Friday 9 June 2017

اسلامی اخوت اور مصری مسلمان

اسلامی اخوت اور مصری مسلمان

محب اللہ قاسمی

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کی جائے اور بندگان خداکوان کا حق دیاجائے اوران پر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ ہو۔اسے اس دنیا میں جینے کا پورا پورا حق دیاجائے ،یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی سی تکلیف دینے والی چیزکوبھی راستے سے ہٹادیاجائے کہ  وہکسی راہ روکونقصان نہ پہنچائے ، صدقہ یعنی نیکی کاکام ہے۔

اس طرح اسلام کا مقصدہی قیام امن وسلامتی ہے،جو مکمل نظام حیات ہونے کے سبب بے ضابطہ غیرفطری زندگی گزارنے والے مجبور لوگوں کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتاہے۔ مگر افسوس کہ اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے،ایک مدت سے اسے بدنام کیاجارہاہے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی ناپاک کوششیںکی جارہی ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کونشانہ بنایاجارہاہے۔ جب کہ(المسلم اخوالمسلم کے تحت ) ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اخوت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی روسے وہ آپس میںجسد واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک عضوکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس درد سے کراہنے لگتاہے۔آخریہ اسلام کا دشمن کون ہے اور کیوں مسلمانوںکوستایاجارہاہے؟

سب سے پہلے یہ واضح کردیناضروری ہے کہ اسلام کا اصل دشمن کون ہے؟قرآن کہتاہے ’’اسلام اورمسلمانوںکے سب سے بڑے دشمن یہودہیں‘‘ (سورۃمائدہ:82) یہ یہود نہایت ہی شاطر،دھوکے باز اور انسانیت دشمن ہیں۔موجودہ دورمیںمصر کے حالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا پاسبان کہلانے والے امریکہ نے یہودیوں کی سازش کے تحت جمہوری طریقے سے منتخب عوامی صدرمحمد مرسی کو چند افراد کے  ذریعہ احتجاج کراکر برطرف کروایا ۔اس ناپاک منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے اس نے وہاں کی فوجوںکا سہارالیا۔ جب کہ منتخب صدرکی حمایت میں ایک ماہ سے مسلسل ہونے والے مصری عوام کے پرامن احتجاج کو نظرانداز کیاجارہاہے اور اب کریک ڈاؤن کے ذریعے بے دریغ ہزاروںبے قصور،نہتے جوانوں، معصوم شیرخوار بچوں، باعصمت ماؤں اور بہنوںکوشہیدکیاجارہاہے۔ ان زندہ انسانوںپر ٹینک چلاکر انھیں بے دردی سے مارا جارہاہے۔جن کے ہاتھوں میں قرآن، دل میں اسلام کی عظمت اور زبان پر اللہ کا ذکر ہے۔ رمضان المبارک کی شب میں قیام لیل اور دن کے روزے رکھنے والے یہ مسلمان جنہوں نے اپنے گھروں سے الگ ہوکر میدان رابعہ عدویہ میں عید کا دن گزارا، ان کومستقل نشانہ بنایاجارہاہے۔جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہوسکتے ہیں جو اپنے بھائیوںکے ساتھ اس طرح کاسلوک کررہے ہیں اور اپنی ماؤں اور بہنوںکی عصمت کی پروا کیے بغیر ان کے ساتھ نازیبا حرکت کررہے ہیں ۔ایسا لگتاہے ان فوجیوںمیں ضرور اسرائیلی سرایت کرگئے ہوں یا ان کو ذہنی غلام بنالیاگیاہو۔

اس کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور نامناسب حالات پیداکرنے کی تمام ترکوششوںکے باوجود اسلام پسنداور مصرکے خیرخواہ نومنتخب صدرمحمد مرسی ایک سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومت کی برائیوں اور عوام کی بدحالی کو درست کرنے میں جس قدر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن تھے یہ بات اسلام دشمنوں کو بھلا کیسے گوارا ہوتی ،نتیجہ یہ کہ ان کو برطرف کردیاگیا۔

