Saturday 13 April 2019

Shakhshiyat ki Tameer: Narm Dame Guftagu Garm Dame Justaju


      محترم ڈاکٹر سلیم صاحب جیسی اہم شخصیت کا خاکسار کی کتاب ترجیحی طور پر پڑھنا اور اس پر گراں قدر تبصرہ بھی تحریر کرنا کم از کم میرے لیے ناقابل یقین سا تھا. جس کے لیے ڈاکٹر صاحب کا بہت بہت شکریہ. جزاک اللہ خیرا.
      میرے تعلق سے ان کی خوش گمانی اور توصیفی کلمات جو ان کی ذرہ نوازی ہے جس کا میں ہمیشہ ممنون رہوں گا. ڈاکٹر صاحب کے اس حوصلہ افزائی کے حسن عمل اور اعلی ظرفی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے.
ان سے میری اس مختصر سی ملاقات میں جو میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب واقعی دلچسپ، خوش مزاج اور ہر دل عزیز انسان ہیں. نوجوان نسل کو ان جیسے بہترین لوگوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی سخت ضرورت ہے.
ان کے لیے میرے دل سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں بہ صحت و عافیت رکھے تاکہ وہ اسی طرح نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور اللہ انھیں دونوں جہاں میں سرخروئی عطا کرے آمین.


مولانا محب اللہ قاسمی: نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو

ڈاکٹر سلیم خان


      مجلس نمائندگان کے دوران طعام گاہ میں ایک شخص کوسرگرمِ عمل دیکھ کر میں نے اپنے ہم سایہ سے دریافت کیایہ کون صاحب ہیں؟ پتہ چلا شعبہ تربیت کے نائب سکریٹری محب اللہ قاسمی ہیں۔ میں سمجھ گیا اللہ سے محبت کرنے والے اس اسم بامسمیٰ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا سے محبت نہ کرے اور یہی محبت اس سے ارکان مجلس کی خدمت کروا رہی ہے۔ مرکز ِجماعت دہلی میں اگر آپ کا جانا ہو تو مولانا محب اللہ قاسمی سے بھی ملیں۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟ دراصل مرکز میں جانے والے امیر جماعت، قیم جماعت، نائب امراء ،سکریٹریز اور اپنے احباب سے ملاقات کرتے ہیں لیکن مولانا محب اللہ جیسےغیر معروف افراد سےملاقات کا شرف حاصل نہیں کرتے حالانکہ ان کی شخصیت بھی کم متاثر کن نہیں ہوتی۔

      آگے چل کر مولانا قاسمی صاحب کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ آپ ’شخصیت کی تعمیر ‘نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ایک عالم فاضل صاحبِ قلم کا اس شدو مد کے ساتھ شرکاء کا خیال رکھنا میرے لیے باعثِ حیرت تھا۔ عام طور پر جن لوگوں کا قلم چلتا ہے ان کا دماغ تو بہت چلتا ہے۔ زبان بھی خوب چلتی لیکن ہاتھ پیر کم ہی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بیشتر کاموں کو اپنے مقام اور مرتبہ سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ اس طرح نیکی کمانے کے بہت سارے مواقع سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر مین صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں’نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور کاموں کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۸ پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

      دورانِ اجلاس ارکان مجلس فجر کی نماز سے لوٹتے تو گرم گرم چائے ان کا استقبال کرتی۔ نشست سے قبل ناشتہ اور ظہر و عشاء کی نماز کے بعد کھانا تیا رملتا ۔ وقفوں میں چائے وغیرہ سے ضیافت ہوتی اور ہر موقع پر مولانا محب اللہ اپنی ٹیم کے ساتھ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ۔ ان کی اس گرمجوشی کی وجہ مذکورہ کتاب کےصفحہ ۱۰۴ پر یوں بیان ہوئی ہے’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں یہ کیفیت نہ ہووہ مومن نہیں‘ ۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔

      آخری دن قاسمی صاحب نے کھانے کی میز پر سوال کیا ’سلیم یہ کیا کہ پہلےتو شوریٰ میں تمہارا نام آیا اور پھر غائب ہوگیا؟‘ میں نےجواب دیا ’اعلان میں بھول سے چوک ہوگئی تھی اصلاح ہوئی تو چلا گیا‘وہ بولے’ لیکن اتنی بڑی بھول ہوئی کیسے؟‘یہ ذرا مشکل سوال تھا ، میں نے پوچھا ’کیا آپ کو جیل جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ سٹپٹا کر بولے نہیں‘ میں نے کہا ’جیل جانے کے لیے جرم کا ارتکاب لازم نہیں ہے لیکن چونکہ جیل کے اندر کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے بے قصور قیدی اس سوچ میں گم رہتا ہے کہ آخر میں یہاں کیوں ہوں؟ اس کے لیے کون قصوروار ہے وغیرہ لیکن جب اس کو رہائی کا پروانہ مل جاتا ہے تو وہ سب بھول بھال کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا‘۔ اس جواب پر مولانا کا قہقہہ بلند ہوا اورمیں نمائندگان کی حسین یادوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ آپ کو محب ا للہ قاسمی صاحب سے ملنے کی سعادت نہ ملے تب بھی اپنی ’شخصیت کی تعمیر‘ کے لیے ان کی کتاب ضرور پڑھیں۔
        *****


Thursday 11 April 2019

Hindustan men Muslim Qeyadat ka Zawal - Asbab o Awamil



ہندوستان میں مسلم قیادت کا زوال- اسباب وعوامل
محب اللہ قاسمی

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس  میں ہرقسم ، ہر رنگ و نسل کے لوگ  اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقہ سے رہیں اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنی پوری قوت لگا دیں۔ اس لحاظ سے ہر محاذ پر انھیں کی نمائندگی  کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس وقت ہندوستانی سیاست میں مسلم قیادت کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

1۔ ہندوستان میں سیکولر شناخت کی دھندلی ہوتی تصویر اور فسطائی قوتوں کے ناپاک عزائم نے جہاں دوسرے کم زور طبقے کو متاثر کیا وہیں مسلمانوں کو بھی حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے  اب کسی پارٹی کو مسلمانوں سے  ہمدردی نہیں  رہ گئی ہے۔ وہ انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے۔

2۔ ہندوستان کی کسی بھی پارٹی سے جیت کر آنیوالے مسلم امیدوارکو پارٹی نے  اس کی حیثیت کے مطابق  مقام نہیں دیا۔حتی کہ اسے  مسلم ایشوز پر بھی بولنےسے روک دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی گنی چنی پارٹیاں حرکت میں آئیں مگر ان کا باہمی اتحاد نہ ہونےکی وجہ  سے وہ منتشر رہیں۔اس کے سبب مسلم قائدین دوسری پارٹیوں  میں بھی نظر انداز کئے گئے۔

