرت نہیں کرتا۔ وہ ملک کو بنانے، سنوارنے میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ  دیتا ہے۔ وہ محنتی، ایماندار اور جفاکش ہوتا ہے _ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر اپنی جان لگا دیتا ہے۔

 یہ مٹھی بھر امن کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لیے ہم ہندوستانیوں کو آپس میں لڑا دیں گے، جیسا کہ وہ ہر بار کرتے آرہے ہیں، تو یقین جانیے اب ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ اب بڑی حد تک بیداری آئی ہے اور  لوگ نفرت کی سیاست کو سمجھنے لگے ہیں۔ ہمارے ملی قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ ملک میں مسلمانوں اور عام انسانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں ،تبھی  ملک میں خوش حالی آئے گی، ظلم مٹے گا اور ملک ترقی کرے گا۔
 (محب اللہ قاسمی)

Sunday 24 February 2019

Kalam e Ajiz


کلام: ڈاکٹد کلیم عاجز
پیشکش اور آواز: محب اللہ رفیق

 مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں کہ بہار نے مجھے کیا دیا 
تری آرزو تو نکال دی ترا حوصلہ تو بڑھا دیا

گو ستم نے تیرے ہر اک طرح مجھے ناامید بنا دیا 
یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نباہ کر کے دکھا دیا

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے 
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا

تجھے اب بھی میرے خلوص کا نہ یقین آئے تو کیا کروں 
ترے گیسوؤں کو سنوار کر تجھے آئنہ بھی دکھا دیا

میری شاعری میں ترے سوا کوئی ماجرا ہے نہ مدعا 
جو تری نظر کا فسانہ تھا وہ مری غزل نے سنا دیا

یہ غریب عاجزؔ بے وطن یہ غبار خاطر انجمن
یہ خراب جس کے لئے ہوا اسی بے وفا نے بھلا دیا
کلیم عاجز

Thursday 14 February 2019

Mere ABBA: Kuch Yaden




میرے ابا: کچھ یادیں
محب اللہ قاسمی
 آج صبح جب میں اپنی میز پر بکھری کتابوں اور فائلوں کو سلیقے سے رکھ رہا تھا تو میری نگاہ مصباح اللغات، القاموس الجدید عربی اردو،اردو عری پر پڑی ۔ لغت کی یہ  کتابیں مدارس عربیہ کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ کالجوں یونیورسیٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے کس قدر مفید اور ضروری ہیں؟ یہ معلمین اور متعلمین خوب جانتے ہیں۔

مگر ان کتابوں  سے میری کچھ یادیں جڑی  ہوئی ہیں،جنھیں میں  بھلا نہیں سکتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں عربی اول یا دوم کا طالب علم تھا ، معلم الانشا ء ، القراۃ الراشدۃ، قصص النبیین  اورصورمن حیاۃ الصحابہ جیسی عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھ رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس لغت کی کوئی کتاب نہیں تھی ،جب کہ دیگر ساتھیوں کے پاس ایسی کئی کتابیں موجود تھیں۔ وہ بہ آسانی  ان لغات کی مدد سے جملے بنایا کرتے تھے اور آئندہ سبق کا مطالعہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ میرے پاس بھی کوئی لغت ہوتی تو کتنا اچھا رہتا۔میں نے ذہن بنا لیا کہ ابّا سے کہہ کر میں یہ کتابیں حاصل کروں گا۔

طویل عرصہ تک پٹنہ میں رہنے کے بعد ہم لوگ اپنے گاؤں فاطمہ چک آ گئے ، ابا تلاش رزق میں دہلی چلے آئے ، پڑھے لکھے تو تھےپر  کوئی کام نہیں آتا تھا ۔چنانچہ وہ آٹو چلانے لگے اورمیں مدرسہ جامع العلوم مظفرپور میں پڑھ رہاتھا۔

