Monday 8 April 2013


زبان کے اثرات انسانی زندگی پر

معاشرے کے فسادوبگاڑکا اہم سبب زبان کا بے جااورغلط استعمال ہے۔ انسان کے جسم کا یوں تو چھوٹا سا عضوہے مگراس کے نقصانات بڑے بھیانک ہوتے ہیں ،جن سے بچ پانا بہت مشکل ہوتاہے۔عربی مقولہ ہے :
 اللسان جِرمہ صغیروجُرمہ کبیر
زبان جوعضو میں چھوٹا ہے لیکن اس کے گناہ بھاری اوربہت ہوتے ہیں۔
زبان سے انسان نہ صرف دوسروںکوتکلیف اورپریشانی میں ڈالتاہے بلکہ خودبھی بہت سی مصیبتوں سے دوچار ہوتاہے۔ انسانی زندگی پراس کا گہرا اثرپڑتاہے ۔ اگراس کا صحیح استعمال ہوتو انسان باوقار اور بلند کردار معلوم ہوتا ہے، اگراس کے استعمال میں بے احتیاطی ہو توانسان کواس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل وخوارہوجاتاہے ۔
رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد ہے :جب ابن آدم کی صبح ہوتی ہے تواس کے جسم کے تمام اعضازبان سے عاجزی ظاہرکرتے ہوئے کہتے ہیں
اتق اللہ فینا فانما نحن بک، فان اعوججت اعوججنا (ترمذی(
ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر، اگرتوٹھیک رہے گی توہم بھی ٹھیک رہیں گے اگرتونے کجی اختیارکی تو ہمارا بھی براحال ہوگا۔
ہرکام کا حسن یہ ہے کہ اسے معتدل اندازسے نجام دیاجائے ،اس میں افراط وتفریط گویا اس کام میں فساد ڈالنا اورخودکومصیبت میں مبتلا کرناہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:خیرالامورعوازمہا ، اوساطہاوغیرہ۔اس لیے بہتریہی ہے کہ انسان اپنے کلام کومعتدل بنائے اور گفتگوکے آداب کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنی زبان کوقابو میں رکھے۔نبی ؐ نے گفتگوکے متعلق ایک عام قائدہ بتایا ہے:
 من کان یومن باللہ والیوم الآخرفلیقل خیرا اولیصمت(مسلم (
جوشخص اللہ اوریوم اخرت پر ایمان رکھتاہے اسے اچھی گفتگوکرنی چاہیے ورنہ خاموشی اختیارکرنی چاہیے ۔
جو شخص زبان کی مصیبت سے بچناچاہتاہے ۔اسے آداب گفتگوکا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔گفتگو کے اداب میں سے ہے کہ غیرمفید گفتگوسے اجتناب اوربے جا کلام سے گریز کیا جائے،جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے: لکل مقام مقال( ہر بات کا ایک مناسب وقت ہے) یہی وجہ ہے ،جب گفتگوکا کی جائے تواس کا خیال رکھا جائے کہ جوبات کہی جارہی ہے وہ سامع کی ضرورت ہے یا نہیں ،اسی طرح اس گفتگو کا کیا اثر ہوگا۔یہ سب سوچ لینا چاہیے ،کہاجاتاہے ،پہلے تولو پھربولو،تاکہ پتہ چلے کہ اس کی بات کا اس مقام پر کیا وزن ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے؟
کثرت کلام کے بجائے مختصر ،مدلل اورواضح گفتگوکا اندازاپنایاجائے ۔عربی میں اسے’’ خیرالکلام ماقل ودل‘‘(بہترین گفتگو وہ ہے جومختصر اور مدلل ہو) سے تعبیرکیاجاتا ہیں۔ عموما انسان جب بات کرتاہے تووہ سامع کے وقت کا خیال نہیں رکھتا اور غیرضروری گفتگو کو طول دے کرسامع کو اکتاہٹ میں ڈال دیتاہے اس طرح اس کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور گفتگو بھی غیرمؤثر ہوتی۔
انسان اپنی زبان کی بے احتیاطی کے سبب بہت سے راز فاش کردیتاہے جوکہ امانت کا درجہ رکھتاہے۔اسے اسی خیانت کے نتیجے میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔پھراسے غیبت ،چغلی اور کسی کی ٹوہ میںلگ کرادھرکی بات ادھرکرنے کی عادت پڑجاتی ہے ،جب اس کی یہ کیفیت معاشرے میں اجاگرہوتی ہے تو وہ کسی کومنہ دکھانے کے لائق نہیں رہ جاتا اورنہ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی نگاہوںمیںاس کی وقعت گھٹ جاتی ہے۔نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
من صمت نجا  (ترمذی(
’’جس نے خاموشی اختیارکی وہ نجات پاگیا‘‘
معلوم ہوا کہ اگر پریشانیوں سے بچناہے اورمقصدمیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو بہتریہی ہے کہ کثرت کلام سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیارکی جائے۔
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا’’اگربولنا چاندی ہے توخاموش رہنا سونا ہے۔‘‘
اگرکسی کی تعریف یااس کی حوصلہ افزائی کرنی مقصودہے توتعریف میں ( غلو) حدسے تجاوز نہیںکرنا چاہیے،کیوںکہ ایسی حرکت ریا اورتملق کے دائرے میں آتی ہے جو انسان کوزیب نہیں دیتی ۔یہی حال مذمت کا ہے،کیوںکہ اس میں بھی غلوکرنا سختی اورانتقام کوجنم دینا ہے۔جب کہ انسان بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے ،لہذا اس کے برے عمل کواسی حدتک براکہناچاہیے جواس کی ذات کومتأثر نہ کرے ورنہ ردعمل میں وہ مزیدفساد وبگاڑکا باعث بنے گا۔
انسان کی زبان کا تعلق دل سے بہت گہراہوتا ہے۔پہلے دل میں خیال آتاہے پھراس کا اظہارزبان سے ہوتاہے۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
لا یستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ ،ولا یستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ(مسند احمد(
 بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہ رہے گا جب تک کہ اس کا دل درست نہ رہے ، اوراس کادل اس وقت تک درست نہیں رہتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔
اس لیے دوران گفتگو فحش گوئی سے اجتناب کرے کہ یہ انسان کے وقار کے خلاف ہے۔اس صورت میں وہ فحش اوربری باتوںکا مبلغ ہوگا۔اس کا دل بھی برائیوں کی طرف مائل ہوگا ،جواس بات کاثبوت ہوگا کہ اس کا دل نہایت گندہ ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل سمجھاجائے گا۔اس طرح اس کا ایمان درست حالت میں نہ ہوگا۔
