Sunday 5 February 2017

Fareeb - Urdu Short Stori

کہانی:
فریب

کیوں جی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا سوچ رہے ہیں۔ میں  پوتے کے پاس جار ہی ذرا دیکھوں کیوں رو رہاہے۔ ٹھیک ہے سدو (سعدیہ) جاؤ! مگر جلدی آنا!!

پھراس نے ٹیبل پررکھے ماچس سے سگریٹ جلایا اور کش لیتے ہوئییادوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔
25سال گزرگئے جب سدو دلہن بن کر گھر  آئی تھی۔ آج بھی میں اس واقعہ کو نہیں بھول پایا۔ سسرال والے ہمیشہ میرے عتاب کا شکار رہتے تھے اور میں من موجی، جو جی میں آیا کرتا گیا۔
لیکن وہ حسین خوبصورت پری جس کا چہرہ ہر دم میری نگاہوں کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ کہیں کھو گیا۔

میں بہت خوش تھا ، خوشی کی بات ہی تھی۔ میری شادی جو ہورہی تھی۔ لڑکی گاو?ں سے کچھ فاصلے پردوسرے گاو?ں کی تھی جسے میں اپنے والد صاحب اور کچھ کچھ دوستوں کے ساتھ جا کر دیکھا بھی تھا۔ لمبا قد ،صراحی دار گردن، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ کتابی ، رنگ بالکل صاف کل ملاکر وہ بہت خوبصورت تھی۔خاندان اور گھر گھرانہ بھی اچھا تھا۔

گھر میں سب لوگ خوش تھے ابا جان نے کچھ لوگوں سے بطور مہمان جن میں کچھ میرے دوست بھی تھے، شادی کی اس تقریب میں شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ابا جان مہمانوں کے استقبال میں کھڑے تھے اور گھروالوں سے جلدی تیار ہونے کے لیے کہہ رہے تھے۔

میرے سامنے ہر وقت اسی کا چہراگھومتا رہتا تھا، فون کا زمانہ تو تھا نہیں کہ فون کرتا جیسا کہ اس دور میں ہو رہا ہے۔

بارات لڑکی والوں کے دروازے پر پہنچ گئی۔مختصرضیافت کے بعد نکاح کی کارروائی شروع ہوئی۔قاضی صاحب کے سامنے میں خاموش بت کی طرح بیٹھا رہا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا کیا پڑھا گیا۔ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا اچانک جب قاضی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے قبول کیا۔

خیالوں کا سلسلہ منقطع ہو گیااورمیںبے ساختہ بول گیا:’’ ہاں ہاں میں نے قبول کیا۔‘‘
لوگوں کو تھوڑی حیرانی ہوئی کہ سب شرم سے پست آواز میں بولتے ہیں یہ تو عجیب لڑکا ہے۔ مگر کوئی کیا کہہ سکتا تھا بات صحیح تھی ،بولنا تو تھا ہی ذرا زور سے بول گیا۔

نکاح کے بعد مجھے زنان خانہ میں بلایا گیا ، میں نے سوچا ممکن ہے کہیں گھر میں مجھے اسے دیکھنے کا موقع ملے کہ دلہن کے جوڑے میں وہ کیسی دکھتی ہے مگر وہی پرانی بات مجھے وہاں دیکھنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ ایسی کوئی رسم بھی نہیں تھی۔خیر دل کو منا لیا اور اسے بہلاتے ہوئے کچھ تسلی دی ارے اتنا بے تاولا کیوں ہوتا ہے کہ شام میں تو وہ تیرے پاس ہی ہوگی۔ پھر جی بھر کے دیکھنا۔دل بے چارہ مان گیا۔پھرتھوڑی بہت شیرنی وغیرہ کھائی پھر دوستوں کیساتھ ہم گھر سے باہر چلے آئے۔
رخصتی کے بعد ہم لوگ اپنے گھر آگئے۔

ادھر میرا گھر سجایا جا چکا تھا مٹی کے کچے مکان میں سب کچھ سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک پلنگ پر دلہن کی سیج سجائی گئی ، پھول گل سے سارا گھرخوبصورت لگ رہا تھا۔ اندھیرا سا ہونے لگا تھا۔مگر دل میں خوشی کا دیا روشن تھا۔

عورتوں نے دلہن کا پرتپاک استقبال کیا اور اسے گھر کے اندر آنگن میں لے گئیں۔ بہت سی خواتین وہاں جمع تھیں، رونمائی کی رسم کے بعد رخصت ہونے لگیں۔اس وقت تک میرا داخلہ ممنوع تھا۔ تقریباً دس بجے میں مجلہ عروسی میں داخل ہوا۔

اور دروازہ بند کیا ہی تھا کہ کھٹکھٹاہٹ کی آواز آئی میں نے پوچھا کون؟ ادھر سے میری بھابی بولی! دیور جی میں ہوں! دروازہ کھولو یہ دودھ کا گلاس یہیں رہ گیا۔ خیر میں نے دروازہ کھولا اور اس سے شرارتی انداز میں کہا آپ بھی نہ۔ یہ سب پہلے سے رکھ دیتیں۔ ارے دیور جی اتنی بے چینی کیا ہے ، بٹیا اب یہیں رہیں گی، ٹھیک اب آپ جائیںگی بھی یا یوں ہی وقت برباد کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے دروازہ پھر سے بند کر دیا اور پلنگ پر اس کے قریب بیٹھ گیا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیا بولوں ؟ کیا کہوں؟ خیر جو کچھ میرے دل میں آیا اس کی تعریف میں بول دیا۔

