Friday 13 April 2018

Gazal : Dil me bbat chupa kar rakhna


غزل

دل میں بات چھپا کر رکھنا
کچھ جذ بات دبا کر رکھنا

خوابوں کی تعبیر کی خاطر
سارے خواب سجا کر رکھنا

نفرت کے تاریک جہاں میں 
پیار کی شمع جلا کر رکھنا 

بے باکی کے شیدائی ہو
رات کو رات بتا کر رکھنا 

پھونٹ ڈال کر ٹوٹ نہ جانا
سب کو ساتھ ملا کر رکھنا 

سودا مت کر لینا ہرگز
تم ایمان بچا کر رکھنا 

سکھ دکھ ساتھی ہیں جیون کے 
ان کو دل سے لگا کر رکھنا 

غیروں کو اپناؤ لیکن 
اپنوں کو اپنا کر رکھنا

محب اللہ رفیقؔ

Sunday 25 March 2018

Iman ki Lazzat



ایمان کی لذت

دنیا کی بہت ساری چیزوں میں جس طرح اللہ تعالی نے لذت رکھی ہے، جس کے جائز استعمال سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں اور اس کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ایمان جو انسان کی سب سے بڑی دولت ہے اور فلاح دارین کا ضامن ہے۔ اس میں بھی ایک خاص قسم کی لذت رکھی ہے ۔ جس کے نتیجے میں انسان دنیا کی تمام تر ابتلا وآزمائشوں کو برداشت کر لیتا ہے اور دنیا کی زندگی کو اطاعت الٰہی پر نچھاور کردینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر کس قسم کے صاحب ایمان اپنے ایمان کی لذت محسوس کرسکیں گے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ کے پیارے رسول محمد ﷺ نے فرمایا:

ذاق طعم الایمان من رضی باللہ رباً، و بالاسلام دیناً، و بمحمد رسولاً (مسلم)
’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو پروردگار مان کر ،اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو رسول مان کر راضی اور خوش ہوا۔ ‘‘
حضرت عباسؓ نے سے مروی مسلم شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تین صفات سے متصف لوگ ایمان کی لذت کو حاصل کرسکتے ہیں۔

پہلی صفت (من رضی باللہ رباً) اللہ تعالی کو رب مان کر راضی ہونا:
اس کا مطلب ہے کہ لفظ ’رب‘جو کہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالی کو پوری کائنات کا مالک ،سردار اور پالنہار ماننا۔ اس بات کا اعتراف کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اس کی پرورش نہیں کرسکتا ۔ کوئی اس کی ضرورت پوری کر سکتا ہے اورنہ اس کی نگہبانی کرسکتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر عبادت کسی کی جاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ ہے کیوں کہ وہی رب العالمین ہے۔لفظ رب کا جائزہ لیا جائے تو قرآن کریم میں تقریباً 663 بار یہ لفظ آیا ہے۔قرآن کریم کے ذریعہ بیشتر دعائیں لفظ رب کے ساتھ مانگنے کی آئی ہیں،جن میں ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ کافی مشہور ہے۔اس کے علاوہ ہر نماز میں پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ کا آغاز ہی الحمدللہ رب العالمین سے ہوتا ہے اورتمام رکوع اور سجود میں متعدد بار ہم’ سبحان ربی العظیم ‘اور’ سبحان ربی الاعلیٰ‘ پڑھتے ہیں۔یہ سب اس لیے ہے تاکہ ہمارے دل و دماغ میں اللہ تعالی کے رب ہونے کا تصور باربار آتا رہے اور ہم ایمان کی لذت سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

دوسری صفت (و بالاسلام دیناً) اسلام کو دین مان کر راضی ہونا:
اسلام کو دین مقبول ماننا اور اسے مکمل نظام حیات تسلیم کرتے ہوئے ،اس کے احکام کواپنی زندگی میں نافذ کرنا تاکہ رضائے الٰہی کے ساتھ دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہو اوریہ خیال گندھے ہوئے آٹے سے بال کی طرح نکال دیں کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے مسلمان ہیں بلکہ یہ تصورواضح رہے کہ اسلام ہمارا دین اور شریعت ہے۔ اسی لیے اس دین میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں اور اس دین کے علاوہ کوئی مذہب کوئی طریقہ قابل قبول نہیں،اللہ تعالی کا فرمان ہے: (ان الدین عنداللہ الاسلام) یقیناًاللہ تعالی کے نزدیک قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے۔

