Wednesday 17 April 2019

Mahe Shaban aur Isteqbal e Ramzan




ماہ شعبان اور استقبال رمضان

    شعبان المعظم کا مہینہ چل رہا ہے، جسے رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ ہمیں اس مہینے میں آئندہ ماہ رمضان المبارک جو اپنے فضائل و برکات کے ساتھ ہم پر سائہ فگن ہونے والا ہےاس کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔

    سیرت رسول ؐ کے حوالے سے ہمیں یہ روایت ملتی ہے کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہ کثرت روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے ان کے درمیان رمضان کے فضائل کا تذکرہ کرتے اور اس ماہ کی اہمیت بیان کرتے تھے۔امہات المومنین حضرت عائشہ ؓ روایت کافی مشہور ہے:

   عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ : فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ.(بخاری)

    ’’میں نے آپ ﷺ کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اورمیں نے آپ ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا ‘‘(بخاری)
    پتہ چلا کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہت زیادہ روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔

    یہ حقیقت ہے کہ ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع اسے سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔ شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں:
     ’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میں کے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘

    اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس ماہ سے ہی عبادت و ریاضت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خصوصی دلچسپی لیں اور ابھی سے ہی آنے والے بابرکت مہینے کی تیاری شروع کردیں۔ اگر ہم نے منصوبہ بند کوشش سے اس ماہ مبارک سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو اس ماہ مبارک کی نیکوں اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے مالامال نہیں کیا تو رمضان المبارک جس طرح پہلے آتا رہا ہے آنیوالا بھی رمضان آئے گا، گزر جائے گا اور ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

    اس لیے آئیے ہم لوگ ابھی سے اس کی تیاری میں لگ جائیں اور تقوی کی تربیت کے اس مہینے سے مستفید ہونے کا منصوبہ بنائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔
(محب اللہ قاسمی)

Saturday 13 April 2019

Shakhshiyat ki Tameer: Narm Dame Guftagu Garm Dame Justaju


      محترم ڈاکٹر سلیم صاحب جیسی اہم شخصیت کا خاکسار کی کتاب ترجیحی طور پر پڑھنا اور اس پر گراں قدر تبصرہ بھی تحریر کرنا کم از کم میرے لیے ناقابل یقین سا تھا. جس کے لیے ڈاکٹر صاحب کا بہت بہت شکریہ. جزاک اللہ خیرا.
      میرے تعلق سے ان کی خوش گمانی اور توصیفی کلمات جو ان کی ذرہ نوازی ہے جس کا میں ہمیشہ ممنون رہوں گا. ڈاکٹر صاحب کے اس حوصلہ افزائی کے حسن عمل اور اعلی ظرفی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے.
ان سے میری اس مختصر سی ملاقات میں جو میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب واقعی دلچسپ، خوش مزاج اور ہر دل عزیز انسان ہیں. نوجوان نسل کو ان جیسے بہترین لوگوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی سخت ضرورت ہے.
ان کے لیے میرے دل سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں بہ صحت و عافیت رکھے تاکہ وہ اسی طرح نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور اللہ انھیں دونوں جہاں میں سرخروئی عطا کرے آمین.


مولانا محب اللہ قاسمی: نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو

ڈاکٹر سلیم خان


      مجلس نمائندگان کے دوران طعام گاہ میں ایک شخص کوسرگرمِ عمل دیکھ کر میں نے اپنے ہم سایہ سے دریافت کیایہ کون صاحب ہیں؟ پتہ چلا شعبہ تربیت کے نائب سکریٹری محب اللہ قاسمی ہیں۔ میں سمجھ گیا اللہ سے محبت کرنے والے اس اسم بامسمیٰ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا سے محبت نہ کرے اور یہی محبت اس سے ارکان مجلس کی خدمت کروا رہی ہے۔ مرکز ِجماعت دہلی میں اگر آپ کا جانا ہو تو مولانا محب اللہ قاسمی سے بھی ملیں۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟ دراصل مرکز میں جانے والے امیر جماعت، قیم جماعت، نائب امراء ،سکریٹریز اور اپنے احباب سے ملاقات کرتے ہیں لیکن مولانا محب اللہ جیسےغیر معروف افراد سےملاقات کا شرف حاصل نہیں کرتے حالانکہ ان کی شخصیت بھی کم متاثر کن نہیں ہوتی۔