3۔ مسلمانوں کا سیاسی شعور  جس قدر بیدار ہونا چاہیے تھا اور جس طرح ان کے قائدین کو اپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں نام نہاد سیکولر ازم کا طوق گلے میں لٹکائے مسلم قائدین زوال پذیر ہوتے گئے،مسلمانوں کا وجودجلتی ہوئی موم بتی کی طرح پگھلتا چلاگیا اور وہ  سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے۔ ادھر فسطائی طاقت کا وجود  اور ہندوتو کے  غلبہ نے ان قائدین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور دوسری طرف  وہ پارٹیاں جن کی کام یابی کے لیے مسلمانوں نے اپنی کئی نسل لگا دی اب وہ بھی انھیں ٹکٹ سے محروم کرنے  لگے۔

4۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اٹھانے والے مسلم قائدین نے اپنی  نسل کو آگے بڑھانے اور انھیں مین اسٹریم سے جوڑنےکی اس قدر کوشش نہیں کی جیسی دوسری قوموں نے کی ہے ۔نتیجتاً  اب انھیں کوئی قیادت کا موقع  دینےکے لیےتیار نہیں۔

5۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے ووٹ اور ان کی حمایت سے صرف اپنے پنجے کو مضبوط کرنےاور اپنی لالٹین کی لوبڑھانے کی کوشش کی، مگر خود ان کے گھر کے لوگوں کو مضبوط کیا نہ اس کے گھر میں لال ٹین جلائی۔ سارا تیل خود  ہی پی گئے اور جس نے گھر بنانے  کی امید جگائی وہ کھلے طور پر موقع پرست ہوکر گھر جلانے والوں کے ساتھ ہوگیا۔اس کے نتیجےمیں اب یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو محض استعمال کرنے کے لیے اپنی پارٹی میں جگہ دیتی ہیں، بلکہ بسا اوقات انھیں ایسی جگہ سے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے اس کا جیتنا آسان نہ  ہو۔  اس طرح وہ چاہتی ہے کہ مسلم قیادت کسی طور  مضبوط  نہ ہو۔

6۔ طویل عرصے سے مسلمانوں کی سیاسی کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں خط افلاس سے نیچے پہنچادیاگیا، جس کی وجہ سے ان کا اپنی قیادت کے بارے میں سوچنا تو  دور  ان کے جینے کے لالے پڑ گئے، چہ جائے کہ تعلیمی اور دیگر  میدان میں آگے بڑھ پاتے اور اس میں قیادت کا  فریضہ انجام دیتے ۔

7۔ ہندوستان  میں مسلم قائدین نے اپنی حیثیت اس قدر مجروح کرلی کہ دوسری قوم کی عوام نے بھی اسے حقارت سے دیکھنا شروع کردیا اور  ان پر یہ الزام کہ جو اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور اپنے مذہب جوانسانیت کی کامیابی کا نسخہ اپنے پاس رکھتا ہے ۔ اس کے لیے اتنا وفادار نہیں تو دوسروں کے لیے وہ کیا کرے گا۔نتیجہ ایک گدھا اور احمق بن کر اپنا وجود ایسے کھونے لگا کہ  نہ گھر کا رہا نا گھاٹ کا۔

8۔ سیاسی بصیرت کا فقدان اورعلمی صلاحیت کی کمی نےان مسلمانوں کو جنھوں  نے چھ سو600 سال ہندوستان پر  حکومت کی  غلامی کے دلدل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ پارٹی کی دری  ،کرسی بچھانے اور چاپلوسی جیسی  گھٹیا صفت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی نہیں ہے۔

9۔ کوئی انسان جب تک خود کو پہچانتا نہیں اور اپنی قابلیت کو نہیں پرکھتا وہ اسے مزید نکھارنے اور بہتر بنانے کی فکر بھی نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر مسلمانوں نے خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ اپنی صلاحیت کو اس ضمن میں پروان چڑھایا۔نتیجتاً وہ سیاسی طور پر حاشیہ پر چلے گئے۔نوبت یہ آ گئی کہ اب انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

10۔قیادت میں پھر سے واپسی اور زمام حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مسلمانوں کو از سرنو محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنے اختلاف و انتشار کو پوری طرح سے ختم کرکے سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے بہت بڑا دل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو دوسری پارٹی کے بھروسے پررہنے کی ضرورت نہیں، خود کی پارٹی کو مضبوط کرکے  ملک کی قیادت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ تب ہی فسطائی قوت کو مات دی جاسکتی ہے ورنہ الگ الگ میقات میں الگ الگ پارٹیاں جیتتی رہیں گی مگر نظریہ  وہی تعصبانہ اور ملک میں انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیداکرنا ،فسادات،غربت و افلاس ، بے روزگاری ومہنگائی کی مار سہنی ہوگی ۔ جس سے نہ ملک پرامن ہوسکے گا اور نہ خوش حالی آئے گی۔



Monday 25 March 2019

Bachon ke Adeeb: Mayel Khairabadi




بچوں کے ادیب مائل خیرآبادی

ہر انسان کا بچپن اس کے خیالوں کا خوبصورت سرمایہ ہوتا ہے، جو انجام کے لحاظ سے بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ بچپن کے اس دور میں دنیا کے تمام جھمیلوں سے آزاد اور کھیل کھیل میں بہت سی چیز وں کو اپنے صاف وشفاف ذہن کی ڈکشنری میں محفوظ کرلنے کا جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ابتدائی مراحل میں ہی بچوں کے اندر دینی شعور پیدا کرنا بے حد ضروری ہے، جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

بچوں میں ایسی ہی دینی شعور کو پروان چڑھانے والے بچوں کے مشہور ادیبوں میں سے ایک ’مائل خیرآبادی‘ ہیں۔جن کے بیشتر قصے، کہانیاں اور نظمیں بچوں کے تعمیری ادب کا بے نظیر وسیلہ ہیں۔ان سے بچوں کو جہاں دینی معلومات فراہم ہوتی ہیں ،وہیں ان کے لیے روز مرہ کے کاموں کو ادب وسلیقہ سے انجام دینے کا ہنر بھی معلوم ہوتا ہے۔مثلاً اللہ کی عظمت ،رسول اللہ ﷺ سے محبت ،اساتذہ کا ادب،بڑوں کا احترام ، ساتھیوں کے ساتھ میل جول، کھانے پینے کے آداب جیسی یہ چیزیں بچوں کو بااخلاق و باکردار بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

مائل ؔ نے بچوں کے اندر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا شعورپیداکرتے ہوئے ایک بہت مؤثر حمد لکھی ہے، جو درج ذیل ہے:
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا
ہم کو پیدا کیا،کھانا کپڑا دیا

اور بھی تو بہت  ہم پہ احساں کیے
پیارے پیارے ہمیں،اماں ابا دیے
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

سارا عالم بنایا  ، ہمارے لیے
اور اس کو سجایا،   ہمارے لیے
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

اور بھیجا نبی   جن سے قرآں ملا
اچھی باتیں ملیں،دین و ایماں ملا
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