تیسری صفت:و بمحمد رسولا (محمد ﷺ کو رسول مان کر راضی ہونا)
صحابہ کرامؓ نے اپنے مابین پیدا ہونے والی اس عظیم المرتبت شخصیت جسے اللہ نے اپنا برگزیدہ پیغمبر بنا کر دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا، انھیں اللہ تعالی کا رسول مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہؓ ہر وقت آپؐ پر جان چھڑکنے کے لیے تیار رہتے تھے ۔ہر مومن کا محمدؐ سے آج بھی والہانہ تعلق اور عقیدت ہے، جو ایمان کی بنیاد ہے۔کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کے ساتھ محمد ؐ کو اللہ تعالی کا آخری پیغمبر اور رسول نہ تسلیم کرلے۔محمد ؐ کو اللہ کا رسول مان کر ان کی اطاعت کرنا درحقیقت اطاعت الٰہی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالی کی اطاعت اس وقت تک نامکمل ہے جب تک کہ اطاعت رسول ؐ نہ ہو۔ اطاعت کا یہ جذبہ محبت سے پیدا ہوتا ہے لہذا اللہ تعالی کے رسول محمد ﷺ سے محبت ایمان لازمی جزقراردیا گیا۔

درج بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی لذت کے لیے اللہ کو خالق و مالک ماننا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرناضروری ہے اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ آپ ؐ سے محبت کی جائے، مومن کے لیے آپؐ کی ذات پاک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہو، آپ ؐ کی مکمل اقتدا کی جائے اور اسلام کو رسماً نہیں بلکہ اسے دین مان کر پوری زندگی میں نافذ کیاجائے۔ اسلام کی دعوت جسے لے کر آپؐ مبعوث ہوئے، اس کو عام کیاجائے۔

یہ وہ کیفیت ہے جس سے ایمان کی لذت حاصل ہوتی ہے اور وہی شخص قبر میں فرشتوں کے ذریعہ پوچھے جانے والے تین سوالوں (تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور اس آدمی (محمدؐ) کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟) کا جواب دے سکے گا جو دنیا میں اللہ کو پروردگار مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو رسول مان کر راضی اور خوش رہاہوگا۔ کما قال علیہ الصلوۃ والسلام
محب اللہ قاسمی



Wednesday 21 March 2018

Ghazal : Bas wo INSAN sab se Behtar hai

غزل

بس وہ انسان سب سے بہتر ہے
جس کا دل الفتوں کا ساگر ہے

اس کا جینا بھی کوئی ہے جینا 
جس کا یاور نہ کوئی دلبر ہے

وہ نہ جنت میں جا سکے گا کبھی
کرتا ماں باپ کو جو بے گھر ہے

یہ خموشی ہی جان لے لے گی 
کہہ دے جو بات دل کے اندر ہے

سر کہیں پر وہ جھک نہیں سکتا 
جو خمیدہ خدا کے در پر ہے

وہ کسی سے کبھی نہیں ڈرتا 
اپنے اللہ کا جسے ڈر ہے

کتنا ارزاں لہو ہے انساں کا 
’ہر طرف خون سے زمیں تر ہے‘

کشتی جیون کی ہے بھنور میں رفیقؔ 
بس امیدِ خدائے بر تر ہے

 محب اللہ رفیقؔ 

Monday 12 February 2018

Masjid Allah ka Ghar hai


مسجد اللہ کا گھر ہے کسی کی جاگیر نہیں!

     ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے کے ساتھ ہیں اور فیصلے میں نقص نکال کر بورڈ کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے درحقیقت منافقانہ رویہ اپنانے پر مصر ہیں۔مومن ایمان کا سودا نہیں کرتا چاہے 2019 میں بی جے پی جیتے یا ہارے ۔مومن ایمان سے ہے بی جے پی کی جیت ہار سے نہیں۔سب سے بڑا جرم اللہ کے گھر کو گرا کر اس جگہ مورتی ڈال دینا، اس کے بعد ہزاروں لوگوں کو شہید کردینا۔ پہلے تو اس کی باز پرس ہو اور مسجد گرانے والے مسجد کو دبارہ تعمیر کرائے پھر کوئی بات ہوگی۔ جب عدالتی کارروائی جاری ہے تو فیصلے کا انتظار کیا جائے.

