Sunday 23 March 2014

Neki par Mudawamat



نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ وہ کتنا ہی معمولی اور چھوٹا ہی کیوں نہ ہومگراسے معمولی نہیں  سمجھناچاہیے۔  بلکہ اسے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ساتھ ہی انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ جو بھی نیک عمل انجام دے اسے مسلسل جاری رکھے۔  یہ طرزصالح معاشرہ کے لیے ضروری ہے ۔ اس سے زندگی پر مفیداثرات پڑتے ہیں۔ اللہ کے رسول  ﷺ نے نیکی اور  بھلائی کے کسی بھی عمل کو حقیرسمجھنے سے منع فرمایاہے۔  آپ ؐ کا ارشادہے:
لا تحقرن من المعروف شیئاً ،ولوأن تلقی اخاک بوجہ طلق
کسی بھی بھلائی کو ہرگزحقیرنہ جانو خواہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔ )مسلم )
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں  ہر کارخیرخواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔  اس لیے کسی بھی نیک عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں  ہے۔  اس روایت میں  خندہ پیشانی اور  مسکرا ہٹ کے ساتھ ملنے کوپسندیدہ وصف قراردیاگیاہے ۔   لوگوں  کی نظرمیں  عموماًاس کی کوئی خاص اہمیت نہیں  ہوتی مگر اخلاقی اعتبارسے یہ ایک عمدہ صفت ہے جوباہمی محبت کی مظہر ہوتی ہے۔

اسی طرح معاشرہ میں  اگرہم کسی ضعیف کو دیکھیں  کہ وہ اپنا سامان اٹھائے بوجھل ہوکر چل رہاہے توچاہئے کہ اس کی مددکے لیے ہم آگے بڑھیں  اور  خود اس کابوجھ اٹھالیں  یہ بھی ایک کارخیرہے۔  کوئی کمزور آدمی سیڑھیوں پر اپناسامان اٹھائے نہیں  چل پار رہاہے تووہاں  بھی اس کی مددکرنا ،یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے جسے انجام دینا چاہیے۔

دسترخوان پر گرے دانے کو اٹھاکرکھانا نعمت کی قدرکا احساس دلاتاہے ،یہ بھی نیکی ہے ،رسول اللہ   ﷺکے ارشاد کے مطابق ایسا کرنا حصول برکت کے لیے ضروری ہے۔  اس کے علاوہ بھی ایسی بہت سی مثالیں  ہیں  جن کو بھلائی اور صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنویں  سے پانی نکال رہاہے۔ اس کا ڈول بھردیں ۔ یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردیں  ۔ یا کسی ضعیف وناتواں  کو راہ پارکرادیں  اور کسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردیں ۔ اسی طرح کے بہت سے اور بھی نیک کام ہوسکتے ہیں ۔  جودیکھنے میں بہت معمولی ہوتے ہیں ۔ مگر ان سے دوسروں کو پریشانی سے نجات ملتی ہے ،اُن کے دل سے دعائیں  نکلتی ہیں ۔ حدیث میں  اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعمال کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور انھیں  صدقہ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:

تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔   (ترمذی)
’’ تیرا اپنے بھائی سے مسکراکرملنانا صدقہ ہے۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔ گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔  کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔  پتھر،کانٹے اور ہڈی کوراہ سے ہٹادینا، تیرے لیے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں  پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘

اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعمال کومعمولی سمجھ کرترک نہیں  کرناچاہیے۔ اس طرح کے اعمال جب انسان کی عادت میں  شامل ہوجاتے ہیں  اور  وہ ان پر مسلسل عمل پیرا رہتاہے تووہ اس کے لیے بڑے خیر کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔  یہ نیکیاں  گناہوں کو مٹاتی ہیں اور  جہنم سے نجات کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ان الحسنات یذہبن السیات (ہود:۱۱۴)          نیکیاں  گناہوں کودورکردیتی ہیں ۔

بہت سی احادیث میں  ایسے چھوٹے چھوٹے اعمال کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور انھیں جہنم کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔  آپؐ کا ارشادہے:  
من استطاع منکم ان یستترمن النار ولو بشق تمرۃ فلیفعل (بخاری ومسلم)
تم میں  جو شخص جہنم سے بچنے کی کوشش کرسکتاہو وہ کرے چاہیے کھجورکا ٹکڑاہی صدقہ کرے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی نیک عمل کریں  تو اسے مسلسل جاری رکھیں ۔  ایسا ہر گزنہ ہو کہ ایک دن جی میں  آیاتوبہت ساری نیکیاں  کیں  پھر اکتاکر چھوڑدیا حتی الامکان جو بھی نیکی ہوسکے اسے مسلسل انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے:
اس سلسلے میں  نبی کریم ﷺ کا ارشادہےعن عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ قال: قال لی رسول اللہ ’’یا عبداللہ! لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل فترک قیام اللیل ‘‘ متفق علیہ۔

’’حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص ؓ بیان کرتے ہیں  کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’ اے عبداللہ! تم فلاں  شخص کی طرح نہ ہونا، وہ پہلے رات کو قیام کرتا(نوافل وغیرہ پڑھتا)تھا۔ پھراس نے رات کاقیام چھوڑدیا۔ ‘‘

اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ جوبھی عمل خیرانجام دیاجائے اس پرمداومت کرنا پسندیدہ ہے۔  اللہ تعالیٰ ایسے عمل کو پسند فرماتاہے جسے مسلسل انجام دیا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں  کہ آپ ؐنے ارشادفرمایا:
وکان احب الدین الیہ ماداوم صاحبہ علیہ۔   (متفق علیہ)
’’اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے، جسے آدمی پابندی سے انجام دے۔ ‘‘

جب انسان کارِ خیرکو اہمیت دیتا ہے توپھراس کے نزدیک کوئی بھی عمل خیر چھوٹا نہیں  رہ جاتا،جب وہ نیک کام کوانجام دیتاہے توپھر اس عمل کو مستقل جاری رکھنے کا عزم بھی کرتاہے ۔ یہ دونوں خوبیاں  جب افراد کے اندرراسخ ہوجاتی ہیں  تو معاشرہ نیکیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے پھرپاکیزہ ماحول میں روح کوتازگی اور قلب کوزندگی ملتی ہے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...