سب بھلائی برائی، بتا دی ہمیں
دین کی راہ سیدھی،دکھا دی ہمیں
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

ہے یہ میری دعا میرے اللہ میاں
ہم مسلماں رہیں اے مرے مہرباں
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

بچوں کو قصوں اور کہانیوں سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے ،وہ انھیں سنتے ،پڑھتے اور ان سے سبق حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اپنی معصوم زندگیوں کو اس نہج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا خیال رکھتے ہوئے مائل صاحب نے بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں، جو بچوں کی ان ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ان میں ’عبرت ناک قرآنی قصے ‘نقلی شہزادہ،نیت کا پھل،اچھے افسانے، سچے افسانے،بے وقوف کی تلاش ، جنتی بچہ،مزدور یا فرشہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔انھیں پڑھنے کے بعد اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مائل انھوں نے ان قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ بچوں کی کس انداز سے تربیت کی ہے اور وہ انھیں کیسا بناناچاہتے ہیں۔

بچوں کے سامنے موجودہ اور گزرے نفوس،مؤثر شخصیات کی آپ بیتی بھی ہونی چاہیے، تاکہ وہ ان کے بچپن کو اپنے بچپن کے ساتھ جوڑکر اپنے زریں دور کو صحیح رخ پر رواں دواں رکھ سکیں۔ اس خیال سے مائل صاحب کی درج ذیل کتب بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں:پیارے نبی ایسے تھے،پیارے رسول کے پیارے ساتھی،رسول اللہ ﷺ کے جاں باز ساتھی، بڑوں کا بچن، بڑوں کی آپ بیتیاں وغیرہ

بچوں کو سلیقہ مند بنانے کے لیے ان کے سامنے کھانے پینے کے آداب بیان کرناضروری ہوتا ہے ،تاکہ وہی بچے جب بڑے ہوں تو ان میں اللہ کے رزق اور اس کی نعمت کی قدر کا احسا س کار فرما ہو۔اس تعلق سے ان کی مشہور نظم ہے:

آؤ دسترخوان بچھائیں---مل جل کر سب کھانا کھائیں
بھائی!پہلے ہاتھ تو دھولو---کھانے میں بیکار نہ بولو

بسم اللہ جو بھولا کوئی    ---اس نے ساری برکت کھوئی
دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا---دیکھو بھیا! بھول نہ جانا

چھوٹے چھوٹے لقمے کھانا---ہر لقمے کو خوب چبانا
کھانے میں جو عیب نکالے  ---  کھانے سے وہ ہاتھ اٹھالے

خوش خوش باہم کھنا اچھا--- کچھ بھوکے اٹھ جانا اچھا
کھانا کھا کر اٹھیں جب بھی --- حمد کریں ہم اپنے رب کی

بچوں کو بااخلاق بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ایسی سبق آموز اور مزیدار باتیں ہوں جو ان کے دلوں میں گھر کر جائیں اور انھیں بہ خوشی قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مائل صاحب کی یہ کتابیں بھی قابل ذکر ہیں:اچھی ،سچی اور مزید ار باتیں،امانت کا بوجھ ،پھول کی پتی، بھولے بھیا،دانا حکیم کی دانا بیٹی،کام نرم ونازک،مسلم بھیا،مہمان ریچھ،ہیرے کاجگر،اب تک یاد ہے،بدنصیب، اور ایک انسان دوکرداروغیرہ

مائل کی یہ تخلیقات بچپن کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت مفید اور کار گر ہے ۔ ورنہ بچپن جو پانی کے اس بہاؤ کے مانند ہے، جسے صحیح رخ نہ دیاجائے تو وہ منزل سے بھٹک کر خود راستہ بنالیتا ہے اوراپنے بہاؤ میں سب کچھ بہا کر لے جاتاہے ، جس پر کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتاہے۔ مائل کی یہ کتابیں ادبا ء کو بھی اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ بچوں میں تعمیری ادب کو پروان چڑھائیں تاکہ اسلامی نہج پر ان کی تربیت ہو۔
*محب اللہ قاسمی *

Saturday 23 March 2019

مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت بے حد ضروری


مسلمانوں کے لیے اپنی تاریخ سے واقفیت بے حد ضروری

اس عہد کے نوجوان قلم کار تابش سحر کے قلم سے بیان ہوتی مسلم مجاہدین کی ایمانی غیرت و حمیت سے لبریز شاندار تاریخ!

سلسلہ وار اس تحریر کا ایک اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’آج ہم میں دینی حمیّت و غیرت اور اخوّتِ ایمانی کا فقدان ہے جس کے سبب دشمن ہمارے بھائیوں کو ایک ایک کرکے مارتا ہے اور ہم جمہوریت کی زنجیروں اور سرحد کی بندشوں میں جکڑے ہوے فقط آنسو بہاتے ہیں، ملک میں بھی کہیں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو ہم اپنے شبستانوں میں آرام کرتے ہیں، معتصم میں ہزاروں خرابیاں اور مختلف اوصاف ہونگے لیکن دینی حمیّت و غیرت کو پیش کرتی یہ داستانِ شجاعت مسلم حکمرانوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے-‘‘
ترکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں ....تابش سحر

تبصرہ: بہت عمدہ غیرت ایمانی کو للکارتی آن کی تحریر نسل نو کو اپنے اکابرین مجاہدین اور پرکھوں کی تاریخ سے واقف کرانے میں بہترین کردار ادا کرےگی۔ ساتھ ہی ان حکمرانوں میں بھی احساس ذمہ داری کو بیدار کرے گی جو یہ سمجھ رہے ہیں ؎ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

جنوں، ایثار، قربانی، نہ کچھ غیرت ہے ایمانی
نہیں یہ بے حسی تو پھر بتاؤ بے حسی کیا ہے؟


محب اللہ قاسمی
تُرکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں---
قسط 1
تابش سحر
زمانے کے کئی رنگ و روپ ہے، قوموں کے عروج و زوال کی کہانیاں بتلاتی ہیں کہ زمانہ کبھی نہیں تھمتا، وہ ہردم سفر کرتا ہے، کبھی کسی قوم پر مہربان ہوتا ہے تو کبھی کسی قوم پر عتاب بن کر نازل ہوتا ہے، کبھی حالات یوں بھی آتے ہیں کہ انسان اپنے محبوب ترین وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، نہ چاہتے ہوے بھی وہ انجان منزل کی طرف قدم اٹھاتا ہے، اور گردشِ زمانہ اسے یہاں سے وہاں بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے، سعادت و نیک بختی اسی کے قدم چومتی ہے جو حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے-

