Tuesday 15 August 2017

Urdu Short Story : Waqt ki Dahleez par

وقت کی دہلیز پر

      محمد محب اللہ

’’ماں آپ ہروقت پڑھتی رہتی ہیں۔ یہ لومٹھائی کھاؤ!یہ میری پہلی تنخواہ کی مٹھائی ہے۔آج مجھے تنخواہ ملی ہے، اس لیے میں نے اس میں سے کچھ پیسے غریبوں میں بانٹ دیے ،کچھ کی میٹھایاں خریدی اور دفتر سے واپسی پر رشیدہ خالہ اور سمیہ پھوپھی اور صوفیہ بھابی سب کے گھر مٹھائی دے آیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا میرے لال!خوشی ہمیشہ مل بانٹ کر ہی مناتے ہیں۔‘‘ کتاب رکھتے ہوئے سلمی نے جواب دیا۔

اسی دوران خالد بھی آگیا: کیا بات ہے؟ خوب مٹھایاں کھائی جارہی ہیں؟ زید نے بلا تاخیر جواب دیتے ہوئے مٹھائی ابو کے منہ میں ڈالی اورپوری بات بتائی۔ خالد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں۔بیٹا آپ کی بڑی امی کہاں ہیں؟ سلمی نے کہ کہا:
’’ابھی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں۔ شائستہ (بیٹی) آئی تھی کچھ دیر بیٹھی اور وہ دونوں بالائی منزل پرہیں۔‘‘

خوشی سے اچھلتے ہوئے زید نے کہا:’’ اچھا شائستہ آپا آئی ہیں۔ پھر تو میں ان کے پاس جارہاہوں۔انھیں بھی تو مٹھائی کھلانی ہے۔‘‘
اب سلمی نے خالد سے پیار بھرے انداز میں کہا : ’’کیوں جی آج بڑی تاخیر ہوگئی۔ خیریت تو ہے نا ۔‘‘
’’ ہاںذرا ٹرافک میں پھنس گیا تھا۔اور تم بتاؤ آج تو بہت خوش ہوگی ۔ بیٹے کو نوکری لگی اور اس کی مٹھائی بھی مجھ سے پہلے ہی کھا چکی۔‘‘سلمی کو چھیڑتے ہوئے خالد نے جواب دیا۔
’’کیوں جی آپ نے مٹھائی نہیں کھائی ۔اچھا اب باتیں بنانا چھوڑیے اور جلدی سے فریش ہوجائیے میں آپ کے لیے اچھی سی چائے بناکر لاتی ہوں۔‘‘
 یہ کہتے ہوئے سلمی کچن کی طرف چل پڑی۔آج سلمی بہت خوش تھی اس نے کیتلی لی فریز سے دودھ کا پیکٹ نکال کر اسے ابالنے کے لیے اور دودھ کیتلی میں ڈال دی پرانی یادوں میں کہیں کھوگئی۔

سلمی دین دار گھرانے سے تھی گاؤں والوں میں وہ گھرانہ دین داری میں مشہور تھا۔ اس کے والد سرکاری ٹیچر تھے۔ گھر میں دوبڑے بھائی اور اس سے تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ خوشحال گھرانہ اورعمدہ ماحول کی وجہ سے اس کی فکر بھی بلند اور شعوری طور پر مضبوط عزم وارادہ کی مالک تھی ۔جذبہ ترحم اور ایثار کی مثال تھی ۔ اپنی سہیلی کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کردینا اور ان کے مشکل وقت میں کام آنا گویا اپنے والدین سے ہی سیکھ لیا ہو۔ مزید براں اس کی دینی تعلیم نے اسے مزید پختہ کار بنادیا تھا۔
اسی گاؤں میں ایک نیک صالح اور غیر معمولی شہرت کا حامل ایک ہونہار آدمی جس کا بچپن میں ہی نکاح ہوگیا تھا اور عین جوانی میں رخصتی ہوگئی۔ مگر بیوی کمزور شعور اورفطری طور پر کم عقل ہونے کے سبب یہ خوبرواور ہردل عزیز ذہین لڑکا اپنی ازدواجی زندگی میں ایسی بیوی کے احساس سے محروم رہا جواس کے دکھ درد میں اسے تسلی دے ۔ اس کی خوشی کو خوشی اور تکلیف کو تکلیف محسوس کرکے اسے حوصلہ دے۔ یا اپنی ذہانت سے کوئی رائے دے کر اس کو مشکل وقت سے نکلنے کا راستہ بتائے۔ کیوں کہ اس میں بیوی میں قدرتی طور پر یہ ساری خوبیاں نہیں تھیں جو عام طور پر خواتین میں ہوتی ہیں۔

الغرض زندگی کی گاڑی جیسے تیسے قدرت کی مرضی کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس دوران اس کے کئی بچے بھی ہوئے ۔ وہ نہ صرف بچوں کی کفالت کرتا بلکہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی کفالت بھی مریض والدکے سبب ان کے ہی کندھوں پر تھی۔

ایک روز سلمی کی سہیلی نے اس آدمی کے سلسلے میں اس کے سامنے بات رکھی اور اس کے حالات کے بارے میں بتایا۔سلمی ساری باتیں سنتی رہی پھر کہا: ارے ہاں وہ تو بہت اچھے انسان ہیں ۔میں نے کئی بار اپنے گھر میں ان کاتذکرہ سنا ہے۔خیر اللہ رحم کرے۔ بڑا ترس آتاہے اس پر۔پر خدا کی جو مرضی۔

