Wednesday 8 February 2017

Urdu Short Story: Bebasi ka Karb

کہانی :

بے بسی کا کرب


       مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تیزی سے دفتر گیا، جلدی جلدی کام کیا اوربقیہ کام کو پنڈنگ فائل میں ڈال کر باس سے اجازت لی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ بازار پہنچ کر سبزیاں لیںپھر ایک مٹھائی کی دکان سے سموسے اورمٹھائی لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔

گھرپہنچتے ہی بچوں نے اسے دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا: ’’ابوآگئے! ابوآگئے!!‘‘
رضیہ نے سبزی کی تھیلی میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا:’’پلیٹ لاؤ اور سنو،ایک اچھی سی چائے بنانا۔‘‘
بچے پلیٹ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔

 تبھی عامرنے جلدی سے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک رسگلہ اٹھا لیا، جس سے رس ٹپک رہاتھا۔
میں نے کہا: ’’رکوبیٹا…!‘‘ پھر اس کی گردن میں اپنا رومال باندھ دیا تاکہ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
 پھر کہا : ’’چلواب بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ۔‘‘

اتنے میں رضیہ ٹرے میں چائے لیے ہوئے آگئی۔

بچوں کو اس طرح جلدی جلدی کھاتادیکھ میں نے کہا:’’رضّوآج مجھے ابو یاد آرہے ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کس حال میں ہوںگے۔ جانتی ہو، جب ہم عامر کی طرح تھے تو میرے ابوروزانہ ہم لوگوں کے لیے مٹھائیاںلاتے،خوب کھلاتے اورجب ہم گھومنے جاتے تو ہمارے لیے من پسند  چیزیں بھی خرید دیتے تھے۔ہم لوگوں کو کبھی مایوس دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔آج میں پڑھ لکھ کر نوکری کے قابل ہوگیا ہوں اورچاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیںاور اپنی شراب کی گندی عادت کو چھوڑدیںمگر وہ میری بات نہیں مانتے ۔ ان کی یہ عادت ہم سب کی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔ جس شخص نیمیں زندگی بھر ہم لوگوں کے لیے سب کچھ کیا،آج میں اتنا بے بس ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہاہوں۔‘‘

باتوںباتوںمیں ہیمغرب کا وقت ہوگیا میںنے رضیہ سے کہا: ’’بچوں کو سنبھالو اورنماز کی تیاری کرو۔ بس مسجدسے نماز پڑھ کرآرہاہوں۔‘‘

یونہی دن گزرتے رہے ۔ میں کے دوبچے اورایک بچی تھی جو اب بڑے ہونے لگے تھے۔ اس کی آمدنی یوں تو کچھ خاص نہیں تھی،مگر پھر بھی کسی طرح گزر اوقات ہورہی تھی۔بچے ایک اسکول میں پڑھنے جاتے تھے ۔ وہ  پیسے بچا کر رضیہ کوبنابتائے اپنی والدہ کے نام گھر بھیج دیتاتھا۔

ایک دن بچوں نے ضدکی کہ وہ میلے میں گھومنے جائیںگے۔ میںنے منع کیا مگر جب بچوں نے ایک نہ مانی ، تب میں نے رضیہ سے پوچھا:
’’کچھ پیسے جمع ہوں تو دو؟میں تمھیں بعد میں واپس کردوںگا۔ بچوںکو گھمانے لے جانا ضروری ہے‘‘۔

پھر اس نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا۔
’’رضو!جانتی ہو،ایک بار ابو ہم سب کو لے کر ڈزنی لینڈ (مختلف مقامات پر لگنے والا بڑا میلہ) گھمانے لے گئے تھے۔ وہاں ہم لوگ بڑے بڑے جھولوں پر جھولے ،آئس کریم کھائی، ہوا مٹھائی بھی خریدی،بہت سے کھلونے بھی خریدے ۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لی تھیں۔ مگرمیں کیا کروں، میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہے کہ میں بچوںکو وہ سب کچھ دے سکوں جو مجھے میرے ابونے دیاتھا۔ تمہیں وہ چیزیں خرید کر دو جوتمھیں پسند آئے۔ آج پھر مجھے ان کی جدائی کا کرب ستارہاہے۔اب بھی وہ اپنی گندی عادت چھوڑدیں اورہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائیںتو یہ بات میرے لیے تمام خوشیوں سے زیادہ بڑھ کرہوگی۔‘‘

تبھی عامر جوتے کے فیتے باند ھتے ہوئے بولا: ’’ابو! ہم تیار ہوگئے‘‘۔
ناصر بھی کچھ کہنا چاہ رہاتھا کہ سارہ اپنی توتلی آواز میں بولی: ’’ابوتلونا۔۔ دلدی تلونا!‘‘
اتوار کا دن تھا۔ میں گھر پر ہی تھا کہ دروازے پر ایک مانگنے والی عورت آئی، جس کے ساتھ دوبچے تھے۔ حسب معمول رضیہ نے پوچھا : ’’کیابات ہے ؟ ‘‘

