Monday 7 January 2013


یکساں پیمانہ كمال ایمان کے لئےضروری
 محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gmail.com
موجودہ دورمیں اگرہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیزنمایاں طور پر نظرآتی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں نے دوپیمانے بنار کھے ہیں۔ایک پیمانہ اپنے لیے اوردوسرا پیمانہ دوسروں کے لیے۔ وہ اپنے لیے بہتری کی خواہش رکھتے ہیں اوردوسروں کے لیے برا چاہتے ہیں۔ اپنے لیے تو یہ پسند کرتے ہیںکہ دوسرے لوگ ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،لیکن وہ خود دوسروں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتے۔وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا خوب خیال رکھیں لیکن وہ خوددوسرے لوگوںکا ذرہ برابربھی خیال نہیں رکھتے اوران کے ساتھ رواداری اورخندہ پیشانی کے ساتھ بالکل پیش نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی اخلاقی بیماریاں عام ہیں۔ اسلام نے ایک صالح اور پرامن معاشرے کے لیے یکساں رویے کو ضروری قراردیاہے اوراسے ایمان کا نمایاںوصف قراردیاہے۔رسول اللہ ﷺکا ارشادہے:
 ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن(کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروںکے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ’’ (متفق علیہ(

آج مسلم معاشرہ کایہی حال ہوگیاہے۔مسلمان خودتوچاہتے ہیں کہ انھیں کسی طرح کا نقصان یاگزندنہ پہنچے مگروہ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔جب ہم اپنے لیے نقصان برداشت نہیں کرسکتے تو پھرہمیں دوسروں کے نقصان بھی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مثل مشہورہے کہ جو دوسروں کے لیے گڈھا کھودتاہے وہ خودگڈھے میں گرتاہے۔ چوںکہ آج ہمارا معاشرہ اس گندی حرکت کا شکارہے لہذا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ پریشانیوںاورمصیبتوںکا شکار ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی شکایت اوربرائیاں بیان کرتے ہیں،ہرکس وناکس کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں ،دوسروںکی عزت وناموس کا بالکل خیال نہیں رکھتے اوران کی کمزوریاںمزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جب کہ وہی لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ دوسرے لوگ ان کی برائیاں بیان کریں۔شیخ سعدی نے ایسے موقع کے لیے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’
جو شخص تمہارے سامنے کسی کی برائی کررہاہوتا ہے ،وہ یقینا کسی اورکے سامنے تمہاری بھی برائی کرے گا۔‘‘

تین چیزیں معاشرے کی بہتری اورافرادکوزیوراخلاق سے آراستہ کرنے سے یا یوںکہیں کہ حقوق العبادسے متعلق ہیں ۔غریبوں کوکھانا کھلایاجائے، ان کی ضرورتوںکا لحاظ رکھاجائے،ان کی مزاج پرسی کی جائے۔سلام کوعام کیاجائے اورصلہ رحمی کا رواج ہو، اس لیے کہ اس سے امت آپس میں گھل مل کر رہے گی اورمضبوط بنیاد کی طرح ہوگی۔چوتھی بات یہ کہی گئی کہ رات کے آخری حصے میں نماز ( تہجد) کا اہتمام کرو ، تاکہ اللہ سے قربت اورلگاؤ میں اضافہ ہو، ساتھ ہی دیگرامور(عبادات اورمعاملات) میں خلوص وللہیت پیدا ہوجائے، جس سے توکل علی اللہ کی کیفیت پیداہو۔آخر میں اس کا نتیجہ بیان کیاگیاہے کہ جب تم ایسا کروگے توجنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ ایک مومن کا رشتہ دوسرے مومن سے بھائی چارگی پر مبنی ہوتاہے ۔ اس کے باجود مومن کا رشتہ بھی ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مؤمن بھائی کی تکلیف کوخوداپنی تکلیف محسوس کرتاہے ، اس کی جان ،مال ،عزت وآبروکی حفاظت اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصورکرتاہے اور یہی ایمان کی کیفیت اوراس کا تقاضا ہے۔قرآن کہتاہے :
’’مؤمن توسب بھائی بھائی ہیں۔ ’’  (الحجرات:۱۰)

ایک مسلمان کواپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اوراس کی ضرورتوں کاخیال رکھنا ہے۔اس طرزعمل میں بھی خود اس کا فائدہ ہے ،کیوںکہ اس کے بدلے میں اللہ تعالی اس کاخیال رکھے گا ۔اگروہ دوسروںکا خیال رکھے گا اوراس کی عیب جوئی کے بجائے ،پردہ پوشی کرے گا تو خدابھی اس کی پردہ دری فرمائے گا۔اگرانسان اپنے اوپراپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندرکی بہت سی خرابیاںاور اخلاقی گراوٹیں خودبہ خود ختم ہوجائیں گی ۔ ایسا شخص اپنے معاشرے میں چلتا پھرتاعملی نمونہ ہوگا جسے دیکھ کر لوگ بھی اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے جسے اصلاح امت کا کارعظیم سمجھاجائے گا۔

