Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts
Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts

Wednesday 9 May 2018

Isteqbale Ramzan aur Hamari Zemmedariyan




استقبال رمضان اور ہماری ذمہ داریاں
                                                         محب اللہ قاسمی
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بہت جلد ماہ رمضان اپنے فضائل برکات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک کی عبادات، ثواب اور ماحول میں برکت بڑی برکت رکھی ہے۔ گویا نیکوں کا موسم بہار آنے والا ہے۔ اس لیے ہم اس ماہ مبارک کا استقبال کریں۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا:

’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا، توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیا اس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی، یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔ اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا، یا دودھ کا گھونٹ پلایا، یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایا اس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔ جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔(مشکوۃ)

اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس ماہ تربیت سے اپنی تربیت حاصل کریں۔ عبادت و ریاضت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خصوصی دلچسپی لیں اور ابھی سے ہی آنے والے بابرکت مہینے کی تیاری شروع کردیں۔ اگر ہم نے منصوبہ بند کوشش سے اس ماہ مبارک سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو اس ماہ مبارک کی نیکوں اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے مالامال نہیں کیا تو رمضان المبارک جس طرح پہلے آتا رہا ہے آنیوالا بھی رمضان آئے گا، گزر جائے گا اور ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

اس لیے آئیے ہم لوگ ابھی سے اس کی تیاری میں لگ جائیں اور تقوی کی تربیت کے اس مہینے سے مستفید ہونے کا منصوبہ بنائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین



Saturday 17 June 2017

Ramzan ka Aakhri Ashara aur Shabe Qadar



رمضان المبارک کا آخری عشرہ اورشب قدر

                                                                  محب اللہ قاسمی

اللہ تعالیٰ بے حد مہربان ہے۔وہ چاہتا ہے کہ بندہ ا س کے سامنے دست بدعاہو،گڑگڑائے اورمانگے کہ وہ اسے عطا کرے اگرہ وہ پہاڑ کے برابربھی گناہوں کے بوجھ تلے دباہو ،مگرخداکے حضورتوبہ کرے اوراس سے مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے تمام گناہوں کوبخش دے گا۔رمضان المبارک میں اللہ اپنے بندوں پر مزیدمہربان ہوتا ہے۔ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتاہے۔ہرنیکی پر اجرکی برسات کرتاہے۔رمضان کے دوعشرے (رحمت، مغفرت) گزرچکے ہیں۔ اب آخری عشرہ باقی ہے۔جسے حدیث میں جہنم سے چھٹکارے کا عشرہ کہاگیاہے۔اس عشرے کی یہ فضیلت ہے کہ تلافی مابعد کے تحت غفلت کی چادرہٹاکر اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی دعاکریں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (اللہ کی عبادت )میں جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں نہیں کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے جسے بخاری نے نقل کیا ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوںکوبھی جگاتے تھے۔

وہیں اس آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی طاق رات میں شب قدرجیسی ایک عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے خدا کا فرمان ہے ۔

’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدرہزارمہینوںسے بہترہے۔اس رات میں فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامرخیرکولے کراترتے ہیں۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر)

لیلۃ القدرکے معنی

قدرکے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ رات بہت ہی عظمت احترام کے قابل ہے کہ اس میں قران مجید کا نزول ہوا۔قدربمعنی تقدیرکے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ فرشتے اس رات اپنے رب کے حکم سے ہر طرح کے احکام وفرامین لے کر نازل ہوتے ہیں۔اس رات اللہ اپنے بندوںکی تقدیرکے فیصلوںکی تفصیلات اپنے فرشتوںکے سپرد فرماتاہے جوکائنات کی تدبیر اورتنفیذامورکے لیے مامورہیں، اس میں ہرانسان کی عمراورموت اوررزق اوربارش وغیرہ کی مقداریں لکھی ہوتی ہیں، جسے لے کریہ ملائکہ اترتے ہیں۔آیت کریمہ میں اس رات کو ایک ہزارراتوں سے بہترقراردیاگیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے لیے بڑے ہی شرف کی بات ہے کہ اس رات کی عبادت اس کے لیے ایک ہزارراتوںکی عبادت کا درجہ قراردیاگیا۔

