Sunday 23 March 2014

Neki par Mudawamat



نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ وہ کتنا ہی معمولی اور چھوٹا ہی کیوں نہ ہومگراسے معمولی نہیں  سمجھناچاہیے۔  بلکہ اسے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ساتھ ہی انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ جو بھی نیک عمل انجام دے اسے مسلسل جاری رکھے۔  یہ طرزصالح معاشرہ کے لیے ضروری ہے ۔ اس سے زندگی پر مفیداثرات پڑتے ہیں۔ اللہ کے رسول  ﷺ نے نیکی اور  بھلائی کے کسی بھی عمل کو حقیرسمجھنے سے منع فرمایاہے۔  آپ ؐ کا ارشادہے:
لا تحقرن من المعروف شیئاً ،ولوأن تلقی اخاک بوجہ طلق
کسی بھی بھلائی کو ہرگزحقیرنہ جانو خواہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔ )مسلم )
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں  ہر کارخیرخواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔  اس لیے کسی بھی نیک عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں  ہے۔  اس روایت میں  خندہ پیشانی اور  مسکرا ہٹ کے ساتھ ملنے کوپسندیدہ وصف قراردیاگیاہے ۔   لوگوں  کی نظرمیں  عموماًاس کی کوئی خاص اہمیت نہیں  ہوتی مگر اخلاقی اعتبارسے یہ ایک عمدہ صفت ہے جوباہمی محبت کی مظہر ہوتی ہے۔

اسی طرح معاشرہ میں  اگرہم کسی ضعیف کو دیکھیں  کہ وہ اپنا سامان اٹھائے بوجھل ہوکر چل رہاہے توچاہئے کہ اس کی مددکے لیے ہم آگے بڑھیں  اور  خود اس کابوجھ اٹھالیں  یہ بھی ایک کارخیرہے۔  کوئی کمزور آدمی سیڑھیوں پر اپناسامان اٹھائے نہیں  چل پار رہاہے تووہاں  بھی اس کی مددکرنا ،یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے جسے انجام دینا چاہیے۔

دسترخوان پر گرے دانے کو اٹھاکرکھانا نعمت کی قدرکا احساس دلاتاہے ،یہ بھی نیکی ہے ،رسول اللہ   ﷺکے ارشاد کے مطابق ایسا کرنا حصول برکت کے لیے ضروری ہے۔  اس کے علاوہ بھی ایسی بہت سی مثالیں  ہیں  جن کو بھلائی اور صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنویں  سے پانی نکال رہاہے۔ اس کا ڈول بھردیں ۔ یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردیں  ۔ یا کسی ضعیف وناتواں  کو راہ پارکرادیں  اور کسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردیں ۔ اسی طرح کے بہت سے اور بھی نیک کام ہوسکتے ہیں ۔  جودیکھنے میں بہت معمولی ہوتے ہیں ۔ مگر ان سے دوسروں کو پریشانی سے نجات ملتی ہے ،اُن کے دل سے دعائیں  نکلتی ہیں ۔ حدیث میں  اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعمال کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور انھیں  صدقہ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:

تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔   (ترمذی)
’’ تیرا اپنے بھائی سے مسکراکرملنانا صدقہ ہے۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔ گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔  کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔  پتھر،کانٹے اور ہڈی کوراہ سے ہٹادینا، تیرے لیے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں  پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘

اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعمال کومعمولی سمجھ کرترک نہیں  کرناچاہیے۔ اس طرح کے اعمال جب انسان کی عادت میں  شامل ہوجاتے ہیں  اور  وہ ان پر مسلسل عمل پیرا رہتاہے تووہ اس کے لیے بڑے خیر کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔  یہ نیکیاں  گناہوں کو مٹاتی ہیں اور  جہنم سے نجات کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ان الحسنات یذہبن السیات (ہود:۱۱۴)          نیکیاں  گناہوں کودورکردیتی ہیں ۔

بہت سی احادیث میں  ایسے چھوٹے چھوٹے اعمال کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور انھیں جہنم کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔  آپؐ کا ارشادہے:  
من استطاع منکم ان یستترمن النار ولو بشق تمرۃ فلیفعل (بخاری ومسلم)
تم میں  جو شخص جہنم سے بچنے کی کوشش کرسکتاہو وہ کرے چاہیے کھجورکا ٹکڑاہی صدقہ کرے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی نیک عمل کریں  تو اسے مسلسل جاری رکھیں ۔  ایسا ہر گزنہ ہو کہ ایک دن جی میں  آیاتوبہت ساری نیکیاں  کیں  پھر اکتاکر چھوڑدیا حتی الامکان جو بھی نیکی ہوسکے اسے مسلسل انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے:
اس سلسلے میں  نبی کریم ﷺ کا ارشادہےعن عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ قال: قال لی رسول اللہ ’’یا عبداللہ! لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل فترک قیام اللیل ‘‘ متفق علیہ۔

’’حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص ؓ بیان کرتے ہیں  کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’ اے عبداللہ! تم فلاں  شخص کی طرح نہ ہونا، وہ پہلے رات کو قیام کرتا(نوافل وغیرہ پڑھتا)تھا۔ پھراس نے رات کاقیام چھوڑدیا۔ ‘‘

اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ جوبھی عمل خیرانجام دیاجائے اس پرمداومت کرنا پسندیدہ ہے۔  اللہ تعالیٰ ایسے عمل کو پسند فرماتاہے جسے مسلسل انجام دیا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں  کہ آپ ؐنے ارشادفرمایا:
وکان احب الدین الیہ ماداوم صاحبہ علیہ۔   (متفق علیہ)
’’اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے، جسے آدمی پابندی سے انجام دے۔ ‘‘