    مسلمان امن پسند ہے امن چاہتا ہے مگر بے غیرت اور ایمان فروش نہیں کہ مسجد کا سودا کرلے۔ غیر مسلم تو کبھی ہم سے راضی نہیں ہوں گے تو کیا اس کے نتیجے میں ہم اپنا مذہب بدل لیں گے.شخصیات ہر زمانے میں پیدا ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، جن کا ادب و احترام بھی ملحوظ رکھا جائے گا مگر اس وقت تک جب تک وہ اپنے رویے اور بیان سے امت کے دینی معاملہ اور متفقہ فیصلے کو نقصان نہ پہنچائے. یہ مسجد کا معاملہ ہے میری یا کسی اور کی زمین یا ملکیت کا نہیں کہ جہاں چاہا بدلین کرلیا جسے چاہا گفٹ کر دیا۔

    اگر ہم نے اس کا سودا کر لیا یا اس جگہ کو بت کدہ بنانے کے لیے دے کر مسجد کہیں اور شفٹ کرنے پر آمادہ ہوگئے تو ہم اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اور جن لوگوں کو مسجد کے نام پر شہید کیا گیا، جب کہ ہم مسجد کے نام پر ایک تھپڑ کھانے سے کتراتے ہیں، کیا ہم ان کا خون یونہی ضائع کردیں گے؟ اور اپنا موقف بدلنے پر مجبور ہو جائیں؟ تو کل کسی اور مسئلہ پر ہم کیا کریں گے؟ 

    ہم اپنے دین اور شریعت کے ساتھ جینے کی آزادی ہے ہم اسی کے ساتھ جئیں گے اسی کے ساتھ مریں گے۔ الا یہ کہ ہم سے ہماری یہ آزادی چھین لی جائے.

    اسی لیے ہم انصاف کی خاطر عدالتی لڑائی لڑ رہے ہیں اور فیصلے تک انتظار کریں گے ، فیصلہ حق میں ہو یا مخالف ہم اسے قبول کریں گے، جس کے ہم مکلف ہیں.


Saturday 10 February 2018

Maulana Salman Sb



غلطی کس سے نہیں ہوتی مگر......!

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی محترم مولانا سلمان صاحب کی صلاحیت، قابلیت اور بے باکی سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں عام درجہ کا عالم سمجھتا ہوگا مگر معاملہ جب کہیں سے کہیں پہنچ جائے اور اس کا منظر اور پس منظر کچھ اور ہو جائے تو اس پر اختلاف اور تنقید کا حق ہونا چاہیے اور حمایتی حضرات کو یہ قبول کرنا چاہیے اور مولانا محترم سے اپنے موقف اور رویے پر نظر ثانی کے لیے کہنا چاہیے.

ورنہ مولانا محترم کے اصرار، اس پر جذباتی اور غیر دانشمندانہ ردعمل سے امت مزید انتشار کا شکار ہوگی اور اس دفعہ نقصان غیرمعمولی ہوگا.

10 فروری کو سارا دن چینل پر وہ میڈیا جو علماء کی بے عزتی کو اپنا فرض منصبی سمجھتا رہا اس نے مولانا سلمان صاحب کو لے کر جو ڈراما کیا ہے اور ان کی قصیدہ خوانی کی اور مولانا نے جس انداز سے اپنا موقف رکھا اور دوسروں کو رسوا کیا وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک رہا. ان ہی سب باتوں نے تو معاملہ اور خراب کیا ہے ورنہ غلطی کس سے نہیں ہوتی مگر ہوش میں آتے ہی انسان اپنی غلطی پر نظر ثانی کرلے وہی کامیاب ہے ۔مولانا بہت دور جا رہے ہیں پھر بھی واپسی ممکن ہے۔

اس وقت محترم مولا سلمان صاحب، ان کے بیان اور اس کے سبب مسلم پرسنل لا سے ان کی رکنیت سے اخراج کو لے کر امت کرب میں مبتلا اور انتشار کا شکار ہے. ایسے میں یہ نہ دیکھا جائے کہ کون ان کا حمایتی اور کون ان کے بیان کا مخالف بلکہ یری گزارش ہے کہ ان سب باتوں کو چھوڑ توجہ اس بات پر مرکوز کی جائے کہ کیسے مولانا سلمان صاحب کو اپنے موقف پر نظرثانی کے لیے آمادہ کیا جائے. اس وقت اس کی سخت ضرورت ہے. کیوں کہ مولانا بہرحال ایک اہم شخصیت ہیں.         

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...