مانگنے والی خاتون نے کہا: بھوک لگی ہے، اگر کچھ کھانا اور ان بچوںکے لیے پرانا کپڑاہو تو دے دو،بڑی مہربانی ہوگی۔
رضیہ نے کہا: ’’ٹھیک ہے کھانا میں دے دیتی ہوں،مگرکپڑے میرے پاس نہیں ہیں،کہیں اور سے مانگ لو‘‘۔
تبھی میںنے کہا:’’ارے رضو، عامر اور ناصرکے پرانے کپڑے اسے آجائیںگے وہ دے دو۔ان کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں۔‘‘ پھر رضونے بہ مشکل اسے وہ کپڑے اسے دے دیے۔

گھنٹے دوگھنٹے گزرے ہوںگے کہ مانگنے والی ایک اور خاتون آئی ،جو رو رو کر فریاد کر رہی تھی : ’’ہم لوگ غریب ہیں، بچی کی شادی کرنی ہے، تھوڑی بہت امداد ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
رضونے کہا:’’ اب میں اسے کیا دوں؟‘‘
 تب میں نے کہا:’’ا سے سو روپے دے دو۔‘‘

اس پر رضیہ جھنجھلاکر بولی:’’ آپ کی یہ عادت ٹھیک نہیںہے۔ ایک تو میں ضرورت کے سامان کم کرکے بہ مشکل 10روپے 20روپے جمع کرتی ہوںاور آپ آئے دن ان میں سے کسی نہ کسی کو دلوادیتے ہیں۔ آخرہماری بھی تو ایک بیٹی ہے ، ہمیں بھی تواس کی شادی کرنی ہے۔ تمہارے ابوبڑے دانی تھے ،جوکچھ کمایا، سب کچھ لٹادیا،کیا ملاان کو؟ اب ایسی عادت میں پھنسے ہیں کہ کوئی ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔‘‘

رضیہ کی یہ باتیں سن کر مجھے زورکا جھٹکا لگا، گویاکسی نے اس کے منھ پر زنّاٹے دار طماچہ رسید کیا ہو۔اسی وقت یہیں سے اس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کی ایسی نگرانی کرے گا کہ گندی عادتیں انھیں چھوبھی نہ سکیں۔
ارے، یہ کس کا سامان ہے ،نکالو! چلو چلو، آگے بڑھتے رہوبھائی۔اس شور و غل نے مجھے نیندسے جگادیا۔
رضیہ نے بھی اس کی نیند پر کہا:’’ اب اٹھیے بھی کتنا سوتے ہیں آپ ! اور یہ نیند میں آپ کیا بڑ بڑا رہے تھے؟‘‘
میں نے جواب دینے سے قبل کھڑکی سے جھانکا اور کہایہ تو نئی دہلی اسٹیشن ہے!تب اسے پتا چلا کہ وہ خواب دیکھ رہاتھا۔ پھر رضیہ سے کہا: ’’رضو! لوگ خواب میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں مگر میں اپنا ماضی دیکھ رہا تھا۔‘‘

اتنے میں اچانک عامر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہا :’’ چلئے ابو، گھر چلیں،وہیں ظہر کی نماز پڑھیں گے۔ آپ کے پوتے اکرم اورانورآپ کابے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
عامر کی بات ختم ہوتے ہی خالد نے کہا : ’’مگرناصر نہیں آیا؟‘‘
عامر:’’ابووہ کمپنی ویزاپر ابوظبی گھومنے گیاہے۔میں آپ کو فون پر بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

تبھی عامر ایک شخص کو سگریٹ پیتا دیکھ بولا: ’’ ارے بھائی ،اپنے گھر جاکر پینا، کیوںاپنی اور دوسروں کی صحت کو خراب کررہے ہو۔‘‘

یہ جملہ سن کر خالد کو یقین ہوگیاکہ اس کی، بچپن کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ سب اسٹیشن سے باہر آئے ، اپنی کار  میں بیٹھے اور گھر کا رخ کیا۔


عامر نے حفظ کرنے کے بعد عصری تعلیم حاصل کی ۔بی ٹیک کے بعدوہ ایک بڑی کنٹرکشن کمپنی کا ایکزیکٹیو ڈائریکٹر بن گیاتھا۔ ناصر بھی ایم بی اے کرکے ایک مشہورکمپنی کا مینیجنگ ڈائرکٹر بن گیا تھا، جب کہ سارہ نے اردواور انگریزی سے ڈبل ایم اے کیا پھر اس کی شادی ایک عالم دین سے ہوئی ، جس کا کپڑوںکا بہت بڑا کاروبارتھا۔

Bebasi ka karb Inqulab Mumbai 18 July 2013


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...