Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts
Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts

Saturday 4 February 2017

Urdu Short Story: Dagmagahat


کشتی ٔحیات کی ڈگمگاہٹ


                                             محمدمحب اللہ
       ’’مجھے میرے حال پر چھوڑدو، کون کہتاہے ، میں غریب ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں غریب نہیں ہوں!…… لوگ امیر ہوگئے ہیں۔‘‘
نشے میں چور لڑکھڑاتے اورڈگمگاتے قدموںکے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں محسن اپنے سنبھالنے والوںسے کہہ رہاتھا۔ پھربھی لوگ اسے اٹھائے ہوئے گھرلا کرچھوڑگئے ۔ نشے میں دن گزارنے والا محسن روزانہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ آرائی کرتاجس کی آواز سن کر آس پڑوس کے لوگ اکٹھاہوجاتے۔ ایک روزتولوگ اس پر ہاتھ اٹھانے کے لیے تیارہوگئے تبھی کسی مضبوط ہاتھ نے اس کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا:
’’ تم لوگ بھول گئے ہو کہ یہ کون ہے۔یہ وہی محسن ہے ،جس کے احسان تلے دبے ہیں سب ۔حالات کیا بگڑے کے تم لوگوں نے اسے پہچاننے سے ہی انکارکردیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے بھیڑکومنتشرکیا۔

پھروہ محسن کو اس کی ماں کے پاس رکھ کرخاموش بیٹھ گیا۔
’’زندگی کی کشتی اگرکسی بھنورمیں پھنس جائے توعقل مندی یہ ہے کہ انسان پورے عقل وشعور سے کام لے، نہ کہ کشتی کی ڈگمگاہٹ کو دیکھ کربدہواس ہوجائے ۔‘‘

 ایسے ہی بھنورمیں پھنسا میرابیٹامحسن ہے۔
یہ کہتے ہوئے اس کی ماں نے محسن کے حالات بیان کرنے شروع کردیے۔
وہ ایک پڑھا لکھا، خوبصورت،خوب سیرت ، سمجھ دار، خوددار اور باوقار انسان تھا،جونہ صرف اپنے گھر کی تمام ذمہ داریوںکوبحسن و خوبی انجام دے رہا تھا بلکہ پڑوس اور گاؤںوالوںکاخاص خیال رکھتااور ان کی ضرورتوںمیں کام آتاتھا۔اپنے اخلاق حسنہ سے اس نے لوگوںکو گرویدہ بنا لیاتھا۔

اچانک اس کی زندگی میں طوفان آیا اورپینشن پارہے شفیق والد کا سایہ سرسے اٹھ گیا اوراپنی بیوی ،بچوں کے علاوہ ماںایک بھائی اور دوبہنوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوںپر آن پڑی۔ اللہ کے کرم سے محسن کو کانٹرکٹ بیس پر پٹنہ ہی میں ایک اچھاجاب مل گیاتھا۔
 پانچ روپے آٹا اور نوروپے چاول کے دورمیں اس کی یومیہ آمدنی پانچ سوسے سات سوروپے تک تھی۔اس آمدنی کا بیشترحصہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنوں اور غریبوںپرصرف کرتاتھا۔محسن کوئی بھی تقریب کرتاتووہ اپنے گاؤں آکرہی کرتاتھا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب محسن نے اپنی دونوںبہن اوربھائی کی شادی کردی۔اس موقعہ پر اس نے دل کھول کرخرچ کیا۔گاؤں کے لوگ اس کی نیک نیتی اور خوش مزاجی کے قائل تھے اوراسے اپنا محسن وغم گسارمانتے تھے۔
 وہ ہر کام اپنی بوڑھی ماں(میرے) مشورے سے کرتاتھا تاکہ ماں کی دل شکنی نہ ہو۔ وہ میریی کسی بھی تکلیف کو اپنے سینے میں چبھتے ہوئے کانٹے کی مانند تصور کرتا تھا۔
 اپنی بہنوںسے وہ اس قدر محبت اورپیارکرتاتھا کہ کبھی انھیں والدکی غیرموجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ اس کی بہنیں بھی اسے اپنے باپ کا درجہ دیتی تھیں۔
محسن کی شادی ہو چکی تھی، بیوی نہایت شریف تھی۔محسن کی کئی اولادیں ہوچکی تھیں جس کی ذمہ داری اس کے سرپر تھی۔وقت کی ستم ظریفی کہ کانٹریکٹ منسوخ ہوجانے کے سبب وہ بے روزگار ہوگیا۔ بے روزگاری کے ڈنک سے وہ ایسا متأثرہواکہ وہ شراب کی لت لگا بیٹھا۔ وہ ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہتاتھا۔