زبان کی اہمیت کے پیش نظر آپؐ نے ارشادفرمایا:
یا معاذ کف عنک ہذا واخذ بلسانہ…وہل یکب الناس فی النار علی مناخرہم الا حصائد السنتہم(ترمذی(
اے معاذ اسے قابو میں رکھوں(یہ کہتے ہوئے آپ ؐ نے اپنی زبان پکڑ ی)لوگوںکو جہنم میں ان کے منہ کے بل ان کی زبانوں سے کہی ہوئی باتوں کی بناپر ہی ڈالاجائے گا۔
گفتگوکی چند قسمیں ہیں:
گفتگویا توصرف نقصان پرمبنی ہو گی،جیسے جھوٹ ،جھوٹی گواہی، چغلی ،غیبت (۲)یا پھر خالص مفیدہوگی جیسے لوگوں کو بھلائی کی بات کہنا اوربری باتوں سے روکنا اوراللہ کا ذکر وغیرہ (۳) نقصاندہ ہو اوراس میں کوئی فائدہ بھی نہ ہو جیسے ،فضول اور لغوبات جس میں انسان کا وقت توضائع ہوتاہے فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔(۴)وہ گفتگوجس میں فائدہ اور نقصان دونوںکا امکان ہو،جیسے کوئی خیرکی مجلس ہواوراچھی گفتگوہورہی ہواس میں غیبت بھی ہوجائے جس کا ادراک نہ سکے ہو،ایسی گفتگومیں ریاکاری کا بھی اندیشہ ہوتا جس کا احساس نہیں ہوتا۔
گفتگوانسان کا ایک قیدی ہے مگر جب وہ اپنی زبان سے کچھ کہہ دیتاہے تووہ خود اس کا اسیربن جاتاہے۔اس لیے مومن کوہروقت یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جوکچھ بھی زبان سے بولتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محفوظ کرلیاجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مایلفظ  من     قول الا لدیہ رقیب عتید (ق:۱۸(
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجودنہ ہو۔
انسان کو چاہیے کہ جب بھی کوئی بات کرتوپہلے یہ سوچ لے کہ وہ کیاکہہ رہاہے۔ کہیں ایسا تونہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کررہاہے جوغضب الٰہی کا سبب بن جائے جس کا اخرت میں اسے رسوائی کا سامنا ہو۔اسی کے متعلق نبی کریمؐ نے فرمایا:
ان العبدلیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللہ لایلقی لہا بالا یرفع اللہ بہا درجات، وان العبد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللہ لایلقی لہا بالا یہوی بہا فی جہنم(بخاری(
ایک شخص اپنے منہ سے اللہ تعالی کی خوش نودی کی کوئی بات نکالتاہے۔وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا،لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے درجات کوبلندکردیتاہے۔ ایک دوسرا شخص اپنے منہ سے اللہ کی ناراضگی کی کوئی بات کہتاہے۔اسے وہ لاکھ اہمیت نہیں دیتا۔لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جہنم میں ڈال دے گا۔
زبان کے متعلق صحابہ کرام بڑے حساس تھے ،وہ ان کے خطرات سے اچھی طرح واقف تھا ،ہمیشہ ان کو اندیشہ ہوتاتھا اسی وجہ سے وہ زبان کے متعلق بڑے محتاط تھے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زبان کوپکڑکرفرمایا:
ان ہذا اوردنی الموارد (رواہ مالک(
اس نے مجھے بہت سے مواقع پر ہلاکت میں ڈالا ہے۔
 ابوبریدہؒ کا بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کودیکھا انھوں نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :
ویحک قل خیرا تغنم  او اسکت عن سو تسلم  والا فاعلم  انک ستندم،  فقیل لہ : یا ابن عباس لم تقول ہذا؟   قال :انہ بلغنی ان الانسان ۔ لیس علی شی من جسدہ اشدحنقا او غیظا یوم  القیامۃ  منہ  علی لسانہ  الا ماقال بہ خیرا او املی بہ خیرا۔
تیرا برا ہو۔اچھی بات کہہ، فائدہ میں رہے گی،بری بات سے رک جا محفوظ رہے، ورنہ جان لے کہ عنقریب تجھے شرمندگی کا سامناکرنا پڑے گا۔کسی نے ان سے کہا: اے ابن عباس ایسی بات آٖ پ کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ روز قیامت انسان اپنے جسم کے کسی عضو پر زبان سے زیادہ غیظ وغضب کا اظہار نہیں کرے گا۔صرف اسی صورت میں وہ ایسا نہیں کرے گا کہ اس نے اس کے ذریعے اچھی بات کہی ہوگی۔
جلیل القدرصحابی مفسرقرآن عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے ۔فرماتے ہیں :
والذی لاالہ غیرہ، ماعلی ظہرالارض شی احوج الی طول سجن من لسان۔
’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبودنہیں ،روئے زمین پر کوئی چیزایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ قابومیں رکھنے کی ضرورت ہو۔‘‘
زبان اللہ کی عطاکردہ عظیم نعمت ہے جس سے خداکی اطاعت اورجرم دونوںکا صدور ہوتا ہے اسی سے ایمان کا اظہار ہوتاہے اور کفرکا بھی ،یہ انسان کے افکار وخیالات کا آلہ ہے ۔ خیر و شر کی ترویج میں زبان کواہم مقام حاصل ہے ۔جس نے اس کا صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور اسے شریعت کی لگام ڈالدی تو وہ کامیاب ہوا اورجس نے اس کی لگام ڈھیلی کردی اور اسے آزاد چھوڑدیا تو شیطان اس پر حاوی ہوکراسے اپنے مرضی کا شکار بنا لیتا اوروہ اپنی زبان کے برے استعمال کے سبب جہنمی ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:
’’جوشخص مجھے دوڈھاڑوںکے درمیان کی چیز(زبان) اور دونوں رانوں کے درمیان کی چیز(شرمگاہ ) کی ضمان دے گا۔ میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔(بخاری(
زبان کی ضمانت کا مطلب ہے کہ آئندہ وہ اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کرے گا جو فسادیابگاڑکا سبب بنے ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان اپنی زبان کو ہمیشہ ذکر الٰہی سے تررکھے اور زبان سے اچھی اور شیریں گفتگو کا اہتمام کرے تاکہ وہ اپنی شخصیت پر اچھا اورگہرا نقوش چھوڑسکے۔

