Sunday 6 April 2014

اسلامی اخوت -اہمیت و ضرورت



اسلامی معاشرہ کو پر امن ،مضبوط اور  مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں  کا باہمی ربط وتعلق بہت گہرا ہو۔  ایسا نہ ہو کہ مسلمان اپنے میں  مگن رہے اور  اپنے لیے تو بہتری کی خواہش رکھے مگر دوسرے مومن سے لا تعلق ہو اور  ان کا برا چاہے اور ان کے ساتھ ہمدردی ،محبت اور  رواداری کے ساتھ بالکل پیش نہ آئے۔  جب کہ قرآن پاک میں للہ تعالی نے اہل ایمان کا باہمی رشتہ بالکل واضح کردیاہے کہ وہ آپس میں  بھائی ہیں ۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اہل ایمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں  ، لہذا اپنے بھائیوں  کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور  اللہ سے ڈرو ، اْمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔  ‘‘ (حجرات:10)
ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتاہے اگرچہ یہ رشتہ نسبی نہیں  ہوتا اور میراث وغیرہ کی تقسیم کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوتا، اس کے باجود بھی مومن کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مؤمن بھائی کی تکلیف کواپنی تکلیف محسوس کرے ،اس کی جان ،مال ،عزت و آبروکی حفاظت کرے۔  اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصورکرے ۔  یہی ایمان کی کیفیت اور اس کا تقاضا ہے۔
اسلام نے امت مسلمہ کو جسد واحد قراردیا اور  بتایاکہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کاجس طرح باہمی ربط وتعلق ہوتا ہے کہ اس کے کسی ایک عضوکو تکلیف پہنچے تو سارا جسم کراہنے لگتاہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک کا ہو اسے ظلم وجبر کا نشانہ بنایاجائے ، وہ مظلومیت اور  اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتو اس کے اس درد کو محسوس کیاجائے اور اس پر ظلم کے خاتمہ کے لیے حتی الامکان کوشش کی جائے۔ مومن کے اس رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ  ﷺکا ارشادہے:
مثل المؤمنین فی توادہم وتراحمہم و تعاطفہم مثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی (بخاری:5665  ومسلم:2586)
اہل ایمان کی مثال باہمی شفقت و محبت اور  الفت وعنایت میں  ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کے کسی عضو کوکوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور  بخار میں  مبتلا ہوجاتاہے ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒنے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے :
’’یہی وجہ ہے کہ مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتاہے۔  جس کے اندر یہ کیفیت نہ ہو وہ مؤمن نہیں  ہے۔ ان کا اتحاد اللہ اور  رسول پر ایمان اور  محبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔  (مجموع الفتاوی)
یہ رشتہ کو کمال ایمان کے لیے ضروری ہے اور  اس تعلق میں  کوتاہی گویا ایمان میں  نقص کی علامت ہے۔  اس کی پاسداری کے لیے ضروری ہے کہ ایک مومن اپنے لیے جس چیز کو پسند کرتاہے وہی وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔  نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ
’’تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل)مومن نہیں  ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
اس حدیث میں  ایک معاشرہ کی صلاح وفلاح کے لیے ایک جامع اصول بتایاگیا ۔ وہ یہ کہ ہرشخص کے اندراپنی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بھلائی اور خیرخواہی کا جذبہ ہوناچاہیے ۔  آج مسلمان بھی غیرقوموں کی طرح مفادپرست اور خودغرض ہوگئے ہیں ۔  انھیں دوسروں کا کوئی خیال نہیں  رہتاحتی کہ وہ اپنے پڑوسیوں  کے حقوق سے بھی ناآشناہوکربے حسی کی زندگی گزارتے ہیں ۔  اسلام ا س حرکت کو براہی تصورنہیں کرتا بلکہ اسے ایمان میں  نقص کی علامت بتاتا اور  کمال ایمان کے منافی قراردیتاہے ۔ رسول اللہ  ﷺکا فرمان ہے:
ما آمن بی من بات شبعانا وجارہ جائع الی جنبہ وہو یعلم بہ ۔
’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں  رکھتا جوآسودہ ہوکر سورہے یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔  (المعجم الکبیر للطبرانی)‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ایسے کاموں کی تلقین کی ہے جن سے باہم محبت پیداہو۔ جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں  کہ جب نبیؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیگر لوگوں  کے ساتھ میں  بھی آپؐ کودیکھنے کے لیے گیا ۔ سب سے پہلی بات جو میں  نے آپ ؐکی زبان مبارک سے سنی وہ یہ تھی:
یا ایہا الناس افشوا السلام، اطعموا الطعام، وصلوا الارحام، صلوا والناس نیام، تدخلواالجنۃ بسلام    (ابن ماجہ، ترمذی)
’’اے لوگو!سلام کوعام کرو،لوگوں  کو کھاناکھلاؤ، صلہ رحمی کرو، جب لوگ سورہے ہوں تب نماز (تہجد) پڑھو۔  اگر تم ایسا کروگے تو جنت میں  سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے۔ ‘‘
اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ امت کے افراد آپس میں  گھل مل کر رہیں  اور ان کا بنیان مرصوص کی طرح مضبوط ومستحکم ہو۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالی سے  رات کے آخری حصے میں  نماز کے بعد دعا بھی کریں  تاکہ ان کے عمل کو اللہ کی تائید حاصل رہے اور  اللہ سے قربت اور لگاؤ میں  اضافہ ہو، خلوص وللہیت پیدا ہواورتوکل علی اللہ کی کیفیت پیداہو۔ پھریہ سب اعمال ان کے سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخلہ کا سبب بنیں گے۔
اگر ہم اپنا ایک اصول بنائیں  کہ ہمیں  اسلامی اخوت کو برقرار رکھنا ہے۔  کسی صورت میں  اسے دیمک نہ لگے جو ہمارے تعلقات کھوکھلاکردے، تو اس کے لیے چندباتوں کا اہتمام ضروری ہے۔  مثلا:اگر کسی بات میں  کوئی نااتفاقی ہو گئی ہو اور  ناگوار حالات پیش آجائیں  تو تین دن سے زیادہ کسی سے لاتعلقی اختیار نہ کریں ۔ غیبت ،جھوٹ ،خیانت،دھوکہ دھڑی،حسدجیسی رزیل حرکتوں  سے گریز کریں ۔ کسی کو اپنے سے کم ترنہ سمجھیں ، کسی مذاق نہ اڑائیں ،کسی کا رازفاش نہ کریں ،کسی کو برے نام یاالقاب سے نہ پکاریں ،محبت کریں  اور  معاف کرنے کی عادت ڈالیں ۔
اسلامی اخوت کے تعلق سے نبی کریم ﷺ کا واضح ارشادہے :
المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولایسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ۔
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ تووہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت میں  لگا رہے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی کو دورکرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں  سے اس کی ایک پریشانی دورکردے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ ‘‘     (بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کواپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ اس طرزعمل میں  خود اس کا فائدہ ہے ، کیوں  کہ اس کے بدلے میں  اللہ تعالی اس کاخیال رکھے گا ۔ اگروہ دوسروں کا خیال رکھے گا اور  اس کی عیب جوئی کے بجائے ،پردہ پوشی کرے گا تو خدابھی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اگرانسان اپنے اوپر اپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں  اس کے اندرکی بہت سی خرابیاں اور  اخلاقی گراوٹیں خودبہ خود ختم ہوجائیں  گی ۔