Thursday 3 January 2013

Salahiyaton ki pahchan aur Uswa Nabwi


صلاحیتوں كی پہچان اوراسوۂ نبوی 

دنیا میں تمام انسان صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں۔کسی میں کوئی صلاحیت ہوتی ہے تو کسی میں کوئی اور،کسی میں کم توکسی میں زیادہ ۔ اسی وجہ سے دنیاکا ہرکام ہرانسان بخوبی انجام نہیں دے سکتا اورنہ وہ تنہا اجتماعی اہداف کے حصول میں کامیاب ہوسکتاہے۔ بل کہ جس میں جس کام کی صلاحیت موجود ہو وہ اس کام کو ہی بہ خوبی انجام دے سکتاہے۔اس لیے کاموںکی صحیح طریقے سے انجام دہی کے لیے افراد سازی ضروری ہے۔ لیکن افرادکو وہی مقام دینا ہوگا جو ان کے شایان شان ہو۔عربی میں اسے وضع الشی فی محلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گھر سے لے کر دفتر،کمپنی اور اقتصادیات کے تمام شعبوںسے جڑا ہوا ہے ۔ ایک کامیاب امیرکارواں کی یہ بہت بڑی خوبی مانی جاتی ہے کہ اس میں منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے افرادسازی کا ملکہ ہو،اسے صلاحیتوں کوپرکھنے کا کمال اورتفویض کار کا ہنر حاصل ہو۔ آج معاشرے میں جوخرابیاں درآئی ہیں ان میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کسی اہم ترین کام کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی ہے جوکسی بھی لحاظ سے اس کا اہل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک باکمال اورباصلاحیت شخص کو نظرانداز کردیاجاتاہے ۔جس کی صلاحیتوںسے قوم وملت اور معاشرے کی بہتری ہوسکتی ہے۔نبی کریم نے ایک عام اصول بیان فرمایاہے 
انزلواالناس منازلہم۔   ﴿ابوداؤد﴾
’’لوگوں سے ان کے اپنے مرتبے کے مطابق پیش آؤ‘‘۔

