Wednesday 8 February 2017

Urdu Short Story: Bebasi ka Karb

کہانی :

بے بسی کا کرب


       مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تیزی سے دفتر گیا، جلدی جلدی کام کیا اوربقیہ کام کو پنڈنگ فائل میں ڈال کر باس سے اجازت لی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ بازار پہنچ کر سبزیاں لیںپھر ایک مٹھائی کی دکان سے سموسے اورمٹھائی لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔

گھرپہنچتے ہی بچوں نے اسے دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا: ’’ابوآگئے! ابوآگئے!!‘‘
رضیہ نے سبزی کی تھیلی میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا:’’پلیٹ لاؤ اور سنو،ایک اچھی سی چائے بنانا۔‘‘
بچے پلیٹ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔

 تبھی عامرنے جلدی سے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک رسگلہ اٹھا لیا، جس سے رس ٹپک رہاتھا۔
میں نے کہا: ’’رکوبیٹا…!‘‘ پھر اس کی گردن میں اپنا رومال باندھ دیا تاکہ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
 پھر کہا : ’’چلواب بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ۔‘‘

اتنے میں رضیہ ٹرے میں چائے لیے ہوئے آگئی۔

بچوں کو اس طرح جلدی جلدی کھاتادیکھ میں نے کہا:’’رضّوآج مجھے ابو یاد آرہے ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کس حال میں ہوںگے۔ جانتی ہو، جب ہم عامر کی طرح تھے تو میرے ابوروزانہ ہم لوگوں کے لیے مٹھائیاںلاتے،خوب کھلاتے اورجب ہم گھومنے جاتے تو ہمارے لیے من پسند  چیزیں بھی خرید دیتے تھے۔ہم لوگوں کو کبھی مایوس دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔آج میں پڑھ لکھ کر نوکری کے قابل ہوگیا ہوں اورچاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیںاور اپنی شراب کی گندی عادت کو چھوڑدیںمگر وہ میری بات نہیں مانتے ۔ ان کی یہ عادت ہم سب کی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔ جس شخص نیمیں زندگی بھر ہم لوگوں کے لیے سب کچھ کیا،آج میں اتنا بے بس ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہاہوں۔‘‘

باتوںباتوںمیں ہیمغرب کا وقت ہوگیا میںنے رضیہ سے کہا: ’’بچوں کو سنبھالو اورنماز کی تیاری کرو۔ بس مسجدسے نماز پڑھ کرآرہاہوں۔‘‘

یونہی دن گزرتے رہے ۔ میں کے دوبچے اورایک بچی تھی جو اب بڑے ہونے لگے تھے۔ اس کی آمدنی یوں تو کچھ خاص نہیں تھی،مگر پھر بھی کسی طرح گزر اوقات ہورہی تھی۔بچے ایک اسکول میں پڑھنے جاتے تھے ۔ وہ  پیسے بچا کر رضیہ کوبنابتائے اپنی والدہ کے نام گھر بھیج دیتاتھا۔

ایک دن بچوں نے ضدکی کہ وہ میلے میں گھومنے جائیںگے۔ میںنے منع کیا مگر جب بچوں نے ایک نہ مانی ، تب میں نے رضیہ سے پوچھا:
’’کچھ پیسے جمع ہوں تو دو؟میں تمھیں بعد میں واپس کردوںگا۔ بچوںکو گھمانے لے جانا ضروری ہے‘‘۔

پھر اس نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا۔
’’رضو!جانتی ہو،ایک بار ابو ہم سب کو لے کر ڈزنی لینڈ (مختلف مقامات پر لگنے والا بڑا میلہ) گھمانے لے گئے تھے۔ وہاں ہم لوگ بڑے بڑے جھولوں پر جھولے ،آئس کریم کھائی، ہوا مٹھائی بھی خریدی،بہت سے کھلونے بھی خریدے ۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لی تھیں۔ مگرمیں کیا کروں، میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہے کہ میں بچوںکو وہ سب کچھ دے سکوں جو مجھے میرے ابونے دیاتھا۔ تمہیں وہ چیزیں خرید کر دو جوتمھیں پسند آئے۔ آج پھر مجھے ان کی جدائی کا کرب ستارہاہے۔اب بھی وہ اپنی گندی عادت چھوڑدیں اورہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائیںتو یہ بات میرے لیے تمام خوشیوں سے زیادہ بڑھ کرہوگی۔‘‘

تبھی عامر جوتے کے فیتے باند ھتے ہوئے بولا: ’’ابو! ہم تیار ہوگئے‘‘۔
ناصر بھی کچھ کہنا چاہ رہاتھا کہ سارہ اپنی توتلی آواز میں بولی: ’’ابوتلونا۔۔ دلدی تلونا!‘‘
اتوار کا دن تھا۔ میں گھر پر ہی تھا کہ دروازے پر ایک مانگنے والی عورت آئی، جس کے ساتھ دوبچے تھے۔ حسب معمول رضیہ نے پوچھا : ’’کیابات ہے ؟ ‘‘

