Sunday 13 April 2014



ہم برابراپنے دل میں  یہ سوچتے ہیں  کہ کوئی ایسی جگہ ہوتی جہاں  بے سرمائیگی کی زندگی بسر کررہے بچوں کوسہارا ملتا اور ان کا بچپن ضائع نہ ہوتا۔ تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی معقول نظم ہوتا۔ اللہ کی عبادت اس کے رسول کی اطاعت اور  انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ان کے اندر پیدا کیا جاتا۔  قوم وملت کی اصلاح و تربیت اور ان کی خدمت کے لیے افراد تیارکیے جاتے۔
مدارس اسلامیہ ایسی ہی جگہیں  ہیں یہ ملت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔ یہ وہ جگہیں  جہاں  انسان کو انسان بنایا جاتاہے۔ ملت کی اصلاح وتربیت کے لیے افرادسازی کی جاتی ہے۔ جہاں  امیربچوں  کے ساتھ ساتھ بہ کثرت غریب ،یتیم وناداربچے آتے ہیں  اور ہمدردی وغم گساری کا درس لے کرجاتے ہیں ۔ ظلم وستم سے ناآشناامن،محبت اور  مساوات کا پیغام سنتے ہیں ۔ اپنے اساتذہ سے والدین کے حقوق بڑوں کا ادب احترام اور باہمی صلہ رحمی کے طور طریقے سیکھ کرجاتے ہیں اور اپنی خاندانی زندگی کو باوقار ا ور مستحکم بناتے ہیں ۔
اس لیے مدارس اسلامیہ کے فارغین مبارکباد کے مستحق ہیں  کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت یہاں  گزارکراسلام کی اشاعت اور انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو تیار کیا۔ مادہ پرست حضرات انھیں  مجبوراوربے بس گردانتے ہیں  جب کہ یہی لوگ حقیقت میں  ان کی بے بسی اور  مجبوری کو دور کرتے ہیں  اور  ان کے لیے اس دنیاوی زندگی کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے اور انھیں  جینے کے آداب سکھاتے ہیں ۔ اس لیے طلبہ مدارس اسلامیہ کو احساس کمتری کا شکار نہیں  ہونا چاہیے کیوں  کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا بہترین فریضہ انجام دے رہے ہیں  جو اس امت کا امتیازی وصف ہے۔
جب ہم دنیاکی رنگارنگی سے پریشان ہوجاتے ہیں  اور اس کی چمک ودمک آنکھوں  کو تکلیف دیتی اور دل کی دھڑکن کو تیزکر دیتی ہے ، دنیاکی ہوس سکون قلب کو چھین لیتی ہے تویہی وہ فارغین ہیں  جو ہمارے لیے تسکین دل کا سامان فراہم کرتے ہیں  اور جوعام زندگی گزارکربھی خوشحال نظرآتے ہیں ۔
مسجد نبوی کے متصل صفہ کی شکل میں  اسلام کا پہلا مدرسہ قائم ہوا۔ اس کی بنیاد پر دنیا کے بے شمارمدارس کا قیام عمل میں  آیاجو قوم ومعاشرے کی فلاح وبہبود ،ملی وملکی مسائل کے حل کے لیے کوشاں  دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں  کے فارغین اللہ اور  اس کے رسول کے احکام کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔  لوگوں کو اسلام کے پرامن سائے میں  زندگی گزارنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں پر ملت کی بڑی نگاہ ہوتی ہے، ہمیشہ انھیں  تنقیدکا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔  شایدیہ ان کی ان بچوں سے توقع اور  اعتماد کی بات ہے۔ ورنہ غورکیاجائے توملت کے صرف تین فیصدبچے مدارس اسلامیہ کا رخ کرتے ہیں  بقیہ حضرات پتہ نہیں  کہا جاتے ہیں  اور کیاکرتے ہیں ۔ ان میں  زیادہ تر تو کالج اور  یونیورسٹیوں کا ہی رخ کرتے ہیں  جب کہ وہاں  بھی فارغین مدارس اپنی قابلیت اور صلاحیت کا جھنڈالہرارہے ہوتے ہیں  ۔ اس کے علاوہ اگر وہ بچے اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں  تب بھی ان کے اندر تربیت کا فقدان نظرآتاہے اس کے نتیجہ میں  معاشرہ بدامنی اور بے چینی کا شکار ہو جاتاہے۔
