غزل
نہ
خوف خدا ہے نہ خوف بشر ہے
ہوئی
موت کیسے، کسے کب خبر ہے
نہ
تم کو مفر ہے نہ ہم کومفر ہے
ازل
سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
ڈگر
کا پتا ہے نہ منزل کی پروا
ہے
رخ کس طرف اور جانا کدھر ہے
نظر
تو ہی آتا ہے ہر شے میں مجھ کو
تری
دید کا مجھ پہ اتنا اثر ہے
جو
ٹکرائے ظالم سے ظلمت مٹائے
اسی
سے ہمیں بس امیدِ سحر ہے
جو
تیرے ہی در پر کرےجبہ سائی
وہ
اہل خرد ہے وہ اہل نظر ہے
یقین
خدا ہے تو کیا غم ہے ناداں!
ترےساتھ
حق ہے تو کا ہے کا ڈر ہے
رفیق
حزیں! ہے جو رخ سوے منزل
پہنچ
جائے گا تو تجھے کیا خطر ہے
محب
اللہ رفیق قاسمی
No comments:
Post a Comment