      آگے چل کر مولانا قاسمی صاحب کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ آپ ’شخصیت کی تعمیر ‘نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ایک عالم فاضل صاحبِ قلم کا اس شدو مد کے ساتھ شرکاء کا خیال رکھنا میرے لیے باعثِ حیرت تھا۔ عام طور پر جن لوگوں کا قلم چلتا ہے ان کا دماغ تو بہت چلتا ہے۔ زبان بھی خوب چلتی لیکن ہاتھ پیر کم ہی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بیشتر کاموں کو اپنے مقام اور مرتبہ سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ اس طرح نیکی کمانے کے بہت سارے مواقع سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر مین صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں’نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور کاموں کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۸ پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

      دورانِ اجلاس ارکان مجلس فجر کی نماز سے لوٹتے تو گرم گرم چائے ان کا استقبال کرتی۔ نشست سے قبل ناشتہ اور ظہر و عشاء کی نماز کے بعد کھانا تیا رملتا ۔ وقفوں میں چائے وغیرہ سے ضیافت ہوتی اور ہر موقع پر مولانا محب اللہ اپنی ٹیم کے ساتھ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ۔ ان کی اس گرمجوشی کی وجہ مذکورہ کتاب کےصفحہ ۱۰۴ پر یوں بیان ہوئی ہے’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں یہ کیفیت نہ ہووہ مومن نہیں‘ ۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔

      آخری دن قاسمی صاحب نے کھانے کی میز پر سوال کیا ’سلیم یہ کیا کہ پہلےتو شوریٰ میں تمہارا نام آیا اور پھر غائب ہوگیا؟‘ میں نےجواب دیا ’اعلان میں بھول سے چوک ہوگئی تھی اصلاح ہوئی تو چلا گیا‘وہ بولے’ لیکن اتنی بڑی بھول ہوئی کیسے؟‘یہ ذرا مشکل سوال تھا ، میں نے پوچھا ’کیا آپ کو جیل جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ سٹپٹا کر بولے نہیں‘ میں نے کہا ’جیل جانے کے لیے جرم کا ارتکاب لازم نہیں ہے لیکن چونکہ جیل کے اندر کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے بے قصور قیدی اس سوچ میں گم رہتا ہے کہ آخر میں یہاں کیوں ہوں؟ اس کے لیے کون قصوروار ہے وغیرہ لیکن جب اس کو رہائی کا پروانہ مل جاتا ہے تو وہ سب بھول بھال کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا‘۔ اس جواب پر مولانا کا قہقہہ بلند ہوا اورمیں نمائندگان کی حسین یادوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ آپ کو محب ا للہ قاسمی صاحب سے ملنے کی سعادت نہ ملے تب بھی اپنی ’شخصیت کی تعمیر‘ کے لیے ان کی کتاب ضرور پڑھیں۔
        *****


Thursday 11 April 2019

Hindustan men Muslim Qeyadat ka Zawal - Asbab o Awamil



ہندوستان میں مسلم قیادت کا زوال- اسباب وعوامل
محب اللہ قاسمی

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس  میں ہرقسم ، ہر رنگ و نسل کے لوگ  اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقہ سے رہیں اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنی پوری قوت لگا دیں۔ اس لحاظ سے ہر محاذ پر انھیں کی نمائندگی  کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس وقت ہندوستانی سیاست میں مسلم قیادت کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

1۔ ہندوستان میں سیکولر شناخت کی دھندلی ہوتی تصویر اور فسطائی قوتوں کے ناپاک عزائم نے جہاں دوسرے کم زور طبقے کو متاثر کیا وہیں مسلمانوں کو بھی حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے  اب کسی پارٹی کو مسلمانوں سے  ہمدردی نہیں  رہ گئی ہے۔ وہ انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے۔

