Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts
Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts

Wednesday 10 July 2019

Mumin Buzdil Nahin


مومن بزدل نہیں ہوتا

تاریخ شاہد ہے کہ ظلم جتنا سہا گیا، اس پہ جس قدر خاموشی اختیار کی گئی یا انصاف میں جتنی تاخیر ہوتی رہی ،ظلم اسی قدر بڑھتا گیا، ظالموں کے حوصلے اسی قدر بلند ہوتے گئے. معاشرہ میں فساد اور انسانیت سوز واقعات اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے وطن عزیز کا بھی یہی حال ہے۔ ظالموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس پر اٹھنے والی آواز سختی سے دبائی جا رہی ہے۔مظلوم انصاف کا لفظ سننے کو ترستا ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ مگر اسے انصاف نہیں ملتا۔ اس طرح بے قصور کی پوری زندگی محض الزام کی نذر ہوکر تباہ کر دی جا رہی ہے۔

ظلم سہنے کا یہ عالم ہے کہ پے در پے اس ظلم کا شکار کسی خاص مذہب یا گروہ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مسلمان یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ہو تو پھر اس کا خون بہانا ان ظالموں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔خواہ وہ بزرگ ہو یا ادھیڑ عمر کا یا پھر کوئی معصوم سا بچہ۔ نفرت کے سودا گر، سیاست کی روٹی سیکنے والے ان کے خون سے پیاس بجھا کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔جب کہ ان مٹھی بھر فاسد عناصر کو دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے اور ظلم پر لب کشائی کو جرأت بے جا یا مصلحت کے خلاف تصور کرتی ہے۔

دوسری طرف مسلمان جس کا فریضہ ہی دنیا میں اللہ کے بندوں کو معرفت الٰہی سے روشناس کرانا ،عدل و انصاف کے ساتھ امن و امان قائم کرنا اور ظلم و غارت گری کو جڑ سےختم کرنا ہے۔ وہ دنیا کی چمک دمک میں ایسا مست ہے کہ اسے عام انسان تو درکنار خود اپنے نوجوان ، بچے، بوڑھے کی شہادت اور ان کے بہیمانہ قتل پر بھی کچھ درد محسوس نہیں ہوتا ۔اگر کوئی اپنا قریبی رشتہ دار ہے تو چند روز آنسو بہا کر خاموش ہو جانا ، پھر چند ایام کے بعد ایسے ہی فساد کا شکار دوسرا کوئی مارا جاتا ہے، تو کچھ روز گریہ و زاری کر لینا اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے قائدین، جو قوم و ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ اخبارات میں ان واقعات کی کھلی مذمت تو ضرور کرتے ہیں، مگر کوئی ایساٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے عملی اقدام نہیں کر تے جس سے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں ، ان کی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور دل و جان سے ان پر قربان ہونے کو تیار رہے.

جب کہ تاریخ نے انھیں ان کا مقام بتایا، اسلام نے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا، ماضی کے واقعات نے ان کو اپنے فریضہ کی ادائیگی کا سلیقہ سکھایا اور نعرہ تکبیر نے ان کے اندر حوصلہ دیا کہ وہ ظالموں کو لرزا بہ اندام کرتے ہوئے ان کے ہی میدان میں انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اسلام نے سسکتی انسانیت کو جینے کے بنیادی حقوق دیے،ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ساتھ ہی ظالموں کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو باہمت، باحوصلہ اور بہادر بننے کی ترغیب دی۔مومن کو ایمانی اور جسمانی ہر اعتبار سے مضبوط بننے پر زور دیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بزدلی کو مومنانہ شان کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن بزدلی کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہنے کی تعلیم دی۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (بخاري)

اے اللہ! میں رنج و غم سے ،عاجزی و سستی سے،کنجوسی اور بزدلی سے، قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں

اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرتے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اسے عملی جامہ نہیں پہناتے تو دادری کے اخلاق سے جھار کھنڈ کے تبریز تک قتل و خوں ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہےگا ۔ بلکہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا.

