Thursday 1 November 2018

Angaron ki Do Zabanon wala Shakhs


انگاروں کی دو زبانوں والا شخص

ہم تصور کریں  کہ ایک ایسا شخص جس کے دوچہرے ہوں اور اس کے منہ میں دہکتے ہوئے شعلوں کی دوزبانیں ہوں ، وہ اس کا چہرہ کس قدر بھیانک اور کتنا بدترین ہوگا! اب ذہن میں سوال آئے گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس گھٹیا اور ناعاقبت اندیش شخص کی کیا پہچان ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے من شرارالناس (بدترین انسانوں میں سے) قرار دیا ہے؟  تو آئیے ہم ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ کی زبان مبارک سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کا ارشاد ہے:

إنّ من شرار الناس ذوالوجہین الذی یأتی ہولاء بوجہ وہولاء بوجہ۔ (مسلم)
’’یقیناً بدترین شخص وہ ہے جو دو منہ رکھتاہو، کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کرجاتا ہے اورکچھ لوگوں کے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘

ایسے انسان کو آپﷺ نے کیوں بدترین انسان قرار دیاہے؟ اس سوال پر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام، معاشرہ میں امن و سکون اور خوش گوار ماحول دینا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں میں باہمی ربط وتعلق مضبوط ہو ۔ایسے اسباب پیدا نہ ہوں جن کی وجہ سے ان کے درمیان کسی طرح سے قطع تعلق ، یا فساد و بگاڑ پیدا ہوجائے ۔ لہذا اسلام ان تمام بری خصلتوں اور گھٹیا عادتوں سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دورخی اختیار کرنا ،ان ہی بری خصلتوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ اس کے لیے بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے،تاکہ مسلمان اس بری عادت سے بچیں۔آپؐ نے فرمایا:

من کان لہ وجہان فی الدنیا، کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار۔(ابوداؤد)
’’جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو  زبانیں ہوں گی۔‘‘

دورخی اختیار کرنے والا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوں میں فساد و بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اس عادت بد کو نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے شخص کو انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ وہ لوگوں کی کم زوریوں کی ٹوہ میں لگارہتاہے، تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔ اس طرح ان کے مابین قطع تعلق ہوجائے۔ اسی وجہ سے اس کا دل حسداور کینہ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

امام غزالیؒ نے دوطرفہ باتیں بنانے والی خصلت بد کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے، جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوگی۔ 

یہ وہ برائی ہے جو مسلم معاشرے بھی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں ہمیں خود کامحاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں وہ بری خصلت ہم میں تو نہیں اگر ہے تو ہمیں اسے فوراً دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر  نہیں ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
محب اللہ قاسمی

Tuesday 30 October 2018

Yaqeen Mahkam Amal Paiham



یقیں محکم عمل پیہم

ہم سب مسلمان ہیں پر کیا واقعی مسلمان ہیں؟ کیا ایمان والوں سے ایمان کا مطالبہ نہیں کیا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ :
ہم نے اپنے حصے کا کام چھوڑا تو باطل اور ٹائم کرنے لگے اور تاریکیوں  نے پیر پسارنا شروع کردیا؟
ہم نے غیر مسلموں میں افہام تفہیم کا عمل چھوڑا تو وہ ہمارے اسلامی شعائر پر ہی حملہ آور ہو گئے؟
ہم نے اپنا نعرۂ تکبیر چھوڑ دیا تو ظالموں نے ظلم کا نعرہ بنلد کرنا شروع کردیا؟
ہم نےبہادری اور بے باکی کا گلا گھونٹ کر بزدلی کی راہ اپنائی تو ہمارے نوجوان بوڑھے بچے سب یک بعد دیگر موت کی گھاٹ اتارے جانے لگے؟
ہم نے دنیا کی چمک دمک، اونچی اونچی عمارت پر توجہ دی اور تعلیم سے دوری بنائی تو پھر فسطائی طاقتوں  نے ہمیں زمیں بوس کر نے کے فراق میں لگ گئے اور ہمیں موم کی ناک سمجھ کر جدھر چاہا ادھر موڑ دیا۔
ہماری شناخت اشدآء علی الکفار رحماء بینہم کی تھی جب ہم نے اس بر عکس پہچان بتائی تو ہمیں نیمبو کی طرح نچوڑ دیا گیا۔
ہماری زندگی مومنانہ ہونی چاہیے تو ہم نے (نعوذباللہ) طرز کافرانہ اختیار کیا۔
زوال و پستی کے اتنے سارے اسباب موجود ہیں پھر ہم زوال امت کے اسباب تلاش کر رہے ہیں۔ جب کہ قرآن کا اعلان ہے:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
تم نہ دل برداشتہ ہو اورنہ غم گین ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرط کہ تم مومن ہو۔
دریاؤں میں  گھوڑے دوڑانے والے اپنے یقین محکم اور عمل پیہم سے زمانے کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
ورنہ نام کے مسلمانوں کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
 تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
محب اللہ قاسمی


