Wednesday 23 August 2017

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

طلاق پر اب وہ قانون بنائے گا جس نے اپنی بیوی کو بیوی ہونے کا حق نہیں دیا... 🤔🤔🤔



مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند... شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت ہے...شریعت پر عمل کرنا یہ مسلمان کا بنیادی حق ہے.


جب طلاق اور خلع کا کوئی سسٹم باقی نہیں رہے گا تو عورتوں پر وحشیانہ مظالم کا اندیشہ ہے، جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوگا ۔۔۔ طلاق فطری نظام ہے۔#तलाक़

Saturday 19 August 2017

Bihar Men Sailab ki Tabahkari

بہار میں سیلاب کی تباہ کاری

محب اللہ قاسمی


انس ومحبت انسان کی فطرت کا خاصہ ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیراسے باہمی میل جول اورتعلق کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد محسوس کرتاہے۔ چوں کہ اسلام خودسلامتی ومحبت کا پیغام دیتاہے۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں پر رحم کرے ،ان کی مصیبت میں کام آئے،ان کی مشکلات آسان کرے اوران کا سہارابنے ۔

چند روز قبل بہار میں سیلاب نے قہر برپا کر رکھا ہے ،اس کے 38؍اضلاع میں سے تقریبا 18 سیلاب سے متاثر ہیںجن میں سیمانچل(کشن گنج، سہرسہ، کٹیہار، ارریہ، سوپول اور فوربس گنج ) کا علاقہ بہت زیادہ متاثر ہواہے۔دوسری طرف مدھوبنی دربھنگہ ،مظفرپور،سیتا مڑھی،شیوہراورچمپارن،کے علاقے بھی متاثر ہیں۔جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔کروڑوں اور اربوںکا نقصان ہواہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی پل بہہ گئے ، ٹرین کی پٹریاںپانی میںڈوب گئیں، جس کی وجہ سے آمدو رفت کا سلسلہ پوری طرح منقطع ہوگیا۔اس حادثے نے جہاں انسانیت کودہلا کررکھ دیاہے ،وہیں طوفانی سیلاب سے متاثرہونے والوں کے دردناک حالات ٹیلی ویژن اورسوشل میڈیا پر وائر ل ہورہے ہیں۔ویڈیوز اور تصاویر کی زبانی مصیبت کا شکار لوگ مسلمانوں کو آواز دے ر ہے ہیںکہ اے دردکا درماںکہلانے والو !تم کہاںہو؟ہمارے پاس آؤ !ہماری مدد کرو!!مصیبت میں پھنسے ہم لوگوں کو نکالو!!!

لاچاروں،بے بسوں اور بے کسوں کی صداؤں پر لبیک کہنے والے اورمجبور وپریشان لوگوں کا سہارابننے والے پیغمبرکے امتی ہونے کے سبب مسلمانوںکو چاہیے کہ بلاتفریق مذہب وملت دوسروں کی مددکریں اورجب کبھی ،جہاں کہیں بھی انسانیت کسی مصیبت یا آفت سماوی یا ناگہانی حادثہ کا شکارہوتو ان کا ہمدرد بن کر ان کومشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں۔یہ ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے ۔

اس لیے میری پوری امت سے درخواست ہے کہ وہ اس نیک کام میں آگے آئیںاور مصیبت زدگان کی راحت رسانی کا فریضہ انجام دیں اور خاص طور سے مسلم تنظیمیں اس معاملہ میں دلچسپی لیں۔کیوںکہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں


Tuesday 15 August 2017

Urdu Short Story : Waqt ki Dahleez par

وقت کی دہلیز پر

      محمد محب اللہ

’’ماں آپ ہروقت پڑھتی رہتی ہیں۔ یہ لومٹھائی کھاؤ!یہ میری پہلی تنخواہ کی مٹھائی ہے۔آج مجھے تنخواہ ملی ہے، اس لیے میں نے اس میں سے کچھ پیسے غریبوں میں بانٹ دیے ،کچھ کی میٹھایاں خریدی اور دفتر سے واپسی پر رشیدہ خالہ اور سمیہ پھوپھی اور صوفیہ بھابی سب کے گھر مٹھائی دے آیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا میرے لال!خوشی ہمیشہ مل بانٹ کر ہی مناتے ہیں۔‘‘ کتاب رکھتے ہوئے سلمی نے جواب دیا۔