اس رات کی فضیلت

 نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں پڑھیں،ذکرواذکارمیں لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(متفق علیہ)

حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔

اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے توآپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے درمیان دس دن اعتکاف کیا۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا پھرمیں نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہاکہ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔( بخاری ومسلم )

آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی قرآن کی تفسیر ہے ۔مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں بھی انھیں میسرہوتی ہیں جس میں شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔

شب قدرکی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں شب قدرکوپاؤںتوکیا دعاکروں۔آپ نے فرمایایہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں میری خطائیں معاف فرمائیے۔(قرطبی)

لیلۃ القدرکا تعین

لیلۃ القدرسے متعلق اس بات کی توصراحت ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں آتی ہے۔مگراس کی تاریخ کے سلسلے میںبہت سے اقوال ہیں ۔تفسیرمظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلۃ القدررمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگرآخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیںبلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے۔وہ ہررمضان میں بدلتی رہتی ہے۔

آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرنے کا حکم

جہاں تک تعین شب قدر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں۔جیسا کہ نبی کریم کا ارشاد ہے :تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپ کا ارشاد ہے :تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرو۔اگرآخری عشرے کی طاق راتوں (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوںمیں دائراور ہررمضان میں منتقل ہونے والا قراردیاجائے تو  توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ جوتعین شب قدرکے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قراردیاہے۔

ایک مقولہ ہے ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ ‘‘جس نے کوشش کی اس نے حاصل کرلیا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرانسان محنت لگن اوریکسوئی کے ساتھ کوئی کام کرے تووہ اس کے بہترانجام کو پالیتا ہے ۔ انسان کی کوشش اسے حصول اہداف کے قریب لے آتی ہے ۔ایسے میں اتنی اہم ترین شب کی اگرکوئی قدرنہ کرے اوریونہی غفلت میں گزاردے تواس کے لیے پھرکوئی شب قدرنہیں اوروہ بڑاہی محروم ہوگا جواللہ تعالی کے اس عطیے سے لاپرواہے۔ایک حدیث کے مطابق جوشخص شب قدرکی خیروبرکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اوربدنصیب ہے۔



Thursday 8 June 2017

Ramzan, Quran aur Fahme Quran


رمضان ، قرآن اور فہم قرآن
                                                                      محب اللہ قاسمی ،نئی دہلی

ماہ رمضان المبارک کے روزے دراصل ایک عظیم الشان نعمت پر تشکر کااظہارہے ، وہ نعمت ہے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی بے مثال کتاب الٰہی کا نزول۔اس کی وجہ سے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور دیگر مہینوں پر اسے فضیلت دی گئی۔اللہ تعالی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(185)

اس لحاظ سے قرآن اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؐماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ قرآن کا دور فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔چنانچہ ہم ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ نماز تراویح میں اور الگ سے بھی بہ کثرت اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ رمضان اور قرآن کو اس طور پر بھی مناسبت حاصل ہے کہ یہ دونوں روز قیامت بندے کے حق سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا، اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے۔ چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)
اس طرح قرآن کریم کاکی تلاوت اللہ تعالی اس کے ایک ایک حرف پراجرعطا کرے گا۔

اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے اور اس پڑھنا اور سننا دونوں کارثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں غوروتدبر اوراس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:

کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29(
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘

نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔اس لیے اس کے علاوہ اورکوئی وہ اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔اس لیے کہ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ اس میں کون سی چیزبری ہے اور کون سی چیز اچھی ہے۔کس طرح اس کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی دنیاکا نظام مرتب کرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔

قرآن مجید تمام انسانوںکوانھی تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے ۔وہی اس کا حق دارہے کہ وہ نظم مملکت کو سمجھے اورقرآن میں غوروتدبرسے کام لے۔اس لیے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہے۔اس کا مخاطف صرف مسلمانوںکوقراردیناصحیح نہیں۔یہ قرآن کی آیت(ہدی اللناس - ’تمام لوگوںکے لیے ہدایت ہے‘)کے سرسرخلاف ہے۔قرآن عام لوگوںکو دنیا کی تخلیق اوراس نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63)(عنکبوۃ :63-61(