Tuesday 26 March 2013

Ulfat ke Khat-o-khal ko woh jaante hain Khub


غزل       محب اللہ رفیقؔ

الفت کے خط و خال کو وہ جانتے ہیں خوب
میری وفا شعاریوں کو مانتے ہیں خوب

دل کو شکستہ کرتے ہیں لیکن ہے یہ بھی سچ
پتھر نہیں ہے دل یہ مرا جانتے ہیں خوب

واضح ہیں ہم پہ دانش و بینش کے سب رموز
دانش کدے کے لوگوں کو پہچانتے ہیں خوب

نیت میں صدق ہے تو چلے آئیے یہاں 
ورنہ ہم ایسے ویسوں کو پہچانتے ہیں خوب

نقشہ ہی اس نگر کا نرالا ہے اے رفیقؔ
احباب بے رخی کی کماں تانتے ہیں خوب





Saturday 23 March 2013


انسان کا فلسفہ ٔحیات

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں آدم اوراس کی اولادکوپیداکیا اوراسے اپنا نائب وخلیفہ بناکر ایک عارضی زندگی عطاکی اوراس دارفانی میں بھیج دیا ۔ بعدازاں اس کی بقاتحفظ کے لیے وہ تمام چیزیں محدودوقت کے لیے بلاعوض اسے عطا کر دی۔ جس کا نظم ونسق کرنا اس کے قبضۂ قدرت سے باہرتھا۔جب مالک ارض وسمانے انسان کو یہ تمام سہولیات فراہم کردیں، تب اسے اپنا یہ پیغام سنایا:
وماخلقت الجن والانس الالیعبدون (سورۃ الذاریات:56)
میں نے انسان وجن کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے ۔
یعنی اس کا مقصد ِاصلی اظہار ِعبدیت ہے۔ یعنی خودکومالک حقیقی کا غلام بنا دینا ۔ لہٰذااس کا جوبھی حکم ہے اس کی بجاآوری ضروری ہے ۔خواہ بخوشی ہو یا بادل ناخواستہ۔
اگرانسان ایک لمحہ کے لیے غورکرے تواس سے معلوم ہوگاکہ وہ اپنی مرضی سے پیدانہیں ہوا،ورنہ وہ اس دارالامتحان آنے سے انکارکردیتااس لیے کہ وہ سمجھ جاتاکہ ابتلاوآزمائش کی ان خار دار وادیوں سے دامن بچاکر نکل جانا اور خواہشات ومرضیات کی مسلح فوج سے ٹکر اکر اپنی کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرا دینا نہایت ہی مشکل ہے۔کیوںکہ پیدائش کے بعد اگرچہ متعینہ مدت تک والدین نے پرورش کی ذمہ داری نبھائی۔مگراس کے بعد خوداپنی اورآئندہ آنے والی نسل کی کفالت کابار اسے ہی اٹھانا پڑے گا ۔ چونکہ اللہ نے انسانوں کے مابین ایک قرابت اور رشتہ جوڑ رکھا ہے اورقدم قدم پر انھیں ایک دوسرے کا محتاج بنا دیاہے۔ایسے میں ان کے غروروتکبرکاکوئی جوازباقی نہیں رہ جاتا۔ کیوں کہ محتاج اور ضرورت مند متکبرنہیں ہوسکتا۔
اب انسان کے سامنے دوراستے ہیں،ایک تویہ کہ وہ اپنے مالک حقیقی کا صحیح انتخاب کرکے اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگ جائے ،یااپنی مرضیات کوخدابناکراللہ تمام احکام کو بالائے طاق رکھ دے اور من مانی زندگی گزارے۔ ان دونوںباتوںمیں کسی ایک کو اپنانے کا  اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیاردیاہے۔ارشاد الٰہی ہے:
فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر                   (سورۃ کہف:29)
جوشخص چاہیے ایمان لائے اورجوچاہیے کفرکرے (ہرشخص کو اس کابدلہ ملے گا(
اس لیے انسان کو مجبور محض قرارنہیں دیاجاسکتا کیوںکہ اسی اختیارپراس کا حساب وکتاب ہوگا پھرسزاوجزاکا اعلان ہوگا۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں پرانسانی قوت جواب دے دیتی ہے یاکوئی کام اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے تو ایسے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ خواہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہی کیوںنہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فمن اضطرغیرباغ ولا عاد فلااثم علیہ(البقرۃ: 173)