آج عالمِ اسلام دشمن کی لگائی آگ میں جھلس رہا ہے، عراق و شام ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں، فلسطینی صبر و استقامت کے ساتھ شہداء کے جنازے پڑھ رہے ہیں، افغانستان میں آئے دن امن کی فضا کو مکدّر کیا جاتا ہے، برما اور چین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی ہے اور سارے عالم میں مسلمانوں کو تختۂِ مشق بنایا جاتا ہے تو وہیں سارے عرب حکمراں اپنے عشرت کدوں میں چین کی نیند سوتے ہیں، وہ اپنے مغربی یاروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتے، وہ اسلامی اخوّت کا سبق بھلا کر سرحدوں کی بندشوں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں، ان کی دنیا اپنے ملک کے' مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب پر ختم ہوجاتی ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنی دنیا میں بھی مسلمان حکمراں ہونے کا حق ادا نہیں کرپاتے، انہیں اسلام پسندوں سے ڈر لگتا ہے، مکمّل اسلامی قوانین سے وہ بِدک جاتے ہیں، جدّت پسندی (ماڈرن ازم) اور مغرب سے گہری دوستی نے ان سے حمیّت و غیرت چھین لی، شیخِ حرم مسلمانوں کے قاتلوں کو امن کا پیمبر کہتے ہیں اور مسلم حکمراں دوسرے اسلامی ممالک کا بائیکاٹ کرکے غیروں سے مصالحت اختیار کرتے ہیں، ایسے حالات میں ایک ملک ایسا نظر آتا ہے جو دہشت گردوں اور فتنہ پروروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، جو مظلوموں کے حق میں کارِ مسیحائی انجام دیتا ہے، وہ اقوامِ متّحدہ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہے، اور دنیا بھر میں پریشان' مسلمانوں کی مظلومیت دیکھ کر آنسو بہاتا ہے اور ان کی اعانت کے لئے کمر بستہ ہوجاتا ہے، جی ہاں ترکی! وہی ترکی جہاں ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے پرچم لہراتے تھے-

خلافتِ عثمانیہ تُرکوں کی بہادری و شجاعت، دینی حمیّت و غیرت، انسانیت نوازی و رعایا پروری کا جیتا جاگتا ثبوت تھی، اس ریاست کا وجود مسلمانوں کے لئے عافیت کا سامان تھا، وہ ایک سائبان تھا جس کے تلے سارا عالمِ اسلام چین کی سانس لیتا، آج جہاں چھوٹے چھوٹے اسلامی ملکوں نے جنم لیا ہے اور عیش پسند و دنیا پرست حکمرانوں کے سبب پیدائشی طور پر معذور و بےبس نظر آتے ہیں وہاں خلافتِ عثمانیہ ایک مستحکم اور اسلام پسند ریاست تھی لیکن ترکوں نے یہ سب کیسے کرلیا تھا؟ کیسے ترک قوم مسلمانوں کے قریب ہوی اور کعبے کا پاسباں بن گئی؟ ان کا آغاز کیا تھا؟ وہ کونسی سرزمین کے باشندے تھے؟
ترک قوم کا تعلّق وسط ایشیا ماوراء النھر کے علاقے ترکستان سے ہے، عرب مؤرّخین اپنی کتابوں میں ماوراء النہر کا جابجا تذکرہ کرتے ہیں، دریائے آمو (جیحون) اور دریائے سیر (سیحون) کے درمیان کا علاقہ ماوراء النہر کہا جاتا تھا، جس کے مشہور و معروف شہر بخاریٰ، سمرقند، ترمذ وغیرہ تھے، ترکستان ایک وسیع و عریض سرسبزوشاداب علاقہ تھا، جہاں مختلف قبائل عرصۂِ دراز سے زندگی گزار رہے تھے، جن کی اپنی تہذیب اور رسم و رواج تھے، یہیں سے وہ عظیم شاہراہ گزرتی جو چین و یورپ کے مابین تجارت کا ذریعہ تھی، ان قبائل کو ترک یا اتراک کہا جاتا تھا، ترکستان کے مشرق میں منگولیا اور شمالی چین کے علاقے، مغرب میں بحر قزوین، شمال میں سائبریا کے میدانی علاقے اور جنوب میں تبّت، پاکستان، افغانستان اور ایران کے علاقے آتے تھے-

مشرقی ترکستان پر آج چین کا قبضہ ہے جو وہاں آباد ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے، مغربی ترکستان سویت یونین کے قبضے سے آزاد ہوکر مختلف ممالک کی شکل اختیار کرگیا ہے جیسے ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان وغیرہ-
چھٹی صدی عیسوی میں ترک قوم کے کچھ قبائل ہجرت کرکے اناطولیہ (ایشیائے کوچک، موجودہ ترکی) چلے آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی، مؤرخین میں سے بعض اس ہجرت کی وجہ شدید قحط بتلاتے ہیں تو وہیں بعض اس ہجرت کو دشمنوں کے شر سے نجات کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یعنی منگولیائی دشمنوں کی شرارتوں سے تنگ آکر انہوں نے ہجرت کی، بہرِحال وجہ جو رہی ہو یہاں سعادت و نیک بختی ترکوں کے حصّے میں آگئی کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب اسلامی فوجیں چاروں سمت پیش قدمی کررہی تھی، معرکۂِ نہاوند میں مسلم جانبازوں نے فتح کا پرچم لہرایا تھا، ایران میں ساسانی حکومت کا قصّہ تمام ہوگیا تھا، مسلم فوج اپنے کمانڈر حضرت عبدالرّحمن بن ربیعہ رضی اللّه عنه کی قیادت میں ان علاقوں میں پہنچی جہاں ترک اقامت پذیر تھے، ترک سردار شہربراز اور مسلم کمانڈر کی ملاقات ہوی جس میں شہربراز نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے ساتھ آرمینیہ پر حملہ کرنے کی پیشکش کی، مسلم کمانڈر نے شہربراز کو اپنے سپہ سالار سراقہ بن عمرو رضی اللّه عنہ کے پاس بھیجا، سپہ سالار نے صلح کی درخواست منظور کرلی اور ایک خط امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللّه عنہ کو روانہ کیا جس میں اس صلح کے متعلّق خبر تھی، خلیفۂِ ثانی نے ان کی رائے سے اتّفاق کیا اور باضابطہ مسلم اور ترک قوم کے مابین معاہدہ طئے پایا اور کوئی جنگ ان کے درمیان نہیں ہوی، ترکوں نے اسلامی فوج کے ساتھ پیش قدمی کی اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات عادات و اطوار کو قریب سے دیکھا اور اسلام کی پاکیزگی اور سادگی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا-