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی نااہل شخص کواتنابڑامرتبہ نہ دے دیاجائے جس کا وہ اہل نہ ہو اورنہ کسی باصلاحیت آدمی کو نظراندازکردیاجائے۔نبی کریم ﷺ  صحابہ کرامؓ  کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ لیتے تھے ، مزیدبہتر بنانے کے لیے ان کی تربیت بھی کرتے تھے اوران کے مطابق انھیں ذمہ داری سونپ کران سے کام لیتے تھے۔
افراد شناسی اورلوگوںکی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے ان کو صحیح مقام ومرتبہ دینا ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔درج ذیل صحابہ کرام ؓ  کو آپ نے ان کی صلاحیت ،فہم وبصیرت اور ہنرمندی کے پیش نظر ان کو مختلف ذمہ داراریاں سونپی تھیں۔
خلفاے راشدین
حضرت ابوبکرصدیقؓ ،جواپنے لقب صدیق سے زیادہ مشہورہیں۔وہ انتہائی سچے اور قول وعمل میں پوری طرح مطابقت رکھتے تھے۔ ایک خاص صفت جوآپ کے اندرتھی یہ کہ وہ طبیعت میں نرمی اور دوسروں کو مبتلائے دردوغم دیکھ کر بے چین وبے تاب ہوجاتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کی شخصیت سے بہت خوش تھے ۔ایک موقع پر حضرت عمروبن العاص نے سوال کیا کہ آپﷺ  کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت کس کی ہے؟آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ابوبکرصدیق ؓ ‘‘۔ایک مرتبہ تو آپﷺ  نے یہ بھی ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کو اپنا خلیل ﴿جگری دوست ﴾بناتاتو میں ابوبکرکواپنا خلیل بناتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتہائی مشکل وقت میں جب کہ آپ ہجرت مدینہ کررہے تھے تو رفیق سفرآپ ہی تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام معاملات میں آپ کوترجیح دیتے تھے ۔
مردوںمیں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ  شخص ہیں جنہوں نے بلاجھجھک اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ۔آپ ﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق کی۔ ہرموقع آپﷺ  کو اپنی ذات پر ترجیح دی ، اپنا مال واسباب آپﷺ  پر لٹادیااور بلاترد دآپ کے فرمان کی تصدیق کی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت میں تھے توآپﷺ  نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ  کو امامت کا حکم دیا یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ آپﷺ  کے بعد آپؓ  ہی خلیفہ بنیں گے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کرامؓ  میںایک عجیب سی مایوسی چھاگئی تھی۔اس وقت آپؓ  نے شاندارخطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:
جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاتھا توبلاشبہ محمدﷺوصال فرماگئے، جو اللہ کی عبادت کرتاہے تویقینا اللہ زندہ ہے جومرتانہیں!پھر اس آیت کی ومامحمد الارسول تلاوت کی :
محمدﷺ  اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں ، پھر کیا اگروہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں توتم لوگ الٹے پاؤں پھرجاؤگے ؟یا درکھو!جوالٹاپھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکرگزار بندے بن کررہیں گے انھیں وہ اس کی جزادے گا۔      ﴿آل عمران:۱۴۴
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اوصاف حمیدہ کے سبب اس لائق تھے بھی کہ انھیں یہ مقام ومرتبہ دیا جاتا۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صلاحیتوںکوپرکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ  نے ان کے لیے دعابھی کی تھی : کہ اے اللہ عمرکے ذریعے اسلام کی مددفرما۔ان کی دلیری ،قوت ارادی اور دوررس افکار و خیالات کے سبب ان کے متعلق آ پ ﷺ نے فرمایا: لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ ۔اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرہوتے۔چنانچہ خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب مسلمانوں نے حضرت عمرؓ  کے ہاتھ پر بیعت کی اورآپ ؓ امیرالمومنین مقررہوئے توآپ ؓ  نے اپنے دورخلافت میں جو کار نامے انجام دیے انھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔آپ کا دل خوف خدا سے لرزاٹھتاتھا ۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصے معروف ہیں ۔آپ ؓ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مصالحت کو پسند نہیں کرتے تھے۔آپ باطل کے لیے ہمیشہ ننگی تلواررہے مگر حق کے لیے موم کی طرح پگھل جانے والے شخص بھی تھے۔راتوںکوگشت کرتے اور غریبوں مسکینوں کا پوراخیال رکھتے اور ان کے لیے وظیفہ جاری کرتے تھے۔
آپ کے اندرخلیفہ ہونے کی پوری صلاحیت موجودتھی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتربیت فرمائی تواس کی بدولت آپ نے اسلام اورمسلمانوںکوبہت ہی مضبوط اورمستحکم کیا۔چنانچہ عرب سے باہر طول وعرض میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ کئی مسائل ایسے ہیں جن میںآپ کی رائے کے مطابق قرآن کریم کا نزول ہوا جیسے آیت حجاب وغیرہ۔حضرت ابوبکروعمر ؓ ﴿شیخین ﴾کواللہ کے رسولﷺ  نے قضا کے معاملات کے لیے متعین فرمایا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی آپ دونوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’دووزیر‘‘کے لقب سے مشہورہوگئے تھے۔
 حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد23ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ نے اسلامی مملکت کو مزید وسعت بخشی۔ آپ کے اہم کارناموںمیں مسجدنبوی کی توسیع، قرآن مجید کو رائج رسم الخط میں تحریرکروانا اوراسے ایک مصحف میں جمع کرنا شامل ہے۔اسی وجہ سے آپ کو جامع القرآن بھی کہاجاتاہے۔حضرت عثمان ؓ  نہایت ہی باحیا،فیاض ، محسن ،نرم طبیعت اورخوش اخلاق تھے۔
آپؓ  حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ مناسک حج کو اچھی طرح جانتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بارآپ کو مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ بنایا۔ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا وہ ایک یہودی کے کنویں سے پانی لیتے تھے۔ اس نے منع کردیاتو آپ  کے ایما پر آپ ؓ  نے وہ کنواں خریدکرصحابہ کرامؓ  کے لیے وقف کردیا۔اپنے صلاح وتقوی اور امتیازی صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کی قیادت سنبھالے ہوئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے کہ سن ۳۵ہجری میں عبداللہ بن سبا یہودی کے ہاتھوں اس حال میں شہیدہوئے کہ زبان پر تلاوت جاری تھی۔جسم سے نکلاہوا خون اس آیت: فسیکفیکہم اللّٰہ۔پر پڑاجوہمیشہ کے لیے یادگاربن گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے والوںمیں دوسرے نمبرپر ہیں ۔انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرتربیت پرورش پائی۔علم وحکمت کے ماہر،قرآنیات پر عبور،اللہ والے ایک بہادرصحابی تھے ۔ان کا لقب ابوتراب تھا۔ فاتح خیبرکے لقب سے بھی مشہورہیں۔نبی کریمﷺ  نے جنگ خیبرکے موقع پرارشادفرمایاتھا:
لااعطین الرایۃ رجلا یفتح اللّٰہ علی یدیہ، یحب اللّٰہ ورسولہ ویحبہ اللّٰہ ورسولہ۔ ﴿متفق علیہ﴾
’’میں ایک ایسے شخص کو جھنڈادوںگا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔وہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مختلف طرح کی ذمے داریاں سونپیں ان میں عہدنامے،خطوط نویسی، جنگ کی قیادت وغیرہ شامل ہیں۔ان ذمے داریوںکی ادائیگی میں انھیں بہت سے مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالدبن ولید ؓ  کو فوجی قیادت سونپی چناں چہ انھوں نے بھی اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اورجرأت وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔جس پر ان کو سیف اللہ کا خطاب بھی دیا گیا ۔
حضرت زیدؓ  کوعلم فرائض اورترجمے کاکام سونپاگیا۔حضرت ابی بن کعب کوحفظ قرآن مجید کے سلسلے میں ذمے داری دی گئی جنھوں نے بہت سے حفاظ کرام تیارکیے ۔ جب  تلاوت کرتے تو اپنی خوش الحانی سے فضاکوروح پروربنادیتے تھے۔حتی کہ آپ کی قرأت سننے کے لیے فرشتے بھی آپ کے گردمنڈلانے لگتے تھے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کو کسی معاملے کا والی بنایاتوفرمایاکہ ’اے میرے چچا! میں اس معاملے میں کسی دوسرے کومناسب نہیں سمجھتاکہ اسے والی بناؤں۔‘ اسی بناپر عمرؓ  نے فرمایا:’ جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کووالی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
حضرت معاذبن جبل ؓ  زودفہمی ،قوت استدلال، خوش بیانی اوربلندہمتی کے لحاظ سے ایک منفردممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی :
اعلم امتی بالحلال والحرام معاذبن جبل۔
