رمضان مبارک انسانی زندگی کے لیے ماہ تربیت
رمضان کا مبارک اورمقدس مہینہ جس میں خداکی رحمتوںاوربرکتوںکا
نزول ہوتاہے ،اس کی سب سے اہم عبادت ’’صوم ‘‘ یعنی روزہ رکھناہے ۔روزہ طلوع آفتاب
سے غروب آفتاب تک خودکوکھانے پینے اورجماع (شہوانی خواہشات) کی تکمیل سے رکنے
کوکہتے ہیں۔
اللہ نے اپنے کلام پاک میں روزے کو صوم سے تعبیر کیاجس کی حقیقت
یہ ہے کہ نزول قرآن سے قبل عرب میں ’’صائم ‘‘اس گھوڑے کوکہاجاتاتھا جسے بھوک
اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کے لیے خاص قسم کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ مشکل
اوقات میں زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکے ۔رمضان میں بھی خدااپنے بندوںکو بھوک
اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کا حکم دے کریہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ وہ شرائع
واحکام کے متحمل ہوسکیں ۔
اس
لحاظ سے رمضان المبارک کو ماہ تربیت کہاجا تا ہے کیوں کہ
خدااپنے بندوںکو روزے کے ذریعے ایک خاص چیزکی تربیت دیتاہے جسے ’’تقویٰ‘‘ کہتے
ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہا۔لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُون:’’تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔‘‘روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے جو انسان
کو صبروضبط کا عادی بناتاہے کیوںکہ نفس اورخواہشات پر قابوپانے کی بہترتربیت
روزوںکے ذریعہ ہوتی ہے۔
تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کامیابی اورحصول مقاصدکے لیے
نہایت ضروری ہے،اس کے بغیرکسی بھی مقصدیامشن میں کامیابی حاصل کرنامشکل ہے۔ہرچیزکی
نشونمااوراس کے ارتقاء کے لیے تربیت کی خاص ضرورت ہے۔خواہ انسان کا علمی،عملی
،فکری لحاظ سے ذاتی نشونماہویاپھر خاندانی ،سماجی، سیاسی
اورافرادسازی کے اعتبارسے معاشرتی ارتقاء ہوہرجگہ تربیت کی ضرورت ہے۔
روزہ کی فرضیت
۲ہجری میں رمضان
المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ روزہ ہرمقیم ،عاقل ،بالغ مسلمان مردعورت پر فرض ہے۔اللہ
کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ
عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَ ١٨٣ۙ
’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے
کے لوگوں(امتوں)پرفرض کیے گئے تھے۔‘‘
(البقرۃ:۱۸۳)
اس لیے بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہ عظیم ہے جس کی قضا پوری
عمراداکرنے سے بھی پوری نہیں ہوتی۔
شہر القرآن
خدا نے اس مقدس کتاب کو مبارک ماہ میںنازل فرماکرہمیشہ کے لیے
انسانوںکی ہدایت ،تربیت اوررہنمائی کے لیے ایک گائڈبک بنادیا۔قرآن اس بات کی اچھی
تربیت دیتاہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوںمیںاس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور
جہاں جس کام کا حکم ہے اسے کیاجائے اورجن چیزوںسے منع کیاگیاہے ،اس سے بازرہاجائے۔
اس طرح خدااس ماہ میںاپنے بندوںکو عبادت واطاعت ،زبان وشرم گاہ
کی حفاظت ، غریبوںاورحاجتمندوںکی ضرورت پوری کرنے کی صراحت وقت کی نزاکت،اورہرطرح
کے فرائض وحقوق کی ادائیگی کے لیے پوری زندگی لگن اورریاضت کی تربیت دیتاہے کہ
بندہ اس ماہ کی عملی مشق سے آئندہ دنوںمیںرضائے الٰہی کی مطابق زندگی بسرکرے
اورخودکوجہنم کی آگ سے بچاکرخداکے انعام (جنت)کا مستحق بنائے۔ اس طرح وہ معنوی
اعتبارسے پوری زندگی ’’صائم ‘‘ہوتا ہے جس کا بدلہ خدااسے دیتارہے گا۔
شہراللہ
اس
ماہ مبارک کو ’’شہراللہ ‘‘اور’’شہرالمواساۃ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اس ماہ میں ان
تمام چیزوںکی تربیت دی جاتی ہے جس سے انسان اپنے خداکا فرمابردار بن کر آئندہ یک
سالہ منصوبۂ حیات کی تکمیل، اپنے خالق ومالک کی ہدایت کے مطابق کرسکے۔ جس طرح ایک