خلیفۂِ ثالث حضرت عثمان رضی اللّه عنہ کے زمانے میں اسلامی لشکر دریائے جیحون پار کرکے ماوراء النہر پہنچا، یہاں بھی موجود ترکوں نے اسلام کی دعوت قبول کی- حضرت امیر معاویہ رضی اللّه عنه کے زمانے میں بخاریٰ و سمرقند جیسے خوبصورت و قدرتی وسائل سے بھرپور علاقے اسلام کی عظیم سلطنت کا حصّہ بن گئے، ترک اسلامی رنگ میں رنگ گئے تھے-
عہدِ عبّاسی میں ترکوں کو سیاسی عروج حاصل ہوا، مامون کے زمانے سے ایرانی اہم عہدوں پر فائز چلے آرہے تھے، ان سے سرکشی کی بو آنے لگی تھی سو ان کا زور ختم کرنے کے لئیے ایک عبّاسی حکمراں نے ترکوں پر نوازشات کی بارش شروع کردی----
*جاری
نوٹ:- کیا آپ اُس عبّاسی حکمراں کو جانتے ہیں جس نے ترکوں کو اہم عہدے تفویض کئے؟


ترکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں---
قسط 2
تابش سحر
مامون الرشید کے بعد اس کا ولی عہد بھائی معتصم باللّه تختِ خلافت پر جلوہ افروز ہوا، سن 223 ھ میں مسلمانوں کی آپسی خونریزی کو مدِّنظر رکھتے ہوے ایک رومی گورنر توفیل بن میخائیل نے اسلامی ریاست کے علاقے زبطرہ پر حملہ کردیا، مردوں کو قتل اور عورتوں و بچّوں کو قید کرلیا گیا، معتصم آپسی خانہ جنگی سے پریشان تھا مگر جیسے ہی اسے توفیل کی دہشت گردی کا علم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ رومی' ایک مسلمان ہاشمی عورت کو کھینچ کر لے جارہے تھے اور وہ یہ فریاد لگارہی تھی کہ "اے معتصم مدد کر" تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، دینی حمیّت و غیرت نے اس کا سکون چھین لیا، اس نے اپنی تمام تر مصروفیات پسِ پُشت ڈال دی اور فوراً پیش قدمی کا اعلان کردیا، بذاتِ خود محاذ کی جانب روانہ ہوا، زبطرہ پہنچ کر جب یہ معلوم ہوا کہ رومی سب کچھ اجاڑ کر واپس جاچکے ہیں تو اس نے اپنے مصاحبین سے دریافت کیا کہ رومیوں کا سب سے مشہور و معروف اور عظیم الشان شہر کونسا ہے؟
جواب ملا عمودیہ!
معتصم رومیوں سے بدلہ لینے کے لئے عمودیہ کی جانب چل پڑا، اپنے لشکر کے ساتھ بِپھرے ہوے شیر کے مانند رومیوں پر حملہ آور ہوا اور ایسی عظیم الشان فتح حاصل کی کہ ایک ایک مسلمان دس دس رومی قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا تھا، اتنا مالِ غنیمت حاصل ہوا کہ پانچ دنوں تک فروخت کیا گیا تب بھی بچا رہا تو اسے نذر آتش کردیا گیا، بہرِحال ترکوں کی اس داستان میں معتصم کے اس کارنامے کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم میں دینی حمیّت و غیرت اور اخوّتِ ایمانی کا فقدان ہے جس کے سبب دشمن ہمارے بھائیوں کو ایک ایک کرکے مارتا ہے اور ہم جمہوریت کی زنجیروں اور سرحد کی بندشوں میں جکڑے ہوے فقط آنسو بہاتے ہیں، ملک میں بھی کہیں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو ہم اپنے شبستانوں میں آرام کرتے ہیں، معتصم میں ہزاروں خرابیاں اور مختلف اوصاف ہونگے لیکن دینی حمیّت و غیرت کو پیش کرتی یہ داستانِ شجاعت مسلم حکمرانوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے-
یہ ہے معتصم باللّه! جب وہ خلیفہ بنا تو اس نے دیکھا کہ ایرانیوں کا اثر رسوخ بڑھنے لگا ہے، سرکشی ان کی فطرت بنتی جارہی ہے تو اس نے ترکوں کو اہم عہدے تفویض کرنا شروع کئے، ترکوں کا ایک فوجی دستہ بھی بنایا جو شہر میں گھوڑے دوڑاتا تو اہلِ بغداد میں سراسیمگی پھیل جاتی، نتیجتاً عوام نے شور و غل برپا کیا تو معتصم نے ایک نئے شہر کو بسانے کا منصوبہ بنایا، اس سلسلے میں اُس نے اُس جگہ کا انتخاب کیا جسے قاطول کہا جاتا تھا، یہ وہ شہر تھا جس کی بنیاد اس کے باپ ہارون الرشید نے رکّھی تھی، اپنے بیٹے واثق باللّه کو بغداد میں اپنا جانشین مقرّر کرکے وہ قاطول پہنچا اور شہر کی تعمیرِ نو کا اعلان کردیا، جنگی پیمانے پر شہر کی تعمیر کی گئی اور اسے "سرّ من رأی" (جس نے دیکھا خوش ہوا) کا نام دیا گیا جو بعد میں کثرتِ استعمال کی بناء پر "سامرا" ہوگیا، سامرا بغداد سے ایک سو پچیس کلو میٹر پر واقع ہے، معتصم ترکوں کے ساتھ یہیں اقامت پذیر ہوگیا اور سامرا کو کافی شہرت ملی-