 اس وقت موبائل فون کا دور تو نہیں تھا، ہاں البتہ لینڈ لائن فون کا چلن شروع ہوگیا تھا ۔ مدرسے کے دفتر میں ایک فون تھا ، جس  پر بات ہوتی تھی ۔اتوار کو سستی کال ہوا کرتی تھی۔میرے والد محترم ہمیشہ اتوار کو مجھے فون کرتے میری خیر یت اور پڑھائی کے بارے میں معلوم کرتے ۔مصارف سے متعلق دریافت کرتے۔ منی آرڈر بھیج دیا ہے،اس کی اطلاع دیتے۔ ایک دن ابا کا فون آیا۔ غالباً شعبان کا مہینہ تھااور سالانہ امتحان کی تیاری چل رہی تھی۔میں نے اپنی بہت سی باتوں کے ساتھ ان سےدرج بالا تینوں لغات کے لیے  فرمائش کردی۔ کہنے لگے: بیٹا! فکر مت کرو۔ میں عید پر گھر آؤں گا تو إن شاء اللہ لیتا آؤں گا۔ بات ختم ہوگئی۔

میرے والد محترم (جو 25 جنوری 2019 بروز جمعہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ،جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے) کی خاص بات تھی ۔عید کے موقع سے جب بھی آتے تو تمام گھر والوں کے لیے کپڑے، جوتے، سینڈل اور جس کی جو فرمائش ہوتی وہ سب  لے کر آتے تھے اور جس وقت گھر پہنچتے اسی وقت آنگن میں سب کو بلا کر سب کی فرمائش کی چیزیں دے دیتے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ابا سب کی چیزیں ان کے حوالے کرنے لگے۔ مجھے بھی میرے کپڑے، گھڑی ملی اور بیگ خالی ہو گیا۔ مجھے لگا کہ ابا میری ڈکشنری لانا بھول گئے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھوں نے فوراً اپنی بڑی والی دوسری اٹیچی کھولی اور  دو تین کپڑے ہٹانے کے بعد ڈکشنری میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو بھئی تمہاری فرمائش، اب خوش ہو! میں نے کہا: ابا آپ کچھ بھی نہیں بھولتے ہیں،جو بھی ہم کہتے ہیں وہ پورا کر دیتے ہیں۔ تب انھوں نے کہا:  بیٹا !تم لوگوں کے علاوہ میرا ہے ہی کون۔ خوب دل لگا کر پڑھو!

مجھے یاد ہے ،جب میں جامع العلوم میں ہی زیر تعلیم تھا،  ابا مجھ سے ملنے آئے ۔ایک بار وہ دہلی جانے لگےتو مجھ سے کہا کہ بیٹا!انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.

ابا مرحوم کی ہم لوگوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ اچھا کرنے اور خوش رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جامع العلوم مظفر پور سے دارالعلوم دیوبند جا پہنچا اور وہاں سے فضیلت حاصل کی.

میرے ابا آزاد ی ہند کے 14 سال بعد 5 فروری 1961 میں بہار کا موجودہ سب سے چھوٹا ضلع شیوہر کے ایک تعلیم یافتہ گاؤں فاطمہ چک کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے،جس کی دادی نے بڑی محنت و مشقت کے بعد اپنے بیٹےمحمد رفیق کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا تھا کہ وہ پٹنہ میں سرکاری ملازمت (ریکارڈ کیپر،پٹنہ سچیوالیہ)کرنے لگے۔ابا  اسی محمد رفیق(میرے دادا) کے بیٹے ہیں۔
ابا کی ابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ ،جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا ۔ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے ،مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا  اور ایک بڑی بہن جو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر مشاغل میں بھی مہارت رکھتی تھی ۔خواتین کو قرآن اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر وہ بھی شادی کے بعد انتقال کر گئیں۔
اب صرف ابا اور ان سےچھوٹے ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو ،ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ اہل خانہ کے ساتھ واپس پٹنہ چلا گئے ۔ وہاں کافی پیسے کمائے ۔بھائی اور ایک  بہن کی تو دادا نے شادی کی مگر دادا کے انتقال کے بعد کبھی انھیں اپنے والد کے نا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ دو بہنوں کی کفالت، اس کی تعلیم اور شادیکی ذمہ داری ابا نے بہ حسن خوبی انجام دی۔ باپ کی طرح سب کی پرورش کی۔  بھائی کو اور ان کے بچوں کو بھی جوڑے رکھا اور والدہ کی رہنمائی اور سرپرستی میں ساری ذمہ داری انجام دی۔
بشری کم زوری کے تحت انسانوں میں  بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں ہوسکتی ہیں  ،مگر کچھ نمایاں خصوصیات ایسی ہوتی ہیں ،جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔

ابا کی ایسی ہی چند خوبیاں آج بھی ہم سب کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔مثلاً پٹنہ میں قیام کے دوران جب وہ پٹنہ سے آتے اور مسجد کی کوئی ضرورت تعمیر یا مرمت کی ہوتی تو بلا کسی  مطالبے کے خود ہی بہت ساکام ذاتی پیسوں سے کرتے، ضرورت مند کو کوئی رقم دیتے تو کبھی واپسی کا دن متعین نہ کرتے۔ کہتے: جب سہولت ہو، دے دینا۔ دل میں کبھی کسی سے کینہ یا بغض نہیں رکھا، کسی کو کچھ کہا تواس کے  منہ پر کہا۔ نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے، نہ بڑوں سے بد تمیزی سے پیش آئے، وہ ہمیشہ  اپنے چھوٹوں سے بڑے مشفقانہ انداز میں ملتے اور بچوں سے تو انھیں بے حد لگاؤ تھا ،انھیں  روتا دیکھ کر اٹھا لیتے اور چسکاری دے کر ہنساتے۔


ایک وقت تھا جب ابا کی آمدنی بہت زیادہ تھی۔ گاؤں کے لوگ کہتے تھے کہ محمدحسیب(اباکانام) کے برابر کسی کی آمدنی نہیں، پیسوں کی بارش ہوتی ہے۔ مگر انھوں نے پیسوں سے کبھی محبت نہیں کی، خوب خرچ کیا۔ غریبوں اور بے کسوں پراس طرح انفاق کرتے گویا کوئی اپنے اہل و عیال پر خرچ کر رہا ہو اور مساجد و مدارس کو اس طرح عطیات دیتے جیسے اپنے مکان میں لگا رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہم لوگوں کے پاس گرچہ کوئی نیا مکان نہیں اور نہ ہی کچھ زمین جائداد ہے۔مگر آج بھی گھر کا ماحول ایسا  ہے کہ اباکے چاہنے والے آتے ہیں، ضیافت کا لطف لیتے ہیں، ان کی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور دعائیں دے  کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے مہربان، مشفق باپ کی یہ لائق تحسین ،قابل فخر خوبیاں جن کی یادیں میرے لیے سرمایہ حیات ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ رب العالمین میرے والد محترم کے گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں کو اپنے بے پناہ فضل و کرم سے معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام بخشے اور ہم (والدہ سمیت 4 بھائی اور 3 بہنوں) لوگوں کو صبر جمیل عطا کرے۔
آمین یا رب العالمین