 معاشی حالت بالکل کمزور ہو چکی تھی،اس کے خوشحال گھرانے میں مفلسی نے پوری طرح قدم جمالیاتھا۔ جس گھرسے لوگوںکی ضرورت پوری ہوتی تھی اب وہ خود محتاج ہو گیا تھا، ہمیشہ خوش رہنے والا اب بے بس و عاجز تھا، قرض داروں نے دروازے پر دستک دینی شروع کردی تھی ۔
 مجبوراً بیوی بچوں کی کفالت کے لیے وہ آٹورکشہ چلانے پر مجبور ہوگیا ، کیوں کہ اس کے پاس کوئی اور ہنرتو تھانہیں۔ اس دوران اس کی شراب نوشی دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔ معاشرہ کا ہیرواب ہر لحاظ سے زیرو دکھائی دے رہاتھا۔

میرے نیک سیرت بیٹے کا کردار اب ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ زمین پر ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کا لڑکا(میرا پوتا) اب کافی بڑا اورسمجھ دارہوگیاہے۔ اسے اپنے والد کی یہ بری عادت اس کو بہت ہی ناگوار گزرتی ،وہ بارباران کو اس بری چیز سے دوررہنے کی تلقین کرتا اور انھیں خوف خداکادرس دیتا۔ گھر والے بھی بہت سمجھاتے، مگر ساری باتیں اس پر،وقتی طور پر اثرانداز ہوتیں ، وہ آئندہ شراب کو منہ نہ لگانے کی قسمیں بھی کھاتا، مگراپنی عادت سے مجبور ہے۔

 نشہ اس پر اس قدرحاوی ہوچکاہے کہ اسے اب اپنی بوڑھی ماں سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔اس کی اس حرکت نے اسے معاشرے میں بالکل ذلیل انسان بنارکھاہے۔
’’جولوگ محسن کو نہیں جانتے اسے برا بھلاکہتے ہیں اور جو اس سے واقف ہیں ، اسے موجودہ حالت ترس آتاہے‘‘۔
ماں نے آنچل سے اپنے آنسوپوچھتے ہوئے کہا۔

 وہ پھر گویاہوئی’’ اس کا وجودبنا روشنی بکھیرے ہی موم کی طرح پگھل رہا ہے۔میرے محسن کی زندگی بھی اسی طرح پگھل رہی ہے جوآتش فشاں بن کر اپنے گھروالوںکواپنی لپیٹ میںلیے ہوئی ہے۔کاش یہ سنبھل جاتا!‘‘

’’اماں! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔خدانے چاہاتو محسن علاج کے ذریعہ مکمل ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘اور وہ دونوں محسن کو رکشے پر لے کرہسپتال کی طرف چل پڑے!!

٭٭٭
Kahani - Kashtiye Hayat ki Tagmagahat (Inquilab 8-4-13)

Sunday 24 July 2016

Story: Hamdard ہمدرد

کہانی: 
ہمدرد 
محمد محب اللہ 


’’دلاور ! اس پلاٹ پر کام جاری رکھنا۔یاد رہے کسی مزدور کی تنخواہ میں کمی نہیں ہونی چاہیے ساتھ ہی اگر کسی کی کوئی مجبوری ہو تو ضرور خبرکرنا۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ غربت کی دلد ل سے نکلنے والا شخص غریبوں کے خون پسینے سے اپنا محل تو تعمیر کرلے مگر بدلے میں ان مزدوروں کو یاس و ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے۔ ‘‘میں پندرہ دن کے لیے گاؤں جا رہا ہوں۔ ماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔یہ کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھاکر ناصر اپنے دفترسے نکل ہی رہاتھا کہ منگلو چاچا نے کہا :

’’
صاحب جی ایک 15سال کا جوان لڑکا ریسپشن (استقبالیہ) پر کھڑا ہے۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘ناصر نے پوچھا:’’اس سے پوچھا نہیں ، کیا بات ہے ؟‘‘
منگلو چاچا نے جواب دیا: ’’وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کی تلاش میں بھٹک رہاہے۔مگر بات کرنے سے لگتا ہے کہ وہ تیز اور ہونہارہے۔‘‘