اس طرح ترکوں کا سیاسی قد حیرت انگیز طور پر بڑھ گیا، وہ خلافتِ عبّاسیہ کے اعوان و مددگار بن گئے، حتّیٰ کے خلافتِ عبّاسیہ پر زوال کے گہرے بادل چھانے لگے، خلفاء اپنا جاہ و جلال کھو بیٹھے، ماضی کی عظمت و رفعت قصّۂِ پارینہ بن گئی، کمزور و عیش پسند خلفاء اور ان کی ناقص حکمتِ عملی کے سبب خود مختار ریاستیں وجود میں آئیں، جو عبّاسی خلیفہ کو اپنا مذہبی سرپرست تو مانتی تھی مگر ان کا اپنا بادشاہ ہوا کرتا تھا اس سلسلے میں جس ریاست کو شہرت اور کافی اہمیت حاصل ہوی وہ سلجوقی سلطنت ہے-
سلجوق بن دقاق کا تعلّق ترک قبیلے اوغوز سے تھا، اس سلطنت کا بانی سلجوق کے پوتے طغرل بیگ کو قرار دیا جاتا ہے جسے شروعات میں محمود غزنوی سے شکست ہوی البتّہ اس نے مزاحمت جاری رکّھی اور آخرکار اپنے بھائی چغری بیگ کی معیّت میں نیشاپور اور مرو پر قبضہ کرلیا بعد میں سلجوقی سلطنت کی حدودِ اربعہ میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا، سلجوقی حکمراں چونکہ عبّاسی خلفاء کو اپنا مذہبی سرپرست سمجھتے تھے لہذا ان کی مدد اور تعاون بھی اپنی ذمّیداری تصوّر کرتے، ایران و عراق میں شیعہ حکومت بنی بویہیہ کا زور بڑھتا جارہا تھا اسی کے پیشِ نظر طغرل بیگ نے شجاعت و بیباکی کا نمونہ پیش کرتے ہوے ایران و عراق سے بنی بویہیہ کا خاتمہ کردیا، عبّاسی خلیفہ قائم باللّه نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا، طغرل بیگ کا نام سکّوں پر لکھنے اور خطبے میں پڑھے جانے کا اعلان کیا گیا، طغرل بیگ کے بعد الپ ارسلان سلجوقی حکمراں قرار پایا، یہ خدا ترس، رعایاپرور اور باہمّت و غیرت مند شجاع انسان تھا، مکّہ اور مدینہ پر مصر کی فاطمی حکومت کے طرفداروں کا سایہ تھا جسے الپ ارسلان نے ختم کردیا اس کی شجاعت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ محض پندرہ ہزار افراد پر مشتمل اس کی فوج نے رومی شہنشاہ ڈومانوس کی ایک لاکھ افراد پر مشتمل فوج کو شکستِ فاش دی تھی، الپ ارسلان ہی وہ جوہری تھا جس نے ایک درّیتیم نظام الملک طوسی کو دریافت کیا، وہی نظالم الملک طوسی جس نے عالمِ اسلام میں دانشگاہوں اور مدارس کی شمعیں روشن کی، جس نے اپنے علمی، ادبی اور سماجی کارناموں سے تاریخِ اسلامی کو رونق بخشی-
گیارہویں صدی عیسوی میں سلجوقی سلطنت منظرِ عام پر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے خلافتِ عبّاسیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی مرکزی حکومت کہلائی، جو ایشیا کے وسیع و عریض حصّے پر پھیلی ہوی تھی، فتوحات نے سرحدوں کو کافی وسعت عطا کردی تھی مگر بُرا ہو آپسی خانی جنگی کا' کہ اسی کی بدولت سلجوقی سلطنت پر بھی زوال کے مہیب سائے طاری ہوگئے، چنگیز خان نامی تاتاری طوفان برپا ہونے کو تھا اُدھر صلیبیوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا جو دو سو سال تک جاری رہی، پہلی ہی صلیبی جنگ میں وہ بیت المقدّس پر قابض ہوچک تھے، عظیم سلجوقی حکومت آپسی خانہ جنگی اور تخت کی رسہ کشی کی ہوس میں چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تقسیم ہوگئی، متعدّد چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے جنم لیا جس کے سبب سلجوقیوں کی قوّت بکھر کر رہ گئی-
*جاری*
سوال:- وہ کونسا قبیلہ ہے جس نے بروقت کارِ مسیحائی انجام دے کر موت کے دہانے پر کھڑے سلجوقی لشکر کو صلیبی حملہ آوروں سے بچایا؟


ترکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں---

قسط 3
تابش سحر
طغرل بیگ نے سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکّھی تھی، الپ ارسلان نے اس سلطنت کو پختگی اور وسعت عطا کی، طغرل بیگ اور الپ ارسلان کے بعد ملک شاہ اوّل تخت نشیں ہوا، اس کے دور کو سلجوقی حکومت کا عہدِ ذرّیں کہا جاتا ہے، یہ سلجوقیوں کے عروج کا زمانہ تھا، خلافتِ عبّاسیہ اپنا دم خَم کھوچکی تھی، عبّاسی خلیفہ محض مذہبی سرپرست بن کر رہ گیا تھا، اپنے نام لیواؤں کی تعریف و توصیف کرنا اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہی ان کا مقصد بن چکا تھا چنانچہ عبّاسی خلیفہ نے سلجوقی حکمراں ملک شاہ اوّل کو اس کے کارناموں اور خوبیوں کے سبب "سلطانِ مشرق و مغرب" کا لقب عطا کیا، کیونکہ ملک کی سرحدیں مشرق میں چین اور مغرب میں بازنطینی سلطنت سے جاملتی تھی اس وسیع و عریض خطّے پر سلجوقیوں کا نیلا پرچم لہراتا جہاں آج کئی ممالک آباد ہیں-
بازنطینی سلطنت:- چوتھی صدی عیسوی میں روم دو حصّوں میں تقسیم ہوچکا تھا، مشرقی حصّہ اپنے دارالحکومت بازنطین کے سبب بازنطینی سلطنت کہلایا، 330ء میں ان کے بادشاہ قسطنطین نے اپنے نام پر بازنطین کو قسطنطنیہ سے بدل دیا اسی قسطنطنیہ کو آج استنبول کہا جاتا ہے، قسطنطنیہ تہذیب و تمدّن کا مرکز، رومیوں کا دارالحکومت، یورپ کا امیر ترین شہر اور دفاعی اعتبار سے ناقابلِ تسخیر علاقہ تھا، جسے اس زمانے میں شہروں کی ملکہ کہا گیا الغرض بازنطینی سلطنت عرصے سے مسلمانوں کی حریف تھی، کئی جنگوں میں مسلمانوں نے رومیوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا لیکن قسطنطنیہ پر فتح کا پرچم نہ لہرا سکے کیونکہ یہ سعادت اللّه نے کسی اور کے لئے لکھ دی تھی-
1092ء میں سلجوقی حکمراں ملک شاہ اوّل کا انتقال ہوگیا، یہ عظیم سلجوقی سلطنت کے زوال کا نقطۂِ آغاز تھا کیونکہ سلطان کے بھائیوں اور چار بیٹوں کے مابین اختلافات رونما ہوگئے اور وسیع و عریض سلطنت کئی تکڑوں میں بٹ گئی، قلج ارسلان اوّل ملک شاہ کا جانشین قرار پایا جس نے اناطولیہ میں سلاجقہ روم کی بنیاد رکّھی، ایران، عراق، شام اور خراسان مختلف افراد کے حصّے میں آئے اس تقسیم سے سلجوقیوں کی متّحدہ قوّت پارہ پارہ ہوگئی جس کا صلیبیوں نے خوب فائدہ اٹھایا-
سلاجقہ روم اور اناطولیہ:- یہ ریاست رومیوں کے مفتوحہ علاقوں پر قائم کی گئی تھی، اناطولیہ ایک جزیرہ نما ہے جو بحیرہ روم، اسود اور ایجئین کے درمیان واقع ہے صرف ایک سمت سے اس کا تعلّق خشکی سے ہے، اناطولیا کو ایشیائی ترکی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سارا علاقہ آج موجودہ ترکی میں آتا ہے، قلج ارسلان نہ صرف سلاجقہ روم کا پہلا بادشاہ ہے بلکہ یہی وہ حکمراں بھی ہے جس نے صلیبیوں سے کئی جنگیں لڑیں اور انہیں باوجود ان کی کثیر تعداد کے شکست سے دوچار کیا جس کے سبب قلج ارسلان کو ترک احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، صلیبیوں پر بیت المقدّس پر قبضے کا جنون طاری تھا، وہ سارے یورپ میں جوش جذبہ اور انتقام کی آگ بھڑکا چکے تھے، صلیبی' مذہبی شدّت پسندی کے سبب سفّاکی اور درندگی پر اتر آئے تھے، لاکھوں کی تعداد میں وہ جانبِ اقصیٰ روانہ ہوے، جب یہ اناطولیہ سے گزرے تو قلج ارسلان اور صلیبیوں میں جنگ چھڑ گئی گو کہ مسلم فوج نے خوب مزاحمت کی لیکن دشمن کی تعداد اور جنگی جنون کئی گُنا زیادہ تھا جس کے سبب قلج ارسلان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ قونیہ آگیا، صلیبی فوج القدس پہنچی اور مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف ہوگئی، بابِ داؤد پر ستّر ہزار مسلمانوں کا خون بہایا گیا، صلیبی جنگوں میں یہ واحد جنگ ہے جو صلیبیوں نے بزورِ بازو فتح کی اور تقریباً ایک صدی تک بیت المقدّس پر قابض رہے، سلطان صلاح الدین ایّوبی نے اپنی ساری قوّت و طاقت صرف کرکے اقصیٰ کے بہتے آنسو پونچھے آج اقصٰی پھر آنسو بہارہی ہے مگر کوئی ایّوبی نظر نہیں آتا-
قلج ارسلان کے بعد کئی حکمراں تختِ شاہی پر متمکّن ہوے مگر اب سلجوقیہ سلطنت میں وہ رنگ نظر نہ آتا جو اس کا امتیازی شان تھا، کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وجود نے گویا سلجوقیہ سلطنت کے جسم کے اعضا بکھیر کر رکھ دئے تھے، ایک طرف صلیبی جنگ برپا ہوگئی تو ادھر منگولیا کے صحرا سے ایک طوفان اٹّھا، بےرحم تاتاری طوفان، جس نے راستے میں آنے والی تمام چیزوں کو خس و خاشاک کے مانند بہادیا، عروج کی جانب سفر کررہی خوارزم شاہی مملکت کو ماضی کی ایک داستان بنا کر رکھ دیا، اسی طوفان کی زد سے بچنے کے لئے کئی ترک قبائل اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کی سمت نکل پڑے-
قائی قبیلہ:- تیرھویں صدی عیسوی!!! کردستان میں یہ ترکمانی قبیلہ آباد تھا، قبیلے کا سردار سلیمان' جہاندیدہ، دوراندیش، رعایاپرور، اور سلیم الطّبع انسان تھا، جب اس نے تاتاریوں کی خون کی پیاس کا اندازہ لگا لیا تو اپنے قبیلے کو ہجرت کا حکم دے دیا، یہ اناطولیہ میں اخلاط نامی شہر میں آبسے اور جلد ہی اپنے اخلاق، عادات و اطوار اور قبیلے کے رسم و رواج کی وجہ سے مشہور ہوگئے، یہ علاقہ سلجوقی سلطنت کا حصّہ تھا اکثر شمال کی جانب سے مسیحی دہشت گرد حملہ آور ہوتے اور لوٹ مار کرتے، قائی قبیلے کے جانبازوں نے ان مسیحی قزّاقوں کو خوب سبق سکھایا اور اخلاط میں امن و امان قائم کردیا، جس طرح صنعت و حرفت میں چین اور حکمت و فلسفے میں یونان نے نام پیدا کیا اسی طرح ان ترک قبائل نے بہادری و شجاعت میں اپنا لوہا منوایا، جفاکشی اور حمیّت و غیرت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی، یہ قبیلہ اخلاط کے بعد حلب کی جانب روانہ ہوا راستے میں ندی پار کرتے وقت قبیلے کا سردار سلیمان دریائے فرات میں غرقاب ہوگیا، قیادت کی ذمّیداری اس کے بہادر و شجاع بیٹے ارطغرل غازی کے کندھوں پر آگئی-
ابھی یہ قبیلہ حلب کی جانب رواں دواں تھا کہ دور شور و غل سنائی دیا، زخمیوں کی چیخوں اور تلوار کی جھنکار نے قائی قبیلے کے جانبازوں کو تڑپنے پھڑکنے پر مجبور کردیا اور جب یہ معلوم ہوا کہ ایک فریق مسلمان (سلجوقی لشکر) اور دوسرا ان کا دشمن صلیبی ہے تو وہ تمام شاہین کی طرح جھپٹے اور شیروں کی طرح حملہ آور ہوے، کچھ دیر پہلے تک تو یوں لگتا تھا کہ جیسے سلجوقی شکست کھا جائینگے تبھی ارطغرل غازی کے زوردار حملے سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا، سلجوقیوں نے جب شجاعت و جوانمردی کا یہ منظر دیکھا تو عش عش کر اٹھے، سلجوقی حکمراں علاؤ الدین سلجوقی کیقباد بن کیخسرو نے بدلے میں رومی سرحد کے پاس اناطولیہ کے مغربی سرحد پر ارطغرل کو ایک جاگیر عطا کی، جہاں خانہ بدوش قائی قبیلہ اقامت پذیر ہوا-
جاری***
نوٹ:- ترکی نے قائی قبیلے کے اسی کردار "ارطغرل" پر اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ڈرامہ بنایا ہے، جسے سرکاری چینل TRT1 سے نشر کیا جاتا ہے، ترکش زبان میں دریلس کے معنیٰ "آنے والا" یا "قیامت" کے ہے-
سوال:- خلافتِ عثمانیہ کے بانی سے ارطغرل غازی کا کیا رشتہ ہے؟


ترکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں---
قسط 4
تابش سحر
ارطغرل غازی اور ان کا قبیلہ اناطولیہ کی مغربی سرحد پر اقامت پذیر تھا، آگے بازنطینی ریاست کی سرحد تھی، گویا قائی قبیلہ سرحد کا محافظ تھا، علاء الدین سلجوقی قائی قبیلے کے چار سو جانبازوں کی جوانمردی اور شجاعت کے نظّارے کرچکا تھا بایں وجہ ایسے حسّاس و خطرناک علاقے کا انہیں نگہبان بنایا، ارطغرل غازی نے بھی سلطان سے وفا کی رسم نبھائی اور بازنطینی رومیوں کے بالمقابل سلجوقیوں کے لئے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے، لیکن تقدیر کا قاضی سلجوقیوں کے زوال کا فتویٰ لکھ چکا تھا، صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں جن میں سارا یورپ اپنی تمام تر طاقت و قوّت جھونک چکا تھا، مذہبی شدّت پسندی اور دہشت گردی سر چڑھ کر بول رہی تھی، صلیبی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے، تبھی مشرق سے بھی زوال کا پیغام آگیا، یہ منگولیائی صحرا "گوبی" کے تاتاری تھے، وحشی، بےرحم اور سفّاک تاتاری جو خوارزم شاہی مملکت کو پیروں تلے روند کر بڑھتے جارہے تھے اور اب ان کی نگاہیں بغداد پر مرکوز تھی-
خلیفۂِ بغداد چاہتا تو مسلم ریاستوں کو متّحد کرکے تاتاریوں کے طوفان کو روک سکتا تھا لیکن عیش پسندی اور دنیا پرستی اس کی راہ میں حائل ہوگئی، وہ خوارزم شاہ کے بڑھتے ہوے قد سے حسد بھی کرتا تھا لہذا خوارزم شاہی سلطنت کو جلتے دیکھ کر خاموش بیٹھا رہا، یہ تو خوارزم شاہ تھا جو سالوں تنِ تنہا اپنی سرسبزوشاداب سرزمین پر تاتاریوں سے جرأت مندانہ مقابلے کرتا رہا خود چنگیز خان نے اس کی بہادری و شجاعت کو سراہا ہے-
ذرا یہ منظر بھی دیکھئے کہ آج چنگیز خان کا لشکر اپنے حریف خوارزم شاہ کی فوج پر غالب آچکا ہے، سلطان کے سپاہی ایک ایک کرکے ختم ہوتے جارہے ہیں، چنگیز کے چہرے پر سفّاک تبسّم ہے، اور خوارزم شاہ اپنے گھوڑے کی پشت پر خود اعتمادی کے ساتھ شمشیر زنی میں مست ہے، یہ ضلع اٹک کا پہاڑی سلسلہ ہے، جسے باغ نیلاب کہا جاتا ہے، نومبر کا موسم یخ بستہ ہوائیں اور عقب سے دریائے سندھ کی موجوں کا شور، جو بلندی سے پستی کی جانب محوِ سفر ہے، گہرائی ایسی کہ انسان قریب جانے سے خوفزدہ ہوجائے، چنگیز خان سمجھتا ہے کہ اب چند ہی لمحوں بعد خوارزم شاہ سرجھکانے پر مجبور ہوگا کیونکہ عقب میں دریائے سندھ کی ظالم موجیں اور چٹّان کی بلندی تو وہیں سامنے تاتاریوں کا عظیم لشکر، مردِ آہن خوارزم شاہ جلال الدین اپنے گھوڑے سمیت بلندی سے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دیتا ہے کچھ دیر تک موت کا سکوت اور پھر یکایک اس کا گھوڑا پانی کی سطح پر نمودار ہوتا ہے جس کی پُشت سے خوارزم شاہ چمٹا ہوا ہے، گھوڑا تیر کر ساحل پر پہنچتا ہے، زخموں سے چور بدن، یخ بستہ ہوائیں اور دریائے سندھ کے پانی کی ٹھنڈک نے کیا کچھ کیا ہوگیا اندازہ لگا سکتے ہیں، خوارزم شاہ کنارے پر پہنچ کر اونچائی سے نظّارہ کرنے والے تاتاریوں پر اچٹتی ہوی نگاہ ڈالتا ہے اور اپنی انجان منزل کی طرف چل پڑتا ہے،
خوارزم شاہ کا سر قلم کرنے کی آرزو رکھنے والا، فاتح مگر بےبس، موت کا نشان، ظلم و جبر کی علامت چنگیز خان کہتا ہے "بیٹا ہو تو ایسا ہو وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے کہ جس کا بیٹا اتنا نڈر و بہادر ہے" چنگیز خان کا یہ جملہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہوگیا ہے-
شاید بغدادی خلیفہ یہ سمجھتا تھا کہ تاتاری طوفان صرف مملکتِ خوارزم کو اپنی چپیٹ میں لے گا اور ہم اسی طرح چین کی بانسری بجاتے رہینگے، چنگیز خان کے بعد ہلاکو خان 1258ء میں آندھی طوفان کی طرح بغداد آیا اور آباد و پُرشکوہ، مہذّب و متمدّن، علم و فن کے مرکز بغداد کو انسانوں کے قبرستان میں تبدیل کرکے رکھ دیا، خلافتِ عبّاسیہ مستعصم باللّه کے حسرتناک انجام کے ساتھ قصّۂِ پارینہ بن گئی-
اسی سال ارطغرل غازی کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عثمان رکّھا گیا، گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے تو تاتاریوں نے عالمِ اسلام کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، صلیبیوں نے دہشت گردی مچا رکّھی ہے، خلافتِ عبّاسیہ کا خاتمہ ہوچکا ہے، خوارزم شاہی سلطنت برباد کی جاچکی ہے اور سلجوقیوں پر زوال کے گہرے بادل چھا چکے ہیں، ایسے میں کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ دوبارہ مسلمانوں کی ایک عظیم ریاست قائم ہوگی، رومیوں کا فخر و غرور قسطنطنیہ فتح ہوگا؟
1299ء میں قائی قبیلے کی آنکھوں کا تارہ، بیباک قائد اور مجاہد و غازی ارطغرل کا انتقال ہوگیا، عثمان اوّل اپنے باپ کا جانشین مقرّر ہوا، سلاجقہ روم کے دارالحکومت قونیہ پر تاتاریوں کے قبضے کے ساتھ سلجوقی سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا، بایں وجہ اناطولیہ کے مغربی سرحد پر قائی قبیلے کو جو جاگیر ملی تھی وہ خود مختار ہوگئی، یہ خلافتِ عثمانیہ کا نقطۂِ آغاز ہے-
بورصہ، مادانوس، ادرہ، نوس، کتہ، اور کستلہ کے مسیحی حکمرانوں نے 1301 میں ایک معاہدہ تشکیل دینے کی دعوت دی جس کے تحت وہ نوزائیدہ سلطنتِ عثمانیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے، دوراندیش و بیباک قائد عثمان اپنی فوج کو لے کر خود ہی جنگوں میں کود پڑے اور مسیحی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کردیا، سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے علاقے کی سرحد چونکہ بازنطینی سلطنت کی سرحد سے ملتی تھی جو اب بہت کمزور ہوچکی تھی، سامانِ حرب و ضرب کی ان کے پاس کمی نہ تھی، وہ عثمانیوں سے تعداد میں کئی گُنا زیادہ تھے، لہذا اکثر حملے کرتے رہتے تھے، عثمان اوّل نے انہیں کئی مرتبہ شکست دی اور اپنی سرحدوں کو وسعت بخشی، کئی علاقے فتح ہوے جن میں سب سے مشہور و معروف بورصہ شہر ہے-
بورصہ:- یہ ترکی کے شمال مغربی حصّے میں واقع ہے، ترکی کا چوتھا سب سے بڑا شہر، جو اپنے باغات اور سرسبزوشادابی کے سبب' سبز بورصہ کہلاتا ہے، اپنی برفانی تفریح گاہوں، عثمانی سلاطین کے مزارات اور میدانی علاقوں کے باعث یہ کافی مشہور و معروف ہے-

نوٹ:- خلافتِ عثمانیہ اپنے بانی عثمان اوّل کے نام پر "خلافتِ عثمانیہ" کہلاتی ہے-
سوال:- کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ عثمان اوّل کا جانشین کون تھا؟

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...