’’ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتاہے تنگ کرتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘

اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک خاص قسم کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کے لیے جھجھوڑتا ہے:افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24)کیا ان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔

ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میںغوروفکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔

حسن بصری ؒفرماتے ہیں :نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔(مدارج السالکین:485/1)

قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوںکا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیااس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔

ابن قیم :لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ 0 قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ  0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ 0 قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  0 سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ (مومنون:89-84)

’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوںنہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوںنہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتاہے؟‘‘

خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے۔یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے۔کیوںکہ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ خالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار و خیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک مویشی میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکا زندگی گزارنابے مقصدہے۔ جب کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔اس لیے قرآن لوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ0 الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا0
’’زمین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوںکے لیے بہت نشانیاں ہیںجواٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اورزمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190
(
آج لوگ ایک نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اوران کے بچے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ سنٹر کا نظم کرتے ہیںتاکہ مزیدان میںگہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ اسکول کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگروہ اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ اور ہمیشہ کام آنے والی مقدس کتاب جس میں نظام زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے ۔  وہ کن تعلیمات پر مشتمل ہے وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی سے کام لیناچاہتے ہیں،اسی طرح وہ لوگ جو اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غورفکرکرتاہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔
نبی کریم نے فرمایا:ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈر یا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تواگرچہ وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے اورجب تک اس کا مطلب سمجھ نہ اسے سکون نہیں ملتابلکہ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔مگرقرآن جس میں خالق کائنات نے ایک پیغام دیا ہے،جس میں دین ودنیادونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوںنے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ)قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبروتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوںسے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2)
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہرٹھہرکراورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترسیلاً تلاوت فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم)

آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:(ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118)اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔

فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔واضح اورپختہ نظریہ تھا جس پر وہ عمل پیراتھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1)’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غورسے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ،عام لوگوںکا نہیں ۔مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔

مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(

ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا:انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ‘‘(الجامع لاحکام القرآن)

’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

قرآن جوکہ تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیااورغورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل مشکل ہوجائے گا پھریہ عام انسانوںکی رسوائی اورذلت کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہے ،پھر بھی وہ اس پر وہ عمل نہیں کرتے۔
٭٭٭

Friday 26 May 2017

Ramzan Mubarak

جمعہ کو چاند نہیں دیکھا گیا اس لیے انشاءاللہ ہم لوگ اتوار کو روزہ رکھنا شروع کریں گے.

 آپ تمام حضرات کو میری جانب سے رمضان المبارک کی پیشگی مبارک باد...
اللہ تعالٰی ہم لوگوں کو رمضان المبارک کی زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے. آمین 

محب اللہ قاسمی



Saturday 25 June 2016

Nanha Rozedar


ننھا روزہ دار


       اس رمضان میں ایک بچہ جس کے والد کے پاس تراویح کے بعد گھر سے مس کال آئی۔کال بیک کرنے پر پتا چلا فون پر اس کی ماں یعنی بچے کی دادی تھی۔ گھر کے حال و احوال پوچھے۔ سب خبر خیریت لی۔ پھر انھوں نے بچے یعنی اپنے پوتے کا سارا قصہ بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ 

       بتانے لگی رفیع اللہ پابندی سے شوقیہ کھانے کے لیے سحری میں اٹھتا اور سحری کھا کر سو جاتا تھا ۔اسی طرح ایک دن وہ اٹھا پھر سحری کرکے پورے دن کے روزہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا جب اسے کھانا دیا گیاتو وہ اسے لے کر کمرے میں چلا گیا اور ہاتھ گیلا کر کے باہر نکلا پھر کچھ دیر بعد اس نے کھانا چھپا کر بکری کو کھلا دیا۔جب عصر کا وقت ہوا، اس کی آواز پست، جسم گرم اور چہرہ مرجھانے لگا، سب کو لگا گرمی کی چھٹی ہے دھوپ میں کھیلتا رہتا ہے اسی لیے ایسا ہوا ہوگا۔

        خیر اسے بستر پر لٹا دیا گیا اور تنبیہ کی گئی کہ دھوپ میں نہیں نکلنا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ یہ چھوٹا معصوم بچہ روز ہ سے ہے۔