ناصر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’
اسے پڑھائی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی!خیراسے بلاؤ۔یہ کہہ کرناصرواپس اپنے کیبن میں چلاآیااور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔‘‘
منگلوچاچالڑکے کو لے کر حاضرہوا۔
لڑکے نے سلام دعا کے بعد ناصر کے سامنے اپنی بات رکھی:
’’میں ایک غریب ہوں، میرے کئی بھائی بہن ہیں اور والد کمائی سے لاچار ہیں۔ اس لیے میں نوکری کرنا چاہتاہوں۔‘‘

ناصر نے پوچھا:
’’ لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم پڑھائی کررہے تھے اور ذہین بھی ہو۔ پھر پڑھائی کیوں نہیں کی؟ ‘‘
لڑکے نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا:
’’
اب آپ ہی بتائیے اب ایسی حالت میں میرا پڑھنا ضروری ہے یا گھر والوں کے جینے کے لیے بنیادی ضرورتیں پوری کرنا؟ میں ایک جوان ہوں۔ کام کرسکتا ہوں! تو پھر اپنے گھر والوں کے لیے نوکری کیوں نہ کروں۔ دو پیسے ملیںگے تو ان کو کچھ کھلاؤں گا۔ ورنہ ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی، میں خود بھیک مانگ سکتا ہوں مگر میں اپنے والدین کو بھیک مانگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

اس کی باتوں نے ناصر کو گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ اپنی ماضی کی یا دوں میں کھو گیا۔
وہ پڑھنے میں تیز، بااخلاق اورملنسار لڑکا تھا۔اس کے والد اسے پڑھانا چاہتے تھے اس لیے اسے پٹنہ کے اچھے رہائشی اسکول میں بھیجا گیا تھا،جہاں وہ اب دسویں کلاس تک پہنچ چکا تھا۔ مگر ایک دن اس کے گھر سے ایک خط آیا جو اس کے لیے سر پر آسمان سے بجلی گرنے کے مانند تھا۔خیر خیریت کے بعد خط میں لکھا تھا:

’’تمہارا باپ اب بیماری کے سبب بہت معذور ہوگیا ہے ، تھوڑا بہت وہ کما کر بھیجتا ہے جو گھر کے اتنے اخراجات کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرا کے مانند ہے۔ اب ہم لوگ تمہارے تعلیمی اخراجات کیا پورے کریں یہاں گھر پر ہم لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ دن بہ دن قرض پہ قرض کا بوجھ اور اس کا بیاج الگ ! ہم لوگ بہت مشکل میں ہیں۔تمہاری پیاری دادی‘‘

ناصرکا دل پوری طرح ٹوٹ چکا تھا وہ اور پڑھنا چاہتا تھا مگر جب بھی وہ لالٹین کے سامنے اپنی کتاب کھولتا اسے خط کے وہ سارے جملے کانٹے کی طرح اس کے جسم میں چبھتے ہوے محسو کرتا ۔وہ جلتے ہوئے لالٹین کو اپنا دل تصور کرنے لگا جس میں اس کا خون مٹی تیل کے مانند جل رہا تھا۔

دھیرے دھیرے پڑھائی سے اس کا دل ہٹنے لگا اور وہ زمانہ اسکالر شپ کا نہیں تھا یا اسے دیگر کسی کی جانب سے مالی امداد کا سہار ا میسر نہیں تھا ، پھر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اب ان کتابوں کے اواراق پر لکھے ان حروف کو پڑھے اور اس کے گھر والے پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کریں۔

پھر وہ کمائی کے طریقوں کے بارے میں سوچنے لگا، کبھی سوچتا کسی دوکان میں نوکری کرلوں مگر وہاں تنخواہ مہینے پر ملے گی، کبھی سوچتا کہ گاڑی کا کنڈکٹربن جاؤںیومیہ آمدنی ہوگی۔مالک سے بول کر روزانہ پیسے لے لیا کروں گا۔ پھر سوچتا کہ نہیں اس میں بھی چاہے محنت کتنی بھی کر لوںمتعین آمدنی ہوگی اور ماتحتی میں بھی رہنا ہوگا سو الگ ۔ اس لیے سوچا کیوں نہ ڈرائیور بن جاؤں اور کرائے سے آٹو لے کر گاڑی چلاؤں،کرایہ دے کر جو بچا سو اپنا اور خوب محنت کروںگا اور اپنے والدین اور گھر والوں کا فوری سہارا بن جاؤں گا۔ اس طرح اس نے پٹنہ میں ہی اسکول چھوڑ کر ڈرائیو نگ کر نا سیکھ لیا اس طرح وہ ایک اچھا ڈرائیور بن گیااور کمانے لگا۔

