Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts
Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts

Wednesday 24 May 2017

Short Story: Safar

سفر

سردی کا زمانہ تھا،رات کے پچھلے پہرراشد اٹھ بیٹھااور جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگا۔اسے دہلی جانا تھا ۔ریلوے اسٹیشن گاؤں سے تقریبا سترکلومیٹر دور تھا،وہاں پہنچنے کے لیے اسے بس پکڑنی تھی۔فکرمعاش گاؤں کے اکثر لوگوں کو دور دراز شہروں کا سفر کر نے پر مجبور کردیتاتھا۔راشد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔

راشد جب بھی دہلی یا اور کہیں جاتاتو گاؤں کے لوگ اپنے بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان اس کے حوالے کردیتے جسے لے جانے کے لیے وہ بہ خوشی تیارہوجاتا۔

راشدکا ریزرویشن نہیں تھا، اسٹیشن پہنچ کر دہلی جانے والی گاڑی کے جنرل ڈبے میںسیٹ لینی تھی ۔وہ اپنے سامان کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے گاؤںکے قریب سڑک پر ایک جگہ کھڑا ہوگیا جہاں بسیں رکتی تھیں۔

بس اپنے وقت پردور سے ہی ہارن دیتی ہوئی آئی۔راشدنے ڈرائیورکو ہاتھ دکھایا ،گاڑی رکی۔وہ بس پر چڑھ گیا اور ایک سیٹ پر بیٹھ کر چادرتان لی۔تھوڑی دیرمیں اسے نیند آنے لگی۔

ان دنوں کافی لوگ الہ آباد گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔ ہر اسٹیشن پرخلاصی زور زور کی آواز لگاتا اورسامان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھتا ،پھر سواریاں اپنی اپنی جگہ لے کر بیٹھ جاتیں۔

ابھی راشد کچی نیند میں تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ چند لوگوں نے گاڑی رکوائی اور دوبوڑھی خواتین اور ان کے ساتھ کچھ مرد و خواتین چڑھے اسی دوران ایک شخص نے کہا:
’’ ارے بھیا!ماما چاچی تہ ابھی نے کھے آئے ت سب کیسے جائب بس رکوا ب ہمنی ایک ساتھ ہی جائب۔ ‘‘(ماما اور چاچی تو ابھی آئی نہیں ،تو ہم لوگ کیسے جاسکتے ہیں۔

 کسی نے کہا : ارے ہاں اوسب ت ابھی تیاری کرت بارن (وہ سب تو ابھی تیاری ہی کررہے تھے)۔
 پھر جلدی جلدی سب لوگ اپنا اپنا سامان لے کر نیچے اتر گئے۔

ان لوگوں کی بولی اور معصومیت پر راشد کو ہلکی سی ہنسی آئی۔پھر وہ سو گیا۔
بس تیزرفتاری کے ساتھ دو گھنٹے میں ستر کلو مٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزل کو پہنچی ۔سارے لوگ اترنے لگے۔

راشد بھی انگڑائی لیتے ہوئے کھڑا ہوا اور اپنا سامان ڈھونڈنے لگا۔ایک بیگ ، جسے اس نے اپنے قریب رکھا تھا اٹھا یامگر وہ بوری جس میں گاؤں کے لوگوں کا سامان تھا،وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی! اس نے دیکھا کہ اسی طرح کا ایک تھیلا قریب میں رکھا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی سامان کہیں بھی نظر نہیں آرہاتھا۔

وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ اگروہ اپنا سامان لے کر چلاگیا اور دوسروںکی امانت ان تک نہیں پہنچی تو وہ گاؤں والوںکے درمیان بے عزت ہوجائے گا اور لاپروااور خائن کہلائے گا۔اس نے اس بورے کو کھول کردیکھا تواندازہ ہوا کہ یہ ان لوگوں کا سامان ہے جو شردھا اور گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔اس میں گھی کا ڈبہ ،لائی ، بوندی کا لڈو، چڑھاوے کا نیاجوڑا اور کچھ قیمتی چیزیں تھیں۔