Wednesday 21 November 2018

Aap se keun na Zamane ko Muhabbat hoti

آپؐ سے کیوں نہ زمانے کو محبت ہوتی
                                                                      محب اللہ قاسمی
 انسان دنیا کا مالک نہیں ہے تو وہ اس کا نظام چلانے والا بھی نہیں ہوسکتا ۔ جو مالک ہے ، وہ انسانوں میں سے ہی عظیم اور بہترین انسان کو چن کر دنیا میں بھیجتا ہے، تاکہ وہ دنیا والوں کو اس کے خالق و مالک کے بارے  میں بتائے اور اسی کی مرضی کے مطابق ان کواچھے کاموں اور صحیح طریقے سے جینے کا ڈھنگ سکھائے ۔اس طرح دنیا میں امن و شانتی اور خوش حالی آئے اور تمام انسان اپنے اچھے یا برے کرموں کے بدلے مرنے کے بعد جنت کے باغات یا جہنم کی آگ کے مستحق بنیں۔ دنیا میں یہ تمام وہ پیغمبر آئے ۔آخر میں حضرت محمدﷺ  تشریف لائے۔آپؐ نبوت کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔آپ کے نبی ہونے اور دنیا میں بھیجے جانے کی خوش خبری پہلے کی آسمانی کتابوں میں موجود ہے ، اسی طرح دوسرے دھرم گرنتھوں میں بھی اس عظیم رہبر اور انسانیت کے رہنما کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کرہی  انسان دنیا  میں امن و سکون ، خوش حالی اور ترقی حاصل کرسکتا ہےاور مرنے کے بعد جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔

آپ ﷺکی زندگی کو آسانی سے سمجھنے کے لیے  اسے تین ادوار میں بانٹا جاسکتا ہے۔
 v   ولادت سے رسالت تک    v   رسالت سے ہجرت تک   v   اور ہجرت سے وفات  تک

*ولادت سے رسالت  تک*
آپ سرزمین عرب میں ،مکہ شہر کے باوقار اور شریف خاندان بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پوری دنیا میں فساد و بگاڑ کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ظلم و زیادتی ،قتل خوں ریزی، بدکاری و بداخلاقی ، چوری و زناکاری کا بازار گرم تھا۔ایسے میں نور کی کرن پھوٹی اور اس اندھیرے کو ختم کر دینے والا سورج نکل آیا۔تاریخ۱۲ربیع الاول، پیر کا دن ،شمسی کیلنڈر کے مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۰ عیسوی ،صبح کا وقت اور مقام خانۂ کعبہ تھا جہاں آپ ؐکی پیدائش ہوئی۔اسی سال  ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج سے خانۂ کعبہ  پرچڑھائی کی تھی، جسے پرندوں کے جھنڈنے اپنی چونچوں میں دبائی ہوئی  کنکریوں سے تباہ و برباد کردیا تھا اور خانہ ٔکعبہ محفوظ تھا۔

آپؐ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔آپ کے دادا عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتےکا نام محمد اور ماں نے احمد رکھا۔6برس کی عمر ہوئی تو امی جان کا انتقال ہو گیا۔پھر8 سال کے ہوئے تو دادا جان بھی دنیا سے چل بسے۔اس کے بعدآپ کے چچا ابوطالب نے اپنی آپ  کی پرورش کی۔

آپؐ بچپن سے ہی بہت ملنسا ، انسانوں کی عزت و احترام کرنے والے اوربااخلاق انسان تھے۔ آپؐ کی ایمانداری اور سچائی کو دیکھتے ہوئے لوگ آپ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔25سال کی عمر میں اس وقت کی نہایت شریف اور خاندانی عورت حضرت خدیجہ ؓسے، جن کی عمر 40سال تھی ،آپ کا نکاح ہوا ۔ ان سے آپ کی چار بیٹیاں زینب ؓ،رقیہ ؓ،ام کلثومؓ اور فاطمہ ؓپیدا ہوئیں۔ 35سال کے تھے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کے موقع پر اس میں حجر اسود  لگانے کے لیے قبیلے آپس میں لڑ پڑے اور جنگ اور خوں ریزی کی نوبت آ گئی  تو آپ نے  اس فساد کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

*رسالت سے ہجرت تک*
جب آپ 40 سال کے ہوئے تو اللہ نے آپؐ کو اپنا پیغمبر بنایا اور قرآن کی آیات آپ پر اترنے لگیں۔ پہلی وحی کے بعد آپ نے کچھ بے چینی محسوس کی تو آپ کی جانثار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی اور کہا  :آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے  ہیں، مہمان نواز ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، امانت دار ہیں اور دکھیاروں کے خبر رکھتے ہیں۔ اللہ آپ ؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