اس کی وجہ یہودیوںکی عالمی شہرت،عالمی قوت اورعظیم المرتبت ہونے کی خواہش وآرزوکی تکمیل ہے،نبیؐ کے زمانے میں بھی جب آپؐ نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہوئے تھے، وہ خودکودینداراوربڑے شمارکرتے تھے بقیہ کوہیچ اورگراہواسمجھتے تھے ،حتی کہ اپنے دین اورمذہب میں بھی من مانی کرتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ ؐ کونبوت سے سرفراز کیاگیا اورآپؐ رسالت کے اعلیٰ مقام پرفائزہوئے توان لوگوںنے آپؐ کی نبوت کا انکارکردیا جب کہ آپ ؐ کی آمدکی بشارت خودان کی کتابوںمیںموجود تھی۔ وہ صرف اس لیے کہ آپؐ چوںکہ ان کی قوم سے نہیں تھے اوریہ بھی کہ ایسی صورت میںانھیں شہرت اورمقبولیت کا شرف ان سے نکل کردوسری قوم میں جاتادکھائی دینے لگا تھا،جس پروہ ہتک وذلت محسوس کرنے لگ گئے تھے جوان کے عناداورہٹ دھرمی کا سبب بنا۔

اس طرح ان یہودیوںکے دل میں انتقام کی آگ بڑھتی رہی جونبیؐکے زمانے سے ابتک چلی آرہی ہے۔ جب حضورپاک ؐاپنے رفیق اعلی سے جاملے تب بھی ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ جب رفتہ رفتہ اسلام کی خصوصیت نے عام لوگوںکے دلوںمیں گھرکرنا شروع کردیا۔اسلام کی عالمی شہرت اورمقبولیت نے ان کی اسلام سے بغض و عناد نے ان کے سینوںمیںمزید شعلہ بھڑکادئیے۔ پھران کی اسلام دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ وہ کفاراورمشرکین سے کہیں زیادہ اس کے دشمن بن بیٹھے اوراپنے اس انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دوسری قوموں کی مددلینی شروع کردی۔ قدرتی ذخائر ، پٹرول جیسی قیمتی چیز کے ابلنے اور اسلامی ممالک میں عرب ممالک کی اہمیت کے پیش نظر پہلے انھوں نے سرزمین عرب پر اپنا تسلط جمانے کا منصوبہ تیار کیا اور وہاں کے حکمرانوںکو عیش آرام کے تکیے پر سلا کر حکومت کو کمزور بنادیا اورباہمی اختلاف وانتشارکی بیج بوکر حکمرانوں کے دلوںمیں حکومت کی خواہش کے جذبات کو ان کی مجبوری بنادیا اور ان کو ذہنی غلام بنالیاگیااور حفاظتی انظامات کے نام پر اپنی فوج بٹھادی اور اس پر قبضہ جمالیا، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ مصرکوایک زمانے تک حسنی مبارک کی حکومت کی پریشانیوں اور ان کے ظلم ستم سے آزاد ہوکر نومنتخب صدرمحمد مرسی کی رہنمائی میں کامیابی کے منازل طے کرنے اورسکون کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہونے کا موقع ملا، تو ان یہودیوں نے اسے اپنے ماتحت عرب ممالک حکمرانوں پر اپنا دھوس دکھایا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی وہی زبان بولنے لگے جو ان یہودیوںکا منشا تھااور یہ بھی اصل دہشت گردکو شہ دے کر پرامن مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے اپنے مصری بھائیوںکو ہی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔ عربوںکا جورویہ اب تک ان کے ساتھ رہاہے۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ ان یہودیوںکے غلام اور مصرمیں قتل عام کے ایک مجرم ہیں۔

آج مسلم دنیا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اس کا حکمراں کیا چاہتاہے ، اسے اسلام اور اس کا نظام پسند ہے ،یا عیش وآرام کی وہ کرسی جو اپنے ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے اور ان اسلام دشمن لوگوںکے تلوے چاٹنے پر موقوف ہے۔کیا ان کا جسم شل پڑگیاہے کہ اس کے عضو کو کاٹا جارہا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔

اس طرح یہ یہود بے بہبود جنہوںنے نہ صرف مسلم ممالک کو ذہنی غلام بنارکھا ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور اسلام دشمن کا سردار ہونے کی حیثیت سے خود کو ہم چنا ںدیگرے نست سمجھ رکھا ہے اور اپنے زور ودبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مد مقابل جو صرف اور صرف اسلام ہی ہے ،کیوںکہ یہی اپنے اندرانسانیت کے لیے مکمل نظام حیات رکھتاہے ،اس سے خائف ہیں اور اس کو پسپا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے،شام ،عراق،افغانستان اور مصر وغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کے لیے وہ ہر ممکن قوت جھونک کر یا مسلمانوںمیں نفاق کی بیج بوکر یا کفاراورمشرکوںمیں متشدد قومیں ان کوہتھیاربناکرچمنستان جیسے ہندوستان میں اپنے مفادکے لیے کام کرنا، جس کا نظارہ ہمیں ہندوستان میں بسنے والوںکے درمیان ہندومسلم منافرت کی زہرفشانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