فوراً راشد کی سمجھ میں آیا گیاکہ ہو نہ ہو راستہ میںایک سواری جلدی جلدی اتری تھی۔شایداس نے اپنا سامان اتارنے کے بجائے میرا ہی سامان اتارلیاہو۔ مگروہ کون لو گ تھے اور کہاں اترے تھے یہ معلوم نہ تھا۔
 راشد نے خلاصی سے کہا:بھائی! کسی نے غلطی سے میرا سامان اتارلیاہے اور اپنا سامان چھوڑگیاہے۔

اس نے کہا:’’ مجھے لگتا ہے کہ وہ فلاں جگہ کے لوگ تھے ،جو درمیان میں چڑھے تھے لیکن فورا اترگئے تھے ۔شاید اس جلد بازی میں انھوں نے سامان اتار لیا ہو۔‘‘

 پھر اس نے کہا:’’ میرے کاکا کی لڑکی وہیں رہتی ہے ان سے معلوم کیے لیتاہوں ۔‘‘

اس نے موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے گاؤں سے اس گاؤں کا فون نمبر لیاگیا۔ اس روٹ کا ڈرائیور اس علاقے کے لوگوں کو جانتا تھا۔ اس نے فوراً مختلف مقامات پر موبائل سے رابطہ کیا۔بالآخر ان مسافر وں کا پتہ لگ گیا ، ان لوگوں سے پوری تفصیلات بتائی گئی۔ پھر ان کو بتایاکہ آپ اسٹیشن آجائیں آپ کا سامان یہاں ہے ،آپ لوگ دوسرے مسافر کا سامان لے کر اترگئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنا سامان چیک کیا تو بات صحیح نکلی۔

انھوں نے کہا :’’ ہم لوگ جیپ سے آرہے ہیں، آپ وہیںرہیں۔‘‘

 راشد کو اب اس بات کی بالکل فکر نہ تھی کہ اس کوٹرین میں سیٹ نہ ملے گی یاٹرین چھوٹ جائے گی۔بلکہ فکر یہ تھی کہ گنگا اسنان کے مسافروں کو اُن کا سامان مل جائے اور اسے اپنا، تاکہ وہ دوسروں کی امانت صحیح طریقہ سے ان تک پہنچادیں۔

 چارگھنٹے انتظار کے بعد وہ لوگ جیپ سے پہنچے ۔ سب لوگ گاڑی سے اترے اور راشد کو اس کا سامان واپس کیا اور اپنا سامان دیکھنے لگے۔

ایک عمردراز خاتون نے راشد کی داڑھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :
’’بیٹوا!تو بہت اچھا لڑکاہے۔ بھگوان توہربھلاکرے ،  ہم ت سمجھنی کہ ہمر سامان غائب ہوگئل۔ (ہم سمجھے کہ ہمارا سامان غائب ہوگیا-

راشدنے ان کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے خوشی کے آثار دیکھے اور اپنے تئیں ان کے اس رویہ سے فخرمحسوس کرنے لگا۔اسے لگ رہاتھا کہ وہ یہاں سب سے قدآور شخص ہے،جس نے بہت بڑا کام کیاہے۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے ایک اخلاقی عمل ہے جو ایک مسلمان کا فریضہ ہے،جسے انجام دینا ہی تھا۔وہ گویا ہوا:
’’کاکی!  اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔ اللہ ہی اپنے بندوں کی پریشانیوں کو دور کرتاہے۔خدا کا شکر ہے کہ ایک دوسرے کی پریشانی دور ہوئی۔اسلام ہمیں انسانیت کی تعلیم دیتاہے۔‘‘

گویااس نے اپنے رویہ اور مختصر سے بول میں اسلام کا پیغام ان کے سامنے رکھ دیا۔

 بات ختم ہوتے ہی وہ لوگ اپنے سامان کے ساتھ پھر سے جیپ میں بیٹھے اور ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔

شایددوسری گاڑی میںجگہ مل جائے ۔یہ سوچتے ہوئے راشد ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔
محب اللہ 