جوشخص پریشان اضطراری کیفیت میں مبتلاہو ،حدسے تجاوز نہ کررہاہوتواس پر (حرام کردہ اشیاء کے استعمال میں)کوئی گناہ نہیں ہے۔
اسی طرح اگراللہ تعالیٰ چاہتاتوانبیاء ورسل کودنیامیں نہ بھیجتا بلکہ اپنی کتاب پہاڑیاکسی پاک جگہ نازل کردیتا یافرشتہ بھیج کررہنمائی کرتا،مگراس نے ایسا نہیں کیاکیوںکہ ایسی صورت میں بندہ یاتوعملی طور پر مجبورِ محض بن جاتایاپھرفرشتے اوربندے کے درمیان مماثلت نہ ہونے کے سبب احکام ِ الٰہی  پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابنیاء ورسل کا انتخاب  کیا،جوآدم کی نسل سے تھے۔انھوںنے لوگوں کے مابین آکرعملی طورپر ان احکام کی تفصیل واضح اندازمیں پیش کردی ان کی آخری کڑی محمدعربی ﷺ ہیں اورآخری کتاب قرآن کریم ہے ،جوایک مکمل نظام ِ حیات ہے۔اسی قرآن اور حدیث (آپؐ کی قولی وعملی زندگی) میں قیامت تک کے لیے تمام مسائل کا حل پیش کردیاگیاہے۔
ایسے مقام پر پہنچ کر بندے کے لیے کسی قسم کی معـذرت کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بندہ اپنے ذہن ودماغ جس کے سبب وہ دنیا کو اپنی مٹھی میں کرلیناچاہتاہے اور چاند پر کمندے ڈالنے کے لیے کوشاں ہے،پرزوردے کرراہ ِ ہدایت کا انتخاب کرے اورعبدیت کے فلسفہ کوسمجھ کرغروراورتکبرکا دامن چھوڑدے۔اس لیے کہ تکبرخداکی چادر اورمالک ِ دوجہاں کی صفت ہے۔جب کہ بندے کی صفت اطاعت ہے جس کے سبب وہ سرخروئی حاصل کرسکتاہے ورنہ وہ بندہ نہیں رہے گابلکہ نافرمان ابلیس کی طرح ہوجائے گا جس کی سزاجہنم ہے۔
یہی وہ فلسفہ ٔ حیات ہے جس کوصحابہ کرامؓ نے سمجھا اورانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت اختیارکی اوراپنی زندگی اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں گزاری۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انسانوںکی بہترین جماعت بن گئے۔ ان کے لیے تمام مشکلات کا سامناکرنا اورجلاوطنی کی زندگی بسرکرنا آسان ہوگیا۔اس پر اللہ نے انھیں دونوں جہاںمیں فلاح وکامرانی عطا کی اور انھیں رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کے اعزازسے نوازاگیا۔
واقعہ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے لیے اس راہ ِ ہدایت سے گزرنامشکل ہے۔ کیوںکہ یہ دشوار گزارراستہ ہے جس میں انسانی مسائل نشیب وفرازکی طرح ہوتے ہیں ،اس سے تسلیم وواطاعت کے ساتھ گزرجانادشوارترین ہے۔نبیؐ نے فرمایا:’’الدنیا سجن المؤمن یعنی دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ ہے ۔ ا س کے برعکس من چاہی زندگی بظاہر نہایت ہی خوشگوار اور آسان معلوم ہوتی ہے۔ یہ عارضی اورپرلطف توہوتی ہے مگراس کا انجام دائمی سزا و عتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(انااعتدنا جہنم للکافرین نزلا) ہم نے کافروں (نافرمانوں)کے لیے دردناک عذاب تیارکررکھا ہے۔
اب فیصلہ انسان کے ہاتھ ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے فلسفے کو سمجھے اورراہ ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے بے نیازخالق ِ حقیقی کے سامنے سرتسلیم خم کرے، ایسا کرنے پر اس کو فرشتوں سے اعلیٰ مقام عطاکیاجائے گا۔     ٭٭