2۔ ہندوستان کی کسی بھی پارٹی سے جیت کر آنیوالے مسلم امیدوارکو پارٹی نے  اس کی حیثیت کے مطابق  مقام نہیں دیا۔حتی کہ اسے  مسلم ایشوز پر بھی بولنےسے روک دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی گنی چنی پارٹیاں حرکت میں آئیں مگر ان کا باہمی اتحاد نہ ہونےکی وجہ  سے وہ منتشر رہیں۔اس کے سبب مسلم قائدین دوسری پارٹیوں  میں بھی نظر انداز کئے گئے۔

3۔ مسلمانوں کا سیاسی شعور  جس قدر بیدار ہونا چاہیے تھا اور جس طرح ان کے قائدین کو اپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں نام نہاد سیکولر ازم کا طوق گلے میں لٹکائے مسلم قائدین زوال پذیر ہوتے گئے،مسلمانوں کا وجودجلتی ہوئی موم بتی کی طرح پگھلتا چلاگیا اور وہ  سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے۔ ادھر فسطائی طاقت کا وجود  اور ہندوتو کے  غلبہ نے ان قائدین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور دوسری طرف  وہ پارٹیاں جن کی کام یابی کے لیے مسلمانوں نے اپنی کئی نسل لگا دی اب وہ بھی انھیں ٹکٹ سے محروم کرنے  لگے۔

4۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اٹھانے والے مسلم قائدین نے اپنی  نسل کو آگے بڑھانے اور انھیں مین اسٹریم سے جوڑنےکی اس قدر کوشش نہیں کی جیسی دوسری قوموں نے کی ہے ۔نتیجتاً  اب انھیں کوئی قیادت کا موقع  دینےکے لیےتیار نہیں۔

5۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے ووٹ اور ان کی حمایت سے صرف اپنے پنجے کو مضبوط کرنےاور اپنی لالٹین کی لوبڑھانے کی کوشش کی، مگر خود ان کے گھر کے لوگوں کو مضبوط کیا نہ اس کے گھر میں لال ٹین جلائی۔ سارا تیل خود  ہی پی گئے اور جس نے گھر بنانے  کی امید جگائی وہ کھلے طور پر موقع پرست ہوکر گھر جلانے والوں کے ساتھ ہوگیا۔اس کے نتیجےمیں اب یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو محض استعمال کرنے کے لیے اپنی پارٹی میں جگہ دیتی ہیں، بلکہ بسا اوقات انھیں ایسی جگہ سے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے اس کا جیتنا آسان نہ  ہو۔  اس طرح وہ چاہتی ہے کہ مسلم قیادت کسی طور  مضبوط  نہ ہو۔

6۔ طویل عرصے سے مسلمانوں کی سیاسی کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں خط افلاس سے نیچے پہنچادیاگیا، جس کی وجہ سے ان کا اپنی قیادت کے بارے میں سوچنا تو  دور  ان کے جینے کے لالے پڑ گئے، چہ جائے کہ تعلیمی اور دیگر  میدان میں آگے بڑھ پاتے اور اس میں قیادت کا  فریضہ انجام دیتے ۔

7۔ ہندوستان  میں مسلم قائدین نے اپنی حیثیت اس قدر مجروح کرلی کہ دوسری قوم کی عوام نے بھی اسے حقارت سے دیکھنا شروع کردیا اور  ان پر یہ الزام کہ جو اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور اپنے مذہب جوانسانیت کی کامیابی کا نسخہ اپنے پاس رکھتا ہے ۔ اس کے لیے اتنا وفادار نہیں تو دوسروں کے لیے وہ کیا کرے گا۔نتیجہ ایک گدھا اور احمق بن کر اپنا وجود ایسے کھونے لگا کہ  نہ گھر کا رہا نا گھاٹ کا۔