مگر اس کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے کہا دیکھو اب جلدی سے مجھے اپنا خوبصورت اور چاند سا چہرہ دکھا دو میں اب اور صبر نہیں کر سکتا؟ پھر بھی کوئی آواز نہ آئی تو پھر میں نے کہا : ’’ٹھیک ہے اب مجھے ہی کچھ کر نا پڑے گا‘‘ اور میں نے اس کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھادیا۔

نظر پڑتے ہی میرے پاؤں سے زمین کھسک گئی، میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں۔

’’کیا بات ہے؟ آپ کچھ پریشان سے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم فکر نہ کرو۔‘‘میں نے اس کا جواب دیا۔
’’بات تو کچھ ضرور ہے؟ آپ چھپارہے ہیں؟‘‘
میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’کوئی بات نہیں صرف سردردہے۔‘‘
’’لائیے میں دبا دیتی ہوں۔‘‘اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں نہیں مجھے زیادہ درد ہو رہا ہے دبانے سے ٹھیک نہیں ہوگا دوا لینی ہی ہوگی ‘‘اور یہ کہہ کر میں گھر کے باہر چلا آیا۔

باہر دیکھا سب لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔چھپ کر میں ندی کے کنارے جا بیٹھا۔’’یہ کیسے ہوا…؟ یہ تو سراسر فریب ہے۔ ‘‘
’’اتنی رات گئے تو یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘اچانک میرے دوست نے مجھے ٹوکا۔
’’یارابا کے ساتھ تو بھی تو تھا؟کیسی تھی؟پھر یہ کیا:اتنا بڑا دھوکا؟ لڑکی دکھائی گئی اورنکاح کسی دوسری کے ساتھ۔یہ شادی نہیں میری بربادی ہے۔ ‘‘

شاہد : ارے یار ذرا صبر سے کام لے۔
میں نے کہا:نہیں یارمیں کل ہی ابا سے بات کروں گا،اور لڑکی والوں کو بلا کر اس کی لڑکی واپس کروںگا۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ نہایت بھدا مذاق کیا ہے۔
تبھی میرادوسرا دوست خالدبھی وہاں آگیااوربولا :
’’ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے!لڑکی وہ نہیں ہے دوسری ہی سہی اچھی بھلی تو ہے نہ۔  اور ہاں! تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟
’’نہیں ! میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔سردرد کا بہانا بناکر چلا آیا ہوں۔‘‘

خالد نے کہا :’’ہاں! یہ تو نے اچھا کیا؟اس سے بتانا بھی مت۔اب شادی ہو گئی تو ہوگئی۔ بھلے ہی اس کے ماں باپ نے غلطی کی ہو پر اس میں اس لڑکی کا کیا قصور تم اسے واپس کر دوگے۔ اس سے اس کی بدنامی نہیں ہوگی۔ پھر کون اس سے شادی کرے گا۔ پھر وہ زندگی بھر ایسے ہی رہے گی۔ اپنے لیے نہیں اس کے لیے سوچ۔ جو اپنے گھر ، خاندان سے رخصت ہو کرتیرے گھر اپنی زندگی کی خوشیاں بٹورنے آئی ہے۔
’’وہ خوشیاں بٹورنے آئی ہے میری خوشیوں کا کیا؟‘‘خالد میری بات سن کر خاموش ہوگیا۔

میں نے بھی سوچااس کی بات تو ٹھیک ہے،مگرمیں کیسے بھول جاتا، وہ لڑکی، اس کی خوبصورتی ،اس کی بڑی بڑی چمکتی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی تھی۔

میرے لاکھ انکار اور احتجاج کے بعدجب کچھ نہ بن پڑا اوردوستوں کی باتیں سن کر مایوس ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح  اپنے گھر لوٹ آیا۔ دیکھا محترمہ سوئی ہوئی ہیں۔ 3بج رہے تھے۔میں بھی اپنا تکیہ لیے ہوئے الگ ایک طرف سوگیا۔

کچھ سال بعد جب قریب کے گاؤں سے خبر آئی کہ ایک عورت نے اپنے شورہر کا قتل کردیا اوراپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ وہی لڑکی تھی جس سے اس کی شادی ہونی تھی جس کی خوبصورتی پر وہ دیوانہ تھا۔اس وقت اس کے سرپر بجلی سی کوندگئی ارے یہ کیا ہوا ، تب اسے احساس ہوا حسن صورت ہو نہ ہو حسنِ سیرت ضروری ہے۔اس دھوکہ پر خدا کا شکر ادا کیا۔
اٹھو جی !یہ کیا؟ سامنے بستر لگا ہوا ہے اور آپ سگریٹ لیے ہوئے کرسی پر سو رہے ہیں۔
میں ہڑبڑا کر نید ہی بولا:’’ سدو تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘

’’ہاں ہاں! اب زیادہ تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہ بات کئی بار بول چکے ہیں۔‘‘اب چلیے بستر پر لیٹ جائیے میں آپ کے پاؤں دبادیتی ہوں۔!!

Fareeb Roznama Rastriye Sahara


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...