Sunday 24 February 2013

Badtareen Insan (The worst man)


بدترین انسان کی پہچان

انسان کی شخصیت اس کے عادات واطواراور افعال اورکردارسے نمایاںہوتی ہے ۔ انسان فطری طورپراپنا مصاحب اور دوست بھی ان ہی کو بناناپسند کرتاہے جو معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اوربرے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے۔ کیوں فارسی مثل مشہورہے۔ (صحبت طالع تراطالع کند) اور  جاپانی مقولہ ہے ’’ جب کسی شخص کا کردارتم پرواضح نہ ہوتواس کے دوستوں کو  دیکھو‘‘ اس سے اس کے معیارکا پتہ چلتاہے۔اس لیے معمولی سے معمولی عقل وشعور رکھنے والا انسان کبھی برے لوگوں کو  ا پنا  دوست بناناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی فحش باتوں اوربرے کاموں سے بچنے کے لیے اس سے دوری اختیارکرنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتاہے ۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان(
 احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی ﷺ نے جہاں اچھے لوگوںکے اوصاف اورخوبیاں بیان کی ہیں وہی برے اورناپسندیدہ لوگوںکی بھی پہچان بتادی ہے تاکہ ایسے لوگوںسے دوررہاجاتاہے۔
اس سلسلے میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ ہروہ انسان جس میں کسی طرح کی خیرکی امید نہ رکھی جائے حتی کہ اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوںتووہ شخص بدترین انسان مانا جائے گا ۔ کیوںکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فسادوبگاڑکا سبب بنے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘ (ترمذی باب الفتن(
بسااوقات انسان کسی برے شخص سے ملتا ہے مگراس کے ساتھ بہترانداز سے پیش آتاہے ،اس سے گمان ہونے لگتاہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردہوگا حالانکہ وہ بدترین انسان ہوتا ہے۔نبی کریمؐنے ایسے شخص کی وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے اجازت چاہی ، آپ نے فرمایاکہ اسے آنے کی اجازت دے دو،ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ وہ معاشرے کا براانسان ہے۔جب وہ داخل ہواتوآپ نے ان سے نرم گفتگوکی ، اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول آپ نے تواس کے سلسلے میں ایسا ایسا فرمایاتھا، جب کہ آپ نے اس سے گفتگومیں نرمی اختیارکی ۔اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
اے عائشہؓ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے براانسان وہ ہے جس کے شراورفحش کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری بنالیں۔(بخاری(
معلوم ہوا کہ معاشرے کے ایسے بدترین لوگوںکی شناخت واضح کرنا جوعلی الاعلان فسق وفجورکا ارتکاب کرتے ہیں اسے غیبت میں شمارنہیں کیاجائے گا ۔ کیوںکہ یہاں مقصود ہجونہیں بلکہ لوگوںکواس کے شرسے محفوط رکھنا ہے۔آئندہ سطروںمیں انسانوںکی مزیدچند علامتوںکا ذکر کیاجارہاہے جنھیں نبیؐ نے  بیان کیاہے۔تاکہ لوگ ان سے دوررہے اوراچھے برے کی تمیز کر سکیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوںمیں سب سے بدترین انسان انھیں پاؤگے جو دورخی اختیارکرتے ہیں ۔(بخاری(
آپ نے اس کی مزیدوضاحت ان الفاظ میں فرمائی:
 ان  من  شرارالناس ذوالوجہین الذی  یاتی ہولاء بوجہ وہولاء  بوجہ۔ (مسلم(
یقینابدترین شخص وہ ہے جودومنہ رکھتاہو،کچھ لوگوںکے پاس ایک منہ لے کرجاتاہے اورکچھ لوگوںکے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘
 ایسا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوںمیں فساد وبگاڑپیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اسے نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے لوگ انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ایسا شخص لوگوںکی کمزوریوںٹوہ میں لگارہتاہے تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔اس طرح ان کے مابین قطع تعلق کا سبب ہے۔اسی وجہ سے اس کا دل حسداورکینہ کی آگ میں جلتارہتاہے۔