        وقت اس بچے کے لیے کچھوے کی رفتار میں منزل کی طرف بڑھ رہا تھا حسب معمول افطار لگایا گیا بچے دسترخوان کے ارد گرد جمع ہو گئے تبھی اس کے دوست نے اپنی امی سے پوچھا: رفیع اللہ کہاں ہے؟
        امی نے جواب دیا اسے بخار ہو رہا ہے ،اس لیے لیٹا ہوا ہے اور تم بھی سن لو سارا دن ادھر ادھر دھوپ میں کھیلتے رہتے ہو اب گھر سے باہر نکلنا بند!

        یہ سب سن کر اس نے کہا ...ماں! وہ تو .....روزے سے ہے!! اور تیزی سے اس کے کمرے کی طرف دوڑا۔ ور اس کے پاس جا کربولا رفیع ..رفیع ..چل اب ٹائم ہونے والا ہے..! 

       یہ سنتےہی اس کے جسم میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی وہ تیزی سے دسترخوان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ گھرو الےاسے کچھ کہتے مؤذن صاحب نے اللہ اکبر کی آواز لگا دی۔ اس آواز نے سب کو روزہ کھولنے میں مصروف کر دیا...! 


Thursday 9 June 2016

رمضان المبارک اور معمولات نبوی ؐ Ramzan aur Mamulat Nabi


رمضان المبارک اورمعمولات نبوی ؐ
                                                               محب اللہ قاسمی

     ماہ رمضان المبارک اپنے ساتھ بے شمار فضائل و برکات لیے ہوئے ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاپاتے ہیں جو اپنے معمولات زندگی میں  تبدیلی لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں  یا جو پیارے رسول حضرت محمد  ﷺ کی حیات طیبہ اور معمولات کواپنی زندگی میں  جاری کرنے  کے خواہاں  ہوتے ہیں ۔ نبی ؐ کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے ۔ہمیں  چاہیےکہ رمضان المبارک میں  آپ کے معمولات کو جانیں  اور ان پر عمل کرکے اپنی زندگی میں  تبدیلی لائیں  ، کیوں  کہ ہم اس ماہ میں  اپنی تربیت پر جس قدرتوجہ دیں  گے اسی قدر دیگر مہینوں  میں  بھی ہم اللہ کی رضاجوئی اور اس کے احکام کی پابندی کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارسکیں گے۔
     اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے سے ہی رمضان کی تیاری میں  مصروف ہوجاتے تھے۔چنانچہ آپؐ معمول سے زیادہ عبادت و ریاضت کا اہتمام شروع کردیتے تھے۔ شعبان کے آخری راتوں  میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں  رمضان کی آمدکی خوشخبری سناتے ۔
آپؐ کایہ بھی معمول تھا کہ صحابہ کرامؓ کو رمضان کی خوش خبری دیتے تھے ۔ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں  کہ نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :
’’رمضان کا مہینہ آچکا ہے، جومبارک مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے ہیں ۔اس ماہ میں  جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں  اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں شیاطین کو باندھ دیاجاتاہے۔اس ماہ مبارک میں  ایک ایسی بابرکت رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے ،جواس ماہ مبارک کی سعادتوں سے محروم ہوگیا تووہ محروم ہی رہا۔ ‘‘(احمد ،نسائی)

چاند دیکھنے کا اہتمام
     رمضان کی تاریخ کا پتہ لگانے کے لیے چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا ضروری ہے ۔ اس کے پیش نظر نبی کریمﷺ کا معمول تھا کہ آپ صحابہ کرامؓ کو لے گاؤں  کے باہر کھلی جگہ  جاتے اور چاند دیکھتے اور دوسروں  کوبھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔
لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ "  فی روایۃ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، إِلَّا أَنْ يُغَمَّ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ۔(متفق علیہ(
’’جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ رکھنا شروع نہ کرو، او ر جب تک (شوال کا) چاند نہ دیکھ لو افطار نہ کرو(روزہ ختم نہ کرو)پھر اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سےچاند تم کو نظر نہ آئے تو اس کا اندازہ کر لو۔ دوسری روایت میں  یہ الفاظ آئے ہیں ۔ ’’مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ پس روزہ رکھنا شروع نہ کرو جب تک کہ (رمضان کا) چاند دیکھ لو۔ اگر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ تم کو نظر نہ آئے تو (شعبان کے ) تیس دن پورے کرو۔(متفق علیہ(
     پتہ چلا کہ رویت ہلال کی بڑی اہمیت ہے۔ ضروری ہے کہ چاند دےکھنے کا اہتمام کیا جائے، محض کلنڈرپر بھروسہ کرلینا درست نہیں ۔