مانگنے والی خاتون نے کہا: بھوک لگی ہے، اگر کچھ کھانا اور ان بچوںکے لیے پرانا کپڑاہو تو دے دو،بڑی مہربانی ہوگی۔
رضیہ نے کہا: ’’ٹھیک ہے کھانا میں دے دیتی ہوں،مگرکپڑے میرے پاس نہیں ہیں،کہیں اور سے مانگ لو‘‘۔
تبھی میںنے کہا:’’ارے رضو، عامر اور ناصرکے پرانے کپڑے اسے آجائیںگے وہ دے دو۔ان کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں۔‘‘ پھر رضونے بہ مشکل اسے وہ کپڑے اسے دے دیے۔

گھنٹے دوگھنٹے گزرے ہوںگے کہ مانگنے والی ایک اور خاتون آئی ،جو رو رو کر فریاد کر رہی تھی : ’’ہم لوگ غریب ہیں، بچی کی شادی کرنی ہے، تھوڑی بہت امداد ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
رضونے کہا:’’ اب میں اسے کیا دوں؟‘‘
 تب میں نے کہا:’’ا سے سو روپے دے دو۔‘‘

اس پر رضیہ جھنجھلاکر بولی:’’ آپ کی یہ عادت ٹھیک نہیںہے۔ ایک تو میں ضرورت کے سامان کم کرکے بہ مشکل 10روپے 20روپے جمع کرتی ہوںاور آپ آئے دن ان میں سے کسی نہ کسی کو دلوادیتے ہیں۔ آخرہماری بھی تو ایک بیٹی ہے ، ہمیں بھی تواس کی شادی کرنی ہے۔ تمہارے ابوبڑے دانی تھے ،جوکچھ کمایا، سب کچھ لٹادیا،کیا ملاان کو؟ اب ایسی عادت میں پھنسے ہیں کہ کوئی ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔‘‘

رضیہ کی یہ باتیں سن کر مجھے زورکا جھٹکا لگا، گویاکسی نے اس کے منھ پر زنّاٹے دار طماچہ رسید کیا ہو۔اسی وقت یہیں سے اس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کی ایسی نگرانی کرے گا کہ گندی عادتیں انھیں چھوبھی نہ سکیں۔
ارے، یہ کس کا سامان ہے ،نکالو! چلو چلو، آگے بڑھتے رہوبھائی۔اس شور و غل نے مجھے نیندسے جگادیا۔
رضیہ نے بھی اس کی نیند پر کہا:’’ اب اٹھیے بھی کتنا سوتے ہیں آپ ! اور یہ نیند میں آپ کیا بڑ بڑا رہے تھے؟‘‘
میں نے جواب دینے سے قبل کھڑکی سے جھانکا اور کہایہ تو نئی دہلی اسٹیشن ہے!تب اسے پتا چلا کہ وہ خواب دیکھ رہاتھا۔ پھر رضیہ سے کہا: ’’رضو! لوگ خواب میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں مگر میں اپنا ماضی دیکھ رہا تھا۔‘‘

اتنے میں اچانک عامر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہا :’’ چلئے ابو، گھر چلیں،وہیں ظہر کی نماز پڑھیں گے۔ آپ کے پوتے اکرم اورانورآپ کابے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
عامر کی بات ختم ہوتے ہی خالد نے کہا : ’’مگرناصر نہیں آیا؟‘‘
عامر:’’ابووہ کمپنی ویزاپر ابوظبی گھومنے گیاہے۔میں آپ کو فون پر بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

تبھی عامر ایک شخص کو سگریٹ پیتا دیکھ بولا: ’’ ارے بھائی ،اپنے گھر جاکر پینا، کیوںاپنی اور دوسروں کی صحت کو خراب کررہے ہو۔‘‘

یہ جملہ سن کر خالد کو یقین ہوگیاکہ اس کی، بچپن کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ سب اسٹیشن سے باہر آئے ، اپنی کار  میں بیٹھے اور گھر کا رخ کیا۔


عامر نے حفظ کرنے کے بعد عصری تعلیم حاصل کی ۔بی ٹیک کے بعدوہ ایک بڑی کنٹرکشن کمپنی کا ایکزیکٹیو ڈائریکٹر بن گیاتھا۔ ناصر بھی ایم بی اے کرکے ایک مشہورکمپنی کا مینیجنگ ڈائرکٹر بن گیا تھا، جب کہ سارہ نے اردواور انگریزی سے ڈبل ایم اے کیا پھر اس کی شادی ایک عالم دین سے ہوئی ، جس کا کپڑوںکا بہت بڑا کاروبارتھا۔

Bebasi ka karb Inqulab Mumbai 18 July 2013


Sunday 5 February 2017

Fareeb - Urdu Short Stori

کہانی:
فریب

کیوں جی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا سوچ رہے ہیں۔ میں  پوتے کے پاس جار ہی ذرا دیکھوں کیوں رو رہاہے۔ ٹھیک ہے سدو (سعدیہ) جاؤ! مگر جلدی آنا!!