ہم دنیا کی محبت میں گرفتار، بزدلی کے شکار اپنا سب کچھ ختم کر لیں گے۔ دنیا تو تباہ ہوگی ہی ، آخرت میں بھی خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہمارے آبا و اجداد نے اتنی قربانیاں دیں۔ ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اور بعد میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بنا لیے گئے۔ ہمارےاتنے سارے ادارے قائم تھے پھر بھی ہمارا دینی تشخص، بنیادی حقوق، اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی سب سلب کر لی گئی اور ہمیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حالات میں لاکھڑا کردیا۔

عقل مند انسان وہی ہے جو پرفریب دنیا کی چاہت سے آزاد ہو کر مسقبل کو بہتر بنانے کے لیے ماضی سے سبق لے کر حال میں اپنی پوری جد وجہد صرف کردے۔
(محب اللہ قاسمی)

Wednesday 3 July 2019

Mob lynching ke Khelaf Awaz


ٹارگیٹ کیلنگ (ماب لنچنگ) کے خلاف زودار آواز
نصرت جہاں اور زائرہ وسیم کی خبروں کے بیچ ٹارگیٹ کیلنگ (ماب لنچنگ) کا درد ناک واقعہ دب سا گیا ہے۔ جب کہ آئے دن ایسے دل اندوہ واقعات رونما ہو رہے۔ انسانیت سوز ان واقعات پر ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ بلند کرنے والی حکومت خاموش کیوں ہے؟ اس پر کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھایا جا رہا ہے؟ کیا مسلمانوں نے اسی لیے بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی کی خاطر اس سرزمین کو اپنے خون سے لال کیا تھا کہ یہاں اس کے بھائی کی شکل میں رہنے والے درندے اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالے اور لا ان آرڈر کی دھجیاں بکھیر کر ٹاگٹ کیلنگ کی جائے؟
یہ ماب لنچنگ نہیں بلکہ ٹارگیٹ کیلنگ ہے۔ ماب لنچنگ کا نام دے کر ایسے خطرناک جرم کو ہلکا نہ کیا جائے۔ موت کا درد کیا ہوتا ان درندہ صفت انسانوں کو کیا معلوم جو کبھی، کہیں بھی، معصوم انسان کا خون بہا کر اپنی حیوانیت کی پیاس بجھاتے ہیں۔ اگر ان درندوں کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا اور اس پر قابو نہ پایا گیا تو ہندوستان کی ترقی کا خواب محض خواب رہ جائے گا، چاروں طرف ویرانہ ہوگا جس کے سناٹے میں مظلوم بے کسوں بے بسوں کی چینختی سسکتی آنہیں سنائی دے گی۔
اس لیے اس اہم مسئلہ پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ زوردار انداز میں حکومت سے مطالبہ کیا جائے، وزیروں اور منتریوں سے ملاقات کی جائے، کہ ایسے خطرناک مجرموں پر فوری اور سخت کارروائی کرے۔
دوسری جانب مسلمانوں کو بھی ایسے درندوں سے حفاظت اور ان سے نپٹنے کے لیے عملی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے. اپنی جان کی حفاظت کے لیے کوشش کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ظالم کو ظلم سے روکنا اس کا دینی فریضہ ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعا بھی کرنی چاہیے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَ الحُزنِ وَ العِجزِ وَ الکَسَلِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ ضَلَعِ الدَّینِ وَ غَلبَۃِ الرِّجَالِ۔ (صحیح بخاری)

اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے اور غم سے اور عاجزی سے اور سستی سے اور بزدلی سے اور بخل سے اور قرض چڑھ جانے سے اور لوگوں کے غلبہ سے۔
اللہ تعالی ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور ہمیں حوصلہ عطا کرے آمین۔
)محب اللہ قاسمی(


Tuesday 2 July 2019

Rub ke taraf laut



رب کی طرف لوٹ

    زائرہ وسیم کوئی پہلی لڑکی نہیں جس کی روح نے اسے آواز دی ہو اور وہ پر فریب دنیا کی لذتوں اور بے حیائی کے تعفن زدہ ماحول کو اپنے مالک حقیقی سے تعلق جوڑنے کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ لیا ہو اور اپنے اس فیصلے کو دنیا کے سامنے برجستہ پیش کرنے کے لیے واضح اور طویل تحریر لکھی ہو.

    بلکہ ہر وہ انسان جس کے ایمان کی حلاوت اس کے دل میں ہو اور اس کی لذت سے انسان آشنا ہو جائے تو اسے اطاعت ربانی کے سوا سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے. پھر اسے گناہوں کی بستی میں گھٹن محسوس ہوتی ہے اور وہ بے حیائی کے ماحول میں جی نہیں. نور الہی اسے اندھیرے سے کھینچ کر واپس باحیا خوش گوار اور پاکیزہ زندگی کے ماحول میں لے آتا ہے.

    ایک مسلمان سے اس کا دین ایمان اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کسی نہ کسی سبب چھین لی جائے جو اس کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ پھر اس کی دولت، شہرت اور مرتبت اس کے کس کام کی۔

    یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ ذلت و رسوائی کی پستی میں ہو یا پھر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر، اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے دین مذہب اور شریعت کے خلاف زندگی گزار کر جہنم کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے تو اس کا پاکیزہ نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اس کی بے چین روح اسے واپس اپنے رب کی اطاعت کی طرف لے آتی ہے۔ گویا کوئی اس سے کہہ رہا ہو ففروا الی اللہ (دوڑو اپنے اللہ کی طرف).