اس پر اس کی سہیلی نے مذاق کے انداز میں اس سے کہا : ’’برا نہ مانوتو ایک بات کہوں؟ ‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہاں بولو! میں تمہاری کسی بات کا برا مانتی ہوں!‘‘
سہیلی نے کہا:’’تم چاہوں تواس نیک، شریف انسان کی مدد کرسکتی ہو۔وہ بھی احسن طریقہ سے‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہٹ پگلی ! میں کیا کرسکتی ہوں‘‘
سہیلی نے کہا:’’تو اس سے شادی کرسکتی ہے۔ اس طرح تو اس کی خانگی زندگی بہتر اور مستحکم بناسکتی ہے۔یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ تیرے ابوکے قاسم چاچاسے اچھے تعلقات ہیں وہ دونوں اچھے دوست ہیں۔‘‘
سلمی نے کہا:’’تو بھی نہ کیسی کیسی بات لے آتی ہے!‘‘

سہیلی کے جانے کے بعد سلمی نے اس کی بات کو ہوا میں اڑا دیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔اسی دوران اس کا نکاح ہوگیا ۔ایک دن خبر آئی کہ سلمی کا جس سے نکاح ہوا تھا، اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور موقع پر ہی اس کا انتقال ہوگیا۔اس طرح سلمی رخصتی سے قبل ہی بیوہ ہوگئی۔ 
کچھ دن بیت گئے۔ سلمی کے والد کو اپنی بیٹی کی شادی کا خیال ستانے لگا ۔ اس نے اپنے دوست قاسم سے اس کا تذکرہ کیا۔قاسم بھی اپنے دوست کی پریشانی سے دکھی تھا۔ اس نے ایسے ہی اپنے گھر میں اس کا تذکرہ کردیا۔ اس پر خالد نے کہا:
’’بہت افسوس ہے ۔ خیر اس کی کہیں اور شادی کردی جائے ! ‘‘

قاسم نے کہا : ’’بیٹا!تو ابھی نہیں جانتا ۔ اس کے والد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تھوڑی ہی بیٹھے ہیں ۔ یہاں سماج کا حال یہ ہے کہ اس سے شادی کرنے کو معیوب سمجھا جارہاہے۔ کون کرے گااس سے شادی ؟ جہاں کہیں رشتہ کی بات ہوتی ہے ، بیوہ سنتے ہی بات ختم کرلیتے ہیں۔ غیر قوموں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی لوگ بیوہ سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں۔کاش میرے دوسرے بچے بڑے ہوتے !‘‘

اس پر خالد نے کہا:’’اگر یہ بات ہے ابوجان …تو آپ میرے عقدثانی کا پیغام ان کے گھر بھجوادیجیے۔ویسے بھی اسلام میں چارشادیوں کی گنجائش ہے۔ اگر انھوں نے قبول کیا تو ٹھیک ورنہ آپ کی طرف سے بات تو پوری ہوجائے گی اور آپ اس سماجی برائی کا حصہ بننے سے رہ جائیں گے۔‘‘

قاسم کو اپنے بیٹے کی یہ بات بھلی لگی۔ پر اس کے ذہن میں کچھ سوالات ابھرنے لگے۔
اس نے بیٹے سے پوچھا’’بیٹا ایک تو تو ویسے ہی تمام گھریلو اخرجات کی ذمہ داری تیرے سر ہے اور میں بیماری کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔ایسے میں تو…!‘‘خالدنے اپنے والد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا:
’’ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میں اس کی کفالت کیسے کرسکوںگا۔ آپ اس کی فکر نہ کریںایک آدمی کے بڑھنے سے اخراجات بہت زیادہ نہیں بڑھیں گے اور پھر ہر آنے والا اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتاہے۔ اللہ تعالی برکت دے گا۔ وہ کوئی نہ کوئی صورت ضرورنکال دے گا۔‘‘

اب قاسم کو کسی طرح کا کوئی تردد نہ رہا وہ اپنے دوست سے بات کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوست کے گھر جاکر ساری باتیں اس کے سامنے رکھ دی۔

سلمیٰ اپنی ماں کے ساتھ گھر میں بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی اور اپنی سہیلی کی پرانی باتوں کو یاد کرنے لگی ۔آج خالد اس کی نگاہ میں ایک عظیم انسان کی تصویر میں ابھر کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’بیٹی !کہاں کھوگئی ؟تو راضی ہے نا؟‘‘بیٹی کو جھنجھوڑتے ہوئے سلمی کی ماں نے اس سے پوچھا۔
 سلمی نے کہا : ’’ماں! مجھے ذرا سوچنے کا وقت دو۔‘‘
 اس جواب پر قاسم نے کہا کوئی بات نہیں بیٹی! تجھے انکار کرنے کا پورا ختیار ہے۔ ایسی کوئی جلد بازی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی زور زبردستی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا ہوں ۔ وہ تیرے حقوق کی ادائیگی میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دے گا۔ 

چند ماہ بعد سلمی نے حامی بھر لی۔اور بیوہ بن گئی سہاگن۔ اس طرح اس نے اسلام کے اس قانون کو عملی طورپر بہتر محسوس کیا جسے وہ کبھی کتابوں میں پڑھ کر آئی تھی۔

ابھی دودھ ابل کر بہنے ہی والا تھا کہ خالد نے آواز دی سلمی کیا ہوا … ’’چائے بنارہی ہو یا بربل کی کھچڑی۔‘‘
سلمی چونکی ۔اس نے فوراً کیتلی چولہے سے اتارتے ہوئے کہا ۔ ابھی لا رہی ہوں، ذرا صبر کرلو۔اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...