کہانی
فریضہ انسانیت کا
آج کل دن زمانہ بڑا خراب ہو گیا ہے. انسانیت نام کی چیز نہیں ہے۔ سب آپس میں ہی لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ سب کس قدر مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے سے میل محبت سے رہنا ایک دوسرے کا خیال کرنا۔ کتنا اچھا ماحول تھا۔ اب تو نہ گھر میں محبت ہے نہ پڑوسی سے لگاؤ اور آگے بڑھیں تو لوگ ایک دوسرے کے مذہب سے بھی چڑھتے ہیں اور اسی کو لے کر بوال بھی ہوتا ہے۔ ڈرائیور بے چارہ ایک سرمیں بولے جا رہا تھا اور پسنجر کے ساتھ موجودہ حالات پر روشنی ڈال رہا تھا۔
اسی دوران پھٹ سے آواز آئی اور سی.... سی... کرتے گاڑی بیٹھنے لگی۔ ڈرائیور سمجھ گیا کہ ٹائر پنکچر ہو گیا ہے۔
اس نے آٹو سائڈ کرتے ہوئے کہا :
" گھبرائیے نہیں ہمارے پاس اسٹیپنی ہے ہم ابھی چکا بدل دیتے ہیں پھر چلیں گے۔"
پیسنجر کو تھوڑا سکون ملا۔ کیوں کہ اس روٹ پر زیادہ گاڑی چلتی بھی نہیں ہے۔
گاؤں میں پیسنجر گاڑی کی ویسے بھی کی کم ہی سہولت ہوتی ہے۔ ڈرائیور مکیش تیواری بڑے محنتی آدمی تھے اور بڑی ایمانداری سے اپنا کام کرتے تھے۔ اس روٹ پر وہ برسوں سے گاڑی چلاتے آ رہے ہیں، زیادہ تر وہ ریزرو میں ہی چلتے ہیں خاص کر دکاندار کا سامان لانا لے جانا، مریضوں کو اسپتال پہنچانا کسی کو ٹرین پکڑنے کے لیے جانا ہو تو تھوڑا لمبا سفر ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک اسمارٹ فون تھا جس پر لوگ اسے روزانہ بکنگ کے لیے فون کرتے تھے۔ اسٹیپنی بدلنے کے دوران اس کا وہ موبائل فون گر گیا جس کا اسے احساس نہیں ہوا۔
اس دوران وہ پسنجر کو لے کر کئی چکر لگا چکا تھا. آدھا دن گزرنے پر جب اسے احساس ہوا کہ کیا بات ہے ابھی تک بکنگ کے لیے کوئی کال نہیں آئی۔ وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر فون ڈھونڈنے لگا پتہ چلا فون ہے ہی نہیں۔ گاڑی میں ادھر ادھر تلاش کیا پھر بھی نہیں ملا۔ اس نے موٹر مکینک کو کہا :
"بھائی تم نے میرا موبائل دیکھا شاید یہاں پنکچر بنوانے کے لیے چکا دیا تھا اس وقت گر گیا ہو۔ اس نے نہیں بھائی یہاں نہیں ہے۔"
اب موبائل وہاں ملتا کیسے وہاں گرا ہو تب نا۔۔۔وہ تو راستے میں ہی گر گیا تھا اور اس درزی (ندیم انصاری) کے ہاتھ لگا جو روزانہ اپنی دکان پر سلائی کے لیے آتا جاتا تھا۔
اتفاق سے درزی کی سائکل کا اگلا چکہ موبائل فون پر چڑھا ہی تھا کہ وہ پھسل گیا دیکھا کہ کسی کا فون ہے۔ دائیں بائیں دیکھا تو کچھ لوگوں کا مکان دکھا. سوچا کہ ان ہی لوگوں کو دے دیتا ہوں مگر پھر خیال آیا کہ نہیں اسے اپنے پاس رکھ لیتا ہوں، جس کا ہوگا وہ فون کرے گا۔ اس دوران اس نمبر پر کئی لوگوں کے فون آئے سب نے کہا:
مکیش کہاں ہے؟ گاڑی لے آنا، کرانا کا سامان لے جانا ہے۔ ادھر سے اس درزی نے جواب دیا یہ فون مکیش کے پاس نہیں ہے۔ اور مکیش کا پتہ اس گراہک سے پوچنے لگا. تو اس نے پوری تفصیلات بتائی اور اس طرح اس کو موبائل والے کی شناخت ہوگئی۔
ادھر مکیش اب پریشان ہو گیا کہ میرا فون آخر کہاں گرا؟
اس نے وہیں موٹر ورکشاپ کے پاس سے مکینک کا فون لے کر اپنے فون پر کال کیا۔ گھنٹی گئی ادھر سے آواز آئی کون ہے؟
اس نے کہا:
’’میرا نام مکیش ہے میں ڈرائیور ہوں. یہ میرا فون ہے، جو راستے میں گر گیا تھا۔‘‘
درزی نے پھر پوچھا:
’’کہاں گھر ہے؟ کدھر مکان ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’رشید پور مسجد کے پاس ہی میرا گھر ہے۔‘‘
اب درزی کو یقین ہو گیا کہ یہ فون اسی کا ہے اس نے فورا ہی کہا:
’’آپ کا فون میرے ہی پاس ہے۔ راستے میں گرا تھا۔ آپ شام کو فون کیجئے میں پٹرول پمپ کے پاس ملوں گا وہیں آپ کو فون دے دوں گا۔‘‘
اب مکیش کی جان میں جان آئی اور شام ہوتے ہی وہ پٹرول پمپ کے پاس پہنچ گیا اور کسی سے فون لے کر اس سے بات کی۔
درزی نے موبائل دیتے ہوئے بتایا:
’’جانتے ہیں جہاں پر فون گرا ملا تھا وہاں میں نے کسی کو کیوں نہیں دیا کہ مجھے بھروسہ نہیں تھا کہ وہ آپ تک آپ کی چیز پہنچائیں گے۔ جب کہ مجھے یقین تھا کہ جس کا بھی فون ہوگا. وہ ضرور بات کرتے گا۔ یہ لیجئے آپ کی امانت. اب میری ذمہ داری پوری ہوئی۔
مکیش نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
’’جانتے ہیں اتنی برائی اور نفرتوں کے بعد بھی یہ دنیا کیوں چل رہی ہے؟ آپ جیسے بہت سے ایمان دار آدمی اب بھی دنیا میں ہیں جو کسی طرح کا بھید بھاؤں نہیں کرتے اور اپنا کرتویہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ دھرتی بچی ہے. دھنیہ واد‘‘
درزی نے معصومیت سے جواب دیا. یہ انسانیت کا فریضہ ہے جو ہمیں ادا کرنا ہی تھا۔ ہم سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے.
محب اللہ قاسمی