جیساکہ پہلے ذکرکیاگیاکہ اسلام جوکہ خدائی نظام ہے،اپنی خوبیوںاور امن وسلامتی کومتضمن ہونے کی وجہ سے شہرت اورمقبولیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچاجوہمیشہ بلند رہے گا۔اس پرآپؐ کا فرمان ہے کہ’’اسلام بلند ہونے کے لیے ہے اسے کوئی زیرنہیں کرسکتا۔‘‘ایسے میں اگراس کا کتناہی بڑا دشمن خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوںنہ ہواسے مغلوب نہیں کرسکتا۔

یہاں کئی سوالات ہیں۔مثلاً عراق کے مسلمانوںکوتباہ کیاگیا۔ کیا اسلام مغلوب ہوگیا؟ افغانستان کونیست ونابودکرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسلام ختم ہوگیا؟مصراوراب ہندوپاک میںسازشیں رچ کراس کوبرباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے لیے بڑے تجربے بھی کیے گئے ۔ تو کیا پاکستان اور ہندوستان سے اسلام کے ماننے والے ختم ہوگئے؟ ان سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں!اور ایساہرگزنہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسلام انسانوںکا بنایاہوا نظام نہیں ہے اورنہ اس میں کسی قسم کی ظلم وزیادتی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرے، بلکہ اس کا جودشمن ہے وہ اس کے خلاف اپنے حربے استعمال کررہاہے، جس کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں رچتاہے، تاکہ وہ اپنے انتقامی مشن میں میاب ہو۔اسے ہروہ چیزناپسندہے جو اسلام کی خوبی ہے اوراس میں انسانوںکا مفادمضمرہو۔

اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اب یہ طے کرناچاہیے کہ و ہی نظام قابل عمل ہوگا، جو تمام انسانوںکواس کے جینے کا پوراپوراحق دے اور کسی کوکسی دوسرے پرکسی طرح کی ظلم وزیادتی کا حق نہ ہو، سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ہو،معاشرے میں امن وسکون کاماحول ہو۔یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلام کوصحیح طرح سے پڑھااورسمجھاجائے اوراس پرعمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
تب ہی ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ خواہ امریکہ ہوجس نے انسانیت کا قتل عام کیا،یااقوام متحدہ جس میں امن پسندی کی بات کہی توجاتی ہے مگرہوتااس کے خلاف ہے،یاہندوستان کے امن وسلامتی کوپامال کرنے والے اسرائیل نوازہندوستان کاایک گروہ جوقوم کی آپسی محبت اوربھائی چارگی کے ماحول کوخراب کرتے ہوئے ان میں قومیت کا بیج بوکرانسانیت کا گھلاگھونٹ رہاہے،جس کی مثال گجرات فسادہویا مکہ مسجدبم دھماکہ یا پھراجمیرکا حادثہ ہویا روزمرہ کے ہونے والے فسادات کی شکل میں دیکھنے کوملتی ہے۔یہ لوگ مفادپرست توہوسکتے ہیں مگرحق پرست اورامن پسندنہیں۔یہی لوگ اصل میںدہشت گردہیں جومفادپرست میڈیا کے ذریعے عوام کی نگاہوںمیں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اس لیے اس کے ا صل محرک،  جس ذکرکیاگیااس کی سازشوںکوسمجھتے ہوئے مسلمانوںکوہرممکن اپنی اجتماعیت کوبرقراررکھناہوگا۔ ایمانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے  اسلام کے نظام حیات اور غلبہ ٔ  دین کی سعی وجہدکرنے والوںکو،خواہ وہ  دنیا کے کسی حصے میںہو ،اگر ان پر ظلم ہوتو اس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو ہو اور وہ اس کے دفعہ کی کوشش کریں،انھیں بے یارومددگا نہ چھوڑیں اورایک سچے پکے مسلمان ہوکر یکجہتی، باہمی اتحادواتفاق کا ثبوت پیش کریں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہوتوحق غالب رہے۔

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...