اسی دوران خالد بھی آگیا: کیا بات ہے؟ خوب مٹھایاں کھائی جارہی ہیں؟ زید نے بلا تاخیر جواب دیتے ہوئے مٹھائی ابو کے منہ میں ڈالی اورپوری بات بتائی۔ خالد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں۔بیٹا آپ کی بڑی امی کہاں ہیں؟ سلمی نے کہ کہا:
’’ابھی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں۔ شائستہ (بیٹی) آئی تھی کچھ دیر بیٹھی اور وہ دونوں بالائی منزل پرہیں۔‘‘

خوشی سے اچھلتے ہوئے زید نے کہا:’’ اچھا شائستہ آپا آئی ہیں۔ پھر تو میں ان کے پاس جارہاہوں۔انھیں بھی تو مٹھائی کھلانی ہے۔‘‘
اب سلمی نے خالد سے پیار بھرے انداز میں کہا : ’’کیوں جی آج بڑی تاخیر ہوگئی۔ خیریت تو ہے نا ۔‘‘
’’ ہاںذرا ٹرافک میں پھنس گیا تھا۔اور تم بتاؤ آج تو بہت خوش ہوگی ۔ بیٹے کو نوکری لگی اور اس کی مٹھائی بھی مجھ سے پہلے ہی کھا چکی۔‘‘سلمی کو چھیڑتے ہوئے خالد نے جواب دیا۔
’’کیوں جی آپ نے مٹھائی نہیں کھائی ۔اچھا اب باتیں بنانا چھوڑیے اور جلدی سے فریش ہوجائیے میں آپ کے لیے اچھی سی چائے بناکر لاتی ہوں۔‘‘
 یہ کہتے ہوئے سلمی کچن کی طرف چل پڑی۔آج سلمی بہت خوش تھی اس نے کیتلی لی فریز سے دودھ کا پیکٹ نکال کر اسے ابالنے کے لیے اور دودھ کیتلی میں ڈال دی پرانی یادوں میں کہیں کھوگئی۔

سلمی دین دار گھرانے سے تھی گاؤں والوں میں وہ گھرانہ دین داری میں مشہور تھا۔ اس کے والد سرکاری ٹیچر تھے۔ گھر میں دوبڑے بھائی اور اس سے تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ خوشحال گھرانہ اورعمدہ ماحول کی وجہ سے اس کی فکر بھی بلند اور شعوری طور پر مضبوط عزم وارادہ کی مالک تھی ۔جذبہ ترحم اور ایثار کی مثال تھی ۔ اپنی سہیلی کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کردینا اور ان کے مشکل وقت میں کام آنا گویا اپنے والدین سے ہی سیکھ لیا ہو۔ مزید براں اس کی دینی تعلیم نے اسے مزید پختہ کار بنادیا تھا۔
اسی گاؤں میں ایک نیک صالح اور غیر معمولی شہرت کا حامل ایک ہونہار آدمی جس کا بچپن میں ہی نکاح ہوگیا تھا اور عین جوانی میں رخصتی ہوگئی۔ مگر بیوی کمزور شعور اورفطری طور پر کم عقل ہونے کے سبب یہ خوبرواور ہردل عزیز ذہین لڑکا اپنی ازدواجی زندگی میں ایسی بیوی کے احساس سے محروم رہا جواس کے دکھ درد میں اسے تسلی دے ۔ اس کی خوشی کو خوشی اور تکلیف کو تکلیف محسوس کرکے اسے حوصلہ دے۔ یا اپنی ذہانت سے کوئی رائے دے کر اس کو مشکل وقت سے نکلنے کا راستہ بتائے۔ کیوں کہ اس میں بیوی میں قدرتی طور پر یہ ساری خوبیاں نہیں تھیں جو عام طور پر خواتین میں ہوتی ہیں۔