امام غزالی نے دوطرفہ باتیں بنانے والے کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے ۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے پاس دوانگاروںکی زبان ہوگی۔ ایسے شخص سے متعلق نبیؐ کا ارشاد ہے:
من کان لہ وجہان فی الدنیا،کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار(ابوداؤد(
جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا،قیامت کے دن اس کے منہ میں دوانگاروںکی زبانیں ہوگی۔آپ نے ایسے بدترین شخص کی مزید وضاحت فرمائی :
شرارعباد اللہ المشاؤن  بالنمیمۃ ،  المفرقون بین الاحبۃ،  الباغون للبراء العیب   ( مسنداحمد(
 ’’اللہ کے بندوںمیں برے وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں،محبت کرنے والوںکے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں ،اور بھلے لوگوںمیں عیب تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے بدترین شخص کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ایک یہ کہ وہ چغل خوری کرتا ہے۔ تاکہ ایک شخص کی عیب جوئی کے سبب دوسرااس سے بدگمانی کا شکار ہوجائے۔ ایسے شخص کے متعلق ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
 لایدخل الجنۃ نمام (بخاری ومسلم(
چغل خورجنت میں نہیں جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہے جو لوگوںکے مابین محبت واخوت کو اختلاف وانتشارکے ذریعے تارتارکرنے کی کوشش کرتاہے۔تیسرا شخص وہ ہے جواس فکرمیں لگارہتاہے کہ کسی نیک آدمی میں کوئی عیب نکال کر اسے پھیلادے ۔تاکہ لوگوںمیں اس کی رسوائی ہو۔ بہ الفاظ دیگروہ  دوسرے انسانوں کی رسوائی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
تمام انسانوںکاخالق و مالک اللہ ہے۔ وہی انسان کی ضرورتوںکوپوری کرتاہے ، لہذاانھیں اسی کے سامنے سجدہ ریزہونا چاہیے نہ کہ خداکے بالمقابل کسی دوسرے کوحاجت رواتسلیم کیا جائے ،جیساکہ مزاروںپر دیکھنے کوملتاہے ،یہ بندے کی سب سے بڑی سرکشی ہوگی ،ایسے شخص کو بھی حدیث میں بدترین انسان کہاگیاہے۔آپ کا ارشادہے :
ان شرارالناس الذین  یتخذون القبورمساجد ہم(مسنداحمد(
بدترین انسان وہ  ہی جوقبروںکومساجد(عبادت گاہ) بنالیتے ہیں۔
اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے بھی ہیں جودوسروںکی دنیا بنانے میں بھول جاتے ہیں کہ وہ جوکچھ کرر ہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط ؟ اس طرح ان کی آخرت تباہ وبربادہوجاتی ہے۔ ان کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا:
من شرالناس منزلۃ عنداللہ یوم القیامۃ،عبداذہب اخرتہ بدنیا غیرہ (ابن ماجہ(
 قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبے میں برے لوگ وہ ہوںگے جو دوسرں کی دنیا بنانے میںاپنی آخرت خراب کرلیں گے(
قیامت کی علامتوںمیں سے ہے برائیاں عام ہوجایں گی اوران کا اتناکا چرچاہونے لگا کہ لوگ برے کاموںکوبرانہیں سمجھیں گے ، اس طرح برے لوگوں کی کثرت ہوجائے گی ۔اسی بات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے آپ ؐ نے ارشادفرمایا۔
من شرارالناس تدرکہم الساعۃوہم احیائ( بخاری(
برے لوگوںپر پر قیامت کا وقوع ہوگا۔
مذکورہ تمام احادیث سے ایسے بدترین لوگوں کی شناخت بتائی گئی ہے جس کے متعلق آپ نے شرالناس ،شرارالناس ، شرارعباداللہ وغیرہ کہہ کرو ضاحت فرمائی ہے۔ان کے علاوہ جھوٹ ،غیبت ،بدکاری وبداخلاقی وغیرہ جیسے عمل کا مرتکب لوگ بھی بدترین انسان ہیں،کیوںکہ ایسے لوگوںسے بھی خیرکی توقع نہ کی جاتی اورنہ اس کے شرسے لوگ مامون نہ ہوتے ہیںلہذا وہ بھی بدترین انسان جن کو حدیث میں براکہاگیاہے۔
٭٭٭

