غزل
گر مجھ کو تڑپنے میں ذرا دیر لگے
ان کو بھی مچلنے میں ذرا دیر لگے گی
طوفانِ بلا خیز سرراہ ہے حائل
منزل پہ پہنچنے میں ذرا دیر لگے گی
خود ہوگا شکاری بھی شکار، ایک نہ اک دن
حالات بدلنے میں ذرا دیر لگے گی
میں حرف نہیں ہوں کہ مٹادے گا مجھے تو
یوں مجھ کو مٹانے میں ذرا دیر لگے گی
تم رکھتے رہو زخمِ دلِ زار پہ مرہم
گھائل کو سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
دعویٰ تو رفیقؔ اس کا، رفاقت کا ہے لیکن
نیت کو پرکھنے میں ذرا دیر لگے گی
محب اللہ رفیق
No comments:
Post a Comment