الغرض زندگی کی گاڑی جیسے تیسے قدرت کی مرضی کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس دوران اس کے کئی بچے بھی ہوئے ۔ وہ نہ صرف بچوں کی کفالت کرتا بلکہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی کفالت بھی مریض والدکے سبب ان کے ہی کندھوں پر تھی۔

ایک روز سلمی کی سہیلی نے اس آدمی کے سلسلے میں اس کے سامنے بات رکھی اور اس کے حالات کے بارے میں بتایا۔سلمی ساری باتیں سنتی رہی پھر کہا: ارے ہاں وہ تو بہت اچھے انسان ہیں ۔میں نے کئی بار اپنے گھر میں ان کاتذکرہ سنا ہے۔خیر اللہ رحم کرے۔ بڑا ترس آتاہے اس پر۔پر خدا کی جو مرضی۔

اس پر اس کی سہیلی نے مذاق کے انداز میں اس سے کہا : ’’برا نہ مانوتو ایک بات کہوں؟ ‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہاں بولو! میں تمہاری کسی بات کا برا مانتی ہوں!‘‘
سہیلی نے کہا:’’تم چاہوں تواس نیک، شریف انسان کی مدد کرسکتی ہو۔وہ بھی احسن طریقہ سے‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہٹ پگلی ! میں کیا کرسکتی ہوں‘‘
سہیلی نے کہا:’’تو اس سے شادی کرسکتی ہے۔ اس طرح تو اس کی خانگی زندگی بہتر اور مستحکم بناسکتی ہے۔یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ تیرے ابوکے قاسم چاچاسے اچھے تعلقات ہیں وہ دونوں اچھے دوست ہیں۔‘‘
سلمی نے کہا:’’تو بھی نہ کیسی کیسی بات لے آتی ہے!‘‘

سہیلی کے جانے کے بعد سلمی نے اس کی بات کو ہوا میں اڑا دیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔اسی دوران اس کا نکاح ہوگیا ۔ایک دن خبر آئی کہ سلمی کا جس سے نکاح ہوا تھا، اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور موقع پر ہی اس کا انتقال ہوگیا۔اس طرح سلمی رخصتی سے قبل ہی بیوہ ہوگئی۔ 
کچھ دن بیت گئے۔ سلمی کے والد کو اپنی بیٹی کی شادی کا خیال ستانے لگا ۔ اس نے اپنے دوست قاسم سے اس کا تذکرہ کیا۔قاسم بھی اپنے دوست کی پریشانی سے دکھی تھا۔ اس نے ایسے ہی اپنے گھر میں اس کا تذکرہ کردیا۔ اس پر خالد نے کہا:
’’بہت افسوس ہے ۔ خیر اس کی کہیں اور شادی کردی جائے ! ‘‘

قاسم نے کہا : ’’بیٹا!تو ابھی نہیں جانتا ۔ اس کے والد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تھوڑی ہی بیٹھے ہیں ۔ یہاں سماج کا حال یہ ہے کہ اس سے شادی کرنے کو معیوب سمجھا جارہاہے۔ کون کرے گااس سے شادی ؟ جہاں کہیں رشتہ کی بات ہوتی ہے ، بیوہ سنتے ہی بات ختم کرلیتے ہیں۔ غیر قوموں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی لوگ بیوہ سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں۔کاش میرے دوسرے بچے بڑے ہوتے !‘‘

اس پر خالد نے کہا:’’اگر یہ بات ہے ابوجان …تو آپ میرے عقدثانی کا پیغام ان کے گھر بھجوادیجیے۔ویسے بھی اسلام میں چارشادیوں کی گنجائش ہے۔ اگر انھوں نے قبول کیا تو ٹھیک ورنہ آپ کی طرف سے بات تو پوری ہوجائے گی اور آپ اس سماجی برائی کا حصہ بننے سے رہ جائیں گے۔‘‘