ان کے اسی علم وفہم، سوجھ بوجھ کے پیش نظر اللہ کے رسولﷺ  نے انھیں یمن کا گورنربناکر بھیجا۔ روانہ کرتے وقت آپﷺ  نے ان سے پوچھا: تم لوگوںمیں کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذؓ  نے جواب دیامیں پہلے اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کروںگا ،اگراس میں حکم نہ ملا تو سنت میں تلاش کروںگا اگراس میں بھی نہ ملاتو پھراجتہادکے ذریعے فیصلہ کروںگا۔﴿ترمذی﴾ آپ نے بہت سے مقامات پر ان کو ذمے دار بنایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بہت سی ذمے داریاں ان کو سونپی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اوصاف سے متصف لوگوں کی تعریف کرتے تھے۔آپﷺ  کا ارشادہے:
 خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام
’’جولوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہترہیں‘‘۔
 آپﷺنے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراحؓ  کی خوبیوں کے پیش نظرانھیں ’’امین ‘‘ کا خطاب عطاکیا ۔’’ایک موقع سے یمن کے کچھ لوگ آئے ،اورآپﷺ  سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنت سکھائے آپ نے حضرت ابوعبیدۃ ؓ  کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : ہذاامین ہذہ الامۃیہ ہیں اس امت کے امین ۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
 لکل امۃ امین وامین ہذہ الامۃ ابوعبیدۃ ﴿متفق علیہ﴾
’’ ہرامت کا ایک امین ہوتاہے اس امت کے امین ابوعبیدہ ؓ ہیں‘‘۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک، دانش منداور کم سن نوجوان صحابی جواکثرمیدان جنگ میں شرکت کے لیے کوشاں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرکت کی اجازت کے لیے بے تاب رہتے تھے۔آپﷺ  نے ان کے اس حوصلے اور دانش مندی کے سبب ان کو محض بیس سال کی عمرمیں رومیوں سے جنگ کی قیادت سونپی۔انھیں ایسی فوج کا کمانڈربنایاجس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ موجودتھے۔اس کم سن قائد کا قافلہ آپﷺ  کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ  کے زمانہ خلافت میں روانہ ہوا۔ان کی بہادری نے رومیوں کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکال پھینکا اوریہ فاتح جوان مدینہ میں بہت سے مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا۔سیرت صحابہ سے واقف حضرات کے لیے اس کم سن جوان کی پہچان کے لیے ان کا نام کافی ہوگا۔ ان کا نام حضرت اسامہ بن زیدؓ  ہے۔ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد پر اتنی بڑی ذمے داری سونپی ۔ حضرت عمرؓ  اسامہ سے ملتے توکہتے :مرحباً بامیری﴿میرے امیرخوش آمدید﴾اس پر لوگ تعجب کا اظہار فرماتے توفرماتے: ’’رسول اللہ نے ان کو میرا امیر مقرر فرمایا تھا۔‘‘
 امارت وحکومت یا کسی معاملہ کی ذمہ داری ایک بہت بڑی امانت ہے۔ اس کے لیے بہت غوروخوض کے بعد فیصلہ لیناچاہیے اوراس کے لیے جوشخص مناسب ہو تو سے کسی مخالفت کے بغیرذمہ داری دینی چاہیے اورجواس کے لیے مناسب نہ ہوتو اس کوذمے داری ہرگزنہیں سونپنی چاہیے۔ ورنہ وہ کام تو خراب ہوگاہی ساتھ ہی معاشرہ بھی بہت سی پریشانیوںاوراختلافات کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔کیوںکہ معاشرے کے بہت سے معاملات اس سے جڑے ہوتے ہیں اوربہت سے حقوق اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلیت کی بنیاد پر ذمہ داریوں کی تقسیم کاری کی۔جولوگ اس میں غیرذمہ دارانہ رویہ اختیارکرتے ہیں یا پھرامارت ومنصب محض تعلق اور رفاقت کی بنیادپر بانٹ دیتے ہیں ،ایسے لوگوں کے سلسلے میں سخت پہلواختیارکرتے ہوئے آپﷺ  نے ارشادفرمایا:
مامن راع یسترعیہ اللّٰہ رعیۃ ، یموت یوم یموت، وہوغاش لہا، الا حرم اللّٰہ علیہ رائحۃ الجنۃ۔      ﴿مسلم﴾
’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ لوگوں کا ذمہ داربنائے اور وہ اس میں خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا، فامر علیہم احدا محاباۃ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ، لایقبل اللّٰہ منہ صرفا، ولاعدلا،حتی یدخلہ جہنم۔
جس شخص کو عام مسلمانوںکی ذمے داری سپردکی گئی ہو پھراس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی وجہ سے بغیراہلیت معلوم کیے دے دیا ،اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا،یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ ﴿مسنداحمد﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ امارت وولایت کی تمنا نہ کریں اور نہ اس کی خواہش میں لگے رہیں۔ آپﷺ  نے حضرت عبدالرحمن بن سمرۃؓ  کو ہدایت فرمائی :
اے عبدالرحمن تم عہدۂ امارت طلب مت کرو،اگر تم کوطلب کرنے کے بعد امارت عطا کی گئی توتم اسی کے سپردکردیے جاؤگے اگربلامطالبہ تمہیں یہ عہدہ مل گیاتو اس پر تمہاری مددکی جائے گی۔‘‘     ﴿متفق علیہ﴾
ذمے داری سونپنے کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ جس کو لوگوں کے کسی معاملہ کی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی وہ مرتبہ میں کم ہے۔ حضرت ابوذرؓ  کوآپﷺ  کے نزیک بہت قدرومنزلت حاصل تھی۔بہت ہی متقی وپرہیزگار صحابی تھے۔ مگرآپﷺ  نے ان کوکسی معاملہ میں ذمہ دارنہیں بنایا۔آپﷺ  نے ان سے ارشاد فرمایا:
یا ابا ذر،انی اراک ضعیفا، وانی احب لک ما احب لنفسی، لا تامرون علی اثنین، ولاتولین مال یتیم۔﴿مسلم﴾
’’اے ابوذرمیں تمھیں کمزورپاتاہوںمیں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوجواپنے لیے پسند کرتاہوں،تم دولوگوںپر بھی ذمہ دارنہ ہونا اورنہ مال یتیم کا ولی بننا ‘‘۔
دوسری جگہ حضرت ابوذرؓ  کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
انہا امانۃ ،وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ، الا من اخذہا بحقہا، وادی الذی علیہ فیہا  ﴿مسلم ﴾
’’یہ امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی و ندامت کا سبب بنے گی۔ سوائے اس کے جواس کا حقدار ہو اوراپنی ذمہ داری کوصحیح طریقے سے انجام دے‘‘۔
سلف صالحین کا طریقہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ  بھی اس کی اہمیت اورنزاکت کے سبب اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔حضرت عمرؓ  کا قول ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا فولی رجلا لمودۃ اوقرابۃ بینہما، فقد خان اللّٰہ ورسولہ والمسلمین۔
’’جس شخص کو مسلمان کے کسی معاملے کا ذمے داربنایاگیا اور اس نے دوستی اورقرابت کی بنیاداس کا کوئی کام کیا۔ اس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
اسی طرح کا معاملہ تابعین وتبع تابعین کا بھی تھا۔
عمربن عبدالعزیزؒ خلیفہ بنائے گئے ۔انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا:مجھ سے خلافت کی بیعت لی گئی جب کہ میں اس کا متمنی نہیں تھا۔لہٰذا آپ لوگ جسے چاہیں اپنا خلیفہ متعین کرلیں۔اس پر مجمع روپڑااوراپنی بھرائی ہوئی آواز میں کہا: اے محترم ہم نے آپ کا انتخاب کیاہے اور آپ سے خوش ہیں۔توعمربن عبدالعزیز بھی روپڑے اورکہا اللہ مددگارہے۔پھر منبرکے گرد موجودلوگوںکویہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ میں تمہیں اللہ سے تقوی اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں۔جواللہ کی اطاعت کرے گا، اس کی اطاعت واجب ہے اورجواللہ کی نافرمانی کرے گاڈ اس کی کوئی اطاعت نہیں۔پھراپنی آواز بلندکرتے ہوئے کہا :تمہارے درمیان جب تک میں اللہ کی اطاعت کروںتم میری اطاعت کرنا اگر میں اللہ کی نافرمانی کروںتوتمہارے ذمہ میری اطاعت لازم نہیں ہوگی۔پھرقصرخلافت کی طرف روانگی کے لیے لوگوں نے سواری پیش کی توآپ نے کہا کہ میں بھی عام مسلمانوںکی طرح ایک مسلمان ہوں،اس لیے میری آمدورفت بھی اسی طرح ہوگی اورقصرخلافت کے بجائے اپنے مکان کا رخ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جواللہ کی خاطرتواضع اختیار کرے گا اللہ اسے بلندمقام عطا کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف ذمہ داری کی نزاکت اورآخرت میںجواب دہی کے احساس کے سبب اسے قبول کرنے سے کتراتے تھے۔بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ، ان پر کوڑے برسائے گئے ۔لیکن انھوںنے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔کیوںکہ ان کے سامنے اپنے بزرگوں کے تاریخی احوال موجودتھے اور ان کے تقوی ودیانت داری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ لہٰذا ان کی نگاہ میں اس احساس ذمے داری کے ساتھ کسی منصب یا ذمے داری کو قبول کرلینا معمولی بات نہیں تھی۔
حاصل کلام یہ کہ قائدین امت کو اس مسئلے پرپوری دیانت داری کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ان پر لازم ہے کہ اپنے بعد آنے والوں کو عمدہ دینی تربیت دیں اور افرادسازی کے ساتھ ساتھ تفویض کارمیں بھی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ذمے داری سونپنے کا فریضہ انجام دیں۔ کیوںکہ یہ ایک امانت ہے جس میں کسی ذاتی منفعت کے پیش نظرخیانت کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔اس سے امت بحران کا شکار ہوگی اورملت کوبہت بڑے نقصان کا سامناہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی نصرت ایسے ذمہ داروںپر نہیں ہوتی جوکسی مفادکے پیش نظرکسی عہدے پر فائز ہوں۔ **