    یہ عمل کبھی، کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹے اور کائنات کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق اپنا مقصد حیات متعین کرکے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرے۔

    خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کی پر فریب، عارضی چمک دمک اور اس کے کھوکھلے پن کو الوداع کہہ کر واپس اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور اس راہ حق میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں.
ایسے لوگ جب اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے.

’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی ہو۔ تو تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘
(محب اللہ قاسمی)

Monday 1 July 2019

Chamanistan ko lyenchistan na banayen


چمنستان کو لنچستان نہ بنائیں
ہجومی دہشت گرد پیٹ پیٹ کر بے بس، بے قصور انسانوں کی جان لے رہے ہیں اور ایسے خونخوار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں سزا دینے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہو جس کے سبب یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے.

اگر یہی پالیسی ہے تو یہ کیسی پالیسی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ہمارا ملک انگریزوں سے اسی لیے آزاد ہوا تھا کہ اپنے لوگ اس پر ظلم ڈھائیں اور ان کی لنچنگ کریں۔ کیا ان باتوں سے دیش ترقی کر لے گا؟ کیا ان باتوں سے مہنگائی میں کمی آجائے گی؟ بے روزگاری ختم ہو جائے گی؟
یاد رکھیے! دیش کی ترقی عدل و انصاف اور ملک کے وکاس میں ہے، ان کا وناش کر کے قوم کا اعتماد اور وشواش کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا. بھلے ہی آپ ایوان میں اعتماد حاصل کر لیں. پر نہ بھولیں کہ عوام پارلمنٹ کا نمائندہ بنا کر اس لیے بھیجتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ عدل و انصاف کرے اور ان کے لیے خوشحالی اور ترقی کےمواقع فراہم کرے اور کہیں کوئی ظلم و ستم کا بازار گرم ہو رہا ہے تو اس پر روک لگائے اور امن و محبت کا ماحول بنانے کی کوشش کرے. یہ نہیں کہ ملک کا امن و امان غارت ہو اور اسے لنچستان بنایا جائے اور یہ تماشائی بن کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرے

ہندوستان میں امن و امان اور خوشحالی کی بحالی کےلیے نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے ہم اپنے ملک کے تمام بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ پیار و محبت کی علامت کہا جانے والا تاج محل والے ملک اور چمنستان کو لنچستان نہ بنائیں۔

ملی قائدین و سیاسی و رہنما یہ بتائیں کہ بے چاری غریب عوام جو آپ کو اپنا لیڈر اور رہبر مان رہی ہے جب ان کی جان ہی سلامت نہ رہے تو آپ کن کی قیادت کریں گے؟ اور کن کے رہنما کہلائیں گے؟ قائدین ملت قیادت کی ذمہ داری کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے. ظلم و زیادتی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا. مظلوم کی ان سسکیوں میں جہاں ظالم کے خلاف بد دعائیں ہیں وہیں قائدین سے فریادیں اور آہیں بھی. انھیں محسوس کیجئے!
آئندہ کوئی ماب لنچنگ کا شکار نہ ہو اس کے لیے تیاری ہو صرف ڈرے سہمے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں! یقینا مومن ظالم نہیں ہوتا مگر اس پر ظلم ہو یا کوئی اس پر ظلم کرے تو وہ اسے بے چارگی کے ساتھ بھی نہیں سہتا بلکہ مومن تو بہادر بے خوف زندگی جیتا ہے اور ظالموں کو ظلم سے روکتا ہے۔
اللہ تعالٰی مظلومین کی مدد فرمائے، قائدین کو احساس ذمہ داری دے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے. آمین-
#mob_lynching
محب اللہ قاسمی