جب انسان کارِ خیرکو اہمیت دیتا ہے توپھراس کے نزدیک کوئی بھی عمل خیر چھوٹا نہیں  رہ جاتا،جب وہ نیک کام کوانجام دیتاہے توپھر اس عمل کو مستقل جاری رکھنے کا عزم بھی کرتاہے ۔ یہ دونوں خوبیاں  جب افراد کے اندرراسخ ہوجاتی ہیں  تو معاشرہ نیکیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے پھرپاکیزہ ماحول میں روح کوتازگی اور قلب کوزندگی ملتی ہے۔
٭٭٭

Thursday 20 March 2014

Sabr aur Shukr Momin ke Imteyazi ausaf



جب سے دنیا کا وجودہے اس وقت سے آج تک جتنے بھی انسان پیداہوئے ۔ ان کو رات اور دن ،دھوپ اور چھاؤں  کی طرح  رنج والم ، فرحت ومسرت ،غم وخوشی کا بھی سامنا رہاہے ۔  ان میں  سے بہت سے لوگ ایسے بھی یا ہیں جواپنی مصیبت اور  پریشانیوں سے گھبراجاتے ہیں  تو بہت سے لوگ فرحت وشادمانی کی لہروں میں  ایسا غوطہ زن ہوتے ہیں  کہ وہ بھول جاتے ہیں  کہ اس سے قبل وہ کس مصیبت سے دوچارتھے اور ایسی تکبرانہ حرکتیں  کرتے ہیں  جوخداکے غیظ و غضب کا باعث ہوتاہے۔  اسلام زندگی کے تمام معاملات میں  انسانوں  کی ہرطرح رہنمائی کرتا ہے ۔  چنانچہ اس نے رہ نمائی کی ہے کہ وہ خوشی کے موقع پر،اسی طرح غم کے موقع پر کیا رویہ اختیار کرے۔
اسلام نے ان دونوں معاملات کا حل صبراورشکرکے طورپر پیش کیاہے۔  صبر اور شکر کا رویہ دونوں طرح کے مواقع پر انسان کومعتدل اندازمیں  زندگی گزارنے کی تعلیم دیتاہے۔ جس کے لیے خدانے مصیبت سے چھٹکارااوراجرعظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیشتر مقامات پر ابتلاء وآزمائش کے واقعات کے ساتھ صبراورانسانوں پر اپنے انعامات واحسانات کا تذکرہ کرکے شکرکا حکم بھی دیاہے۔ تاکہ بندہ لازما اس کا پابند بنے۔
صبرکی تعریف :
صبرکے اصل معنی رکنے کے ہیں ۔ یعنی نفس کو گھبراہٹ ،مایوسی اور دل براشتگی سے بچاکر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ قرآن میں  عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتاہے کہ بندہ پوری طمانینیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہدپر قائم رہے اور اس کے وعدوں پریقین رکھے۔ عام طور پر لوگ صبر سے عجز و مسکنت ،بے بسی اور لاچاری یکھانا مرادلیتے ہیں ۔ یہ درست نہیں  ہے۔  قرآن کریم  کی اس آیت کریمہ سے اس کے اصل معنی کا پتہ چلتاہے۔
والصابرین فی الباساء والضراء  و حین البأس  (البقرۃ:177 )
’’اورثابت قدمی دکھانے والے ،سختی میں تکلیف میں  اور لڑائی کے وقت۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں  صبرکے تین مواقع ذکر کئے گئے ہیں ۔ غربت،بیماری اور جنگ ، غور کیجئے توتمام مصائب وشدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں ۔
صبرانسان کے اس قابل تعریف عمل کانام ہے، جس کا اظہار مختلف حالات میں  مختلف طریقوں  سے ہوتا ہے ۔  اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :
۱۔ کسی مصیبت کے وقت اپنے نفس پرقابو رکھنا   ۲۔ میدان جنگ میں  ڈٹے رہنا
۳۔ گفتگومیں  رازداری کا خیال رکھنا   ۴۔ نفس کوعیش کوشی سے محفوظ رکھنا
۵۔ ناجائز طریقے سے شہوانی خواہشات کی تکمیل سے بچنا
۶۔ شرافت نفس کا خیال رکھنا         ۷۔ غصے کی حالت میں  نفس کو قابومیں  رکھنا
صبرکی اہمیت کے پیش نظر یہ کہنا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں  تقریباً نوے مقامات پر ’’صبر‘‘کا تذکرہ فرمایاہے اور مشکلات میں  صبرکی تلقین کی ہے ۔ ساتھ ہی خودکو صبرکرنے والوں  کے ساتھ ہونے کا اعلان بھی کیاہے۔ ان میں  سے چند آیات کا ذکرکیاجارہاہے :
استعینوا بالصبروالصلوۃ وانہا لکبیرۃ الا علی الخاشعین (البقرۃ:45)
صبراورنماز سے مددلو،بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگران لوگوں کے لیے مشکل نہیں  ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔
ایک اور جگہ اسی طرح کا مفہوم پیش کیاگیاہے:
یا ایہاالذین آمنوا استعینوا بالصبروالصلوۃ ان اللہ  مع الصابرین   (البقرۃ:153)
اے ایمان والو!صبراورنماز سے مددلو،یقینا اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
جو لوگ اللہ پرایمان رکھتے ہیں  اور اس سے ڈرتے ہیں  انھیں  کسی طرح کا خوف نہیں  ہوتا ہے۔  وہ اپنے حال پرصبرکے ساتھ جمے رہتے ہیں ۔  اس لیے اس آیت میں  اللہ نے انھیں  صبر اور  نماز کے ساتھ اپنی پریشانیوں میں  ڈٹے رہنے کا حکم دیا۔ صبرکا تعلق چوں کہ انسان کے اخلاق کردار سے ہے اور  نماز کا تعلق عبادات سے ہے، اس لیے اگریہ دونوں چیزیں  شامل رہیں  تو ہر انسان ہرپریشانی کو بہ آسانی برادشت کرسکتاہے۔
یہ محاورہ بہت مشہورہے کہ صبرکا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنا عمل جاری رکھے اور  اس میں  کسی طرح کی کوئی دشواری پیش آئے توصبرکے ساتھ اسے انجام دیتاچلاجائے ۔  اللہ ایسے بندوں  کو نوازتاہے۔  صبرانبیاء کرام کی سنت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے صبرکو امامت کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ
اورجب انھوں نے صبرکیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندرہم نے ایسیے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔   (السجدہ:24)
خودنبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں  تو معلوم ہوگا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں  کتنے مصائب وآلام سہے اور ان کامقابلہ کرتے رہے۔ مکہ والوں نے آپ ؐکا اور  آپ کے ساتھیوں  کا بائیکاٹ کردیا ،نتیجۃًآپ نے پورے قبیلہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں  پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں سمیت تین سال تک اس میں صعوبتیں  برداشت کرتے رہیں  ، جب وہاں سے نکلے تو چند روزبعدآپ کے ہمدرد وغمخوارچچا ابوطالب اور اس کے تین یاپانچ روزبعد آپ کی ہمدردشریک حیات ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کا بھی انتقال ہوگیا، اسی وجہ سے اس سال کو عام الحزن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  مگر ان تمام ترمصیبتوں کے باوجودآپ ؐ اپنے خداکے وعدے کے مطابق صبرکرتے ہوئے اپنے مشن پر قائم رہے ۔ صبر کی اہمیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے،آپؐ کا ارشادہے:
واعلم ان النصرمع الصبر وان الفرج مع الکرب وان مع العسریسرا   (ترمذی)
جان لو کہ صبرکے ساتھ کامیابی ہے اور  مصیبت کے ساتھ کشادگی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔
اللہ تعالی نے صبرپر فراوانی اور کشادگی کا وعدہ کیا ہے۔ اس وعدے کا انتظار توکل کے ذریعے ہوتاہے۔  اس لیے اس انتظار کو عبادت شمار کیا جاتا ہے۔  انسان کے لیے اس وقت صبرکرنا آسان ہوجاتاہے جب اسے یقین ہوکہ اللہ اسے اس پریشانی سے نجات دے گا۔ سورۃ شرح میں  اس مفہوم کوپیش کیا گیاہے۔   جس پرعربی شاعر نے کہا ہے   ؎
اذا اشتدت بک البلوی ففکرفی الم نشرح
فعسر بین یسرین اذا فکرتہ  ففرح
’’جب پریشانی بڑھ جائے تو الم نشرح کی سورۃ پرغورکروایک دشواری دوآسانیوں  کے درمیان ہوتیہے، جب اس پر غورکرو گے تو تم کوخوشی ہوگی۔ ‘‘
شکرکی تعریف:
شکرکی تعریف کرتے ہوئے علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں :
’’شکرکہتے ہیں :اللہ کے بندوں پر اس کی نعمت کااثر ظاہرہونا۔ خواہ وہ بذریعہ زبان ہوجیسے اللہ کی تعریف کی جائے یا اعتراف نعمت کیاجائے،یا پھر بذریعہ دل ہو، محبت اور لگاؤ کے سبب۔ یا پھر اعضاء وجوارح کے ذریعہ مثلاً خودکواس کے سامنے جھکادیاجائے ،یا اس کی اطاعت کی جائے۔
جذبہ شکرانسان کے اندرعبدیت کو اجاگرکرنے میں  معاون ثابت ہوتا ہے ۔ جو بندہ کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔ اس لیے جب انسان کی پریشانی دورہوجائے اور اسے خداکی طرف سے نعمت وراحت میسرہو  تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کو نہ بھولے بلکہ اس کا شکر ادا کرے۔  جس کا اظہارقول و عمل دونوں سے ہونا چاہیے ۔ شاکر بندہ اپنے رب کے بہت سے انعامات و اکرامات سے فیض یاب بھی ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (النحل: 78) 
اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں  کے پیٹوں سے نکالااس حالت میں  کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمھیں  کان دیے، آنکھیں  دیں اور سوچنے والے دل دیے۔  اس لیے کہ تم شکرگزار بنو ۔
مزیداللہ تعالی کا فرمان ہے:
واذ تأذن ربکم لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید    (ابراہیم:7)
اوریاد رکھو، تمہارے رب نے خبردارکردیاتھا کہ اگرشکرگزاربنوگے تو میں  تم کو زیادہ نوازوں گا اور اگرکفران نعمت کروگے تو میری سزابہت ہے‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے شکرگزاربندوں کو بہت زیادہ نوازنے کا وعدہ کیا ہے۔  یہ دراصل شکرکا بدلہ ہے ۔ اس کے برعکس ناشکری اور نعمت کی ناقدری کرنے والے پر سخت سزاکی وعیدبھی سنائی ہے جوناشکری کی سزاہے۔
یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَاء ُ مِن مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْراً وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ                                                 (سبا:13)  
وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں ،تصویریں ، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ۔  اے آل داؤد، عمل کروشکرکے طریقے پر، میرے بندوں  میں  کم ہی شکرگزارہیں ۔
شکرکا طریقہ تو یہ ہے کہ جس پر انعام کیاگیاہو وہ اپنے محسن کوفراموش نہ کرے اور اس کی باتوں کی پیروی کرے،وہ بھلے کام کا حکم دیتا ہے تواسے انجام دے اور اس کی منع کردہ باتوں  سے بالکلیہ اجتناب کرے۔ قرآن کریم دیگر آیات سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں  پر بے شمار انعامات واکرامات کیے ہیں ۔
ان تعدونعمۃ اللہ فلاتحصوہا
 ’’اگرتم اللہ کی نعمتوں  کوشمارکرناچاہوتو تم اس کا احاطہ نہیں  کرسکتے ۔ ‘‘ (ابراہیم:34)
اس لیے اس کی فرماں  برداری ہی اس کا شکرہے۔  نبی کریمﷺ اللہ تعالی کا بہت زیادہ  شکرکرنے والے تھے ۔ صحابہ نے آپ کی کثرت عبادت کو دیکھ کر سوال کیاکہ آپ اتنی زحمت کیوں  برداشت کرتے ہیں ۔  جس کے جواب میں  آپ ؐ نے فرمایا:
افلا اکون عبدا شکورا۔      (مسلم)    ’’کیا میں  شکرگزاربندہ نہ بنو؟‘‘
یہ شکرکیسے پیداہو اس کا طریقہ نبی کریم ؐ نے بتایاکہ بندہ تھوڑی سی چیزپر بھی شکرکرے ، لوگوں  کے احسان پر اس کا شکرادا کرے یہی جذبہ اسے بہت زیادہ پر اور  اللہ کے شکرپر بھی اسے آمادہ کرے گا۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے:
من لم یشکر القلیل ،لم یشکرالکثیر، ومن لم یشکرالناس لم یشکراللہ، التحدث بنعمۃ اللہ شکر، وترکہا کفر،والجماعۃ رحمۃ، والفرقۃ عذاب  (مسند احمد)
جوتھوڑے پر شکرنہیں  کرتاوہ زیادہ پر بھی شکرگزارنہیں  ہوگا۔  جو لوگوں کا شکرادانہیں  کرتا ووہ اللہ کابھی شکرگزارنہیں ہو گا۔  اللہ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکرہے، اور اس کا چھوڑدینا کفرہے۔  جماعت میں  مل کررہنارحمت ہے اور الگ الگ رہنا عذاب ہے۔
اس امت کی سب سے بڑی خوبی اور فضیلت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہر حال میں  خیر ہی خیررکھا ہے۔  جب کہ یہ کیفیت کسی اور قوم ،مذہب یا ملت میں  نہیں  ہے۔ کیوں کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگرانھیں  خوشی ملتی ہے تو وہ بے خود ہوجاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں  الٹی سیدھی حرکت کربیٹھتے ہیں ۔ جو ان کی مصیبت کا سبب بن جاتاہے ۔ اسی طرح اگران کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس میں  بہ اتنا بے چین وبے قرارہوجائیکہپھر چاروطرف آہ وبکا کرتے پھرتے ہیں ۔ جب کہ مؤمن ایسا نہیں  کرتا۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے:
عجباً لامرالمؤمن ،ان امرہ کلہ خیر،ولیس ذاک لاحد،ان اصابتہ سراء شکر،فکان خیرا لہ،وان اصابتہ ضراء صبرفکان خیرا لہ   (مسلم )
’’مؤمن کا معاملہ عجیب وغریب ہے۔ اس کے تمام حالات بہترہیں ، یہ کیفیت اس کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ۔  اگراسے خوشی ملتی ہے تواس پر شکرکرتا ہے، جو اس کے بہترہوتاہے۔  اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواس پر صبرکرتا ہے، یہ اس کے لیے بہترہوتاہے۔ ‘‘  (مسلم )
شکر ایمان کا تقاضا ہے
اللہ تعالی نے بندے کو اختیاردیاہے کہ وہ کون سی راہ اپنائے اگروہ شکرکی راہ اپنائے گا تویہ اس کے حق میں  بہترہوگا ۔ اس کے برعکس اگراس نے کفرکی راہ اپنائی تو یہ اس کے لیے باعث ہلاکت ہوگا۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکرکرنے والا بنے یاکفرکرنے والا(انسان:3)
شکرانسان کے جذبۂ اطاعت کوبڑھاتاہے جواس کے ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے۔  جب انسان اپنے پروردگارکا شکراداکرے گا تولازماً اس کے ایمان کو قوت ملے۔ قرآن پاک میں  ہے:
مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکرا علیما (نسائ:147)
آخراللہ کوکیاپڑی ہے کہ تمھیں  خواہ مخواہ سزادے، اگرتم شکرگزاربندے بنے رہو اور  ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑے قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
صبراورشکرکا تعلق
صبراورشکردونوں لازم وملزوم ہے ۔ اگران میں  سے کوئی ایک مفقودہوگا تو دوسرا بھی لازما موجودنہیں  ہوگا۔ صبروشکرکی اہمیت وافادیت کے پیش نظرسلف صالحین نے اس کا خاص اہتمام کیا ۔  ان کے چند اقوال درج ذیل ہیں :
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں :
الصبر ملاک الایمان لان التقوی أفضل البر. والتقوی بالصبر والصبر مقام (من مقامات الدین).. وان الایمان نصفان متصف فی الصبر ونصف فی الشکر
ایمان کا درومدارصبرپر ہے اس لیے کہ افضل ترین نیکی تقوی ہے اور تقوی کا حصول صبر کے ذریعے ہوتا ہے جب کہ صبر دین کا ایک مقام ہے اور  ایمان کے دوحصے ہیں  ایک صبر دوسرا شکر
ابن عیینۃ فرماتے ہیں :’’ جس نے پنچگانہ نماز ادا کی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ‘‘
’’حسن بصریؒ کا خیال ہے کہ وہ خیرجس میں  کسی طرح کا کوئی شر نہ ہو۔ اس عافیت میں ہے جوشکرکے ساتھ ہو، کتنے احسان مند ناشکرے ہیں ۔ ‘‘
فضیل بن عیاض: علیکم بملازمۃ الشکر علی النعم، فقل نعمۃ زالت عن قوم فعادت الیہم۔
’’فضیل بن عیاض کہتے ہیں : نعمتوں پر مسلسل شکراداکرتے رہو، اس لیے کہ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کوئی نعمت کسی شخص سے چھن جانے کے بعد دوبارہ اسے ملی ہو۔ ‘‘
جہاں  تک صبر اور  شکرکے جزا کی بات ہے توآیات واحادیث میں  اس کی وضاحت آئی ہے۔  صبرکا سب سے بڑا بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں  کے ساتھ ہوتاہے۔  ساتھ ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے (انما یوفی الصابرون اجرہم بغیرحساب۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں  کو بے حساب اجرعطاکرتاہے) ۔  شکر پراللہ کی جانب سے مزید کا وعدہ یہ سب بدلہ ہے، صابر و شاکر بندوں کا۔ اس کے علاوہ یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ وہ ہرحال میں صبروشکرکا دامن تھامے رہتی ہے۔