آپ 13 سال مکے میں ایمان نہ لانے والوں  کے ظلم و ستم سہتے ہوئے ،  لوگوں کو اسلام  کی تعلیم دیتے رہے ۔ بہت سے لوگوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ پر ایمان لے آئے۔انھیں صحابی کہاجاتاہے۔ ان میں حضرت خدیجہؓ ،ابو بکرؓ ،علیؓ ،زیدؓ پہل کرنے والے ہیں۔حضرت ابو بکر کی دعوت پر حضرت عثمانؓ،حضرت عبدالرحمنؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ،او رحضرت زبیر بن العوامؓ اسلام قبول کیا ۔ نبوت کے ساتویں سال بھر بعد دوبڑے بہادر ،جاں باز صحابہ حضرت حمزہؓ او رعمر بن الخطابؓ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ اس کے بعد کھلم کھلا دین کی تبلیغ کی جانے لگی او رصحابہ کرا مؓ آزمائشوں وتکالیف میں مبتلا  ہوئے۔ لوگو ں نے آپ کو شاعر اور جادو گر کہا۔ابولہب کی بیوی امّ جمیل نے آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا گیا ۔حضرت زبیر کو کھجو ر کی چٹائی میں لپیٹ کر کوٹھری میں بند کر کے دھواں دیا گیا گرم گرم پتھروں پر لٹا یا گیا، پیروں میں رسی باندھ کر گھسیٹاگیا ۔نبوت کے پانچویں سال حضرت عثمانؓ اور دیگر بہت سے صحابہ ؓ حبشہ ہجر ت کر گئے ۔

اسی دوران مکے والوں نے  آپؐ کا بائکاٹ کردیا۔ تقریباڈھائی تین سال تک آپؐ اور آپؐ کے ماننے والے  ایک گھاٹی میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی، تلخ صبرآزما زندگی بسر کرتے رہے ۔ اسی دوران آپ ؐ کے مہربان چچا ابوطالب اور جانثار بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔ اس وجہ سے اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہاجاتا ہے۔ ۱۰نبوی کونظر بندی سے رہائی ہوئی،اس کے بعد آپ نے طائف کا سفر کیا ، وہاں کے لوگوں نے اپنے نوجوانوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے آپ پر پتھر برسائے جس سے آپ کا جسم لہو لہان ہو گیا۔اللہ تعالی کے حکم سے فرشتہ آئے جنھوں نے پیش کش کی کہ ان دشمنوں کو  دوپہاڑ کے درمیان  پیس دیں۔ مگر انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ عظیم الشان نبی ؐنے ان کی غلطیوں کو در گرز کردیااور  ان کی نسل سے خیر کی امید رکھتے ہوئے انھیں معاف کر دیا۔ ۱۲نبوی ۲۷رجب المرجب دو شنبہ کو معراج ہوا او ر نماز کا تحفہ ملا ۔اس دوران مدینہ سے الگ الگ قافلے والوں نے اسلام قبول کیا۔نبوت کے تیرہویں سال جب مکہ والوں نے آپ کا جینا محال کر دیا اور دشمن آپ کے قتل کی سازشیں کرنے  لگے تو اللہ تعالی نے آپ کو مدینہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔

*ہجرت سے وفات تک*
آپؐ بہت ایمان دار ،امانت دار تھے۔ اس وجہ سے مکہ والے آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے ۔جس رات آپ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے تھے ،آپؐ نے اپنے چچازاد بھائی علی ؓکوسمجھا کر  سب کی امانتیں سونپ دیں اور اپنے جانثار صحابی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ  مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔ آپ ؐ یکم ربیع الاول بروز دو شنبہ کو غار سے نکلے ۔  ۸ربیع الاو ل کو قبا پہونچے اور وہاں ۱۴ دن قیام کیا ۔۱۲ ربیع الاول کومدینے میں قدم رکھا، جسے پہلے یثرب کہا جاتا تھا ۔اس وقت آپ پر جان چھڑکنے والے  بہت سے صحابہ کرام مدینہ میں موجود تھے ۔ ان سے مدینہ والوں نے آپ کی تعریفیں سن رکھی تھیں اور آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے ۔ انھوں نے آپ کی آمد پر والہانہ استقبال کیا۔حضرت ابوایوب ؓ کے گھر پر آپ کاقیام ہوا۔مسجد نبوی کی تعمیر کرائی گئی۔انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کا عظیم الشان منظر سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں وہ  حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ قریبی ہوگئے۔

دو ہجری میں حق اورباطل کے درمیان  بدر کے مقام پر تاریخ ساز معرکہ  ہو ا، جس میں مسلمانوں کی تعداد (۳۱۳ )تھی  اور کفار ایک ہزارسے زائد تھے ،اس کے باوجود  مسلمانوں کو بہت بڑی کامیابی ملی اور کفار ومشرکین ذلیل ورسوا ہو کر ناکام و نا مراد  لوٹے اور ان کے  ۷۰ سرداران قتل کئے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے ۔اسی سال اذان کا حکم نازل ہوا اور خانۂ کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ۔ اسی سال رمضان کے روزے فرض ہوئے۔

تین  ہجری میں زکوٰۃ کی فرضیت ہوئی ،اسی سال ماہ شوال میں غزوۂ احد پیش آیا۔اس میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے۔  آپؐ نے انہیں سیدالشہداء کا خطاب عطا کیا۔ اس جنت میں  رسو ل اللہ ﷺکی ایک ہدایت پر عمل نہ کرنے  کی وجہ سے مسلمانوں کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا اوران کا بہت جانی نقصان ہوا مگربعد میں ان کا  عزم و حوصلہ بحال ہوگیا۔

چار ہجری میں ام الخبائث شراب کی حرمت نازل ہوئی ۔اسی سال بیئر معونہ کے مقام پر غزوۃ الرجیع میں ۷۰حفاظ قرآن شہیدہوئے تو قنو ت نازلہ کی ابتداء ہو ئی۔۵ہجری میں عورتوں کے لئے پردے کا حکم آیا اورآیت حجاب نازل ہوئی۔ماہ شوال  ۵ ہجری میں جنگ خندق (احزاب)پیش آئی ۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کھودی  گئی ۔ اس جنگ میں کفار ناکام و نامراد واپس ہوئے اور وہ مسلمانوں کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکے۔

چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔اس موقع پر آپ ﷺنے اپنے ساتھیوں سے موت پر بیعت لی، جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ سورۃ فتح میں اس کا مکمل تذکرہ ہے ۔اسی سال آپ ؐ نے بادشاہوں کے یہا ں اپنے سفیر روانہ کیا اورانہیں اسلام کی دعوت دی۔

ماہ رمضان المبارک ۸ہجری میں مکہ فتح  ہوا۔ آپؐ  عظیم الشان فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے مشہور  تاریخی جملہ کہا :’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو۔‘‘ اتنی عظیم الشان  فتح بغیر خون خرابے کے  حاصل ہوئی۔ جو انسانیت کے لیے ایک بڑی مثال ہے۔اسی سال غزوۂ حنین عمل ہوا۔اسی دوران خالد بن ولید، عثمان بن ابی طلحہ ،عمر وبن العاص اورعکرمہ بن ابی جہل مدینہ آکر مسلمان ہوئے ،  ماہ رجب ۹ہجری  غزوۂ تبوک ہوا ،حج فرض ہوااورحضرت ابو بکرصدیق ؓ امیر الحج مقر ہوئے۔

دس ہجری میں آپ ؐنے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ حج کیا ۔اسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔گیارہ ہجری میں آپؐ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