Saturday 29 September 2012


امید مومن کا وصف خاص


محب اللہ قاسمی

امید کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ہر شخص کے جذبات براہ راست اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر زندگی کے قافلہ کارواں دواں ہونا محال ہے۔کہتے ہیں ناامید ی کفر ہے اورامید پر دنیا قائم ہے۔یہ امید ہی ہے جس کی بناپر تاجر اپنی دوکان کھولتاہے اورصبح سے شام تک وہیں دلجمعی کے ساتھ بیٹھتاہے ،اسے توقع ہوتی ہے کہ اسے اچھا منافع ملے گا۔کسان زمین کھودکراس میں بیج ڈالتاہے اس امیدکے ساتھ کہ اس سے ڈھیروںغلے کی پیداوارہوگی۔ والدین اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں کہ آئندہ وہ ایک اچھا انسان اورقوم وملک کا معمارہوگا۔گویا کہ زندگی کے ہرشعبے میں انسان کسی نہ کسی نوعیت کی امید ضرور رکھتاہے اورامیدوںکے سہارے اپنے منصوبوںکوعملی جامہ پہنانے کی کوشش میں لگارہتاہے۔’ امید ‘کی حقیقت کیاہے ،اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔


امید کوعربی زبان میں رجاء کہتے ہیںکسی کام کے کامیابی سے پاجانے کی توقع ۔اس کی ضدمایوسی ہے۔ امید کے دواصطلاحی معنی بیان کئے جاتے ہیں :ایک معنی ہیں: اللہ سے درگذراور مغفرت کی توقع رکھنا۔‘دوسرے معنی ہیں :زندگی میں کشادگی وفراوانی کا  انتظاراورمصائب وآلام سے نجات کی توقع ۔علامہ ابن قیم نے پہلے معنی کو اس انداز سے بیان کیاہے:

‘‘امید دراصل بندگی ہے ورنہ انسانی اعضا و جوارح اطاعت کے لیے آمادہ ہی نہ ہوتے ۔ اسی طرح اس امیدکی خوشبواگرنہ ہوتی تو ارادوں کے سمندرمیں اعمال کی کشتی ہی نہ چلتی ’’
ابن حجرؒ وغیرہ نے بھی امید کے اصطلاحی معنی بیان کیے ہیں ۔
یہ واقعہ ہے کہ امید انسانی تخیلات میں جان پیداکرتی ہے۔ان تخیلات کوعملی پیکرمیں ڈھالنے کا کام انسانی اعضاء وجوارح مل کرانجام دیتے ہیں ۔ایک قول ہے یمان خوف اورامید کے مابین ہے۔اس کے مطابق ایک مومن کے اندریہ دونوںاوصاف ہیں تویہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل میں ’ ایمان‘ ہے ۔قرآن کریم میں اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاگیا:

جولوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اورجوکچھ ہم نے ان کو دیاوہ یوشیدہ اورعلانیہ طورپر خرچ کرتے ہیں وہ لو گ ایسی تجارت کے متوقع ہیں ،جس میں کوئی خسارہ نہ ہوگا۔نیزفرمایا : یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔

پھریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جوبھی عمل کرے اگراس نے اللہ سے امید باندھ رکھی ہے تواللہ اس کی امید کے مطابق اسے عطاکرتاہے ۔


ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے گھر پہنچے جومرض وفات میں تھا۔آپؐ نے فرمایا:تمہیں کیسا محسوس ہوتاہے ؟اس نے کہااے اللہ کے رسول بہ خدا مجھے اللہ سے بہتری کی امید ہے اوراپنے گناہوںکا خوف بھی ہے۔آپ نے فرمایا اس مقام پر ایک بندے کے اندرجب یہ دونوںباتیں ہیں تواللہ اسے امید کے موافق عطاکرے گااوراس کو ان گناہوں
کے خوف سے محفوظ کردے گا۔ایک حدیث قدسی ہے، جس کے راوی حضرت انس ؓ ہیں۔اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:اللہ کہتاہے کہ’’ اے ابن آدم تونے مجھے یاد کیا اورمجھ سے امید باندھی میں نے تیرے تمام گناہوںکو بخش دیااورمیں بے نیاز ہوں‘‘۔نبی ؐ نے فرمایاکہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اوراس کے شر سے محفوظ رہیں۔اللہ کے رسولؐ نے ہمیں ایک دعاسکھائی جسے ہم دعائے قنوت کہتے ہیں اوروترکی نماز میںروزانہ ہم دعائے قنوت میں ’ونرجوارحمتک ‘کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اے خدا ہم تیری رحمت کی امید کرتے ہیں۔


امید کی وضاحت اس کے بالمقابل استعمال ہونے والے لفظ ’ناامید ی‘سے ہوتی ہے۔کیوںکہ معروف اصول ہے چیزیں اپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں۔امید کی ضد ناامیدی ہے ،اسی کو مایوسی بھی کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایاہے (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو)۔امید مومن کا وصف خاص ہے جب کہ ناامیدی کافراورگمراہ لوگوںکی صفت ہے۔اللہ تعالی نے فرمایااللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے صحابہ کرام ؓ کوتین بڑے گناہوںکے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا(اللہ کا شریک ٹھہرانا،اللہ کی گرفت سے خود کومامون سمجھنا اوراللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔انسان کوچاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں امیدوںکوہمیشہ جوان رکھے ۔یہی صفت اسے اپنے مشن کو جاری رکھنے میں کامیاب بناتی ہے۔ وہ ناامید ی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دے ۔اس لیے کہ اس سے قلب بزدل اوربے جان ہو کر ایمان سے محروم ہونے لگتاہے ۔ناامیدی کی کیفیت میں انسان عمل سے کوسوں دور ہوجاتاہے۔ دوسرے لفظوںمیں یوںبھی کہاجاسکتاہے کہ امید کادوسرا نام زندگی ہے اورناامیدی کا نام موت ہے۔امید کے بغیر انسان محض ایک ڈھانچے کی شکل میں رہ جاتاہے ،جس میںکوئی روح نہیں ہوتی۔ شاعرنے خداکی دی ہوئی اس امانت کو جاوداں رکھنے کے لیے یوں کہاہے   ؎

رہے پھولا پھلا یارب چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کریہ بوٹے ہم نے پالے ہیں


یہ امید ہی ہے جوانسان کو نیکی پر آمادہ کرتی ہے۔قرآن کہتاہے تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ 