Saturday 18 May 2019

Hamdardi aur Muasat ka Mahina


ماہ رمضان: ہمدردی اور مواساۃ

آپ ؐ نے اس پورے مہینے کو ہمدردی و مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے۔ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ جو پورے سال بے سروسامانی کی وجہ سے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔اب جب کہ وہ بھی روزے کی حالت میں ہے تواللہ کے ان محتاج بندوں کی امداد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یوں تو آپ ؐ بڑے فیاض اور سخی تھے مگررمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آپ عطا، بخشش و سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، آپ ؐ ہر قیدی کو رمضان بھر کے لیے رہا کردیتے تاکہ وہ اس ماہ سے استفادہ کرے اور ہر سائل کو کچھ کچھ نہ کچھ دیتے خالی واپس نہیں کرتے تھے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل شھر رمضان اطلق کل اسیر وا عطی کل سائل (بیہقی فی شعب الایما ن)
’’رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ؐ ہر اسیر (قیدی) کو رہا کردیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔‘‘
آپ نے روزہ دار کے افطار کرانے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (بیہقی، محی السنۃ)
’’جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے یا کسی غازی کے لیےسامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملےگا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکھنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ کا مزید ارشاد ہے:
مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُعْطَى هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ، أَوْ تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ (مشکوۃ)
’’جس نے ماہ رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرایا اس کے لیے اس کے گناہوں معافی اور جہنم سے چھٹکارا ہے اور اس کے لیے روزہ دار اس کے اجر میں کمی کے بغیرروزہ دار کے برابر ہی اجر ہوگا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم میں تو ہر شخص روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں رکھتا؟
آپؐ نے فرمایا: اسے بھی یہی اجر ملے گا روزے دارکودودھ کا گھونٹ پلائےیا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرائےیاپانی کا گھونٹ پلاے اور جو روزہ دار کو سیراب کرے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا حتی کہ وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘
آپ ؐ رمضان کے مہینے میں اپنے تحتوں کےساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ان سے کم کام لیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے:
مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ(مشکوۃ)
’’جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیااللہ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں اس ماہ مبارک سے کماحقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کو شرف قبولیت بخشے 
)محب اللہ قاسمی(

Friday 10 May 2019

Ramzanul Mubarak aur Shaksi Irteqa



رمضان المبارک  اورشخصی ارتقاء
رمضان المبارک ماہ تربیت ہے۔ اس کی عبادات (روزہ، اذکار،نوافل، تلاوت اور دعا و استغفار وغیرہ) انسان کے روحانی ارتقاء میں مددگار ثابت  ہوتی ہیں۔ وہ رمضان کے اوقات کا صحیح استعمال کرے تو اللہ تعالی سے اس کی قربت میں اضافہ ہوگا اور اس کے نفس کا مکمل تزکیہ ہوجائے گا۔ اس مجموعہ میں شامل مضامین میں رمضان المبارک کے مختلف پہلؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرامؓ  کے معمولاتِ رمضان بیان کیے گئے ہیں۔یہ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ان سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا گیا ہے۔
محب مکرم مولانا محب اللہ قاسمی کا قلم رواں دواں ہے۔ ماشاء الله انھوں نے آسان زبان اور شستہ اسلوب میں رمضان کے فضائل و مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس مجموعہ کو مقبولیت عطا فرمائے اور اس سے استفادہ عام کرے۔ آمین یا رب العالمین

محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
  

  رمضان المبارک  اورشخصی ارتقاء
رمضان المبارک کو تربیت اور شخصیت سازی کا مہینہ کہاجا تا ہے ۔اللہ اپنے بندوں کو اس ماہ کی اہم عبادت  روزے کے ذریعے ایک خاص تربیت دیتاہے، جسے ’تقویٰ‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہاگیا ہے:لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون:’’تاکہ تم میں تقوی صفت پیدا ہو۔‘‘روزہ تربیتِ نفس کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو انسان کو صبراورنظم وضبط کا عادی بناتاہے ،کیوں کہ خواہشاتِ نفس پر قابوپانے کی بہترتربیت روزوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔
تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کام یابی اورمقاصدکے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔اس کے بغیرکسی بھی مقصدمیں کام یابی حاصل کرنامشکل ہے۔ ہرچیزکی نشو و نمااور ارتقاء کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہ انسان کی علمی،عملی  اورفکری لحاظ سے نشونماہویا خاندانی ،سماجی اور سیاسی اعتبارسے  ارتقاء ۔
اسی طرح اس ماہ میں انسانوں کو عبادت و اطاعت، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت، غریبوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ وہ قابل ہوتا ہے اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسرکرکے اس کے انعام (جنت ) کا مستحق بنائے اورجہنم کی آگ سے بچ سکے۔
اس کتاب میں رمضان المبارک سے متعلق چند مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔امید ہے ان کے مطالعہ سے روزوں کو بامقصد بنایا جاسکے گا اور شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دے کر اس ماہ مبارک کی ساعتوں سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے گا۔  اللہ تعالی ہماری عبادتوں اور ریاضتوں کو شرف قبولیت بخشے اور ہماری شخصیت میں نکھار پیدا کرے۔ آمین     
محب اللہ قاسمی
5مئی2019  بمطابق یکم رمضان1440