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے ہیں  اور  وہاں  کے فارغین اسلام کے نمائندہ ہوتے ہیں ۔  اگریہ مدارس نہ ہوتے تو ایسے افراد کہاں  سے ملتے جوبرادران وطن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف کراسکتے یا ان کے اعتراضات کا جواب دے پاتے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں  اسلام کی خدمت کے لیے افرادتیارکیے جاتے ہیں  اور  وہی افراد دوسروں کوبھی دعوت دین کے لیے تیار کرتے ہیں  ، اس کے نتیجہ میں  آج بہت سے ایسے لوگ اس میدان میں  ہیں  جنہوں نے مدارس کی شکل نہیں  دیکھی مگردین کی خدمات انجام دے رہے ہیں  دراصل ان کے پس پشت یہی فارغین مدارس کار فرماہیں  جوسامنے دکھائی نہیں  دیتے۔
مساجد جنہیں  بیت اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں  نمازیں  اداکیں  جاتی ہیں  ان میں  امامت کے فرائض انجام دینے والے حضرات بھی فارغین مدارس ہی ہوتے ہیں  جو نہ صرف امام کی ذمہ داری نبھاتے ہیں  بلکہ اس معاشرے میں  رہنے والے فرزندان توحیدکو ابتدائی دینی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ کرتے ہیں  اور  وقتاً فوقتاً اپنے خطبات میں  معاشرے کی خرابیوں  کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔  وہ لوگوں کوبھلائی کاحکم دیتے ہیں  اور  برائیوں  سے روکتے ہیں ۔
اس لیے ملت کے اس عظیم سرمایہ کو اہمیت دینی چاہیے اور وہاں  طلبہ کی بہتری کے لیے جو بھی سہولیات ہوسکتی ہیں  انھیں  فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔  ملت کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مال واسباب میں  ان مدارس کا بھی حصہ متعین کرے ۔ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ اور ذمہ داران قوم وملت کی امید کا مرکز ہیں  اس لیے ان کی نیک امیدوں کوبروئے کارلانے کی مسلسل جدو جہد کرنا ان حضرات کی اولین ترجیحات میں  شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ دین کے اس چراغ کو روشن رکھ سکیں ۔  ساتھ ہی عوام کو چاہیے کہ مدارس سے ربط وتعلق پیدا کریں  اور  اپنے مسائل کا حل دینی نقطہ نظرسے معلوم کریں  پھرشریعت کی پابندی کو اپنی زندگی کے تمام نشیب فراز میں  لازم قرار دیں  کیوں  کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام ہی ہے اور  وہی ہمیں  سیدھی سچی راہ دیکھاتاہے جس سے دین و دنیا دونوں میں  فلاح و کامرانی مل سکتی ہے۔
مدارس کے نصاب تعلیم پر اکثرگفتگوکی جاتی ہے کہ موجودہ دورکے لحاظ سے عصری علوم کی آمیزش ہواورپرانے علوم جن کی زیادہ ضرورت نہیں  پڑتی مثلاً منطق وفلسفہ یا نحوکی وہ کتابیں  جن کی ضرورت دوسری کتابیں  بھی پوری کردیتی ہے جیسے شرح جامی اس کی جگہ ہدایت النحواورکافیہ کافی ہے۔ ساتھ ہی زبان کا علم تبلیغ دین اور  اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی مفید ذریعہ ہے ۔  اس غرض سے مختلف زبانوں کی تعلیم کوبھی دینی مدارس میں  جگہ ملنی چاہیے تاکہ طلبہ مدارس ان سے آراستہ ہوکر میدان عمل میں  اپنے مقصدکوبروئے کار لاسکے۔  چنانچہ علامہ انورشاہ کشمیری ؒ کا قول جب طلبہ میں  عربی یا فارسی کا بہت زیادہ رجحان تھا توآپ نے فرمایاتھا:
’’مولوی صاحب! ہندوستان میں  اگر اسلام اور دین کی کوئی خدمت پیش نظرہے تواردو میں  لکھئے پڑھئے۔ ‘‘ (ماخوذددارالعلوم دیوبند ویب سائٹ)