نرم لہجہ اور خندہ پیشانی بلند کردار کی علامت

                                                                    محب اللہ قاسمی 

انسان خوشی ومسرت کا خوگر ہوتاہے ،اسے تلخی اورشدت ناگوار گزرتی ہے۔ مگر بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات پرقابو نہیں رکھتا اور اپنے نامناسب  رویے میں تبدیلی لانے کو تیارنہیں ہوتا۔اس کے نتیجہ میںشکایت اور غصے کا ماحول پیدا ہوجاتاہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ،جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ملاقات خوشی کے بجائے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے اور گفتگوکے دوران سخت کلامی کی نوبت آجاتی ہے ۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے صحت مند طرزکلام ناگزیرہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کوہدایت فرمائی :
 ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤکہ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے نرم گفتگو کرو شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے اور ڈرے‘‘ (سورۃ طہٰ:۴۲-۴۳)۔
اس آیت کریمہ میںاللہ تعالی نے موسی ؑاورہا رونؑ کو نرم لہجہ میں گفتگوکرنے کا حکم دیا ہے ۔ مخاطب کتناہی بڑا سرکش کیوں نہ ہو،مناسب یہ ہے کہ اس سے سہل ،لطیف اورنرم لہجہ میں گفتگوکی جائے تبھی اصلاح کے مقصدمیںکامیابی کی توقع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاا ارشاد ہے :
’’خوشخبری سناؤ، نفرت مت دلاؤآسانی پیدا کرو مشکل نہ بناؤ‘‘۔(مسلم)
بسااوقات انسان نادانی میں کسی شخص سے ایسی بات کہہ دیتا ہے جوبراہ راست اس کے دل کو زخمی کرتی ہے پھروہ زخم کبھی نہیں بھرتا ۔ ایک محاورہ ہے:زبان کا زخم جسم کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔واضح رہے کہ ایذارسانی اسلام میں حرام ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان وہاتھ سے انسان محفوظ رہیں۔
کوئی آلہ ایساایجاد نہیں ہوا ،جس سے مخاطب کے دل کی کیفیت جانی جاسکے۔البتہ انسان کا چہرہ بتادیتاہے کہ وہ خوش ہے یا ناراض اوریہ کہ وہ  اپنے ملنے والوں کے سلسلے میں کتنا مخلص اورخیرخواہ ہے ۔شیخ سعدی نے کہاتھا :
 ’’تا مردسخن نگفتہ باشد عیب وہنرس نہفتہ باشد ‘‘جب تک انسان بات نہیں کرتاہے اس وقت تک اس کا عیب وہنرچھپا ہوتاہے۔گویا گفتگوکا لہجہ انسان کی شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا:کیامیں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتادوں جس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول  ﷺ آپ ضروربتائیے۔آپ نے ارشادفرمایا:
 ’’اللہ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے ہراس شخص پر جو خوش مزاج ،نرم خو،ملائمت پسند اورلوگوںسے قریب رہنے والا ہو۔‘‘ (مسند احمد(
اسلام انسان کوہرحال میں صابروشاکر رہنا سکھاتاہے ۔اسے چاہیے کہ مصائب کے باوجود اپنی تکلیف کو مسکراہٹوںمیں چھپانے کا عادی بنے۔ اس کا یہ عمل اسے خودبھی خوش رکھے گا اوروہ دوسروںکو بھی خوش رہنے کی ترغیب دے سکے گا۔ اس کا یہ عمل شکرگزاری میں شمار ہوگا جس پر اللہ نے مزیدعطاکرنے کا وعدہ کیاہے۔کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا۔ چہرے کاحساس وبشاش ہونا۔انسانوںکو یہ نسخہ نبی کریم ﷺ نے عطا کیا۔ آپ ؐ اچھی باتوںکو پسند فرماتے تھے، کسی بھی خیرکے کام کو معمولی نہیں سمجھتے آپ ؐنے فرمایا:
’’کسی بھی بھلائی کو ہرگزحقیرنہ جانو اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔‘‘     ( مسلم(
اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملنا ایک پسندیدہ عمل ہے ۔اگرچہ لوگوںکی نظرمیں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہومگراخلاقی اعتبارسے یہ ایک عمدہ صفت اورباہمی محبت کا مظہر ہے۔اسلام نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔آپ ؐ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔حضرت عبداللہ بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کونہیں دیکھا۔(ترمذی(
کسی سے ملتے وقت چہرے پرمسکراہٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ شخص بااخلاق ہے ۔اس خوبی کا حامل انسان اپنے دوسرے بھائی کے دل میں خوشی کی لہرپیداکرتا ہے ۔اگراس کے پاس دینے کے لیے کوئی مادی شئے نہ ہو تب بھی اس کا مسکراہٹ کے ساتھ ملنا خود ایک صدقہ اور نیک عمل ہے۔بسا اوقات چہرے کی مسکراہٹ مریض کے لیے دوا ثابت ہوتی ہےچنانچہ بہت سے اطباکا خیال ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت مسکراہٹ اس کی طبیعت کی بحالی کا سبب ہوتی ہے۔یہ ایک قسم کا عطیہ اوربخشش ہے ۔لوگوںکو عام طورپر اس کا شعورنہیں ہوتا۔
سلف صالحین کا طریقہ رہاہے کہ وہ لوگوںکے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے اورنرم لہجہ اختیارکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ لوگوںکا ایک ہجوم ان سے ملنے کا شائق رہتا تھا ۔جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ فرماتے ہیں :
’’نیکی آسان چیز ہے،خندہ پیشانی ، نرم زبان ۔‘‘(شعب الایمان بیہقی)
یعنی انسان کسی کے ساتھ خندہ پیشانی اور نرم لہجے میں بات کرکے بھی نیکی کما سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی گفتگومیں نرم وشیریں لہجہ اختیارکرے۔یہ طریقہ دل کی سختی کو دورکرے گااوراس کی شخصیت میں نکھارپیدا ہوگا ۔ ہنستاہوا چہراموتی سے زیادہ چمکداراورروشن صبح سے زیادہ دلکش ہوتا ہے،ساتھ ہی یہ صفت صفائی قلب کی عکاس ہوتی ہے۔گفتگوکے آداب میں سے یہ ہے کہ انسان جہاں اپنے مخاطب سے نرم لہجہ اورشیریں کلام کرے ،وہیں وہ اپنے چہرے پہ مسکراہٹ بھی رکھے۔ اس کے بغیرگفتگوکا مؤثرہونا محال ہے۔اگرہم نے اپنی زندگی میں اس کا اہتمام کیا تو اس کے فوائد کا مشاہدہ کریںگے۔ یہ شرف کیاکم ہے کہ یہ نبی کریم ؐ کی اقتداء ہوگی جوہمارے لیے قابل فخرہے۔اس رویے سے اللہ کے اچھے بندوں سے محبت پیداہوگی جو خداسے محبت کی علامت ہے۔ لوگ خندہ رو شخص کے دلدادہ ہوتے ہیںاوران کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔ایک داعی کی سب سے بڑی خوبی اور اس کے بلندکردار ہونے کی دلیل ہے۔  
Top of Form


Sunday 27 March 2011

Ghardish e Ayyam


روزانہ آفتاب مشرق کے دریچے سے جھانکتاہوا مغرب کے سمندرمیں غروب ہوجاتا ہے ۔  دھوپ چھاؤں ،سردی گرمی ،خزاں بہار،دن مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ انقلاب ہر چیز میں رونماہورہا ہے چاہے وہ دینی،سیاسی،معاشی کیفیت ہو یا معاشرتی حالات ۔ آج پوری دنیااسی کے زیراثرہے جس پرانقلاب کی آندھی چل پڑی ہے مگر آوارہ گرد یہ جھونکاجوانسان کو انسانیت کی شناخت سے الگ کرکے درندہ صفت بنا  دینا  چاہتی ہے۔   ’’ہندو،مسلم ،سکھ ، عیسائی ، آپس میں  سب بھائی بھائی ‘‘ کے گیت گانے والے لوگ ظلم وستم کی داستانیں  تحریرکرنے میں  لگے ہوئے ہیں ۔  جہاں  خوشیاں  ہی خوشیاں ہوتی تھیں  اب وہاں  رونے،کراہنے اور چلانے کی آوازیں  سنائی دیتی ہیں ۔ مسلمان اچھے اخلاق واعلیٰ کرادار ، پاکبازی،عدل پروری اور  حق گوئی وراست روی کی مثال آپ ہواکرتے تھے ۔ آج ان کی اس شناخت کوبگاڑنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ۔