روزہ کا اہتمام
     یوں  تو آپ ؐ ہر ماہ ایام بیض کے روزوں  کا اہتمام کرتے تھے اور شعبان کے مہینہ میں  بہ کثرت روزہ رکھتے تھے، مگر رمضان کے پورے مہینے کا روزہ رکھتے۔ جب سے اس مہینے کے روزوں  کی فرضیت نازل ہوئی تب سے تاعمر آپ نے ماہ رمضان کے مکمل روزہ کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ کے روزہ کی فضیلت اور بلاعذر اس کے ترک کرنے کی ممانعت اور وعید بھی سنائی۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:
 مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِْبِهِ (متفق علیہ(
’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب(ثواب کی امید) کے ساتھ، اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں  گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔‘‘(متفق علیہ(
     روزہ ایک ایسا عمل ہے جو  بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے۔ کیوں  کہ کوئی دنیا کو دکھانے کے لیے کسی کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے مگر تنہائی میں  کھاپی سکتا ہے۔اس کے باوجود وہ صرف اس لیے ایسا نہیں  کرتا کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ اس لیے وہ شیدید گرمی میں  پیاس کی شدت کو برداشت کر لیتا ہے ، بھو ک کی بے چینی کو جھیل لیتا ہے مگر پانی کا ایک قطرہ یا کھانے کا کوئی لقمہ وہ اپنے گلے سے نیچے نہیں  اتارتا۔ آپ ؐ نے روزے کے اجر کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْك (بخاری(
’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہوتاہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لیے ہے اورمیں  ہی اس کا بدلہ دوں گا۔بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لیے چھوڑدیتاہے۔‘‘  (بخاری(
     نبی کریمﷺ حالت روزہ میں  مسواک کرتے،سرمہ لگاتے، وضوکے دوران ناک میں  پانی ڈالتے ، کلی کرتے، البتہ مبالغہ سے بچتے تاکہ پانی حلق سے نیچے نہ اترآئے۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ان سب چیزوں  سے روزہ نہیں  ٹوٹتا جب تک کہ کوئی شخص اختیاری  طور پرقدرتی راستے سے کو ئی چیز پیٹ حلق یا دماغ داخل نہ کر لے۔ بھول کر کوئی شخص کچھ کھا پی لے تو اس سے بھی روزہ نہیں  ٹوٹتا۔

حالت روزہ میں  مکروہات سے اجتناب
     روزے کی حالت میں  جائز چیزوں  (کھانے ،پینے اور بیوی سے جنسیتعلق)کے استعمال پر اللہ نے روک لگادی ہے۔یہ اس بات کی تربیت ہے کہ انسان بقیہ تمام حالتوں  میں  بھی اللہ کے احکام کی پابندی کرے گا۔ پھر روزہ رکھ کر انسان برے اور گندے کام کرے اس کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے۔ روزے میں  تو یہ اور بھی ناپسندیدہ عمل ہوجاتاہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے روزے کی حالت میں  ایسے عمل سے بچنی کی سختی سے ہدایت دی ہے۔ آپ ؐکا فرمان ہے۔
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ "(بخاری(
’’جس نے جھوٹ بولنا اورغلط کام کرنا نہیں  چھوڑا ،اللہ تعالی کو ایسے شخص کے روزہ کی حالت میں  کھانا پینا چھوڑنےکی کوئی ضرورت نہیں  ہے۔‘‘
     اسی طرح آپؐ نے غیبت ، چغلی ،جھگڑا فساداور لوٹ مار جیسے برے عمل سے بھی سختی سے رکنے کی تاکید کی ہے ورنہ روزہ دار کو بھوک پیاس اور رت گجے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں  آتا:
 كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ (سنن الدارمی(
’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں  کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا انھیں کچھ حاصل نہیں  ہوتا، اور کتنے ہی راتوں  کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں  جنھیں  اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں  ہوتا۔‘‘(سنن الدارمی(