حضورپرنورسرکاردوعالم ﷺکی زندگی جہدومشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ دوسری طرف آپؐ کی حیات طیبہ امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری ،شجاعت اورکمال علم و عمل کی تصویر تھی۔آپؐ نے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ،بدکاری وبداخلاقی سے مامورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان ،اخوت وبھائی چارگی اورانسانیت کادرس دے کرایمان و حقائق کی روشنی سے انسانیت کو آگاہ کیا۔

عرب غروروتکبرمیں بدمست تھے۔ حسب ونسب پرفخرکرتے تھے، آپ ﷺنے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکئے گئے‘‘ مزید فرمایا:’’اے لوگو! بلاشبہ تمہار ارب ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی عربی کو کسی عجمی پراور کسی عجمی کوکسی عربی پر، کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اور کسی سیاہ کوکسی سرخ پر کوئی فضیلت اوربرتری حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے ،،۔  (مسنداحمد)

آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذ کیاجس میں عرب و عجم ، امیر وغریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابراوریکساں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا :’’بخدااگراس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔

آپؐ کی پوری زندگی ظلم وناانصافی کے خلاف برسرپیکارہے۔ آپ مظلوم اوربے کس ولاچارکی حمایت کرتے تھے ۔آپؐ نےانسانوں کو صرف اس کی عبادت کا حکم دیا اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ عطاکیا۔
 -----------------------------------------------
*اولاد نبیﷺ*
تین لڑکے:۱۔قاسمؓ   ۲۔عبد اللہؓ (طیب /طاہر)  ۳۔ابراہیمؓ                              
چار لڑکیا ں:  ۱۔ ز ینبؓ  ۲۔ رقیہؓ   ۳۔ام کلثومؓ   ۴۔فاطمہؓ
آپ ؐ کے سارے بچے حضرت خدیجہؓ سے ہوئے، سوائے ابراہیمؓ کےکہ  یہ حضرت ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔

*امہات المؤمنین (ازواج مطہراتؓ )*
۱۔حضرت خدیجہ الکبریؓ ۲۔حضرت عائشہؓ ۳۔ اُم حبیبہؓ ۴۔اُم سلمہ۔حفصہ بنت عمرؓ
۶۔میومنہ بنت الحارثؓ ۷ ۔ زینب بنت جحشؓ ۸ ۔سودہ بنت زمعہؓ ۹۔زینب بنت خزیمہؓ
۱۰۔جویرہ بنت حارثؓ ۱۱۔صفیہ بنت حیّ ؓ ۱۲۔ماریہ قبطیہؓ

*داماد نبی ﷺ*        ۱ ۔ حضرت ابو العاصؓ ۲ ۔ حضرت عثمانؓ ۳۔حضرت علیؓ
*نواسۂ رسول ﷺ *   ۱ ؂ حضرت حسنؓ ۲ ؂ حضرت حسینؓ

***** 

Friday 16 November 2018

Musalman Buzdil Nahi



مسلمان بزدل نہیں مگر

مسلمان اقدامی یا دفاعی کوئی بھی پوزیشن اختیار کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی. مگر صیہونی قوت اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب وہ مسلمانوں کے درمیان منافرت کی بیج بو کر اور دنیا کی محبت، چمک دمک میں پنھسا کر ان پر حملہ آور ہوتی ہے.اس لیے ہمیں اپنی ان کمزوریوں کے تدارک اور اس کے علاج پر غور کرنے کی ضرورت ہے. ایسے لوگوں سے محتاط رہیں جو منافرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں اور ایسے عہدے داران اور نادان دوستوں پر نظر رکھی جائے جو ہمارے دشمنوں کا دانستہ یا ناداستہ آلہ کار بن جاتے ہیں.

تمام مسلمان محمد ﷺ کے امتی ہیں،قبلہ ایک قرآن ایک اس لیے باہم مل جل کر رہیں اور مخلصین کا ساتھ دیں اور اپنے نصب العین (برادران وطن میں دعوت دین) فریضہ انجام دیں.
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک (اقبال)

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...