Thursday 12 March 2020

Delhi Fasad Istefa ki Mang aur AAP


دہلی فساد استعفیٰ کا مطالبہ اور آپ

   گجرات فساد 2002 میں ہوا. جس میں انسانوں کا درندگی کے ساتھ قتل عام ہوا. مگر افسوس کہ اس کے بعد وہاں کا سی ایم جو آگے چل کر پی ایم بن جاتا ہے. فروری 2020 میں دہلی کا بھیانک فساد ہوا. اس کے بعد آج مورخہ 2 مارچ کو پارلیمنٹ سیشن کے دوران وزیر داخلہ سے استعفیٰ (جو اخلاقی طور پر انھیں فوراً ہی دے دینا چاہیے تھا کیونکہ دہلی پولیس براہ راست ان کے ماتحت تھی مگر 50 گھنٹے تک فساد جاری رہا اور وہ کنٹرول نہیں کر سکے) کا پر زور مطالبہ ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا مگر لگتا ہے کہ یہ فضول ہے.

   یہ دور اخلاقی گراوٹ کے اتنی پستی کا ہے کہ اس میں اس طرح کا مطالبہ کارعبث معلوم ہوتا ہے. بلکہ یوں کہا جائے کہ اب انصاف کی امید بھی ختم ہوتی جا رہی ہے کہ دہلی فساد جس میں درجنوں لوگوں کی جانیں گئیں، اربوں روپے کا نقصان ہوا، مکانات اور مساجد نذر آتش کی گئیں۔ اس پر جج مرلی دھر صاحب نے کچھ ایکشن لیا اور انصاف کی بات کہی تو راتوں رات ان کا ٹرانسفر ہو گیا. ایسے میں بھلا وزیر داخلہ کیوں کر استعفیٰ دیں. کیا پتہ جناب بھی آگے چل کر پی ایم ہو جائیں؟ کیا بعید!

   شاہین باغ کا احتجاج ختم کرنے پر غور کیا جانا چاہیے. یہ بات سنجیے سنگھ جی بڑے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ لمبے عرصے سے جاری اس احتجاج سے بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہو رہا ہے. اس احتجاج میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوتے ہیں جس سے وہ پولورائز کرتے ہیں.

   جناب پہلی بات تو یہ کہ اس پروٹیسٹ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان شامل ہے. صرف شاہین باغ دہلی میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں ہر جگہ احتجاج کا شاہین باغ بن چکا ہے اور یہ آئین کے لیے کھڑا شاہین باغ ہے. اگر اس سے بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہوتا تو دہلی میں آپ کی تیسری بار سرکار نہیں بنتی۔ آپ کو تو یہ کہنا چاہیے کہ پورے بھارت میں اس کالا قانون سی اے اے ،این پی آر اور این آر سی کو لے کر 78 دنوں سے احتجاج جاری ہے. حکومت اس پر غور کرے اور اسے فوراً ختم کرنے کی صورت نکالے. پھر سب جگہ سے احتجاج خود بخود ختم ہو جائے گا.

   ان مقامات پر لوگ سردی بارش میں بیٹھے پکنک نہیں منا رہے ہیں، بلکہ وہ آئین کی حفاظت کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں. سنجے سنگھ جی کو یاد ہونا چاہیے کہ وہ بھی ایک دھرنا ہی تھا جس میں شامل ہونے کے بعد عام آدمی پارٹی وجود میں آئی.

   آپ نے کہا کہ پولیس ہمارے ادھین یعنی ماتحت نہیں ہے. یہ کوئی نئی بات نہیں یہ تو سبھی جانتے ہیں مگر یہ بتائے آپ کے ہاتھ پیر اور زبان یہ سب بھی آپ کے ادھین ہیں یا نہیں؟ پھر ان فسادات کو روکنے کے لیے کیوں آپ گھر سے باہر نہیں نکلے، کیوں لمبے وقفے تک آپ کی زبان خاموش رہی. کیوں دہلی کے وزیر اعلی عوام سے بات کرنے کے لیے باہر نہیں نکلے جب کہ عوام ان کے گھر کے سامنے رات بھر گوہار لگاتی رہی، چیخ و پکار کرتی رہی۔
   حضور ہم عام آدمی ضرور ہیں، ہم نے آپ کو پورا سپورٹ کیا، جس کے سبب تیسری بار آپ کی سرکار بنی. مگر ہم اتنے بھی بے وقوف نہیں جو کچھ نہیں سمجھتے. آپ بھی بدل گئے!
محب اللہ قاسمی

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...