نوٹ: یہ کتاب پی ڈی ایف فائل میں دستیاب ہے۔ خواش مند حضرات واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔

mohibbullah.qasmi@gmail.com
9311523016

Saturday 4 May 2019

Shandar Tareekh


شاندار تاریخ
اسلام کی شاندار تاریخ رہی جسے اپنانا انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بے حد ضروری ہے.
یہ روشن تاریخ مسلمانوں کے لیے قابلِ فخر ہے. اب جس کی تاریخ ہی نہیں یا رسوا کن ہو تو وہ سوچے کہ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے انھیں حال میں کس تاریخ کی خوبیوں کو اپنانا چاہیے.
ساتھ ہی مسلمانوں کو اپنی تاریخ زبان زد ہونی چاہیے تاکہ کوئی انھیں غلط فہمی کا شکار نہ بنا سکے.اسلام کا خدائی نظام اپنی خوبیوں کے ساتھ سر بلند ہونے کے لیے آیا ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت سرنگوں نہیں کر سکتی.
محب اللہ قاسمی

Wednesday 1 May 2019

Roza: Gunahon se bachne ki mashq




روزہ : گناہوں سے بچنے کی مشق

ماہ رمضان المبارک کی سب سے مقدس اور اہم عبادت روزہ ہے۔اس کا  مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   ١٨٣؁ۙ
اے لوگو  جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے  کے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔(البقرۃ: 183)

تقویٰ کہتے ہیں اللہ تعالی سے محبت اور تعلق کے سبب اس کے بتائے ہوئے کاموں کو انجام دینا اورمنع کی گئی باتوں سے بچنا۔اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقویٰ کا حصول جس طرح نیک کام کی انجام دہی سے ہوتا ہے ، اسی طرح اس کا حصول گناہوں سے بچے بغیر ممکن نہیں۔ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ روزہ کا مطلب ہی بچنا ہے۔جیسا کہ حضرت  مریم ؑ کو ہدایت  دیتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا  ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا 26؀ۚ
’’پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے ، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی ۔‘‘ (مریم: 26)

اس آیت  کریمہ  میں بات کرنے سے  رکنےکو صوم(روزہ) سے تعبیر کیا گیا  ہے۔روزہ کی حالت میں ایک مسلمان پر  ضروری ہے کہ وہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے ،پینےاور جنسی تعلق بچے۔  ہمیں معلوم ہے کہ  عام حالات میں یہ کام جائز ہیں  مگر حالت روزہ میں ان سے بچنا ضروری ہے۔یہ حکم اس لیے  دیا گیا ہے  تاکہ بندے  کی اندر عام حالات میں بھی گناہوں سے بچنے کی مشق ہوجائے۔روزہ بھی ہمیں اس بات کی مشق کراتا ہے اور  ہماری تربیت کرتا ہے کہ ہم گناہوں سے دور رہیں۔
اس لیے جہاں روزے کی حالت میں مذکورہ چیزوں سے بچنا ضروری ہے وہیں دوسری بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے بچنا ناگزیر ہے۔ ورنہ روزہ صرف رسمی عبادت بن کر رہ  جائے گا ۔ ہم اس کی برکت و فضیلت اور اس کے مقصد کو  کماحقہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے تنبیہاً ارشاد فرمایا :


من لم يدع قول الزور والعمل به والجهل فليس لله حاجه أن يدع طعامه وشرابه (بخاري)
جس نے جھوٹی بات، اس پر عمل اورگناہ کو نہیں چھوڑا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا، پینا چھوڑ دے۔

صحیح بخاری کی اس روایت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھ کر اسے اذیت میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا اور نہ اسے ان کے بھوکا پیاسا رہنےکی ضرورت ہے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ بندہ نے حالت روزہ میں جس طرح کھانا پینا چھوڑا اسی طرح وہ برائیوں اور گناہوں سے بھی بچے اور اپنے رب کے حکم کے مطابق ہی زندگی بسر کرے اوراس کے  احکام  کا تابع بن کر اس کی منع کردہ باتوں سے گریز کرے۔ مذکورہ بالا روایت میں ’قول زور ‘ اس پر عمل اور جہالت سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

’قول زور‘  کا مطلب جھوٹ بولنا ہے۔ جھوٹ ایک بری عادت ہے، جس کے سبب انسان اللہ کا ناپسندیدہ بندہ ہوجاتا ہے اور وہ دنیا میں بھی بہت سی مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتا ہے، جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ انسان اگر جھوٹ سے اجتناب کرے تو وہ دیگر بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ جب کہ جھوٹ پر عمل اس سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ کیوں کہ جھوٹ بولنے سے  انسان ایک غیر واقع بات کا صرف قائل ہوتا ہے جب کہ جھوٹ پر عمل کرنے والا اس بری بات کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً کوئی چیز اس کی نہیں اور اس نے اس پر دعوی کردیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے عملی اقدام کیے۔ گویا اس نے اس جھوٹ پرعمل کیا جو بہت بری بات ہے۔ اس سے معاشرہ تباہ و برباد ہوتا ہے۔