تلاوت قرآن اور تراویح
      نزول قرآن انسانیت پر اللہ کی بڑی مہربانی ہے ۔یہ کتاب تمام انسانوں  کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہےاور رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس لحاظ سے رمضان کو قرآن سے خاص مناسبت ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ(البقرۃ(
ماہ رمضان جس میں قرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں  کے لیے ہدایت ہے‘۔
 آپ ﷺماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن کا دورہ فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔
آپ ؐ اس ماہ مبارک میں  قیام لیل کا خاص اہتمام کرتےتھے۔ تراویح درحقیقت قیام لیل ہے۔ یعنی رات کو نماز میں  کھڑے ہوکر قرآن پڑھنا اور سننا۔ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ہم احادیث نبویﷺ کا مطالعہ کریں  توجس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ کا رمضان کے روزے سے متعلق یہ ارشاد ہے:
" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ(
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘‘۔
     اسی طرح آپ نے اس مبارک مہینے میں  قیام لیل کے سلسلے میں  بھی یہ ارشاد فرمایاہے:
وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (متفق علیہ(
جس نے رمضان کے مہینے میں  قیام لیل (رات کو کھڑے ہوئے کر نوافل ) کا اہتمام  ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘‘۔
     اس روایت سے صلوۃ تروایح کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں  صحابہ کرام ؓ مسجد میں  انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپوں  کی شکل میں  تراویح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں  ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سب کو یکجاکیا اور ان کی امامت فرمائی۔ صحابہ کرام کا نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں  نماز پڑھنے کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگا تو تیسرے دن آپ ؐان کی امامت نہیں  فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں  یہ نماز فرض نہ ہوجائے اس لیے آپ نے اس روزتراویح کی نماز نہیں  پڑھائی ۔‘‘
اس کے بعد صحابہ کرامؓ بدستور انفرادی طور پریا چھوٹے چھوٹے گروپ میں  حضرت ابوبکر ؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کی ابتدا میں  نماز پڑھتے رہے۔ ایک موقعے پر حضرت عمر ؓنے مسجد میں  لوگوں  کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا تو انھیں  ایک امام پر جمع کیا اور اسی کی اقتدا میں  نماز تراویح کا اہتمام شروع ہوگیا۔تب سے آج تک دنیا کے ہر گوشے میں  جہاں  مسجد ہے وہاں  تراویح کا باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں  مکمل قرآن سننے اور سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔

نوافل کی کثرت
     اس ماہ مبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابرکردیاجاتا ہے۔  آپ ؐ نوافل کا خاص اہتمام کرتےاور صحابہ ؓ کو اس کی اہمیت دلاتے ہوئے فرمایا :
 مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ (مشکوۃ(
’’جس نے اس ماہ مبارک میں  کوئی نیک کام(نفل) انجام دیا وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے دیگر مہینے میں  کوئی فرض ادا کیا ہو۔ اور جس نے کوئی فرض ادا کیا وہ ایسے ہے جیسے دیگر مہینے میں  اس نے ستر فرض ادا کیے ہوں ۔‘‘