Tuesday 12 February 2013

بہترین انسان کون ؟ Who is the best man


بہترین انسان کون ؟

اس کائناتِ رنگ وبومیں بہت سے انسان بستے ہیں۔ان میں کچھ اچھے ہوتے ہیںاورکچھ برے ۔ دنیا کا ماحول چاہے جتنا خراب ہوگیاہومگر آج بھی لوگ اچھے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اوران کے پاس بیٹھ کر سکون ِقلب حاصل کرتے ہیں۔ برائیوں کے فروغ کے باوجود اچھائیوںکی طرف راغب ہوتے ہیںاوربرے لوگوںسے نفرت کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں رحم دلی قائم ہو۔کسی کوتکلیف پہنچے تو قریب اور دور ہرجگہ کے لوگ ہمدردی کے لیے جمع ہوجائیں ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ انسان کے اچھے یابرے ہونے کا معیارکیاہے ؟
 نبی کریم ﷺ نے واضح انداز میںاس کاجواب دیاہے۔آپؐ کی تربیت کا ایک منفرد انداز تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ تم میں سے بہترین انسان کون ہے؟۔ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ صحابہ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺآپ ضرور ارشاد فرمائیں ۔ نبی ؐ نے فرمایا:
’’خیرکم من یرجی خیرہ ویومن شرہ  (ترمذی:باب الفتن(
          تم میں بہتر ین شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
معلوم ہوا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے لیے نفع بخش ہو اورلوگ اس سے پوری طرح محفوظ ومامون ہوں۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ نفع کا خواہشمندہوتاہے اورنقصان اسے گوارانہیں ہوتا۔یہی مزاج اسلام کا بھی ہے وہ چاہتاہے کہ انسانیت کوفروغ ملے اور انسانوںکو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ دی جائے۔اسلام خدمت خلق کا وسیع تصورپیش کرتاہے۔جوانسان دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے وہی بہترین انسان ہے۔اللہ نے دنیاکی جتنی بھی چیزیں پیدا کیں وہ انسان کی خدمت میں لگی ہیں۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرالناس انفعہم للناس(بیہقی شعب الایمان(
لوگوںمیں سب سے بہتروہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ 
انسان کو دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ مزیدنفع بخش ہونا چاہیے ،اسے دوسروںکوفائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔نفع خواہ دین کا ہویا دنیا کا، البتہ دین کا نفع دنیاکے نفع سے بہترہے ۔ اگرکوئی شخص دین کی بات پہنچاتاہے ۔ انسانوں کو اللہ کے احکام کی تعلیم دیتاہے تو وہ شخص بہترین مانا جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے انسان کی ضرورت پوری کی اوراس کے کام میں اس کی مددکی تو یہ بھی نفع پہنچانے کی ایک صورت ہے۔ اسے سخاوت یا ہمدردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص بھی اچھا انسان ماناجائے گا۔ اگروہ دوسرے کوکوئی نفع نہ پہنچائے توکم ازکم ان کوتکلیف بھی نہ پہنچائے ۔ اگروہ تکلیف پہنچانے سے بازنہ آئے تووہ شخص بدترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ؐ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :تم میں بدترین انسان وہ ہے جس سے خیرکی توقع نہ کی جائے اورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں۔(ترمذی:باب الفتن (
قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے ۔یہ انسان کو بہترین انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے ۔ خلوص کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والا یقینا اچھاانسان ہوگا، انسانیت کی تعمیراورترقی کا نسخہ قرآن مجید ہے اس میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ،(بخاری(
 تم بہترین انسان وہ ہے جوقرآن سیکھے اور سکھائے۔
انسان اپنے کردارسے ہی اچھا یابراسمجھا جاتاہے ۔ ایک اجتماعی زندگی، جواسلام میں پسندیدہ ہے،اس کی تعمیرکی بنیاد ہی انسان کے اعمال اور کردار پر ہے اگر انسان کا رویہ اچھا نہیں ہوگا تونہ صرف اجتماعیت کی بقا ممکن نہیں ہے بلکہ معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔ نت نئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اجتماعیت ٹوٹ پھوٹ کربکھرجائے گی اوروہ معاشرہ ہی اختلاف و انتشار کاشکار ہوکر رہ جائے گا، جس پر انسانی زندگی کا چین وسکون موقوف ہے۔
