Sunday 29 October 2017

Zara Deer Lagegi

غزل

گر مجھ کو تڑپنے میں ذرا دیر لگے
ان کو بھی مچلنے میں ذرا دیر لگے گی
طوفانِ بلا خیز سرراہ ہے حائل
منزل پہ پہنچنے میں ذرا دیر لگے گی
خود ہوگا شکاری بھی شکار، ایک نہ اک دن
حالات بدلنے میں ذرا دیر لگے گی

میں حرف نہیں ہوں کہ مٹادے گا مجھے تو
یوں مجھ کو مٹانے میں ذرا دیر لگے گی
تم رکھتے رہو زخمِ دلِ زار پہ مرہم
گھائل کو سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
دعویٰ تو رفیقؔ اس کا، رفاقت کا ہے لیکن
نیت کو پرکھنے میں ذرا دیر لگے گی
محب اللہ رفیق

Tuesday 24 October 2017

Ghazal: Zindagi keya hai

غزل  …  زندگی کیا ہے

راہِ پر خار سے جو گیا بھی نہیں
زندگی کیا ہے اس کو پتا بھی نہیں

کس قدر گہرا رشتہ ہے امید سے
میں نے اس کا لیا، جائزہ بھی نہیں

درد دے کر وہ کہتے ہیں ہمدرد ہوں
اس سیاست کا کوئی سرا بھی نہیں

آرزو لے کے ملنے گیا تھا مگر
میں نے کچھ کہا اور سنا بھی نہیں

اس سے برسوں تعلق تھا مرا مگر
اب مری قسمت وہ دیکھتا بھی نہیں

داغ چھپ جائیں چہرے کے جس میں سبھی
جگ میں ایسا کوئی آئینہ بھی نہیں

ہے رفیقؔ اپنا رشتہ ہر انسان سے
میں کسی کو کبھی جانچتا بھی نہیں


محب اللہ رفیقؔ

Ghazal: woh Shaksh hi dunya men mahboob

غزل

وہ شخص ہی دنیاں میں محبوب خدا ہوگا
جس کے لیے اسوہ ہی آئینہ بنا ہوگا

اس پر نہ بھروسہ کر دشمن سے ملا ہوگا
اس دشمن جانی سے کب، کس کا بھلا ہوگا

صرف اس کی عبادت پر بخشش تو نہیں ممکن
بندوں کا بھی حق تجھ سے جب تک نہ ادا ہوگا

اس نسل کی حالت بھی یونہی نہ ہوئی بد تر
اس میں تو قصور آخر اپنا بھی رہا ہوگا

دریائے رواں خوں کا اعلان یہ کرتا ہے
اس قتل کا منصوبہ پہلے سے بنا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ


Ghazal Ghayel Hua hun mai

غزل

کچھ ایسے ان کے ناز کا محمل ہوا ہوں میں
گویا کسی کے تیر سے گھائل ہوا ہوں میں

میں بے خودی میں ڈھونڈتا رہتا ہوں بس اسے
اب تو اسی کے کوچے کا سائل ہوا ہوں میں

اس کی نگاہ شوخ کبھی اٹھ نہیں سکی
اس کی اسی حیا کا تو قائل ہوا ہوں میں

حالات بگڑتے ہی وہ لوگ کٹ گئے
جن کے غموں کے بحر کا ساحل ہوا ہوں میں

لوگوں کے درد بانٹ کر میں بن گیا رفیق
مدت سے اس طریق پہ عامل ہوا ہوں میں

محب اللہ رفیقؔ


Ghazal: Bhole Nahi hain ham

غزل

غم توملے بہت مگر، روئے نہیں ہیں ہم
دل کو اداس تو کیا توڑے نہیں ہیں ہم

روکے بہت گئے تری یادوں کے قافلے
بڑھتے رہے قدم کبھی لوٹے نہیں ہیں ہم

کہتے تھے لوگ لوٹ جا مشکل ہے رہ گزر
چادر قنوط کی کبھی اوڑھے نہیں ہیں ہم

یادوں نے کیا مجھ کو بہت مضطرب صنم
راتوں کو کبھی چین سے، سوئے نہیں ہیں ہم

ماں باپ کی محبت و شفقت ہے لازوال
حقا کسی بھی گام پہ بھولے نہیں ہیں ہم

دنیا کی لذتوں نے ہمیں کردیا نڈھال
ورنہ بہت ہیں آج بھی تھوڑے نہیں ہیں ہم

چھیڑوں نہ بار بار ہمیں اے ستم گرو!
تاریخ ہے گواہ کہ کورے نہیں ہیں ہم

حالات زار پوچھتے ہیں، وہ بھی اے رفیقؔ
جن کے جفا و جور بھولے نہیں ہیں ہم


محب اللہ رفیقؔ

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...