پھراس نے ٹیبل پررکھے ماچس سے سگریٹ جلایا اور کش لیتے ہوئییادوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔
25سال گزرگئے جب سدو دلہن بن کر گھر  آئی تھی۔ آج بھی میں اس واقعہ کو نہیں بھول پایا۔ سسرال والے ہمیشہ میرے عتاب کا شکار رہتے تھے اور میں من موجی، جو جی میں آیا کرتا گیا۔
لیکن وہ حسین خوبصورت پری جس کا چہرہ ہر دم میری نگاہوں کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ کہیں کھو گیا۔

میں بہت خوش تھا ، خوشی کی بات ہی تھی۔ میری شادی جو ہورہی تھی۔ لڑکی گاو?ں سے کچھ فاصلے پردوسرے گاو?ں کی تھی جسے میں اپنے والد صاحب اور کچھ کچھ دوستوں کے ساتھ جا کر دیکھا بھی تھا۔ لمبا قد ،صراحی دار گردن، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ کتابی ، رنگ بالکل صاف کل ملاکر وہ بہت خوبصورت تھی۔خاندان اور گھر گھرانہ بھی اچھا تھا۔

گھر میں سب لوگ خوش تھے ابا جان نے کچھ لوگوں سے بطور مہمان جن میں کچھ میرے دوست بھی تھے، شادی کی اس تقریب میں شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ابا جان مہمانوں کے استقبال میں کھڑے تھے اور گھروالوں سے جلدی تیار ہونے کے لیے کہہ رہے تھے۔

میرے سامنے ہر وقت اسی کا چہراگھومتا رہتا تھا، فون کا زمانہ تو تھا نہیں کہ فون کرتا جیسا کہ اس دور میں ہو رہا ہے۔

بارات لڑکی والوں کے دروازے پر پہنچ گئی۔مختصرضیافت کے بعد نکاح کی کارروائی شروع ہوئی۔قاضی صاحب کے سامنے میں خاموش بت کی طرح بیٹھا رہا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا کیا پڑھا گیا۔ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا اچانک جب قاضی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے قبول کیا۔

خیالوں کا سلسلہ منقطع ہو گیااورمیںبے ساختہ بول گیا:’’ ہاں ہاں میں نے قبول کیا۔‘‘
لوگوں کو تھوڑی حیرانی ہوئی کہ سب شرم سے پست آواز میں بولتے ہیں یہ تو عجیب لڑکا ہے۔ مگر کوئی کیا کہہ سکتا تھا بات صحیح تھی ،بولنا تو تھا ہی ذرا زور سے بول گیا۔

نکاح کے بعد مجھے زنان خانہ میں بلایا گیا ، میں نے سوچا ممکن ہے کہیں گھر میں مجھے اسے دیکھنے کا موقع ملے کہ دلہن کے جوڑے میں وہ کیسی دکھتی ہے مگر وہی پرانی بات مجھے وہاں دیکھنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ ایسی کوئی رسم بھی نہیں تھی۔خیر دل کو منا لیا اور اسے بہلاتے ہوئے کچھ تسلی دی ارے اتنا بے تاولا کیوں ہوتا ہے کہ شام میں تو وہ تیرے پاس ہی ہوگی۔ پھر جی بھر کے دیکھنا۔دل بے چارہ مان گیا۔پھرتھوڑی بہت شیرنی وغیرہ کھائی پھر دوستوں کیساتھ ہم گھر سے باہر چلے آئے۔
رخصتی کے بعد ہم لوگ اپنے گھر آگئے۔

ادھر میرا گھر سجایا جا چکا تھا مٹی کے کچے مکان میں سب کچھ سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک پلنگ پر دلہن کی سیج سجائی گئی ، پھول گل سے سارا گھرخوبصورت لگ رہا تھا۔ اندھیرا سا ہونے لگا تھا۔مگر دل میں خوشی کا دیا روشن تھا۔

عورتوں نے دلہن کا پرتپاک استقبال کیا اور اسے گھر کے اندر آنگن میں لے گئیں۔ بہت سی خواتین وہاں جمع تھیں، رونمائی کی رسم کے بعد رخصت ہونے لگیں۔اس وقت تک میرا داخلہ ممنوع تھا۔ تقریباً دس بجے میں مجلہ عروسی میں داخل ہوا۔