رہی بات جہالت کی تو انسان جب گناہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی شان اور اس کی عظمت و کبریائی کوفراموش کر دیتا ہے اور ان تمام برے کاموں کا مرتکب ہوتا ہے  جن سے  اللہ  نے منع کیا تھا۔

اس تعلق سے  حضرت عمرفاروق  ؓ کا قول بھی ہمارے سامنے رہے وہ فرماتے ہیں:

"ليس الصيام من الطعام والشراب وحده، ولكنه من الكذب والباطل واللغو والحلف". 
روزہ محض کھنے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ وہ جھوٹ، باطل اور غیر ضروری کاموں اور حلف سے رکنے کا نام ہے۔

ایک روایت میں نبی کریمﷺ نے روزہ کو گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال قرار دیا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعہ گناہوں سے بچا جاسکتا ہے۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا:

الصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَلاَ يَرْفثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائمٌ - (بخاري)

’’روزہ ڈھال ہے۔لہذا روزے کی حالت میں آدمی نہ کوئی برا کام کرے اور نہ ہی کسی پر زیادتی کرے۔ اگر کوئی شخص  اس سے جھگڑنے پر آدمادہ ہو یا اسے برا بھلا کہے۔ تو اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ یہ بات آپ نے دو بار ارشاد فرمائی۔
حالت جنگ میں جب چاروں طرف سے تلواریں چل رہی ہوں۔ اس وقت انسان اپنے بچاؤ کے لیے  ڈھال کا سہارا لیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح گناہوں کے وار سے بچنے کے لیے مومن کوروزہ کا سہارا لینا چاہیے۔

ایک حدیث میں ہے  کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک منادی آواز لگا تا ہے۔’’يا باغي الخير أقبل‘‘ (اے خیر کے طالب!پیش قدمی کر ’’يا باغي الشر أقصر‘‘ (اے گناہوں کی چاہت رکھنے والے ! گناہوں سے دور رہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں جہاں ہمیں نیکیوں اور خیر کے کام انجام دینے چاہیے وہیں بری باتوں سے رکنا  چاہیے۔
    محب اللہ قاسمی
9311523016 

Wednesday 24 April 2019

Ittehad Ummat aur Iqamat Deen


اتحادِ امت اور اقامت ِدین
محب اللہ قاسمی
زندگی گزارنے کا خدائی نظام، جس کے مطابق زندگی بسرکرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ پھر اس نظام کو اپنے قول وعمل اور اپنی تمام ترصلاحیتوں سے عام کرنا، تاکہ دنیا کا ہر انسان اپنے مالک حقیقی کی مرضی کو جان کر اس کی ہدایت (دین) کے مطابق اپنی زندگی گزارسکے ۔گویا فرد کی اصلاح معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کا کام انجام دینا  اقامت دین ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اْس نے تمہارے لیے ، دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ، ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے ، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمد ؐ ) تم اِنہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے ، وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے ، جو اْس کی طرف رجوع کرے۔(الشوریٰ: 13)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو( جوکلمہ ٔ  توحید کی بنیاد پر متحد ہوئے ہیں ) دوباتوں کی دوہدایت دی ہے:

۱۔ اقامت ِدین          
۲۔ تفرقہ بازی سے اجتناب

اس آیت کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ امت میں اقامت دین کا جذبہ ہے، مگر وہ گروہ بندی سے اجتناب نہیں کرتی ہے۔ ایک گروہ کسی خاص انداز سے اقامت دین کا کام انجام دے رہا ہے تو دوسرا گروہ اس کی مخالفت کررہا ہے اور اس کو برا کہہ رہاہے، جب کہ دونوں دین کے بنیادی عقائد (توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ) میں متحد ہیں۔

اختلاف اور افتراق
اختلاف اور افتراق، کے معنی ہیں ، دوچیزوں کا مختلف ہونا ۔یہ دونوںا لفاظ کبھی ایک معنٰی میں مستعمل ہوتے ہیں تو کبھی دونوں  کے دو خاص معنی ہوتے ہیں۔