سحری میں  تاخیر اور افطار میں  جلدی کرنا
      طلوع فجر سے پہلے کچھ کھانے پینے کو سحری کہتے ہیں  ۔سحری کرنا آپؐ کا معمول تھا ۔آپ سحری میں  تاخیر کرتے تھے ۔ آپؐ صحابہ ؓ کوبھی اس کے لیے آمادہ کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے سحری میں  برکت رکھی۔ نیز آپ ؐ کا ارشاد ہے:
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل (ابن ماجہ(
’’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ (دوپہرکے وقت سونے)کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔‘‘
اسی طرح آپ کا معمول تھا کہ آپ افطار میں  جلدی کرتے ۔افطار میں  جلدی کرنا اصل میں  اظہار عبودیت کی علامت ہے۔ اللہ کا حکم ہے روزہ رکھا ، وقت پورا ہوتے ہی اللہ کا حکم ہوا فوراً افطار کیا۔افسوس کہ اس پر توجہ نہیں  دیاجاتا افطارکا وقت ہوچکا ہوتا ہے مگربہت سے لوگ بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں  یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ دوچار منٹ رک جانے سے کچھ نہیں  ہوتا ۔جب کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ یہ یہودیوں  کا طریقہ ہے کہ جب تک آسمان میں  ستارے نظر نہ آجائیں  وہ افطار نہیں  کرتے تھے اور اس تاخیر کو قابل اجروثواب مانتے تھے۔ آپ ؐ وقت ہوتے ہی فوراً افطار کرتے اور صحابہ کو بھی اس کی اہمیت کا احساس دلاتے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا:
لا یزال الناس بخیر ماعجلوا الفطر۔(متفق علیہ(
لوگ بھلائی پر رہیں  گے جب تک کہ افطار کرنے میں  جلدی کرتے رہیں گے۔(متفق علیہ(
     افطار کا وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے۔آپ ؐافطار سے قبل دعا کرتے اور جو میسر آتا اس سے افطار کرتے، خاص طور سے آپؐکھجور یا پانی سے افطار کرتے تھے۔
افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے :
اللھم  لک صمت وبک امنت  وعلی رزقک افطرت  ( ابو داؤد (
افطار کےبعد یہ دعا بھی ثابت ہے :
 ذھب  الظما وابتلت  العروق وثبت  الاجران  شاء اللہ ۔ (ا بو داؤد (

ہمدردی اور مواساۃ
     آپ ؐ نے اس پورے مہینے کو ہمدردی و مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ ہےکہ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ جو پورے سال بے سروسامانی کی وجہ سے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں  ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اب جب کہ وہ بھی روزے کی حالت میں  ہے تواللہ کے ان محتاج بندوں  کی امداد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یوں  تو آپ ؐ بڑے فیاض اور سخی تھے مگررمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آپ عطا ،بخشش و سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی،آپ ؐ ہر قیدی کو رمضان بھر کے لیے رہا کردیتے تاکہ وہ اس ماہ سے استفادہ کرے اور ہر سائل کو کچھ کچھ نہ کچھ دیتے خالی واپس نہیں  کرتے تھے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل شہر رمضان اطلق کل اسیر وا عطی کل سائل(بیہقی فی شعب الایما ن(
’’رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ؐ ہر اسیر (قیدی) کو رہا کردیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔‘‘
     آپ نے روزہ دار کے افطار کرانے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (بیہقی، محی السنہ(
’’جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے یا کسی غازی کے لیےسامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملےگا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکھنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔‘‘
مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُعْطَى هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ، أَوْ تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ    (مشکوۃ(
’’جس نے ماہ رمضان میں  کسی روزے دار کو افطار کرایا اس کے لیے اس کے گناہوں  معافی اور جہنم سے چھٹکارا ہے اور اس کے لیے روزہ دار اس کے اجر میں  کمی کے بغیرروزہ دار کے برابر ہی اجر ہوگا۔صحابہ ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم میں  تو ہر شخص روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں  رکھتا؟آپؐ نے فرمایا: اسے بھی یہی اجر ملے گا روزے دارکودودھ کا گھونٹ پلائےیا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرائےیاپانی کا گھونٹ پلاے،اور جو روزہ دار کو سیراب کرے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا حتی کہ وہ جنت میں  داخل کر دیا جائے گا۔‘‘
     آپ ؐ رمضان کے مہینے میں  اپنے تحتوں  کےساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ان سے کم کام لیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے:
 مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ(مشکوۃ(
’’جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکاکام لیااللہ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘


تلاش شب قدر ،اور اعتکاف
     رمضان المبارک کے تین عشروں  کو اللہ کے رسول ﷺ نے تین حصوں  میں  تقسیم کرتے ہوئے ان کے فضائل بیان کیے ہیں  کہ اس کا پہلا عشرہ ’رحمت‘دوسرا’مغفرت‘ اور تیسرا ’جہنم سے چھٹکارے ‘کا ہے۔اس لیے مطلوب یہ ہے کہ تیسرے عشرے میں  غفلت کی چادرہٹاکر اس میں  زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کرکے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں  اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارہ پائیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں  (اللہ کی عبادت )میں  جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں  نہیں  کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں  آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوں کوبھی جگاتے تھے۔(بخاری(
     رمضان کے آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی ایک طاق رات میں  شب قدرجیسی عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے اللہکا فرمان ہے ۔
’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں  اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔اس رات میں  فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامر خیر کولے کراترتے ہیں ۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر(
      نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں  عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں  پڑھیں ،ذکرواذکارمیں  لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں  گے۔(متفق علیہ(
     حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں  وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں  اترتے ہیں  اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں  جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں ،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔
     اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں ، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں  حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں  اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں  نے اس رات کی تلاش میں پہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں  نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوں میں  ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں  بیٹھے تھے انھیں  چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں ۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں  نے دیکھا کہ میں  اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں  (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں ۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوں کی طاق تاریخوں میں  تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )
     جہاں  تک شب قدر کی تعیین تعلق ہے تو اس سلسلے میں  بہت سی احادیث ہیں ۔ایک حدیث میں  ہے :
تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان             یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں  تلاش کرو۔
 بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپؐ کا ارشاد ہے :
تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔    یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں  تلاش کرو۔
     اگرآخری عشرے کی طاق راتوں  (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوں میں  دائراور ہر رمضان میں  منتقل ہونے والا قراردیاجائے توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ میں جوتعیین شب قدرکے متعلق آئی ہیں ،تطبیق جمع ہوجاتی ہے۔  اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں  منتقل ہونے والی رات قرار دیاہے۔
آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواور اس کاہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں  حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں  شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں  بھی انھیں  میسرہوتی ہیں  جس میں  شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔


شب قدرکی دعا
     حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں  شب قدرکوپاؤں توکیا دعاکروں ۔آپ نے فرمایا:یہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘(قرطبی)۔ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں  اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں  میری خطائیں  معاف فرمائیے۔


رمضان،سفراور جہاد فی سبیل اللہ
     اللہ کے رسول ﷺ نے ماہ رمضان المبارک میں  سفر بھی کیا اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لیے عزوات بھی کیے ۔اس طرح آپ نے کئی بار حالت سفر میں  روزہ بھی رکھا اور کئی بار صحابہ کے درمیان پانی منگواکر روزہ توڑبھی دیا تاکہ صحابہ کو حالت سفر میں  اور جنگی ضرورت کے پیش نظر کم زوری کا احساس نہ ہو۔غور کریں  تو محسوس ہوگا کہ رمضان کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ گہرامعلوم ہوتا ہے۔ مسلمانوں  کی پہلی جنگ جسے یوم الفرقان سے تعبیر کیا جاتا ہے،یعنی جنگ بدرجسے قرآن نے بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ 17رمضان المبارک کوہوئی ۔فتح مکہ کی سورت میں  حج اور عمرے کی سعات یہ بھی رمضان المبارک میں  حاصل ہوئی ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا اس کے علاوہ بہت سے معرکے رمضان المبارک میں  ہوئے۔اس لیے مسلمانوں  کی بڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے مشکل وقت میں  جب کہ روزہ کی حالت میں  ہوتو اسے مزید مجاہدے کی ضرورت ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوسکے۔


رمضان کی آخری رات
     رمضان کی آخری رات جسے سب عید کی ’چاند رات‘ کہتے ہیں  ، اس میں  بہت سے لوگ عبادت میں  مشغول ہوتےہیں  لیکن بہت سے لوگ ہیں  جوعید کی خریداری میں  مصروف ملتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے امت مسلمہ کی مغفرت کی رات سے تعبیر کیا ہے:
         قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أَجْرَهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ
رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ کیاےہی وہ لیلۃ القدر ہے؟ حضورؐ نے ارشاد فرمایا نہیں ، بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپناکام مکمل کرلیتا ہے۔ (مسند احمد (

Mohibbullah    Qasmi
Mob. 9311523016

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...