کچھ دن بعد جب گھر آیااور گھر والوں کو معلوم ہوا تو اس کے والد کو بڑی تکلیف ہوئی اس نے کہا :
’’بیٹے میں مانتا ہوں کہ میں بہت غریب ہو گیا ہوں اور اب مجھ سے اتنا کام نہیں ہو پاتا مگر !میں ابھی مرا نہیں ہوں۔پھریہ کیا کہ تم نے پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ صبر کرتے یہ مشکل کے دن تھے گزر جاتے‘‘

ناصر نے کہا : ہاں ابا جان! اللہ تادیر ہم پر آپ کا سایہ قائم رکھے۔ میں جانتا ہوں کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہوگی۔ مگر میں کیا کرتا ، میں آپ لوگوں کی پریشانی دیکھ نہیں سکتا ۔ اللہ نے چاہا تو دھیرے دھیرے سارے قرض ادا ہو جائیں گے اور آپ کو بھی کام کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
ناصر گاڑی چلاتا رہا اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہوگیا۔اب وہ دھیرے دھرے گاڑی چلانا چھوڑ کر تعمیر مکان کا کنٹریٹ لینا شروع کردیا اس طرح وہ بہت بڑا کانٹریکٹر اور بلڈرہوگیا۔’’حوصلہ بلڈرگروپس‘‘ کے نام سے اس نے اپنی کمپنی کھولی اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ وہ لوگوں کا بھی ہمدرد بن کر سامنے آیا۔

آج وہ ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔ اس دوران اس کے والد کا انتقال ہوگیا اوروہ اپنی ماں بہن اور بھائیوں کی کفالت اور ان کی پوری ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دینے لگا۔

سر آپ کہاں کھو گئے؟ اس غریب لڑکے نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
ہاں………ہاں! تو تم کہہ رہے تھے…… کہ اپنی غربت کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے ۔خیر پریشان نہ ہو ۔ہمارے یہاں تو کوئی نوکری نہیں ہے البتہ تمہاری تعلیم کے سارے اخراجات اور گھروالوں کے لیے بھی حسب ضرورت ان کے اخراجات اب میں برداشت کروں گا۔

یہ سن کر اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ۔ اس نے تعجب بھرے انداز میں کہا:
ہاں! سر!کیا ایسا ہو سکتا ہے؟آپ میرے اور گھر والوں کے اخراجات برداشت کریں گے؟
ناصر نے کہا: ہاں! مگر اس کے بدلے مجھے کچھ چاہیے ؟
لڑکا چونکا اور تجسس بھرے انداز میں پوچھا :
کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کیا سر؟ کیا چاہیے؟میں تو کچھ دے نہیں سکتا !!

پھر ناصر نے کہا: تمہیں محنت سے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوگی اور اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ ایک اچھا آفیسر بن کر دکھانا ہوگا۔بولو راضی ہو؟

اس نے کہا: بالکل سر ! آپ فرشہ صفت انسان ہیں، ہمارے لیے مسیحہ کے مانند ہیں۔میں یقینا آپ کے توقعات کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کروں گا۔

ناصر نے اپنے منیجر کو بلا کر اس سے تفصیلات لے کر اس کے گھر ماہانہ رقم بھیجنے اور اس کے کسی اچھے اسکول میں داخلہ کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔

تبھی منگلو چاچا نے آواز دی:
حضور گاڑی آگئی! اور ناصر کا سامان اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے لیے چل پڑا۔ ناصر نے اس لڑکے سے کہا : ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ ! میں پندرہ دن کے لیے گھر جارہا ہوں آنے کے بعد تم سے تمہارے اسکول میں ملوں گا۔
Kahani: Hamdard Published by Bachon ki Dunya Oct 2016



Saturday 25 June 2016

Nanha Rozedar


ننھا روزہ دار


       اس رمضان میں ایک بچہ جس کے والد کے پاس تراویح کے بعد گھر سے مس کال آئی۔کال بیک کرنے پر پتا چلا فون پر اس کی ماں یعنی بچے کی دادی تھی۔ گھر کے حال و احوال پوچھے۔ سب خبر خیریت لی۔ پھر انھوں نے بچے یعنی اپنے پوتے کا سارا قصہ بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ 