اور دروازہ بند کیا ہی تھا کہ کھٹکھٹاہٹ کی آواز آئی میں نے پوچھا کون؟ ادھر سے میری بھابی بولی! دیور جی میں ہوں! دروازہ کھولو یہ دودھ کا گلاس یہیں رہ گیا۔ خیر میں نے دروازہ کھولا اور اس سے شرارتی انداز میں کہا آپ بھی نہ۔ یہ سب پہلے سے رکھ دیتیں۔ ارے دیور جی اتنی بے چینی کیا ہے ، بٹیا اب یہیں رہیں گی، ٹھیک اب آپ جائیںگی بھی یا یوں ہی وقت برباد کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے دروازہ پھر سے بند کر دیا اور پلنگ پر اس کے قریب بیٹھ گیا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیا بولوں ؟ کیا کہوں؟ خیر جو کچھ میرے دل میں آیا اس کی تعریف میں بول دیا۔

مگر اس کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے کہا دیکھو اب جلدی سے مجھے اپنا خوبصورت اور چاند سا چہرہ دکھا دو میں اب اور صبر نہیں کر سکتا؟ پھر بھی کوئی آواز نہ آئی تو پھر میں نے کہا : ’’ٹھیک ہے اب مجھے ہی کچھ کر نا پڑے گا‘‘ اور میں نے اس کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھادیا۔

نظر پڑتے ہی میرے پاؤں سے زمین کھسک گئی، میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں۔

’’کیا بات ہے؟ آپ کچھ پریشان سے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم فکر نہ کرو۔‘‘میں نے اس کا جواب دیا۔
’’بات تو کچھ ضرور ہے؟ آپ چھپارہے ہیں؟‘‘
میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’کوئی بات نہیں صرف سردردہے۔‘‘
’’لائیے میں دبا دیتی ہوں۔‘‘اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں نہیں مجھے زیادہ درد ہو رہا ہے دبانے سے ٹھیک نہیں ہوگا دوا لینی ہی ہوگی ‘‘اور یہ کہہ کر میں گھر کے باہر چلا آیا۔

باہر دیکھا سب لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔چھپ کر میں ندی کے کنارے جا بیٹھا۔’’یہ کیسے ہوا…؟ یہ تو سراسر فریب ہے۔ ‘‘
’’اتنی رات گئے تو یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘اچانک میرے دوست نے مجھے ٹوکا۔
’’یارابا کے ساتھ تو بھی تو تھا؟کیسی تھی؟پھر یہ کیا:اتنا بڑا دھوکا؟ لڑکی دکھائی گئی اورنکاح کسی دوسری کے ساتھ۔یہ شادی نہیں میری بربادی ہے۔ ‘‘

شاہد : ارے یار ذرا صبر سے کام لے۔
میں نے کہا:نہیں یارمیں کل ہی ابا سے بات کروں گا،اور لڑکی والوں کو بلا کر اس کی لڑکی واپس کروںگا۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ نہایت بھدا مذاق کیا ہے۔
تبھی میرادوسرا دوست خالدبھی وہاں آگیااوربولا :
’’ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے!لڑکی وہ نہیں ہے دوسری ہی سہی اچھی بھلی تو ہے نہ۔  اور ہاں! تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟
’’نہیں ! میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔سردرد کا بہانا بناکر چلا آیا ہوں۔‘‘

خالد نے کہا :’’ہاں! یہ تو نے اچھا کیا؟اس سے بتانا بھی مت۔اب شادی ہو گئی تو ہوگئی۔ بھلے ہی اس کے ماں باپ نے غلطی کی ہو پر اس میں اس لڑکی کا کیا قصور تم اسے واپس کر دوگے۔ اس سے اس کی بدنامی نہیں ہوگی۔ پھر کون اس سے شادی کرے گا۔ پھر وہ زندگی بھر ایسے ہی رہے گی۔ اپنے لیے نہیں اس کے لیے سوچ۔ جو اپنے گھر ، خاندان سے رخصت ہو کرتیرے گھر اپنی زندگی کی خوشیاں بٹورنے آئی ہے۔
’’وہ خوشیاں بٹورنے آئی ہے میری خوشیوں کا کیا؟‘‘خالد میری بات سن کر خاموش ہوگیا۔

میں نے بھی سوچااس کی بات تو ٹھیک ہے،مگرمیں کیسے بھول جاتا، وہ لڑکی، اس کی خوبصورتی ،اس کی بڑی بڑی چمکتی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی تھی۔

میرے لاکھ انکار اور احتجاج کے بعدجب کچھ نہ بن پڑا اوردوستوں کی باتیں سن کر مایوس ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح  اپنے گھر لوٹ آیا۔ دیکھا محترمہ سوئی ہوئی ہیں۔ 3بج رہے تھے۔میں بھی اپنا تکیہ لیے ہوئے الگ ایک طرف سوگیا۔