8۔ سیاسی بصیرت کا فقدان اورعلمی صلاحیت کی کمی نےان مسلمانوں کو جنھوں  نے چھ سو600 سال ہندوستان پر  حکومت کی  غلامی کے دلدل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ پارٹی کی دری  ،کرسی بچھانے اور چاپلوسی جیسی  گھٹیا صفت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی نہیں ہے۔

9۔ کوئی انسان جب تک خود کو پہچانتا نہیں اور اپنی قابلیت کو نہیں پرکھتا وہ اسے مزید نکھارنے اور بہتر بنانے کی فکر بھی نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر مسلمانوں نے خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ اپنی صلاحیت کو اس ضمن میں پروان چڑھایا۔نتیجتاً وہ سیاسی طور پر حاشیہ پر چلے گئے۔نوبت یہ آ گئی کہ اب انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

10۔قیادت میں پھر سے واپسی اور زمام حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مسلمانوں کو از سرنو محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنے اختلاف و انتشار کو پوری طرح سے ختم کرکے سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے بہت بڑا دل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو دوسری پارٹی کے بھروسے پررہنے کی ضرورت نہیں، خود کی پارٹی کو مضبوط کرکے  ملک کی قیادت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ تب ہی فسطائی قوت کو مات دی جاسکتی ہے ورنہ الگ الگ میقات میں الگ الگ پارٹیاں جیتتی رہیں گی مگر نظریہ  وہی تعصبانہ اور ملک میں انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیداکرنا ،فسادات،غربت و افلاس ، بے روزگاری ومہنگائی کی مار سہنی ہوگی ۔ جس سے نہ ملک پرامن ہوسکے گا اور نہ خوش حالی آئے گی۔



Monday 25 March 2019

Bachon ke Adeeb: Mayel Khairabadi




بچوں کے ادیب مائل خیرآبادی

ہر انسان کا بچپن اس کے خیالوں کا خوبصورت سرمایہ ہوتا ہے، جو انجام کے لحاظ سے بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ بچپن کے اس دور میں دنیا کے تمام جھمیلوں سے آزاد اور کھیل کھیل میں بہت سی چیز وں کو اپنے صاف وشفاف ذہن کی ڈکشنری میں محفوظ کرلنے کا جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ابتدائی مراحل میں ہی بچوں کے اندر دینی شعور پیدا کرنا بے حد ضروری ہے، جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

بچوں میں ایسی ہی دینی شعور کو پروان چڑھانے والے بچوں کے مشہور ادیبوں میں سے ایک ’مائل خیرآبادی‘ ہیں۔جن کے بیشتر قصے، کہانیاں اور نظمیں بچوں کے تعمیری ادب کا بے نظیر وسیلہ ہیں۔ان سے بچوں کو جہاں دینی معلومات فراہم ہوتی ہیں ،وہیں ان کے لیے روز مرہ کے کاموں کو ادب وسلیقہ سے انجام دینے کا ہنر بھی معلوم ہوتا ہے۔مثلاً اللہ کی عظمت ،رسول اللہ ﷺ سے محبت ،اساتذہ کا ادب،بڑوں کا احترام ، ساتھیوں کے ساتھ میل جول، کھانے پینے کے آداب جیسی یہ چیزیں بچوں کو بااخلاق و باکردار بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

مائل ؔ نے بچوں کے اندر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا شعورپیداکرتے ہوئے ایک بہت مؤثر حمد لکھی ہے، جو درج ذیل ہے:
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا
ہم کو پیدا کیا،کھانا کپڑا دیا

اور بھی تو بہت  ہم پہ احساں کیے
پیارے پیارے ہمیں،اماں ابا دیے
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

سارا عالم بنایا  ، ہمارے لیے
اور اس کو سجایا،   ہمارے لیے
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

اور بھیجا نبی   جن سے قرآں ملا
اچھی باتیں ملیں،دین و ایماں ملا
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

سب بھلائی برائی، بتا دی ہمیں
دین کی راہ سیدھی،دکھا دی ہمیں
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