       بتانے لگی رفیع اللہ پابندی سے شوقیہ کھانے کے لیے سحری میں اٹھتا اور سحری کھا کر سو جاتا تھا ۔اسی طرح ایک دن وہ اٹھا پھر سحری کرکے پورے دن کے روزہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا جب اسے کھانا دیا گیاتو وہ اسے لے کر کمرے میں چلا گیا اور ہاتھ گیلا کر کے باہر نکلا پھر کچھ دیر بعد اس نے کھانا چھپا کر بکری کو کھلا دیا۔جب عصر کا وقت ہوا، اس کی آواز پست، جسم گرم اور چہرہ مرجھانے لگا، سب کو لگا گرمی کی چھٹی ہے دھوپ میں کھیلتا رہتا ہے اسی لیے ایسا ہوا ہوگا۔

        خیر اسے بستر پر لٹا دیا گیا اور تنبیہ کی گئی کہ دھوپ میں نہیں نکلنا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ یہ چھوٹا معصوم بچہ روز ہ سے ہے۔

        وقت اس بچے کے لیے کچھوے کی رفتار میں منزل کی طرف بڑھ رہا تھا حسب معمول افطار لگایا گیا بچے دسترخوان کے ارد گرد جمع ہو گئے تبھی اس کے دوست نے اپنی امی سے پوچھا: رفیع اللہ کہاں ہے؟
        امی نے جواب دیا اسے بخار ہو رہا ہے ،اس لیے لیٹا ہوا ہے اور تم بھی سن لو سارا دن ادھر ادھر دھوپ میں کھیلتے رہتے ہو اب گھر سے باہر نکلنا بند!

        یہ سب سن کر اس نے کہا ...ماں! وہ تو .....روزے سے ہے!! اور تیزی سے اس کے کمرے کی طرف دوڑا۔ ور اس کے پاس جا کربولا رفیع ..رفیع ..چل اب ٹائم ہونے والا ہے..! 

       یہ سنتےہی اس کے جسم میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی وہ تیزی سے دسترخوان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ گھرو الےاسے کچھ کہتے مؤذن صاحب نے اللہ اکبر کی آواز لگا دی۔ اس آواز نے سب کو روزہ کھولنے میں مصروف کر دیا...! 


Tuesday 31 May 2016

Imandari Hamari Asal Pahcan ہماری پہچان

پہچان

تنویر ایک چیک لے کر بینک گیا۔ کاؤنٹر پہ لائن میں کھڑا ہوگیا۔ وہاں لائن میں اور بھی بہت سے لوگ کھڑے تھے۔

اپنی باری پر اس نے اپنا چیک کھڑکی سے اندر کاؤنٹر پر مصروف ملازم کے ہاتھ میں دیا۔چیک بڑی رقم کا نہیں تھا بس دس ہزار روپے لینے تھے۔

ملازم نے چک الٹ پلٹ کیا اور پیچھے چیک پر لکھے اکاؤنٹ نمبر اور دیگر تفصیلات دیکھنے کے بعد پوچھا: پاس بک ہے؟

تنویر نے کہا: نہیں، وہ میں لانا بھول گیا۔

پھر اس نے کہا اچھا کوئی پہچان پتر یا آدھار کارڈ وغیرہ؟

اس نے کہا: ہاں پہچان پتر ہے۔ حالانکہ یہ سب پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ کسی کارڈ کی۔ چیک کی پشت پر تفصیلات درج تھیں۔ وہ غالباً نیا تھا۔

تنویرنے اسے اپنا آئی کارڈ دکھا یا۔
کیشیئرنے چیک پر اپنی ضروری کارروائی کی اس کے بعد 500 کے کئی نوٹ مشین میں ڈال کر گنے۔
مشین نے 26 عدد نوٹ شو کیے۔ اس نے اس سے 6 نوٹ الگ کیے اور 20 تنویر کے حوالے کیا۔

حسب عادت تنویر  نے رقم کانٹر پر ہی گننا شروع کر دیا۔ اچا نک درمیان میں اسے ایک ہزار کا نوٹ ملا اس طرح تنویر نے اس میں 500 روپے زائد محسوس کیے۔ دوبارہ گنا پھر وہی زائد!

تنویر نے کیشیئر سے کہا: بھائی صاحب اس میں 500 روپے زائد ہیں آپ گن لیجئے!

جب اس نے گننا شروع کیا تو واقعی اس میں پانچ سو رپے زائد ملے۔ اس پر وہ تنویر کو حیرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔

موقع مناسب دیکھا تنویر  نے بھی اپنی ایک پنچ لائن رکھ دی:

جناب ایمانداری ہماری اصل پہچان ہے۔ باقی آئی کارڈ تو سب کے پاس ہوتا ہے۔
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...