کچھ سال بعد جب قریب کے گاؤں سے خبر آئی کہ ایک عورت نے اپنے شورہر کا قتل کردیا اوراپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ وہی لڑکی تھی جس سے اس کی شادی ہونی تھی جس کی خوبصورتی پر وہ دیوانہ تھا۔اس وقت اس کے سرپر بجلی سی کوندگئی ارے یہ کیا ہوا ، تب اسے احساس ہوا حسن صورت ہو نہ ہو حسنِ سیرت ضروری ہے۔اس دھوکہ پر خدا کا شکر ادا کیا۔
اٹھو جی !یہ کیا؟ سامنے بستر لگا ہوا ہے اور آپ سگریٹ لیے ہوئے کرسی پر سو رہے ہیں۔
میں ہڑبڑا کر نید ہی بولا:’’ سدو تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘

’’ہاں ہاں! اب زیادہ تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہ بات کئی بار بول چکے ہیں۔‘‘اب چلیے بستر پر لیٹ جائیے میں آپ کے پاؤں دبادیتی ہوں۔!!

Fareeb Roznama Rastriye Sahara


Saturday 4 February 2017

Urdu Short Story: Dagmagahat


کشتی ٔحیات کی ڈگمگاہٹ


                                             محمدمحب اللہ
       ’’مجھے میرے حال پر چھوڑدو، کون کہتاہے ، میں غریب ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں غریب نہیں ہوں!…… لوگ امیر ہوگئے ہیں۔‘‘
نشے میں چور لڑکھڑاتے اورڈگمگاتے قدموںکے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں محسن اپنے سنبھالنے والوںسے کہہ رہاتھا۔ پھربھی لوگ اسے اٹھائے ہوئے گھرلا کرچھوڑگئے ۔ نشے میں دن گزارنے والا محسن روزانہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ آرائی کرتاجس کی آواز سن کر آس پڑوس کے لوگ اکٹھاہوجاتے۔ ایک روزتولوگ اس پر ہاتھ اٹھانے کے لیے تیارہوگئے تبھی کسی مضبوط ہاتھ نے اس کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا:
’’ تم لوگ بھول گئے ہو کہ یہ کون ہے۔یہ وہی محسن ہے ،جس کے احسان تلے دبے ہیں سب ۔حالات کیا بگڑے کے تم لوگوں نے اسے پہچاننے سے ہی انکارکردیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے بھیڑکومنتشرکیا۔

پھروہ محسن کو اس کی ماں کے پاس رکھ کرخاموش بیٹھ گیا۔
’’زندگی کی کشتی اگرکسی بھنورمیں پھنس جائے توعقل مندی یہ ہے کہ انسان پورے عقل وشعور سے کام لے، نہ کہ کشتی کی ڈگمگاہٹ کو دیکھ کربدہواس ہوجائے ۔‘‘

 ایسے ہی بھنورمیں پھنسا میرابیٹامحسن ہے۔
یہ کہتے ہوئے اس کی ماں نے محسن کے حالات بیان کرنے شروع کردیے۔
وہ ایک پڑھا لکھا، خوبصورت،خوب سیرت ، سمجھ دار، خوددار اور باوقار انسان تھا،جونہ صرف اپنے گھر کی تمام ذمہ داریوںکوبحسن و خوبی انجام دے رہا تھا بلکہ پڑوس اور گاؤںوالوںکاخاص خیال رکھتااور ان کی ضرورتوںمیں کام آتاتھا۔اپنے اخلاق حسنہ سے اس نے لوگوںکو گرویدہ بنا لیاتھا۔