قاسم کو اپنے بیٹے کی یہ بات بھلی لگی۔ پر اس کے ذہن میں کچھ سوالات ابھرنے لگے۔
اس نے بیٹے سے پوچھا’’بیٹا ایک تو تو ویسے ہی تمام گھریلو اخرجات کی ذمہ داری تیرے سر ہے اور میں بیماری کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔ایسے میں تو…!‘‘خالدنے اپنے والد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا:
’’ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میں اس کی کفالت کیسے کرسکوںگا۔ آپ اس کی فکر نہ کریںایک آدمی کے بڑھنے سے اخراجات بہت زیادہ نہیں بڑھیں گے اور پھر ہر آنے والا اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتاہے۔ اللہ تعالی برکت دے گا۔ وہ کوئی نہ کوئی صورت ضرورنکال دے گا۔‘‘

اب قاسم کو کسی طرح کا کوئی تردد نہ رہا وہ اپنے دوست سے بات کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوست کے گھر جاکر ساری باتیں اس کے سامنے رکھ دی۔

سلمیٰ اپنی ماں کے ساتھ گھر میں بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی اور اپنی سہیلی کی پرانی باتوں کو یاد کرنے لگی ۔آج خالد اس کی نگاہ میں ایک عظیم انسان کی تصویر میں ابھر کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’بیٹی !کہاں کھوگئی ؟تو راضی ہے نا؟‘‘بیٹی کو جھنجھوڑتے ہوئے سلمی کی ماں نے اس سے پوچھا۔
 سلمی نے کہا : ’’ماں! مجھے ذرا سوچنے کا وقت دو۔‘‘
 اس جواب پر قاسم نے کہا کوئی بات نہیں بیٹی! تجھے انکار کرنے کا پورا ختیار ہے۔ ایسی کوئی جلد بازی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی زور زبردستی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا ہوں ۔ وہ تیرے حقوق کی ادائیگی میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دے گا۔ 

چند ماہ بعد سلمی نے حامی بھر لی۔اور بیوہ بن گئی سہاگن۔ اس طرح اس نے اسلام کے اس قانون کو عملی طورپر بہتر محسوس کیا جسے وہ کبھی کتابوں میں پڑھ کر آئی تھی۔

ابھی دودھ ابل کر بہنے ہی والا تھا کہ خالد نے آواز دی سلمی کیا ہوا … ’’چائے بنارہی ہو یا بربل کی کھچڑی۔‘‘
سلمی چونکی ۔اس نے فوراً کیتلی چولہے سے اتارتے ہوئے کہا ۔ ابھی لا رہی ہوں، ذرا صبر کرلو۔اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

Saturday 17 June 2017

Hamd Bari Tala



حمد

                      محب اللہ رفیق
دل بنانے والے تو نے ضبط بخشا ہے مجھے
یہ ترا مجھ پر کرم محسوس ہوتا ہے مجھے

تیرے در کو چھوڑ کر جاؤں کہاں میرے کریم
یہ زمانہ اب ترا درویش کہتا ہے مجھے

غم کا بادل سر پہ ہے اور،  راہ بھی ہے پر خطر
بس سہارا ہی ترا منزل دکھاتا ہے مجھے

کچھ نہیں جھولی میں میری صاف ہے فرد عمل
اجر کے قابل تو بس تونے ہی سمجھا ہے مجھے

سوچتا ہوں میں یہ اکثر بعد از حمد و ثنا
کون اپنی حمد کی توفیق دیتا ہے مجھے

ہے پریشانی میں آسانی نہ گھبرا اے رفیقؔ
یہ کلام کبریا مژدہ سناتا ہے مجھے


Ramzan ka Aakhri Ashara aur Shabe Qadar



رمضان المبارک کا آخری عشرہ اورشب قدر

                                                                  محب اللہ قاسمی

اللہ تعالیٰ بے حد مہربان ہے۔وہ چاہتا ہے کہ بندہ ا س کے سامنے دست بدعاہو،گڑگڑائے اورمانگے کہ وہ اسے عطا کرے اگرہ وہ پہاڑ کے برابربھی گناہوں کے بوجھ تلے دباہو ،مگرخداکے حضورتوبہ کرے اوراس سے مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے تمام گناہوں کوبخش دے گا۔رمضان المبارک میں اللہ اپنے بندوں پر مزیدمہربان ہوتا ہے۔ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتاہے۔ہرنیکی پر اجرکی برسات کرتاہے۔رمضان کے دوعشرے (رحمت، مغفرت) گزرچکے ہیں۔ اب آخری عشرہ باقی ہے۔جسے حدیث میں جہنم سے چھٹکارے کا عشرہ کہاگیاہے۔اس عشرے کی یہ فضیلت ہے کہ تلافی مابعد کے تحت غفلت کی چادرہٹاکر اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی دعاکریں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (اللہ کی عبادت )میں جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں نہیں کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے جسے بخاری نے نقل کیا ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوںکوبھی جگاتے تھے۔