Wednesday 19 March 2014

Islam Aman Muhabbat aur Musawat ka Paigham


اسلام-امن , محبت اور مساوات کا پیغام

انسانی زندگی امن وطمینان کا خواہواں  ہیں  جس میں  عدل وانصاف ہواور یہ امن واطمینان اور سلامتی کا پیغام دینے والا مذہب ’’دین اسلام‘‘جس کے تئیں  مخالفین نے عام لوگوں  کے درمیان غلط تعارف اور  فتنہ انگیز کار ناموں کے سبب دہشت وحشت کا تصور پیداکر رکھا ہے۔  مگر تاریخ اسلام اس پر  گواہ ہے اور  اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسندحضرات خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں  کہ اسلام درحقیقت انسان کو انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ جوآپسی محبت اور  باہمی مساوات چاہتا ہے۔
اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ عرب جہاں سے اسلام کا آغازہواوہاں کی تاریخ اسلام سے قبل ایسی ظالمانہ ، وحشیانہ اور  جابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں  جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لے سینکروں کی جان لینی پڑے یادینی پڑے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ گویاانتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اور  وقعت نہ تھی۔  تعصب پرستی کا ہال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کوستاتااور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔
الغرض اسلام سے قبل لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصدبھلادیاتھااور خودتراشیدہ بتوں کواپنا معبودحقیقی گردان کران کی پرشتس کرناان کافریضہ اور  خودساختہ راہ اختیار کرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیداکرناان کا شیوہ بن چکاتھانتیجہ ظلم وزیادتی ،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور  بداخلاقی کابازار گرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ وبربادہوچکی تھی اور  نظام عالم تہ وبالاہوگیا تھا۔
ایسے پر خطرحالات میں  جہاں انسانیت سسکتی ہوئی دم توڑرہی تھی ’’اسلام‘‘نے آپسی محبت کاپیغام سناتے ہوئے انسانی جان کی قدر وقیمت بتائی اور  حکم جاری کیا۔
من قتل نفسا بغیرنفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔  (مائدۃ: 32)
کہ ناحق کسی ایک آدمی کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور  اسلام کسی ایک فردکا قتل تودر کنار اس کی ایذار رسانی کوبھی پسند نہیں  کرتا۔  اس پرآپ ؐ کا ارشادہے۔
واللہ لایومن واللہ لایومن واللہ لایومن۔ قیل ومن یارسول اللہ ؟ قال الذی لایامن جارہ بوائقہٗ۔ (بخاری)
بخدا وہ مومن نہیں  بخداوہ مومن نہیں  ،بخداوہ مومن نہیں ۔ دریافت کیا گیا،کون اے اللہ کے رسول !آپ ؐ نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔
مطلب یہ کہ پڑوسی پرظم کرنا اسلام کی علامت نہیں  ہے خواہ وہ پڑوسی کسی بھی مذہب کاماننے والاہو،وہ انسان ہے اس لئے ان سے محبت اور حسن سلوک کرنا چاہئے۔ آپؐ مہمانوں  کے لئے اپنی چادر تک بچھادیتے اور  ان کی ضیافت کرتے تھے خواہ آنیوالاکوئی بھی ہو۔
محسن انسانیت پیغمبر اسلام نے دشمنوں کے ساتھ بھی برتاؤ کیا۔ ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوار لے لی اور  کہنے لگا  ’’من یمنعک منی‘‘  آپ نے فرمایا ’’اللہ‘‘یہ سنتے ہی تلوار  اس کے ہاتھ گر گئی آپ نے تلوار اپنے قبضے میں  لے لی اور   یہی سوال اس سے دہرایامگر آپ نے اس پر کوئی وار نہیں  کیا بلکہ اسے آزادچھوڑدیا۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توچن چن کر  غیر قوموں  کا قتل کروادیتے مگر انسانیت کے تحفظ وبقا کے علمبردارحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا ’’انتم الطلقائ‘‘ کہ تم سب آزادہو کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی۔
یہاں ٹھہر کر ایک شک کاازالہ کرنانہایت ضروری ہے ۔  جولوگ کہتے ہیں  کہ اسلام بہ زور شمشیر پھیلاہے تو یہ پیغامِ انسانیت کیسے ہوسکتاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ اگر اس بات میں  ذر ابھی سچائی ہوتی تومذکورہ آیات واحادیث ،فتح مکہ کا واقعہ اور  آپؐ کااعلیٰ اخلاق کہ اپنے اوپر کوڑے اور  غلاظت پھینکنے والی عورت نے جب بیمار ہونے کے سبب آپ پر کوڑانہ پھینک سکی تو آپؐ اس کی عیادت ومزاج پرسی کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے جس کااس کے قلب پر  گہرا اثر پڑا۔  اسی طرح اس قسم کے دیگر واقعات یہ سب اسلام میں نہیں ہوتاکیوں کہ یہ دونوں  دوالگ الگ متضاد چیزیں ہیں ۔