اچانک اس کی زندگی میں طوفان آیا اورپینشن پارہے شفیق والد کا سایہ سرسے اٹھ گیا اوراپنی بیوی ،بچوں کے علاوہ ماںایک بھائی اور دوبہنوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوںپر آن پڑی۔ اللہ کے کرم سے محسن کو کانٹرکٹ بیس پر پٹنہ ہی میں ایک اچھاجاب مل گیاتھا۔
 پانچ روپے آٹا اور نوروپے چاول کے دورمیں اس کی یومیہ آمدنی پانچ سوسے سات سوروپے تک تھی۔اس آمدنی کا بیشترحصہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنوں اور غریبوںپرصرف کرتاتھا۔محسن کوئی بھی تقریب کرتاتووہ اپنے گاؤں آکرہی کرتاتھا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب محسن نے اپنی دونوںبہن اوربھائی کی شادی کردی۔اس موقعہ پر اس نے دل کھول کرخرچ کیا۔گاؤں کے لوگ اس کی نیک نیتی اور خوش مزاجی کے قائل تھے اوراسے اپنا محسن وغم گسارمانتے تھے۔
 وہ ہر کام اپنی بوڑھی ماں(میرے) مشورے سے کرتاتھا تاکہ ماں کی دل شکنی نہ ہو۔ وہ میریی کسی بھی تکلیف کو اپنے سینے میں چبھتے ہوئے کانٹے کی مانند تصور کرتا تھا۔
 اپنی بہنوںسے وہ اس قدر محبت اورپیارکرتاتھا کہ کبھی انھیں والدکی غیرموجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ اس کی بہنیں بھی اسے اپنے باپ کا درجہ دیتی تھیں۔
محسن کی شادی ہو چکی تھی، بیوی نہایت شریف تھی۔محسن کی کئی اولادیں ہوچکی تھیں جس کی ذمہ داری اس کے سرپر تھی۔وقت کی ستم ظریفی کہ کانٹریکٹ منسوخ ہوجانے کے سبب وہ بے روزگار ہوگیا۔ بے روزگاری کے ڈنک سے وہ ایسا متأثرہواکہ وہ شراب کی لت لگا بیٹھا۔ وہ ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہتاتھا۔

 معاشی حالت بالکل کمزور ہو چکی تھی،اس کے خوشحال گھرانے میں مفلسی نے پوری طرح قدم جمالیاتھا۔ جس گھرسے لوگوںکی ضرورت پوری ہوتی تھی اب وہ خود محتاج ہو گیا تھا، ہمیشہ خوش رہنے والا اب بے بس و عاجز تھا، قرض داروں نے دروازے پر دستک دینی شروع کردی تھی ۔
 مجبوراً بیوی بچوں کی کفالت کے لیے وہ آٹورکشہ چلانے پر مجبور ہوگیا ، کیوں کہ اس کے پاس کوئی اور ہنرتو تھانہیں۔ اس دوران اس کی شراب نوشی دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔ معاشرہ کا ہیرواب ہر لحاظ سے زیرو دکھائی دے رہاتھا۔

میرے نیک سیرت بیٹے کا کردار اب ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ زمین پر ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کا لڑکا(میرا پوتا) اب کافی بڑا اورسمجھ دارہوگیاہے۔ اسے اپنے والد کی یہ بری عادت اس کو بہت ہی ناگوار گزرتی ،وہ بارباران کو اس بری چیز سے دوررہنے کی تلقین کرتا اور انھیں خوف خداکادرس دیتا۔ گھر والے بھی بہت سمجھاتے، مگر ساری باتیں اس پر،وقتی طور پر اثرانداز ہوتیں ، وہ آئندہ شراب کو منہ نہ لگانے کی قسمیں بھی کھاتا، مگراپنی عادت سے مجبور ہے۔

 نشہ اس پر اس قدرحاوی ہوچکاہے کہ اسے اب اپنی بوڑھی ماں سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔اس کی اس حرکت نے اسے معاشرے میں بالکل ذلیل انسان بنارکھاہے۔
’’جولوگ محسن کو نہیں جانتے اسے برا بھلاکہتے ہیں اور جو اس سے واقف ہیں ، اسے موجودہ حالت ترس آتاہے‘‘۔
ماں نے آنچل سے اپنے آنسوپوچھتے ہوئے کہا۔

 وہ پھر گویاہوئی’’ اس کا وجودبنا روشنی بکھیرے ہی موم کی طرح پگھل رہا ہے۔میرے محسن کی زندگی بھی اسی طرح پگھل رہی ہے جوآتش فشاں بن کر اپنے گھروالوںکواپنی لپیٹ میںلیے ہوئی ہے۔کاش یہ سنبھل جاتا!‘‘

’’اماں! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔خدانے چاہاتو محسن علاج کے ذریعہ مکمل ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘اور وہ دونوں محسن کو رکشے پر لے کرہسپتال کی طرف چل پڑے!!

٭٭٭
Kahani - Kashtiye Hayat ki Tagmagahat (Inquilab 8-4-13)

Saturday 21 January 2017

Bihar Men Sharab Bandi

بہار میں شراب بندی 

آج پورے بہار میں شراب بندی اور اس کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے جلوس نکالے جا رہے ہیں... شراب بندی کا فیصلہ انسانیت کے حق میں بڑا فیصلہ ہے...شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے. اسلام نے اسی لئے اسے حرام قرار دیا تاکہ انسانیت اس کے نقصانات سے بچ کر چین و سکون کی زندگی بسر کر سکے.
یہ حکم جس ریاست میں نافذ ہوگا وہاں کے لوگ امن و امان میں رہیں گے... جو خوشحالی کے لئے بے حد ضروری ہے.
 محب اللہ قاسمی
आज पूरे बिहार में शराबबंदी और उसके प्रति जागरूकता पैदा करने के लिए मानव श्रंखला का आयूजन किया जा रहा हैं ... शराबबंदी का फैसला मानवता के हित में बड़ा फैसला है ... इस्लाम ने इसी लिए इसे हराम करार दिया ताकि मानवता इसके नुकसान से बचकर शांति का जीवन व्यतीत कर सके।
यह शराबबंदी का आदेश जिस राज्य में लागू होगा वहां के लोग अमन शांति से रहेंगे ... जो समाज की तरक्क़ी और ख़ुशहाली के लिए बेहद जरूरी है।
 मोहिबुल्लाह कासमी

