Saturday 4 February 2017

Urdu Short Story: Dagmagahat


کشتی ٔحیات کی ڈگمگاہٹ


                                             محمدمحب اللہ
       ’’مجھے میرے حال پر چھوڑدو، کون کہتاہے ، میں غریب ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں غریب نہیں ہوں!…… لوگ امیر ہوگئے ہیں۔‘‘
نشے میں چور لڑکھڑاتے اورڈگمگاتے قدموںکے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں محسن اپنے سنبھالنے والوںسے کہہ رہاتھا۔ پھربھی لوگ اسے اٹھائے ہوئے گھرلا کرچھوڑگئے ۔ نشے میں دن گزارنے والا محسن روزانہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ آرائی کرتاجس کی آواز سن کر آس پڑوس کے لوگ اکٹھاہوجاتے۔ ایک روزتولوگ اس پر ہاتھ اٹھانے کے لیے تیارہوگئے تبھی کسی مضبوط ہاتھ نے اس کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا:
’’ تم لوگ بھول گئے ہو کہ یہ کون ہے۔یہ وہی محسن ہے ،جس کے احسان تلے دبے ہیں سب ۔حالات کیا بگڑے کے تم لوگوں نے اسے پہچاننے سے ہی انکارکردیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے بھیڑکومنتشرکیا۔

پھروہ محسن کو اس کی ماں کے پاس رکھ کرخاموش بیٹھ گیا۔
’’زندگی کی کشتی اگرکسی بھنورمیں پھنس جائے توعقل مندی یہ ہے کہ انسان پورے عقل وشعور سے کام لے، نہ کہ کشتی کی ڈگمگاہٹ کو دیکھ کربدہواس ہوجائے ۔‘‘

 ایسے ہی بھنورمیں پھنسا میرابیٹامحسن ہے۔
یہ کہتے ہوئے اس کی ماں نے محسن کے حالات بیان کرنے شروع کردیے۔
وہ ایک پڑھا لکھا، خوبصورت،خوب سیرت ، سمجھ دار، خوددار اور باوقار انسان تھا،جونہ صرف اپنے گھر کی تمام ذمہ داریوںکوبحسن و خوبی انجام دے رہا تھا بلکہ پڑوس اور گاؤںوالوںکاخاص خیال رکھتااور ان کی ضرورتوںمیں کام آتاتھا۔اپنے اخلاق حسنہ سے اس نے لوگوںکو گرویدہ بنا لیاتھا۔

اچانک اس کی زندگی میں طوفان آیا اورپینشن پارہے شفیق والد کا سایہ سرسے اٹھ گیا اوراپنی بیوی ،بچوں کے علاوہ ماںایک بھائی اور دوبہنوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوںپر آن پڑی۔ اللہ کے کرم سے محسن کو کانٹرکٹ بیس پر پٹنہ ہی میں ایک اچھاجاب مل گیاتھا۔
 پانچ روپے آٹا اور نوروپے چاول کے دورمیں اس کی یومیہ آمدنی پانچ سوسے سات سوروپے تک تھی۔اس آمدنی کا بیشترحصہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنوں اور غریبوںپرصرف کرتاتھا۔محسن کوئی بھی تقریب کرتاتووہ اپنے گاؤں آکرہی کرتاتھا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب محسن نے اپنی دونوںبہن اوربھائی کی شادی کردی۔اس موقعہ پر اس نے دل کھول کرخرچ کیا۔گاؤں کے لوگ اس کی نیک نیتی اور خوش مزاجی کے قائل تھے اوراسے اپنا محسن وغم گسارمانتے تھے۔
 وہ ہر کام اپنی بوڑھی ماں(میرے) مشورے سے کرتاتھا تاکہ ماں کی دل شکنی نہ ہو۔ وہ میریی کسی بھی تکلیف کو اپنے سینے میں چبھتے ہوئے کانٹے کی مانند تصور کرتا تھا۔
 اپنی بہنوںسے وہ اس قدر محبت اورپیارکرتاتھا کہ کبھی انھیں والدکی غیرموجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ اس کی بہنیں بھی اسے اپنے باپ کا درجہ دیتی تھیں۔
محسن کی شادی ہو چکی تھی، بیوی نہایت شریف تھی۔محسن کی کئی اولادیں ہوچکی تھیں جس کی ذمہ داری اس کے سرپر تھی۔وقت کی ستم ظریفی کہ کانٹریکٹ منسوخ ہوجانے کے سبب وہ بے روزگار ہوگیا۔ بے روزگاری کے ڈنک سے وہ ایسا متأثرہواکہ وہ شراب کی لت لگا بیٹھا۔ وہ ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہتاتھا۔

 معاشی حالت بالکل کمزور ہو چکی تھی،اس کے خوشحال گھرانے میں مفلسی نے پوری طرح قدم جمالیاتھا۔ جس گھرسے لوگوںکی ضرورت پوری ہوتی تھی اب وہ خود محتاج ہو گیا تھا، ہمیشہ خوش رہنے والا اب بے بس و عاجز تھا، قرض داروں نے دروازے پر دستک دینی شروع کردی تھی ۔
 مجبوراً بیوی بچوں کی کفالت کے لیے وہ آٹورکشہ چلانے پر مجبور ہوگیا ، کیوں کہ اس کے پاس کوئی اور ہنرتو تھانہیں۔ اس دوران اس کی شراب نوشی دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔ معاشرہ کا ہیرواب ہر لحاظ سے زیرو دکھائی دے رہاتھا۔

میرے نیک سیرت بیٹے کا کردار اب ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ زمین پر ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کا لڑکا(میرا پوتا) اب کافی بڑا اورسمجھ دارہوگیاہے۔ اسے اپنے والد کی یہ بری عادت اس کو بہت ہی ناگوار گزرتی ،وہ بارباران کو اس بری چیز سے دوررہنے کی تلقین کرتا اور انھیں خوف خداکادرس دیتا۔ گھر والے بھی بہت سمجھاتے، مگر ساری باتیں اس پر،وقتی طور پر اثرانداز ہوتیں ، وہ آئندہ شراب کو منہ نہ لگانے کی قسمیں بھی کھاتا، مگراپنی عادت سے مجبور ہے۔

 نشہ اس پر اس قدرحاوی ہوچکاہے کہ اسے اب اپنی بوڑھی ماں سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔اس کی اس حرکت نے اسے معاشرے میں بالکل ذلیل انسان بنارکھاہے۔
’’جولوگ محسن کو نہیں جانتے اسے برا بھلاکہتے ہیں اور جو اس سے واقف ہیں ، اسے موجودہ حالت ترس آتاہے‘‘۔
ماں نے آنچل سے اپنے آنسوپوچھتے ہوئے کہا۔

 وہ پھر گویاہوئی’’ اس کا وجودبنا روشنی بکھیرے ہی موم کی طرح پگھل رہا ہے۔میرے محسن کی زندگی بھی اسی طرح پگھل رہی ہے جوآتش فشاں بن کر اپنے گھروالوںکواپنی لپیٹ میںلیے ہوئی ہے۔کاش یہ سنبھل جاتا!‘‘

’’اماں! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔خدانے چاہاتو محسن علاج کے ذریعہ مکمل ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘اور وہ دونوں محسن کو رکشے پر لے کرہسپتال کی طرف چل پڑے!!

٭٭٭
Kahani - Kashtiye Hayat ki Tagmagahat (Inquilab 8-4-13)

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...