محمدبن قاسم کی تاریخ بھی دیکھی جاسکتی ہے جس وقت انہوں نے ہندوستان پر فتح کا پر چم لہر ایا اگروہ چاہتے توکسی غیرمسلم کوزندہ نہ چھوڑتے علاوہ ازیں ان کی عبادت گاہیں بھی منہدم کردیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں  کیا،پھردور آیاہندوستان پر  مسلمانوں کی حکمرانی کاتواس کی بھی تاریخ صاف وشفاف آئینے کی مانندہے جس میں ان کے دور حکومت کودیکھاجاسکتا ہے کہ کہیں  کسی غیرمسلموں پر کوئی ظلم زیادتی نہیں ہوئی ۔ اگر ایساہوتا تواس ملک میں نہ توکوئی غیرمسلم نظر آتا اور   نہیں ان کی عبادت گاہیں ایسے میں  اسلام پر اس قسم کا اعتراض کرنا اس پربے بنیادالزام عائد کرنا ہے ۔ یہ اسلام کی شبیہ کوبگاڑنے کی کوشش ہے جوکسی بھی صورت درست نہیں ۔
اس کے بعداسلامی درسیات کے درخشاں پہلوؤں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انسانی نفسیات کاجائزہ لیا جائے توایسافطری طور پر دیکھاگیا کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے تواس کی نگاہ اپنی خبر گیری اور  مزاج پرسی کرنے والوں کوڈھونتی ہے جواسے زندگی کی تسلی اور مرض سے لڑنے کاحوصلہ بخشے،اسلام نے اسے محسوس کیااور مریض کی عیادت کرنااسلام کا ایک حصہ بن گیا۔
آپ ؐ بذات خودمریض کے گھر تشریف لے جاتے اور اسکی عیادت فرماتے ۔اس موقع پر آپ ؐکاارشاد درج ذیل ہے۔
انت رفیق واللہ  الطبیب ۔ اذادخلتم علی المریض فنفسوالہ الاجل فان ذالک لایرد شیاوہویطیب نفس المریض۔ (مسند احمد)
مریض کی عیادت کرنے والااس کا دوست ہے،جب تم کسی مریض کے پاس جاؤتواس کے اجل کومہلت دو (اسکوامیداور حوصلہ دلاؤ)کیوں کہ ایسا کرنے کرنے میں  مریض کونفسیاتی حوصلہ ملتاہے۔
اسی طرح اسلام میں  باہمی مساوات کی اہمیت کچھ اس طرح ہے کہ یہاں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت اور  برتری نہیں  ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے جس کواللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔  فتح مکہ کے  موقع پر آپ کا ارشاد:
یاایہا الناس الآان ربکم واحد وان اباکم واحد الآلافضل لعربی علی عجمی  ولالعجمی علی عربی ولاالاحمرعلی اسود ولاالاسودعلی احمرالابالتقوی۔ (مسنداحمد)
اے لوگوں بلاشبہ تمہار ارب ایک ہے اور تمہارے آباواجدادبھی ایک ہیں جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراور نہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر ،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر  اور  نہ ہی کسی سیاہ کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت اور  بر تری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘اسی بات کی وضاحت کر تاہے ۔  لہذانام ونسب اور   خاندان کی وجہ سے کسی کوکسی پر فخر کرنے کاکوئی حق جواز نہیں اور  نہ ہی کسی کی تحقیر وتذلیل کرنااس لئے رواہے۔  اس جگہ قرآن کریم کی آیت اس بات کاخولاصہ پیش کرتی ہے ۔
یاایہاالذین آمنوالایسخرقوم من قوم عسی ان یکونواخیراًمنہم ،ولانساء عسی ان یکون خیرامنہن ولاتلمزواانفسکم والاتنابزوا بالالقاب۔ بئس الاسم الفسوق بعدالایمان ومن لم یتب فاولئیک ہم الظالمون۔             (الحجرات:۱) 
اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہواور نہ ہی عورتیں عورتوں کامذاق اڑائیں  ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ ایک دوسرے کوطعنہ دو،اور ایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ،ایمان لانے کے بعدبر انام رکھناگناہ ہے، اور  جوتوبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔
رہی بات حسب ونسب اور  خاندان کی جس کامقصدصرف ایک دوسرے کاتعارف ہے۔  جسے خالق جہاں نے اپنے کلام پاک میں کچھ اس طرح بیان فرمایاہے ۔
یاایہاالناس اناخلقناکم من ذکر ووانثی وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفوا۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔    (الحجرات:۱۳)
اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیداکیا۔ (یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اور  تمہیں خاندانوں اور  قبیلوں میں بانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔
اس کا مشاہدہ مسجد میں  لگی صفوں کودیکھ کر کیاجاسکتاہے جس میں  بلاامتیازمختلف قدوقامت ،انفرادی شان شوکت کے حامل ہر طرح کے حضرات کندھاسے کندھا ملائے کھڑے نظرآتے ہیں ۔ اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا    ؎
ایک ہی صف میں  کھڑے  ہوگئے محمود و عیاض
نہ کوئی بندہ رہا اور   نہ کوئی بندہ نواز
ہاں !  اگر اسے بر تری چاہئے تویہ صرف تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور   وہ ہے خداکاخوف پیش نظر رکھنا اور  اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزار نا۔  ایسا دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدار سمجھ کر اپنے کوسب سے بڑا،مقرب اور  قابل فخر سمجھتاہے۔  جواس کی نادانی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتاتوقارون سے زیادہ قابل فخر کوئی نہ ہوتااور ہمیشہ اسے ذکر  خیر  میں  یاد کیاجاتامگر ایسانہیں ہے۔  اگر مالدار ی قابل فخر ہے بھی تو اصل مالداری یہ نہیں  کہ کسی کے پاس ۵  یا ۱۰ لاکھ روپئے ہیں  یا اس سے مزید ملکیت اس کے پاس ہے کیوں کہ ایسی صورت میں  نہ تو انسان کوسکون میسرآتاہے اور نہ ہی اسے قلبی راحت ملتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ مالداری قابل فخر نہیں  جوانسان کواپنے رب کی یادسے غافل کردے بلکہ مالداری ’’ غنی النفس ‘‘ نفس کی مالداری ہے جو خدا کی مرضی کواولیت کا درجہ دے۔ تبھی جاکرانسان قابل فخر،معظم ومکرم ہوسکتاہے۔
انسانی زندگی کو بڑے ہی نازک مراحل سے گزرناپڑتاہے ۔ اس کے کچھ اقدار ہیں  جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگراس کی حفاظت نہیں  کی گئی توانسان انسان نہیں بلکہ ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے جوانسانی سماج میں  نہایت ہی خطرناک اور  انسانیت کے لئے مہلک ثابت ہوسکتاہے۔
اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل ،غارتگری،شراب خوری،فحاشی وزناکاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیا۔  تاکہ انسان کی عزت وشرافت پرکوئی آنچ نہ آئے اور  خدا کے اس کائنات میں  وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکے۔ اسلام نے الیدالعلیا خیرمن الیدالسفلیٰ کانفسیاتی نسخہ عطاکیاتاکہ یہ واضح ہوجائے کہ خدانے جب تمہیں دومضبوط بازو دئیے ہیں  توتم اسے لوگوں کے سامنے پھیلانے کے بجائے کام میں  لاؤ اور خداکی زمین وسیع ہے ’’فانتشروا فی الارض وابتغوامن فضل اللہ ‘‘توتم اسمیں  پھیل جاؤ اور خداکافضل (رزق)تلاش کرو۔
ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت کا شوق دلاتے ہوئے اسلام کہتاہے ’’  لایرحمہ اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوں پررحم نہیں کرتاخدابھی اس پررحم نہیں  کرتا ہے۔
دوسری جگہ
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی)
رحم ووکرم اور دوگذرکرنے والوں پرخدابھی رحم کرتاہے۔ لہذاتم زمین والوں پررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے انسانیت کے تمام گوشوں پرنگاہ ڈال کرانسان کواس کے حقوق عطاکئے ،محبت ومساوات کاپیغام سناکراسے جینے کے آداب سکھائے اور  اسے جینے کا صحیح راستہ دکھاکروحشی اور درندوں  کی صفوں سے نکال کراسے اشرف المخلوقات آدم کی اولاد کا وقاربخشا۔ پھراسلام کے ساتھ دہشت وفسادکوجوڑکراسلام کی شبیہ کوبگاڑنے کی ناکام کوشش کرنا ، درحقیقت ببول کی درخت سے آم کاپھل لانے کے مترادف ہے، جوعناد،ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی حماقت ہے۔
بہرحال اہل اسلام کوموجودہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں  ہے اور نہ ہی جذبات میں  آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ بلکہ اپنے مذہب پرمضبوتی سے قائم ودائم رہیں  ۔  بس یہ سمجھ لیاجائے کہ خداکافرمان برحق ہے ’’ان الدین عنداللہ الاسلام ‘‘یعنی قابل اعتبار اور قابل نجات مذہب اسلام ہی ہے خواہ دنیاوالے کچھ بھی کرلے۔ اس پرآپؐ کا ارشادمزید اس کی وضاحت کرتاہے ۔  ’’الاسلام یعلی ولایعلی‘‘یعنی اسلام اپنے اوصاف حمیدہ کے سبب غالب ہونے کے لئے آیاہے تواسے کوئی بھی فتنہ،پروپگنڈہ یاطاغوتی ہتھیارکبھی مغلوب نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ مذہب ِانسانیت ہے جوزندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے جوآپسی محبت اور باہمی مساوات کاپیغام دیتاہے۔ اس لیے جواسلام کے دشمن ہیں  اور  مسلمانوں کوحراساں  کرنے کی کوشش کرتے ہیں  وہ درحقیقت انسانیت کے دوست نہیں  اس کے جانی دشمن ہیں ۔
٭٭٭