Monday 29 October 2018

Woh tere Nare Takbeer se Larazte the


وہ تیرے نعرۂ تکبیر سے لرزتے تھے

تاریخ شاہد ہے کہ ظلم جتنا سہا گیا، اس پہ جس قدر خاموشی اختیار کی گئی یا انصاف میں جتنی تاخیر ہوتی رہی ،ظلم اسی قدر بڑھتا گیا، ظالموں کے حوصلے اسی قدر بلند ہوتے گئے.معاشرہ میں فساد اور انسانیت سوز واقعات اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے وطن عزیز کا بھی یہی حال ہے۔ظالموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس پر اٹھنے والی آواز سختی سے دبا ئی جا رہی ہے۔مظلوم انصاف کا لفظ سننے کو ترستا  ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ مگر اسے  انصاف نہیں ملتا۔ اس طرح بے قصور کی پوری زندگی محض الزام کی نذر ہوکر تباہ کر دی جا رہی ہے۔ 

ظلم سہنے  کا یہ عالم ہے کہ پے در پے اس ظلم کا شکار کسی خاص مذہب یا گروہ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مسلمان یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ہو تو پھر اس کا خون بہانا ان ظالموں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں  رہ جاتی۔خواہ وہ بزرگ ہو یا ادھیڑ عمر کا یا پھر کوئی معصوم سا بچہ۔ نفرت کے سودا گر، سیاست کی روٹی سیکنے والے ان کے خون سے پیاس بجھا کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔جب کہ ان مٹھی بھر فاسد عناصر کو دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے اور ظلم پر لب کشائی کو جرأت بے جا یا مصلحت کے خلاف تصور کرتی ہے۔

دوسری طرف مسلمان جس کا فریضہ ہی دنیا میں اللہ کے بندوں کو معرفت الٰہی سے روشناس کرانا ،عدل و انصاف کے ساتھ امن و امان قائم کرنا  اور ظلم و غارت گری کو جڑ سےختم کرنا ہے۔ وہ دنیا کی چمک دمک میں ایسا مست ہے کہ اسے عام انسان تو درکنار خود اپنے  نوجوان ، بچے، بوڑھے کی شہادت اور ان کے بہیمانہ قتل پر بھی کچھ درد محسوس نہیں ہوتا ۔اگر کوئی اپنا قریبی رشتہ دار ہے تو چند روز آنسو بہا کر خاموش ہو جانا ،  پھر چند ایام کے بعد ایسے ہی فساد کا شکار دوسرا کوئی مارا جاتا ہے، تو کچھ روز گریہ و زاری کر لینا اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے قائدین، جو قوم و ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ اخبارات میں ان واقعات کی کھلی مذمت تو ضرور کرتے ہیں، مگر کوئی ایساٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے عملی اقدام نہیں کر تے جس سے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں ، ان کی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور دل و جان سے ان پر قربان ہونے کو تیار رہے. 

جب کہ تاریخ نے انھیں ان کا مقام بتایا، اسلام نے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا، ماضی کے واقعات نے ان کو اپنے فریضہ کی ادائیگی کا سلیقہ سکھایا اور نعرہ تکبیر نے ان کے اندر حوصلہ دیا کہ وہ ظالموں کو لرزا بہ اندام کرتے ہوئے ان کے ہی میدان میں انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اسلام نے سسکتی انسانیت کو  جینے کے بنیادی حقوق دیے،ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ساتھ ہی ظالموں کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو باہمت،باحوصلہ اور بہادر بننے کی ترغیب دی۔مومن کو ایمانی اور جسمانی ہر اعتبار سے مضبوط بننے پر زور دیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول  میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بزدلی کو مومنانہ شان کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن بزدلی کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہنے کی تعلیم دی۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (بخاري)
”اے اللہ! میں رنج و غم سے ،عاجزی و سستی سے،کنجوسی  اور  بزدلی سے، قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں“

اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرتے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اسے عملی جامہ نہیں پہناتے  تو دادری کے اخلاق سے دہلی کے عظیم تک قتل و خوں ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہےگا ۔ بلکہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا.
ہم دنیا کی محبت میں گرفتار، بزدلی کے شکار اپنا سب کچھ ختم کر لیں گے۔ دنیا تو تباہ ہوگی ہی ، آخرت میں بھی خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہمارے آباواجداد نے اتنی قربانیاں دیں۔ ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اوربعد میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بنا لیے گئے۔ ہمارےاتنے سارے ادارے قائم تھے پھر بھی ہمارا دینی تشخص، بنیادی حقوق، اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی سب سلب کر لی گئی اور ہمیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حالات میں لاکھڑا کردیا۔
عقل مند انسان وہی ہے جو پرفریب دنیا کی چاہت سے آزاد ہو کر مسقبل کو بہتر بنانے کے لیے ماضی سے سبق لے کر حال میں اپنی پوری جد وجہد صرف کردے۔
(محب اللہ قاسمی)