ہے یہ میری دعا میرے اللہ میاں
ہم مسلماں رہیں اے مرے مہرباں
اے خدا، اے خدا،شکر و احساں ترا

بچوں کو قصوں اور کہانیوں سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے ،وہ انھیں سنتے ،پڑھتے اور ان سے سبق حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اپنی معصوم زندگیوں کو اس نہج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا خیال رکھتے ہوئے مائل صاحب نے بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں، جو بچوں کی ان ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ان میں ’عبرت ناک قرآنی قصے ‘نقلی شہزادہ،نیت کا پھل،اچھے افسانے، سچے افسانے،بے وقوف کی تلاش ، جنتی بچہ،مزدور یا فرشہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔انھیں پڑھنے کے بعد اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مائل انھوں نے ان قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ بچوں کی کس انداز سے تربیت کی ہے اور وہ انھیں کیسا بناناچاہتے ہیں۔

بچوں کے سامنے موجودہ اور گزرے نفوس،مؤثر شخصیات کی آپ بیتی بھی ہونی چاہیے، تاکہ وہ ان کے بچپن کو اپنے بچپن کے ساتھ جوڑکر اپنے زریں دور کو صحیح رخ پر رواں دواں رکھ سکیں۔ اس خیال سے مائل صاحب کی درج ذیل کتب بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں:پیارے نبی ایسے تھے،پیارے رسول کے پیارے ساتھی،رسول اللہ ﷺ کے جاں باز ساتھی، بڑوں کا بچن، بڑوں کی آپ بیتیاں وغیرہ

بچوں کو سلیقہ مند بنانے کے لیے ان کے سامنے کھانے پینے کے آداب بیان کرناضروری ہوتا ہے ،تاکہ وہی بچے جب بڑے ہوں تو ان میں اللہ کے رزق اور اس کی نعمت کی قدر کا احسا س کار فرما ہو۔اس تعلق سے ان کی مشہور نظم ہے:

آؤ دسترخوان بچھائیں---مل جل کر سب کھانا کھائیں
بھائی!پہلے ہاتھ تو دھولو---کھانے میں بیکار نہ بولو

بسم اللہ جو بھولا کوئی    ---اس نے ساری برکت کھوئی
دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا---دیکھو بھیا! بھول نہ جانا

چھوٹے چھوٹے لقمے کھانا---ہر لقمے کو خوب چبانا
کھانے میں جو عیب نکالے  ---  کھانے سے وہ ہاتھ اٹھالے

خوش خوش باہم کھنا اچھا--- کچھ بھوکے اٹھ جانا اچھا
کھانا کھا کر اٹھیں جب بھی --- حمد کریں ہم اپنے رب کی

بچوں کو بااخلاق بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ایسی سبق آموز اور مزیدار باتیں ہوں جو ان کے دلوں میں گھر کر جائیں اور انھیں بہ خوشی قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مائل صاحب کی یہ کتابیں بھی قابل ذکر ہیں:اچھی ،سچی اور مزید ار باتیں،امانت کا بوجھ ،پھول کی پتی، بھولے بھیا،دانا حکیم کی دانا بیٹی،کام نرم ونازک،مسلم بھیا،مہمان ریچھ،ہیرے کاجگر،اب تک یاد ہے،بدنصیب، اور ایک انسان دوکرداروغیرہ

مائل کی یہ تخلیقات بچپن کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت مفید اور کار گر ہے ۔ ورنہ بچپن جو پانی کے اس بہاؤ کے مانند ہے، جسے صحیح رخ نہ دیاجائے تو وہ منزل سے بھٹک کر خود راستہ بنالیتا ہے اوراپنے بہاؤ میں سب کچھ بہا کر لے جاتاہے ، جس پر کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتاہے۔ مائل کی یہ کتابیں ادبا ء کو بھی اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ بچوں میں تعمیری ادب کو پروان چڑھائیں تاکہ اسلامی نہج پر ان کی تربیت ہو۔
*محب اللہ قاسمی *

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...