Monday 17 March 2014



اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندرون میں  ایک محتسب اور نگراں  رکھا ہے،جسے ضمیر کہاجاتا ہے ضمیر جب تک جاگتا رہتا ہے،سب کچھ ٹھیک رہتاہے مگراس کے مردہ ہوتے ہی اعضائے جسم اچھے برے کی تمیز کھودیتے ہیں  اور انسان نفس کی رومیں  بہہ جاتاہے۔
ضمیر کے بیداررہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں  ہوتا، بلکہ معاشرے میں  جب بھی برائی ،بدعنوانی یا ناجائز  کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان وشوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے ، اس وقت انسان کا ضمیرشیطانی روپ اختیار کرلیتاہے اور وہ معاشرے میں  منفی کردارانجام دینے لگتاہے۔  آغاز میں  وہ اس فعل بد اور منفی کردارکو چیلنج کے طورپر لیتاہے۔ مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کرکے معاشرے میں  پسندیدہ نگاہوں  سے دیکھے جارہے ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ایسا کرے چنانچہ وہ اپنی محنت اور کوشش کو تیز کردیتا۔ جب تک اسے اس فعل کے برے انجام کا احساس ہوتاہے تب تک وہ اس دلدل میں دھنس چکاہوتا، جس سے نکلنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور  غربت کا خوف اسے اس دلدل میں  مردہ زندگی بسرکرنے کے لیے مجبورکرتاہے ۔
پھروہ جھوٹ، رشوت،چوری ،قتل وخوں ریزی کا بازارگرم کردیتاہے ،جس سے معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً رشوت خوری ایک بہت برا فعل ہے۔  حق دارسے حق چھین کرغیرمستحق کوحقداربنانے کے لیے یہ فعل بدانجام دیا جاتا ہے۔  اس فعل میں  رشوت دینے والااوررشوت لینے والادونوں  ملوث ہوتے ہیں  ۔ کیوں کہ ایک شخص اگروہ حقدارنہیں  ہے تو کیوں دوسرے کا حق لینے کی کوشش کر رہا ہے ، پھریہ جانتے ہوئے کہ اس میں  صاحب حق کی حق تلفی ہوگی رشوت لینے والا اس غلط اور ناجائز طریقے سے اس کی مددکررہاہے۔ اسی لیے دونوں  گنہگار ہوں گے۔  اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کی مددکرتے وقت اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس کے عوض مال کا مطالبہ کرے یالاچارشخص اس کو پیسہ دینے کے لیے مجبورہوقرآن کریم میں  یہ صفت یہودیوں  کی قراردی گئی ہے:
سَمّاعون الکذب اکالون للسحت۔ (المائدۃ:42)
’’یہ لوگ جھوٹ کو سننے والے اور حرام کا مال کھانے والے ہیں ۔ ‘‘
حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ نے سحت سے مراد رشوت لی ہے۔ نبی کریمﷺ نے رشوت کا لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے:
لعن رسول اللہ علی الراشی والمرتشی
’’رسول اللہ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والوں پر لعنت فرمائی۔ ‘‘مسنداحمد کی روایت کے مطابق آپ کا ارشادہے:
مامن قوم یظہر فیہم الربا، الا اخذوا بالسنۃ، وما من قوم یظہر فیہم الرشا، الا اخذو ابالرعب
’’جس قوم میں  سودعام ہوجائے وہ قحط سالی کا شکار ہوجاتی ہے اور  جس قوم میں  رشوت عام ہوجائے وہ خوف ودہشت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ‘‘
رشوت کا یہ طریقہ نہ صرف مشکلات پیداکرتاہے، بلکہ زندگی کوبھی خطرے میں  ڈال دیتا ہے۔  مثلاً آج مکانات تیارکیے جاتے ہیں  توان میں  اس قدر پیسہ نہیں  لگتاجس قدراس کے بیچنے والے اپنا بھاؤرکھتے ہیں ۔  یا دیگراشیاء جوانسانوں  کی بنیادی ضرورتوں میں  سے ہیں ۔ مگرجب بلڈر یا تاجرسے اس سلسلے میں  معلوم کیاجاتاہے تووہ کہہ دیتے ہیں  کہ ہمیں  ان چیزوں  کی تیاری میں  بہت زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے ، اس کے بغیر ہم انھیں  تیارنہیں  کرسکتے ۔
ایسے تاجراپنی مصنوعات کی قیمت کو مناسب رکھنے کے لیے رشوت میں  تو کمی نہیں  کرپاتے کیوں کہ وہ ان کے بس میں  نہیں  ہوتا،مگروہ میٹیریل میں  کمی کردیتے ہیں  جس سے وہ مکان یا سامان ،انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتاہے۔  آئے دن اس طرح کے واقعات اخباروں میں  پڑھنے کو ملتے ہیں ۔  جب کہ رشوت کا یہ مال سفید پوش سرمایہ کاروں کی جیب میں  جاتاہے ،اولاً ایسے واقعات کی چھان بین نہیں  ہوتی، اگر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں  کچھ کارروائی ہوئی بھی توصرف وہ لوگ گرفت میں  آتے ہیں جو رشوت دینے والے ہوتے ہیں ۔  مگر پس پردہ رہنے والے سفیدپوش سرمایہ داروں   کا کچھ نہیں  بگڑتا۔ اس طرح رشوت اور بدعنوانی کا عام رواج ہوجاتاہے ۔ پھر اندرونی طور پراس کاربدکی مدح سرائی یا اس کومزے لے لے کر بیان کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے تب یہ رویہ ان کے ارد گرد رہنے والے عام لوگوں میں  اس برائی کو پیداکرنے کا محرک بن جاتاہے ،جومعاشرے کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔
غورکرنے کی بات ہے کہ ایک شخص جواپنے بچے کو اس کی ذہانت کے سبب بڑاڈاکٹریا انجینئربناناچاہتاہے ،تاکہ معاشرے میں  اس کی تحسین ہواوروہ لڑکا آئندہ اس کے لیے بڑے بینک کا اے ٹی ایم ثابت ہو،جس میں  ہروقت روپے بھرے ہوں ۔  تو وہ اس کے لیے ڈونیشن کے طور پرلاکھوں ، روپے صرف دیتاہے۔  پھرجب یہ بچہ بڑاہوکر اپنی تعلیم مکمل کرلیتاہے تواپنے باپ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ضمیرکا سودا کرتا ہے اور رشوت کا کھیل شروع کر دیتا ہے۔
موجودہ دورمیں  ایسی ہی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، جو رشوت خوری کی بنیادپرکھڑی ہو۔  ایسے میں  دوسرے لوگ اس میدان میں  پیچھے کیوں رہیں  ، اس میں  عزت بھی ہے اور پیسہ بھی۔  ایسا ہی کچھ معاملہ ملک کے ان نیتاؤں کا بھی ہے جو انتخاب میں کامیابی کے بعد ملنے والے بے حساب پیسوں  کے لیے لاکھوں ،کروڑوں روپے انتخابی مراحل میں  بے دریغ خرچ کرتے ہیں ۔  پھراس کے بعد وہ کیاکرتے ہیں  ۔  اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں  ہے۔ یہی حال تمام معاملات میں  ہے،شایدہی کوئی جگہ ہوجواس سے خالی ہو۔
معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اس کی تعمیر وترقی یا اس کے برعکس تخریب وتنزلی کا معاملہ بھی اس میں  رہنے والے افرادکے کارناموں  سے ہی وجودمیں  آتاہے۔  اگر ہم چاہتے ہیں  کہ ہمارا معاشرہ پرامن اور خوشحال رہے توہمیں  ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا فریضہ انجام دینا ہوگا ۔  ورنہ معاشرے کے افرادبڑی تعداد میں  جرائم میں  ملوث ہوں گے اور اسباب تعیش کے حصول، مال واساب کے غرور میں  چور ہوکروہ دوسروں کوبھی اس مایا جال میں  پھنسانے پر مجبورکریں  گے۔
ضمیرکو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں  اسلامی احکام کو ملحوظ خاطررکھنا ہوگا۔  ہمہ وقت یہ تصور ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے۔  اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے ۔  اصل زندگی آخرت کی ہے۔  جب ہم اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوں گے اور  مضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں  گے توپھرہمارا ضمیرہمیشہ بیداررہے گا اور ہم احساس کمتری کا شکار ہوکرعارضی دنیاکوترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی ،اس کی راحت اور وسکون فوقیت دیں گے ۔
٭٭٭


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...