انسان کے اچھے اعمال اس کی بہترین شخصیت کے غماز ہوتے ہیں ۔ جب نیک انسان دنیاسے چلا جاتا ہے توبھی ان اچھے کارناموں کو لوگ یادکرتے ہیں اوران سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کے اعمال حسنہ صدقہ جاریہ بن کراس کے قلب وروح کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔اس لیے وہ شخص یقینابہترمانا جائے گا جس نے عمربھی لمبی پائی اوراعمال بھی اچھے کئے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؐ سے ایک دیہاتی نے سوال کیاکہ اے اللہ رسولؐ  ’’من خیرالناس ؟  (لوگوںمیں بہترین انسان کون ہے؟)  آپ نے ارشاد فرمایا:
 ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘(ترمذی(
جس کی عمرلمبی ہواوراس کے کام اچھے ہوں۔
انسان کا کردار بنانے ،سنواراوراسے نکھارنے کے لیے ہی نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی۔آپ نے اپنا مشن واضح کرتے ہوئے فرمایا:
                     انمابعثت لاتمم مکارم الاخلاق،(مسند احمد(
’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔‘‘اچھے اخلاق ہی سے انسان اچھا بنتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:ان من اخیرکم احسنکم اخلاقا۔ بخاری ( تم میں بہترین انسان وہ ہے جو تم میںاخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھاہو۔)اخلاق انسانیت کازیورہے اس سے شخصیت میں حسن پیداہوتاہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایا
       البرحسن الخلق  (مسلم(
نیکی حسن اخلاق ہے۔
جوشخص بااخلاق ہوگا اس سے خیرکی ہی توقع کی جاتی ہے ۔ یہ صفت جس شخص کے اندرہے وہ بہترین انسان ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں،جن کا معاشرے میں بہت نام چلتاہے اوران کی تعریفیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں اور اپنے گھروالوں اور اہل وعیال کے لیے بہت برے ہوتے ہیں۔ان کے حقوق ادانہیں کرتے، ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اوران کی اصلاح وتربیت سے غافل رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ حقیقت میں اچھے انسان نہیں ہیں۔اچھے انسان وہ ہیں وجواپنے گھروالوں کے لیے بھی اچھا ہو۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
 خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی ۔ (ترمذی)
 تم  میں بہترشخص وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے بہترہواورمیں اپنے اہل وعیال کے بہتر ہوں۔
معاشرے کو پرامن بنانے اورانسانیت کو اس کے حقوق دلانے کے لیے عدل و انصاف کا قیام ناگزیرہے۔ جو شخص جونظام حیات کودرست رکھنے کے لیے انصاف کا علمبردار ہو اور اسے فیصلہ کرنے کاموقع ملے توغیرجانب دارہوکر پوری ایمانداری کے ساتھ انصاف کرے، وہ بہترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
فان خیرالناس احسنہم قضاء    (ابن ماجہ(
’’بہترین انسان وہ ہے جوفیصلہ کرنے میں اچھاہو۔‘‘
انسانوں کے کچھ ایسے افعال وکردارہوتے ہیں جودوسرے لوگوںکے دلوںپر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں ۔ان کی خوبی ان کی پہچان بن کرلوگوںکو راغب کرتی ہے۔نبی کریم ﷺ سے دریافت کیاگیا :
ای الناس افضل؟ قال :کل مخموم القلب ،صدوق اللسان۔(ابن ماجہ(
اے اللہ کے رسول بہترین انسان کون ہے؟ تو آپؐ نے ارشادفرمایاکہ جوصاف دل اور راست گوہو۔
آپﷺ کوجوامع الکلم کا اعزازحاصل ہے ۔آپ ؐ کا یہ کمال ہے کہ آپ مختصرگفتگومیں پوری بات کہہ دیتے تھے۔مذکورہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔آپ ؐنے اپنے اس مختصرقول میں ان دوجملوں میں ایک اچھے انسان کی پوری شناخت واضح کردی ہے۔ صدوق اللسان سے مراد وہ شخص ہے جوقول وعمل ،نیت وارادے ، ایفائے عہد وغیرہ کے اعتبارسے سچا ہو۔جس کا دل آئینہ کی طرح صاف ہواوراس میں گناہ یاسرکشی نہ ہو۔ایسا شخص ایک صالح معاشرے کے لیے مفید ہوتاہے اس سے استفادہ کی خاطر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اس طرح وہ لوگوںمیں محبوب ہوتاہے۔
٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...