اب اگر انگریزی زبان یادیگرزبانوں  کا چلن ہوتواس زبان کو بھی سیکھناچاہیے ،اس سے دامن جھاڑدینا مناسب نہیں  ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی صحابہ کومختلف زبان اور  علوم سیکھنے کا حکم دیا تھا ۔
فراغت کے بعد مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداددیگر کالجوں اور یونیورسٹیز کا رخ کرتی ہے ،جب ان سے وجہ معلوم کی جاتی ہے تو ان کا جواب ہوتاہے کہ مدارس دینہ میں  اساتذہ کی اہمیت بہت کم کردی گئی ہے ،مہتمم خودکو مدرسے کا مالک سمجھ کر حکمرانی کرتے ہیں  ۔  اساتذہ کی تنخواہیں  نہیں  دیتے ،بہت ہی معمولی مشاہرہ ہوتا ہے جس سے موجودہ وقت کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں  ہوپاتی ،اس پر بھی غصب یہ کہ ماہانہ وقت پر حساب نہیں  ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو کئی ماہ کے بعد انہیں  رسیدتھمادی جاتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ خوداکٹھا کرلیں ۔  جب کہ خود ان کی زندگی کا یہ حال ہے کہ وہ چمچاتی کاروں اور خوبصورت بنگلوں  میں  رہتے ہیں  اور  ا ن کی زندگی مزے سے گزرتی ہے۔
ایسی صورت میں  مدارس کے بچے خودکوان مشکلات میں  ڈھالنے اور مصیبت کو اپنا نے سے بچتے ہیں  ۔ دوسری جگہ انھیں نوکری نہیں  مل پاتی تو پھر کیا کریں  ۔  اس لیے انھیں  مجبوراً یہ راہ اپنانی پڑتی ہے اور بسااوقات وہ دینی وضع قطع اور  دینی روش سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔
اگریہ مدارس ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہیں  تو وہاں  کے فارغین بھی ملت کے بہترین افراد ہیں  ۔ جب ایسا ہے توان کی تحقیروتذلیل مناسب نہیں  اور نہ ان فارغین کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ خداکی سرزین بہت وسیع ہے اس میں اپنا رزق تلاش کرسکتے ہیں ۔   لہذا وہ قوم کے مصلح ہیں  تو اپنی حیثیت کو نظرانداز نہیں  کرنا چاہیے۔ اگروہ دوسری جگہ حصول علم کی خاطر جارہے ہیں  تووہاں  بھی اپنی دینی شناخت قائم رکھتے ہوئے تبلیغ دین اور  قوم کی اصلاح کی خدمت انجام دیں  یہی ان کا فریضہ اور  مدارس میں  گزارے اوقات کا حاصل ہے ۔  بچپن کی اس طویل مدت کی تعلیم کونظراندازکرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں  ہے۔
اسی طرح مہتمم حضرات کوبھی اپنے رویے میں  تبدیلی لانی چاہیے ، ان کی اس طرح کی حرکت سے مدارس کا وقارمجروح ہوتا ہے اور یہی طریقہ دین کی اشاعت میں  روکاوٹ کا سبب بھی بن سکتاہے۔ انھیں  اپنے اندر احساس ذمہ داری کا جذبہ پیداکرنا چاہیے کہ یہ منصب اور  ذمہ داری بھی ایک قسم کی امانت ہے جس میں  خیانت کرنا صحیح نہیں  ہے کیوں کہ اس میں  امت کا ایک بڑا سرمایہ دینی تعلیم اور اسلام کی بازیابی کے لیے جمع ہوتاہے جسے غیرضروری جگہ پر صرف کرنا یا پھر ذاتی ضروریات پر خرچ کرنا کسی مؤمن کو زیب نہیں  دیتا، آخرت میں  سب کو خداکے یہاں  حساب دینا ہے اور وہاں  کوئی بھی بچ نہیں  سکتا۔
اگرقوم وملت کے لوگ مدارس اسلامیہ کی ترقی بہتری کے لیے کوشاں ہوں اور ذمہ داران مدارس ان کو امانت جان کر خداکے حضورمیں  گڑ گڑائیں  اور اس کے لیے دعاگو ہوں  ساتھ ہی پورے خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں  توایک بارپھر ملت کے اسی عظیم سرمائے سے دوبارہ شیخ الہند،اشر ف علی تھانوی،ابولحسن علی ندوی،مولانازکریاجسے عظیم رہبر، مفکر، مدبر اور  مصلح پیداہوسکتے ہیں ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...