Bhatak na Jaye phir insan rah dikhao zara


غزل

بھٹک نہ جائے پھر انسان رہ دکھاؤ ذرا
چراغ پھر سے اندھیروں میں تم جلاؤ ذرا

وہ تیرے نعرہ تکبیر سے لرزتے تھے
لگاؤ پھر وہی نعرہ انھیں ڈراؤ ذرا

جو مانگ لیتے سلیقے سے جان دیدیتے
مگر دغا سے تمہیں کیا ملا بتاؤ ذرا

وہ دے گیا ہے دغا جس سے کی وفا برسوں
وفا کی کس سے اب امید ہو بتاؤ ذرا

اگر غزل میں تمہاری دوائے درد بھی ہے
تو آؤ میرے قریب اور غزل سناؤ ذرا

رفیق منزلیں آسائشوں سے بھاگتی ہیں
تمہارے پیٹ پہ پتھر ہے کیا دکھاؤ ذرا
(محب اللہ رفیق)



Sunday 21 October 2018

باوقار مربی اور باکمال متعلم



باوقار مربی اور باکمال متعلم

جب میں 2008میں مرکز جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوا اور یہاں کے مخلص کارنوں سے میرا تعارف ہواتو ان میں سے ایک صاحب کو میں نے بہت ملنسار، خوش مزاج اور مرکز کے تمام کارکنان سے اپنے رشتہ داروں جیسا معاملہ کرنے والے منکسرالمزاج، عالی ظرف پایا۔ وہ تھے جناب محمد اشفاق احمد صاحب،جو 20 اکتوبر 2018 کی صبح اپنے بہت سے محبین و متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ، اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.  إنا للہ و انا الیہ راجعون.

جناب اشفاق صاحب کے لیے لفظ ’مرحوم‘ لکھتے اور بولتے ہوئے دل پر ایک عجیب سا جھٹکا لگتا ہے، مگر موت ایک ناقابل انکار حقیقت اس لیے یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ہمیشہ کے لیے نہیں آیا، اسے ایک نہ ایک دن یقیناً اس دنیا سے کوچ کرنا ہے، سو آپ بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے.

آپ شعبۂ تعلیمات کے سابق مرکزی سکریٹری ہونے کے ساتھ رکن مجلس نمائندگان، بانی و صدر الحرا ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد اور سابق صدر ایس آئی او کے بھی رہ چکے ہیں. خلوص و للہیت کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی، اللہ پر بھروسہ اور جہد مسلسل میں یقین رکھتے ہوئے آخری سانس تک متحرک رہنے کا عزم اور دوسروں کو ایسے  ہی تیار کرنا ان کا خاصہ تھا.  

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آپ کو عربی زبان سیکھنے کا بھرپور شوق تھا، جو جنونی درجہ تک پہنچا ہوا تھا. لہٰذا کچھ لوگوں کو جوڑ کر باقاعدہ عربی زبان سیکھنے کے لئے پر عزم موصوف نے ایک ایسے نوجوان استاذ کا انتخاب کیا جس کے آپ خود مربی تھے۔ اکثر دفتر سے نکل کر مسجد جاتے ہوئے اس سے اس کے احوال پوچھتے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے تھے، مرکز جماعت کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام کے مکتب کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے اکثر اسے مختلف درجوں کے معائنے کا حکم دیتے تھے، جسے وہ بہ رضا و رغبت قبول کر اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا.
مگر عربی زبان سیکھنے کے لیے انھوں نے اسے حکم نہیں دیا، بلکہ اپنے عالی ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس سے  کچھ وقت نکالنے کی بات کی اور حسب  توقع وہ نوجوان اس کام کے لیے تیار ہو گیا.

اس طرح ایک باوقار مربی ایک  با کمال متعلم بن کر تقریباً دو سال تک عربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں اور قرآن کے ترجمے پر غور و فکر کرنے کے لیے سورہ ٔبقرہ کی ابتدائی رکوع کو پورا کیا ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی تعلیمی خدمات میں لگاتے ہوئے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جب بھی موقع ملے کچھ نہ سیکھتے رہنا چاہیے.

راقم کے لیے ان کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ میرے مربی تھے اور مجھ سے عربی سیکھنے والے متعلم بھی. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے  گناہوں کو معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے، ان کے تمام لواحقین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائےاور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے. آمین یا رب العالمین.
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...