عالم اسلام کی سطح پر مسلمانوں  کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایمانی اخوت کی بنیاد پرجس قدر بے چینی محسوس کی جارہی ہے یہ یقینی طور پر ایمانی حلاوت کی دلیل ہے ۔ جس کے لیے عالمی سطح پرمظاہرے اور  عدل قائم کرنے کی کوششیں  تیز کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔  یہ ساری باتیں  خوش آئند ہیں  مگر کیا ہم اخوان المسلمون کی تربیت اور  ان کے ایمانی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا پنا جائزہ لیں  تو ہمیں  نہیں  لگتا کہ آج مسلمانوں میں  باہمی محبت اور  ربط وتعلق اخوانیوں  کی طرح ہے ۔ آج مسلمانوں  میں دوسروں کی پریشانیوں کواپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا جذبہ ختم ہوتا نظر آرہاہے۔ آج قومی اور  عالمی سطح پر مسلمان ایک دوسرے سے کٹے ہوئے سے محسوس ہوتے ہیں ان کا باہمی رشتہ کمزور سا معلوم ہوتاہے۔ حکومتی سطح پر تو یہ اخوت اور  بھی کمزورہے گویا اسے دیمک لگ گئی ہو ورنہ تاریخ کو سامنے رکھیں  تو ہمیں  معلوم ہوگا کہ چند مظلوم بے بس عرب مسلم خواتین پر راجہ داہر کے لوگوں  نے ظلم کیا، جس کی گونج اور  ان کا درد ساحل کے اس پار یوسف بن حجاج تک پہنچی اور  اس نے اس کو دہلاکررکھ دیا جس کے نتیجہ میں  اس نے محمد بن قاسم کی رہنمائی میں  ایک فوج بھیجی جس نے نہ صرف ان خواتین کو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کیا بلکہ سرہند کو فتح بھی کیا ۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں   رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں  اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفار پر سخت اور  آپس میں  رحیم ہیں ۔
اس کی تفسیرمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں  ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفارپر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں  ہیں  کہ انھیں  کافرجدھرچاہیں  موڑدیں ۔ وہ نرم چارہ نہیں  ہیں  کہ کافرانھیں  آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔  انھیں  کسی خوف سے دبایانہیں  جاسکتا۔  انھیں  کسی ترغیب سے خریدانہیں  جاسکتا۔ کافروں میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ انھیں  اس مقصد ِ عظیم سے ہٹادیں  جس کے لیے سردھڑکی بازی لگاکرمحمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ (اورآپس میں  رحیم ہیں )یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں  ہے۔  اہل ایمان کے مقابلے میں  وہ نرم ہیں ،رحیم و شفیق ہیں ،ہمدردوغمگسارہیں ۔ اصول اور مقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی وسازگاری پیداکردی ہے۔ ‘‘(ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگر مسلمانوں  کے اندر ایمانی حمیت اور  اسلامی اخوت بیدا رہوگی تو وہ دنیا والوں  کی نگاہ میں  بہ حیثیت مسلمان بہت ہی مضبوط اور  مستحکم ہوں گے۔  وہ ایک جسم کے مانند تصور کیے جائیں  گے ، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں  کیوں  نہ ہوں ۔ پھر دشمن انھیں  سوئی بھی چبھونے سے قبل سوبار ضرور سوچیں گے۔ پھر وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کے خلاف برسرپیکار رہیں  گے بلکہ وہ عام انسانوں  پر بھی ظلم کو برداشت نہیں  کریں گے اور  ہر ممکن عدل قائم کرنے کی کوشش ہوگی۔  لیکن اگرخود ان کا باہمی تعلق مضبوط نہ ہوگا اور ان کی مشکلات سے چشم پوشی کرتے ہوئے انھیں  مظلوم و بے بس چھوڑدیا جائے گا تاکہ دشمن اسے موم کی ناک سمجھے اور  ان کے ساتھ جیسا معاملہ چاہے کرے ،انھیں چینٹیوں  کی طرح روندے اور  گاجرمولی کی مانندکاٹے اور  دوسرے تمام مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں ۔  یہ سب باتیں  انتہائی شرم ناک ہیں  جو مسلم معاشرے کی تباہی وبربادی کی دلیل ہے۔
٭٭٭


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...