Wednesday 21 December 2016

Talaq ka Sarhi Qanoon Insanon ki Zarurat

طلاق کاشرعی قانون انسان کی ضر ورت
محب اللہ قاسمی

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ:  179) بظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ زناعام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی  اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔
 یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ ان کے خالق ،کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیںہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان کسی بھی صورت نباہ نہ ہونے کی شکل میں ان کا شرعی طریقہ سے جدا ہونا طلاق اور خلع کہلاتا ہے، جواسی قانون الٰہی کا حصہ ہے۔اس فطری قانون میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

طلاق اور دیگر مذاہب
دیگر  مذاہب کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں نکاح کے بعد طلاق کا کوئی طریقہ مذکور نہیںہے ۔ اگر کہیں ہے تو وہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ،جس سے یا تو شوہر پر ظلم ہوتا ہے یا عورت اس ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ مثلاً:  یہود کے نزیک اگر شوہر طلاق دینا چاہتا، تووہ صرف طلاق کا نوشتہ دیوار پر لٹکا دیتا اور دونوں میں جدائی ہو جاتی ۔ جب کہ عیسائیت میں زنا کی مرتکب عورت (مزنیہ)کو ہی طلاق دی جاسکتی ہے بجزاس کے طلاق دینا جائزہی نہیں ہے۔ ہندوازم  میں تو کسی صورت میں طلاق ہی نہیں ہے ۔ایک عورت کی شادی ہوگئی اب وہ بہر صورت وہیں رہی گی، چاہے اس کی زندگی اجیرن اور اس کا جینا محال ہوجائے ۔ عورتوں کے دل میں یہ تصور بیٹھا دیا گیا ہے کہ وہ ڈولی سے سسرال گئی ہیں اب وہاں سے ان کی ارتھی ( جنازہ) ہی نکلے گی۔دوسری کسی بھی صورت میںوہ وہاں سے نہیں نکل سکتیں خواہ ان کے شوہر ان کی زندگی تباہ کر دیں ،یا ان کی عزت کا سودا کریں ،یاانھیں جان سے مار ڈالیں۔اب جا کر انھیں یہ حق ملا ہے کہ وہ طلاق لے سکتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ عمل اتنا دشوار ہے کہ ایک عورت کو طلاق لینے یا شوہر کو طلاق دینے میں لمبا عرصہ گزر  جاتا ہے، مگر طلاق کی کارروائی پوری نہیں ہوپاتی۔ جس کے نتیجہ میںایسی بے شمار عورتیں اپنی زندگی کو رو رہی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی ایک مثال موجودہ وزیر اعظم کی بیگم جسودہ بین ہیں ۔ وہ ایک لمبے عرصہ سےشوہر کی موجودگی کے باجود بناشوہر کے زندگی گزاررہی ہیں، مگر انھیںانصاف نہیں ملا ۔اگر طلاق کا آپشن ہوتا تو وہ اپنے شوہر سے آزادی حاصل کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کرسکتی تھیں۔

اسلام کا تصور طلاق:
طلاق کیا ہے؟  طلاق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کھولنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عورت کو نکاح سے خارج کردیناطلاق کہلاتا ہے۔ اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اسے طلاق کا حق دیا۔ اورطلاق کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے اس عمل کو تمام جائزکاموں میں ناپسندیدہ عمل قرار دے کر اسے آخری علاج قرار دیاتاکہ کوئی شخص بات بات میں طلاق کی دھمکی نہ دے، بلکہ سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرے۔جس طرح نکاح سوچ سمجھ کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک خاتون اس کی زندگی میں آتی ہے ، اسی طرح طلاق کے غلط اور بے جا استعمال سے وہ عورت اس کی زندگی سے رخصت بھی ہوجائے گی۔اسی طرح عورت کو متنبہ کیا گیاکہ وہ بات بات پر طلاق کا مطالبہ نہ کرے، تنبیہ کی گئی کہ ایسی عورتیں جنت کی خوشبوسے بھی محروم رہیں گی۔طلاق کے بارے میں اسلام کی اتنی حساسیت صرف اسی لیے ہے تاکہ حتی الامکان ازدواجی زندگی کوایک دوسرے کے تعاون سے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کی جائے۔کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا  اور اس کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم کر دینا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔

 نکاح ایک معاہدہ ہے :
نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ ،رہنے سہنے کا بندوبست کرے گا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی ،لتسکنو الیہا(تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو)کے تحت اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبرکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔

طلاق-  نقض معاہدہ:
اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لیے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیںگے ، جو انھیں شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنےکی شکل نکالیں گے ، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلہ میںاسلام نے اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔

طلاق سنجیدہ عمل:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ۔ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔‘‘(البقرۃ229)
طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو ،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اس درمیان وہ رجعت(طلاق سے رجوع کرکے) اسے رکھ سکتا ہے۔جب کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے۔اسی لیے عہد رسالت میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھا، جب کہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ مگر تین طلاق واقع ہوجایا کرتی تھی۔

طلاق کا اختیار
چوںکہ طلاق نقض معاہدہ ہے تو کوئی بھی اپنی جانب سے اسے توڑسکتا ہے ،البتہ اللہ نے مردو ں کوقوام (نگہبان اور ذمہ دار) بنایا اور انھیں ایک درجہ فضیلت بخشی ہے،اس وجہ سے انہی کو طلاق دینے کا بھی اختیاربخشا ۔جو مبنی بر حکمت ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ معاہدہ ہے جسے ختم کرنے کا عورت کو بھی حق دیا کہ اگر اس کا نباہ نہیں ہورہاہے تو وہ شوہر کو راضی کر کے یاقاضی کی معرفت خلع لے لے۔

 عورت کو خلع کا حق:
خلع کہتے ہیں کسی چیز کو اتارنا، مثلاً اپنا لباس اتار نا، جوتا اتار نا، وہ چیز جو پہنی گئی تھی اسے اتار دینا، اسی طرح عورت نے معاہدہ کی شکل میں جو لبادہ پہن رکھا تھا اسے اتاردینا خلع کہلاتا ہے۔ پھر وہ عدت کے بعد آزاد ہے ، وہ کہیں بھی شادی کرکے نئے سرے سے اپنی زندگی کا خوشگوار آغاز کرسکیں۔اگر عورت کو خلع کا حق نہ ملتا تو یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی جب کہ اسلام کا نظام مبنی بر عدل ہے۔
طلاق ظلم نہیں
اب جو لوگ طلاق پر سوال اٹھاتے ہیں اور اسے عورتوں پر ظلم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت طلاق کے بعد سڑک پر آ جاتی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ؟ اس اعتراض کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ طلاق عورتوں پر ظلم نہیں اس میں تو مردو ں کا بھی نقصان ہے کہ اتنے اخراجات کے بعد شادی ہوئی کسی ناچاقی کے سبب طلاق ہو گئی اور بیوی گھر سے چلی گئی۔پھر شادی کے لیے عورت کو وہ اخراجات نہیں اٹھانے پڑتے جو پھر سے شوہر کو مہر اور دیگر اخراجات کی شکل میں اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔یہ سب نقصان مردوں کا ہی نقصان ہے۔ اسی طرح معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی طلاق کی حکمت کو سمجھ سکتا ہے ۔مثلاً جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہوجائے جس کی وجہ سے پورا جسم متاثر ہو ، جس کے علاج کا ڈاکٹر نے آخری حل آپریشن ہی تجویز کیا ہو تو کون نادان ہوگا جو آپریشن کراکے اس مصیبت سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہیے گا۔ یہ پھوڑا یا خراب عضو میا ںبیوی میں سے کوئی ایک بھی ہوسکتا ہے۔جو اس کی خوشگوار زندگی کو متاثر کر رہا ہےاور اس کا کوئی حل نہ نکل رہا ہو،لہذا اس کا آخری حل طلاق ہے ۔
اسی طرح طلاق کے بعد دوران عدت اس کے تمام اخراجات تو شوہر کو ہی برداشت کرنےہوتے ہیں۔بلکہ اگر بچہ  چھوٹا ہے،تو اس کی پرورش تک اس کی دیکھ بھال کرنا اس کے بدلے اس کا معاوضہ ادا کرنا بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوتا ہے۔ اگر طلاق کے معاملے میں لوگ جذباتی فیصلہ لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر، اس عمل کی حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ناگزیر صورت حال میں ا حسن طریقہ سے طلاق دیں تو پھرزندگی کے بہت سے عائلی مسائل حل ہوجائیںگے۔ورنہ جس طرح بے وقت اور غلط آپریشن سے جس طرح مریض کی زندگی جاسکتی ہے اور اس کا جینا مشکل ہو سکتا ہے ، اسی طرح طلاق کے بے جا استعمال سے معاشرہ کو تباہی سے بچانا مشکل ہے۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...