وہیں اس آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی طاق رات میں شب قدرجیسی ایک عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے خدا کا فرمان ہے ۔

’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدرہزارمہینوںسے بہترہے۔اس رات میں فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامرخیرکولے کراترتے ہیں۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر)

لیلۃ القدرکے معنی

قدرکے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ رات بہت ہی عظمت احترام کے قابل ہے کہ اس میں قران مجید کا نزول ہوا۔قدربمعنی تقدیرکے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ فرشتے اس رات اپنے رب کے حکم سے ہر طرح کے احکام وفرامین لے کر نازل ہوتے ہیں۔اس رات اللہ اپنے بندوںکی تقدیرکے فیصلوںکی تفصیلات اپنے فرشتوںکے سپرد فرماتاہے جوکائنات کی تدبیر اورتنفیذامورکے لیے مامورہیں، اس میں ہرانسان کی عمراورموت اوررزق اوربارش وغیرہ کی مقداریں لکھی ہوتی ہیں، جسے لے کریہ ملائکہ اترتے ہیں۔آیت کریمہ میں اس رات کو ایک ہزارراتوں سے بہترقراردیاگیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے لیے بڑے ہی شرف کی بات ہے کہ اس رات کی عبادت اس کے لیے ایک ہزارراتوںکی عبادت کا درجہ قراردیاگیا۔

اس رات کی فضیلت

 نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں پڑھیں،ذکرواذکارمیں لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(متفق علیہ)

حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔

اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے توآپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے درمیان دس دن اعتکاف کیا۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا پھرمیں نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہاکہ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔( بخاری ومسلم )

آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی قرآن کی تفسیر ہے ۔مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں بھی انھیں میسرہوتی ہیں جس میں شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔

شب قدرکی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں شب قدرکوپاؤںتوکیا دعاکروں۔آپ نے فرمایایہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں میری خطائیں معاف فرمائیے۔(قرطبی)

لیلۃ القدرکا تعین

لیلۃ القدرسے متعلق اس بات کی توصراحت ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں آتی ہے۔مگراس کی تاریخ کے سلسلے میںبہت سے اقوال ہیں ۔تفسیرمظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلۃ القدررمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگرآخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیںبلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے۔وہ ہررمضان میں بدلتی رہتی ہے۔

آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرنے کا حکم

جہاں تک تعین شب قدر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں۔جیسا کہ نبی کریم کا ارشاد ہے :تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپ کا ارشاد ہے :تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرو۔اگرآخری عشرے کی طاق راتوں (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوںمیں دائراور ہررمضان میں منتقل ہونے والا قراردیاجائے تو  توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ جوتعین شب قدرکے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قراردیاہے۔

ایک مقولہ ہے ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ ‘‘جس نے کوشش کی اس نے حاصل کرلیا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرانسان محنت لگن اوریکسوئی کے ساتھ کوئی کام کرے تووہ اس کے بہترانجام کو پالیتا ہے ۔ انسان کی کوشش اسے حصول اہداف کے قریب لے آتی ہے ۔ایسے میں اتنی اہم ترین شب کی اگرکوئی قدرنہ کرے اوریونہی غفلت میں گزاردے تواس کے لیے پھرکوئی شب قدرنہیں اوروہ بڑاہی محروم ہوگا جواللہ تعالی کے اس عطیے سے لاپرواہے۔ایک حدیث کے مطابق جوشخص شب قدرکی خیروبرکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اوربدنصیب ہے۔



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...