 دنیا کے تمام معاملات جن میں اللہ اور اس کے رسول کی واضح دلیل موجود ہے(جسے اصطلاح شرع میں’ نص‘ کہتے ہیں)ان میں سب کااتحاد کے ساتھ عمل کرنا ضروری ہے، محض اپنی رائے پر اختلاف ،جس کے نتیجے میں افتراق ہو،کسی بھی درجہ میں مناسب نہیں ہے۔اگر نص موجود نہ ہو تو وہاں رائے کا اختلاف ممکن ہے ۔ یہ اختلاف  انسان کے فہم و فراست میں اختلاف کی بناپر ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ نے صحابہ کے ایک وفد کو روانہ کرتے ہوئے کہا کہ بنوقریظہ کی آبادی میں پہنچ کر نماز عصر ادا کرنا۔ مگر صحابہ کرامؓ کا وفد ابھی اس مقام تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ نماز عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو کچھ لوگوںنے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی نماز ادا کر لی، جب کہ دوسرے کچھ صحابہ نے بنوقریظہ پہنچ کر نماز عصر ادا کی۔بعد میں اس کی اطلاع آپ ؐ کو ملی تو آپ نے کسی کو  غلط نہیں قراردیا۔

یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ائمہ مجتہدین گزرے ہیں، ان کا اختلاف ایسے ہی اجتہادی مسائل میں ہے، پھر انھوں نے کبھی اپنی رائے پر دوسروں کو پابند  بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جن حضرات نے ان کی آرا کو سامنے رکھا اور انھیں بہتر اور نص سے قریب تر محسوس کیا ،انھیں اختیار کیا۔ ائمہ اربعہ نے باہم کسی کی رائے کو برا نہیں کہا اور ان کی تردید اور تغلیط نہیں  کی۔ بلکہ حضرت امام شافعی ؒ کا واقعہ ہے کہ جب وہ امام ابوحنیفہ ؒ کے شہر میں داخل ہوئے تو  ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے رفع یدین ترک کردیا ۔

 فروعی مسائل کے اختلاف کوامت کے افتراق اور گروہ بندی کی شکل بنا کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا یا اس میں تشددکا راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔صحابہ کرام میں بھی رائے کا اختلاف تھا مگر اس کی بنیاد پر وہ منتشر نہیں ہوئے بلکہ بھرپور اتحاد کے ساتھ اقامت دین کی جد و جہد میں مصروف رہے ۔انھوں نے اشداء علی الکفار رحماء بینہم(کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل )کا ثبوت پیش کیا۔

اقامت ِدین ایک مسلمان کا نصب العین ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، کہ کہا جائے کہ اس کی کوشش اس سے قبل نہیں ہوئی ۔سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اقامت دین کسے کہتے ہیں؟ اسلام کے بارے غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دینا اس کی اشاعت وحفاظت ، اسلامی ثقافت و معاشرت کے فروغ کی کوشش کرنا اوردین میں ہر طرح کی خرافات و بدعات کی آمیزش کو دور کرنااقامت دین ہے۔صحابہ کرامؓ ،تابعین عظام،تبع تابعین  اور سلف صالحین رحمہم اللہ نے اپنی پوری زندگی اسی کے لیے وقف کردی تھی ۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سازش رچی جا رہی تھی اس وقت ہندوستان میں بھی یہ آگ چاروں طرف پھیلی تھی جسے بجھانے اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایک بہت بڑا اجلاس دارالعلوم دیوبند میں منعقد کیا گیا تھا، جس میں مختلف مسالک کے ذمہ داران کو ایک اسٹیج پر جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ واقعی اب مسالک کا وہ جھگڑا ،جو دست گریباں تک پہنچنے کا سبب بنتا تھا ختم ہو جائے گا۔مگر افسوس کہ یہ صورت حال صرف وقتی ہی رہی۔اس کے بعد تکلیف دہ بات جو دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جمعیت علماء ہندکے دو ٹکڑے ہو گئے۔عام مسلمانوں میں مقبول تبلیغی جماعت میں منصب کی لڑائی نے شرمناک رخ اختیار کر لیا۔ اس پر غضب بالائے غضب یہ کہ سعودی فرماںروائوں نے اپنی حیرت انگیز پالیسیوں سے ملت کو مزید انتشار اور تکلیف میں مبتلا کر دیاحالاں کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ  درجنوں مسلم ممالک کا باہمی اتحاد مسلمانوں کواستحکام عطا کرتاجس سے وہ دشمنان اسلام کا مقابلہ کرتے ، بے بس مسلمانوں کو ظلم استحصال کا شکار ہونے سے بچایاجاتا اور دنیامیں پھیلے فساد و بگاڑکو روکنے کی کوشش کی جاتی ۔کیوںکہ

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم ِ پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک

موجودہ دور میں مسالک کے اختلاف نے بہت خطرناک رخ اختیار کرلیا ہے۔ دوسرے مسالک کے لوگوں کااپنی مساجد میں داخلہ روکنا ،ایک دوسرے پر کفرکا الزام لگاناعام ہوتا جا رہاہے ،جو انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلمانوں کے یہ  اختلافات صرف مسلک تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ایک ہی جماعت اورایک ہی مسلک کے ماننے والوں میں بھی محض آراء کا اختلاف انتشار اور تنازع کی شکل اختیار کرلیتاہے ۔اس کی وجہ پر غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ محض ’انا‘کی وجہ سے کہ میری رائے کو کیوں نہیں قبول کیاگیا اور میرے نظریے کے مطابق معاملہ کیوں نہیں ہوا،یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔پھر  شیطانی وساوس اختلاف پیدا کرنے والوں کو گروہ بندی جیسے گھٹیا عمل میں ملوث کردیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں امت بکھراؤ کا شکار ہو کر بے وزن ہوجاتی ہے اور اس کا دینی و ملی مفاد، جس کے لیے سب نے اپنے کو وقف کر رکھا تھا اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔پھرہرگروہ کے متبعین  آپس میں ہی ایک دوسرے کونیچادکھانے اور انھیں ہرممکن نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

قائدین ملت کا محض اپنی  ’انا ‘اور ’شہرت‘ جاہ و منصب کی خاطر امت کو اتنے بڑے خسارے میں ڈال کر گوشہ عافیت میں پناہ گزیں ہوجانااقامت دین کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کا شاید انھیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔یہ صورت حال امت کے ہر گروہ کی ہے جس کی وجہ سے آسمانی مصیبتیں در آتی ہیں اور نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور دشمنان اسلام اپنے مکروفریب میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

ضرورت ہے کہ  ماضی کے ان تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر اختلاف کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے اور انھیں حل کرنے کی سعی کی جائے،  تاکہ آنے والی نسل کو اس کی کڑوی گولی نہ لینی پڑے اور اختلاف مسالک کے باوجود اتحاد کی صورت اپنائی جاسکے اور اقامت دین کی راہ آسان ہو۔ll      

Tuesday 23 April 2019

Ikhtelafat Mitayen


اختلافات مٹائیں اتحاد کی راہ اپنائیں

    آج کل فیس بک سے لے واٹس ایپ گروپ تک ہر جگہ فتنہ مودودیت اور رد مودودیت کو لے کر عجیب افتراق و انتشار کا ماحول ہے اور کچھ لوگ بے وقت اس موضوع کو گرما گرم بحث کی اور لے جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ ایک طرف تو اتحاد کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں اور پرانی باتوں کو ختم کر کے نئے سرے سے نئی حکمت عملی کے ساتھ دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنا ہے اور ہم اب بھی رد مودودیت میں لگے ہوئے ہیں.

    میرا پوچھنا ہے کیا مولانا مودودی جنہوں نے حجیت حدیث پر ’سنت کی آئینی حیثیت‘ نامی کتاب لکھ کر منکرینِ حدیث کا منہ بند کیا، ختم نبوت کے معاملے میں پھانسی کی سزا قبول کی مگر ختم نبوت کے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے. الحاد کے بڑھتے سائے کارخ موڑا اور نوجوانوں میں اسلام کا واضح نقطہ نظر پیش کیا، اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیا، جس سے برادران وطن میں اسلام اور اسلام کا پیغام بحمد اللہ تیزی سے متعارف ہوا... وہ آدمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت، بلند مرتبت کے قائل نہیں ہیں؟ کیا مولانا مودودی انبیاء کرام علیہم السلام کی شان اور ان کے مقام کو نہیں مانتے؟  کیا انھوں نے ایسا کوئی مشرکانہ عمل اختیار کیا یا عقیدہ ختم نبوت کے قائل نہیں؟

    ظاہر ہے ایک منصف مزاج شخص عدل و انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے کہے گا کہ نہیں ایسا نہیں ہے.

    اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ مودودی صاحب سے غلطی ہوئی ہو اور بشریت کا تقاضا ہے کہ انسان سے غلطی ہوتی ہی ہے. تو کیا اس کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟

    میری ناقص رائے یہ ہے کہ ایک بار ہمارے علمائے دیوبند اور جماعت اسلامی کے لوگ بیٹھ کر باہمی تبادلہ خیال کر کے کچھ طے کر لیں. کوئی ایسی بات اگر غلط ہے تو اسے درست کر کے ہمیشہ کے لیے یہ جھگڑا ہی ختم کر دیا جائے ورنہ بڑے لوگ اتحاد و اتفاق کی بات کریں گے اور مدارس میں اختلاف و انتشار کی تعلیم دی جائے گی، جو مجھ جیسے بچوں کو بھی اچھا نہیں لگتا اور نہ ہی اس سے مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا ہے.

    ہم سب کو مل کر تعاون علی البر والتقوى کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ ہمارا اس طرح کا طرزِ عمل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا، جو کسی صورت بہتر نہیں! اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.
محب اللہ قاسمی


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...