اس ’’گردش ایام ‘‘نے ہمارے معاشرے ،تہذیب وتمدن اور کلچرکوبھی متأثرکیاہے اور  انسیت پسندانسان کواپنے شکنجے میں  دبوچ کراس کی اصل شکل وصورت مسخ کردی ہے ۔  اسے جدت وبدعت پسندبنادیاہے اور کبھی نہ سوکھنے والے ہرے بھرے درخت نما ’’مومن‘‘ کو اپنے حسین فریب کاریوں کے لوکے تھپیڑوں  سے جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
قدم قدم پہ فتنوں کاہجوم ہے۔ خواہشاتِ نفس کی رغبت جس کی تکمیل کے لئے ہرقسم کی سہولتیں  بآسانی فراہم ہورہی ہیں ۔ برائیوں کوعروج اور  اچھائیوں  کو زوال کی دھول چٹائی جارہی ہے۔ لہوولعب کے مراکز آباد ہورہے ہیں ۔  مسجدیں  ویران پڑیں  ہیں ۔ ہونٹوں پے گانوں کے قطار بندھے ہوئے ہیں ۔  جبکہ زبان کلمہ حق سے ناآشناہے بے حیائی وبے شرمی ،بدکاری وبداخلاقی کاشورغل مچاہواہے۔  مزیدبرآں  یہ کہ عورتوں  کو شانہ بشانہ قدم بہ قدم ملاکرچلنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور پردہ کے خلاف بے پردگی کا زور اور دباؤڈالاجارہاہے ۔ جس کے شرمناک اور  خطرناک نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔

اتحادواتفاق کانعرہ توبلندکیاجارہاہے مگر منافرت کی بیج بو کر ظلم وستم کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے۔ کوئی تو میٹھے الفاظ کے کمان سے دل پروارکرہاہے توکوئی اپنے ماضی کے کارناموں کوپیش کرکے لوگوں  پراپنے تسلط کاسایہ ڈالناچاہ رہاہے۔  درحقیقت یہ ریاکاردانشورانِ قوم غم خواری وغم گساری کی حقیقت کومٹاکرملنے والی ’’آرام کرسی‘‘پرنگاہیں جمائے ہوئے ہیں ،انہیں  کوئی فرق نہیں  پڑتاکہ کس کاگھرجل رہاہے ، کس کی جان لی جارہی ہے اور کس کامال واسباب برباد کیاجارہاہے؟

الغرض اجالا آپ ہی کپکپاتاہواسمٹتاجارہاہے جیسے وہ اندھیروں کے لئے جگہ خالی کررہا ہو۔  نیکیاں  پسینہ پسینہ ہوتی جارہی ہیں  جیسے برائیوں کادوردورہ شروع ہونے والاہے۔ ایسے میں  چین وسکون امن واطمیناکی خواہاں انسانی فطرت اس قدر گناہ آلودہ ماحول کو دیکھ کرحیران وپریشان اور تھکی ہوئی آوازمیں بول پڑتی ہے۔ اے گردش ایام تجھے کیانام دوں ……؟ ایسے میں  مسلم معاشرے کے سامنے کئی سوالات گردش کرنے لگتے ہیں ۔ کیا یہ ظلم وستم صرف ہمارے لئے ہی مقدر ہے ؟ ماضی کاماحول کتنااچھاتھا۔ کیاوہ پرامن فضا دوبارہ قائم نہیں  ہوسکتیں  ؟

تاریخ کے آئینے میں اگر واقعات کودیکھیں  توہمیں  معلوم ہوگا کہ ہردورمیں جب جب ظلم وفسادکاعروج ہواہے اسے زوال کا بھی منہ دیکھناپڑاہے ۔ کیوں  کہ حکومت کبھی ظلم وفسادکے ساتھ نہیں چل سکتی ۔ جس طرح پرامن احتجاج کررہے مصریوں  کومارا اور  کچلا جارہاہے۔ دیگر ممالک میں  انسانوں کا خون بہایاجارہاہے اور جس قدر فتنہ پرپا ہے ۔  یہ سب ظلم کی انتہاہے۔  اس لئے ہم بھی عقل وفکرکی روشنی میں  اگردوسری طرف دیکھیں  توہمیں ان منفی خارداروادیوں سے خوشنمااورروشن مستقبل کاراستہ دکھائی دے گا اور وہ ہے انسانیت کو درکار  ’’فکری انقلاب ‘‘جہاں لوگ صحیح اور غلط کی تمیزکرتے ہوئے اقدام کرناپسندکریں ، انسانیت کے درد کومحسوس کیاجائے  اور  ہرقسم کے مفاد پر انسانیت کو ترجیح دی جائے۔ آج انسانیت ایک ایسے ہی انقلاب کی منتظرہے جوانسانیت کے تمام حقوق فراہم کرسکے ، جہاں مساوات اور برابری کواول درجے کی حیثیت حاصل ہو، عدل وانصاف کااعلی معیارقائم ہو۔  ان ہی تمام خوبیوں کے مجموعے کانام ہے ’’اسلام‘‘جس کا طریقۂ کار زندگی کے بے شمار خوشگوار پہلؤوں  کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ جوانسانیت کے لئے بے حدضروری ہے۔

ایسے میں  ایک مسلمان کوجودوسروں کے لئے ایک آئینہ کے مانندہے ۔ اسے’’ گردش ایام‘‘ سے دوچارہوکریااسلامی کلچراورتہذیب میں گھولے گئے مغربیت کے رنگ میں  رنگ کراپنی شناخت اور وقار کومجروح کرنے کے بجائے ان فاسدعناصرکامردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔ جس کے لئے مسلمان کو تاحیات دینی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ان کایہ کردارغیروں کے لئے مشعل راہ اور ظلم وفساد کے سدباب کے لئے سنگ میل ثابت ہو۔

اگرہمارایہ مقصدحیات رہا تواسلام میں  وہ تمام خوبیاں  موجودہیں  جوایک خوشگوارزندگی کے لئے لازمی اور ضروری ہے،جس کے سائے میں  رہ کرانسان کامیاب زندگی گزارسکتاہے ۔ اگراس اسلامی تہذیب اور سوسائیٹی کی تبلیغ واشاعت میں  مشکلات درپیش ہوں تواس کاڈٹ کرمقابلہ کرنا چاہئے گھبراکرقدم پیچھے ہٹانے یامایوس ہونے کی ضرورت نہیں  ،یہ تواس کی ایک آزمائش ہوتی ہیے جس سے مسلمان میں  نکھار پیدا ہوتا ہے    ؎
تندیٔ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
         یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...