فوجی جنرل اپنی فوج کوکسی مہم پربھیجنے یا کسی جگہ چوکسی کے لیے متعین کرتاہے ،
تواس سے قبل وہ اپنے فوجیوں کوخاص مدت تک ٹریننگ
دیتاہے اوران سے سخت ریاضت بھی کرواتاہے تاکہ اس کے فوجی اپنے ذمے سونپے گئے کام
کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں ۔ چنانچہ جو اس میں جتنی دلچسپی لیتا ہے وہ اسی
قدرپختہ ،تجربہ کارہوجاتاہے اوروہ فوجی ،جرنل کی نگاہ میں محبوب بن جاتاہے۔
ٹھیک اسی طرح خدانے اس مہینے میں روزے کا حکم نازل فرماکر اپنے
بندوںکونیک کام کرنے کی ترغیب دی کہ اس میں اداکیے گئے فرض کا ثواب سترگنازیادہ
اورنوافل، فرائض کے برابرہوگا تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ عبادات کا عادی بنے اوراس
کے دل میں یہ اثر پیدا ہوکہ جس طرح وہ خداکے منع کرنے پر اس ماہ (روزے کی حالت
)میںدسترخوان پرموجود حلال چیز کے باوجود،اسے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، ٹھیک اسی
طرح دیگرماہ میں وہ یہ عزم کرے کہ خداکی حرام کردہ چیز کی طرف آنکھ اٹھاکربھی
نہیں دیکھے گا۔
یہ خداکا مہینہ ہے، لہذا جو اپنی کڑی ریاضت کے ذریعے اپنی تربیت
کرے گا، وہ آئندہ دنوںمیں شیطان کے مکروفریب کا ڈٹ کرمقابلہ کرسکے گا۔یہی اس حدیث
کا مطلب ہے جس میں اگلے پچھلے گناہ کی معافی کا اعلان ہے:حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت
ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا
تواس کے (اگلے) پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔ )بخاری
ومسلم(
اس کے ساتھ ساتھ وہ خداکا محبوب بھی ہوگا۔ارشادنبویؐ ہے:’’ابن
آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہوتاہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا
بدلہ دوںگا۔بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لیے چھوڑدیتاہے۔‘‘ (مسلم(
شہرالمواساۃ
اس ماہ کوشہرالمواساۃ(غم خواری کا مہینہ)بھی کہاگیاہے ۔ایک
مالدارصاحب ثروت شخص جس کے پاس ہرطرح کی نعمت وآشائش موجودہے اس کے باوجود طلوع
فجرسے غروب آفتاب تک اس کاان نعمتوںکوہاتھ نہ لگانااوربھوک وپیاس سے بے چین رہنا
اس بات کی تربیت دیتاہے کہ ایک غریب بے بس مسکین ولاچار جس کے پاس کھانے پینے کا
کوئی سامان موجود نہیںاس کی ضرورت پوری کی جائے۔ اس طرح خداپنے بندوںکے اندرغم
خواری کی تربیت دیتاہے تاکہ لوگ اپنے مال واسباب میں ان کا حق سمجھ کر ، زکوٰۃ
وصدقات اورخیرات کے ذریعہ ان کی مدد کرے۔
جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:
اس ماہ مبارک جس میں انسانی زندگی کی مکمل تربیت کی جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیتاہے اورجہنم کے دروازے
بند کردیتاہے تاکہ اس کی پربہارفضا میںنیک کام کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور
اپنی جس نیکی سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ،خواہ عبادات کے ذریعہ یا اچھے اورنیک
معاملات کے ذریعہ ،چنانچہ اس کا ایسا اثرہوتاہے کہ ہرشخص روزے سے ہوتاہے اورنیکی
کی طرف دوڑتا ہوا نظرآتاہے جس پر خدااپنے فرشتوںمیںفخرکرتاہے۔شیاطین باندھ دیے
جاتے ہیں تاکہ وہ اس مبارک ماحول کو خراب نہ کرسکے۔
اگرانسان اپنی تربیت نہ کرے تووہ درندہ صفت حیوان بن جاتاہے
اورمعاشرہ ایک خوفناک جنگل کی مانندہوجاتاہے جبکہ انسان انس ومحبت کا پیکراورباہمی
تعلقات کا خوگرہوتاہے ۔اس لیے اس ماہ مبارک میںاسے اپنی ہرطرح تربیت کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے تاکہ اس کا دل بغض،بخل ،خودغرضی ،حرص وحسد،کینہ ،خودپسندی ،شہرت پسندی
،تنگ دلی اورتکبر جیسی ناپاک چیزوںسے نفرت کرنے لگے اوربہترین انسان بن کر خداکے
محبوب بندہ بن جائے جس سے قوم وملت کو فائدہ ہو۔
ورنہ تواس جہاںمیں انسان اوربھی ہیں۔