Sunday 31 May 2020

Ghazal: Ummed e Sehar hai



غزل

نہ خوف خدا ہے نہ خوف بشر ہے
ہوئی موت کیسے، کسے کب خبر ہے

نہ تم کو مفر ہے نہ ہم کومفر ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے

ڈگر کا پتا ہے نہ منزل کی پروا
ہے رخ کس طرف اور جانا کدھر ہے

نظر تو ہی آتا ہے ہر شے میں مجھ کو
تری دید کا مجھ پہ اتنا اثر ہے

جو ٹکرائے ظالم سے ظلمت مٹائے
اسی سے ہمیں بس امیدِ سحر ہے

جو تیرے ہی در پر کرےجبہ سائی
وہ اہل خرد ہے وہ اہل نظر ہے

یقین خدا ہے تو کیا غم ہے ناداں!
ترےساتھ حق ہے تو کا ہے کا ڈر ہے

رفیق حزیں! ہے جو رخ سوے منزل
پہنچ جائے گا تو تجھے کیا خطر ہے

محب اللہ رفیق قاسمی




No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...