٭٭٭

Friday 10 February 2017

Mujrim ۔ Urdu Short Story

مجرم

                                                      محب اللہ

رات کا سناٹا تھا، دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ،چوکیدار چوکنا ہوا ، اپنی لائٹ کی روشنی ادھر اُدھر دکھائی اچانک ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے تھیلے میں کچھ لیے ہوئے دیوار پھاندنے کی کوشش کررہاتھا۔اس نے چور چور کی آواز لگائی اور فوراً اس کو دبوچ لیا۔ ڈاکٹر صاحب(گھر کے مالک) نیند سے جاگے اوربھاگے ہوئے آئے۔ فوراً پولیس کو بلایااور چور کو پولیس کے حوالے کردیا۔
آج عدالت میں چو ر کی پیشی تھی۔ جج صاحب آئے اور کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا:’’ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے‘‘

ملزم کو پکڑے ہوئے پولیس آگے بڑھی۔

 ملزم نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا :جو رشوت خور ہیں وہ میرا ہاتھ نہ پکڑے اور خود ہی آکر کٹگہرے میں کھڑا ہوگیا۔

وکیل نے ملزم سے سوال پوچھا:’’تمہارا نام کیاہے؟ ‘‘

ملزم:’’رمیش‘‘
وکیل:’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
ملزم:’’وہ اب دنیا میں نہیں ہیں‘‘
وکیل:’’تمہاری تعلیم؟‘‘
ملزم:’’تیسری کلاس پاس ہوں‘‘

وکیل جج کو مخاطب کرتے ہوئے:’’جناب والا! ہمارے دیش میں جرائم کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ پڑھتے لکھتے نہیں ۔ ایسے ہی بچے ،نوجوان گلی محلوں میں جمع ہوکر چور ،لٹریرے بن جاتے ہیں، جو سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

وکیل نے ملزم کو پھر سے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:’’تم اتنے بڑے ہوتم نے تیسری جماعت تک ہی پڑھائی کی، آگے کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟‘‘

ملزم:’’ میرے ماں باپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے اسکول کی مہنگی فیس کون بھرتا ،جسے میرا باپ اپنی گھر کی ضروریات کاٹ کر پورا کرتا تھا۔ اسی طرح ان لڑکوں کاکھانا کھا کر جینا اور اپنے بیمار ماں باپ کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا جن کے درمیان میں پلا بڑھا تھا۔یہ زیادہ بہتر تھا یا اسکول جانا اور اسکول کی فیس ادانہ ہونے پر ڈانٹ سننا۔

وکیل صفائی نے جج سے درخواست کی:’’ جناب والا، میرے فاضل دوست کا ملزم سے ایسے سوالات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

وکیل : ’’جناب ! میں عدالت میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں ، اس لیے ملزم سے میرا یہ سوال ضروری تھا۔‘‘
جج نے کہا:’’آپ ملزم سے متعلقہ سوال ہی پوچھیں!‘‘
وکیل: ’’تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے۔ تمہیں چوری کرتے ہوئے رنگے ہا تھ پکڑا گیا ہے۔ تمہارے پاس سے نقد ی کے علاوہ سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تم مجرم ہو!کیو ںیہ بات درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
ملزم:’’ میں پکڑا گیا اس لیے چور ہوں!‘‘پھر ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اگر چور میں ہوں تو چور یہ بھی ہیں‘‘!

اس جملے سے عدالت میں سناٹاچھاگیا ۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور چور!۔
وکیل :’’جناب والا ! مجرم نے اقرار کرلیا ہے کہ وہ چور ہے۔ مگراپنے بچاؤ کے لیے اس نے ہمارے موکل ڈاکٹر کو چور ٹھہرایا۔‘‘

ملزم:’’ کیا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اپنے کمیشن کے چکر میں اضافی ٹسٹ، مہنگی دواؤں اور ہائی اسکور بل کے ذریعے نہیں لوٹتے؟ تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟یہی نہ کہ میں رات کے اندھیرے میں یہ کام انجام دیتا ہوں اور وہ دن کے اجالے میں ۔

اب بتائیے !ڈاکٹر صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ وکیل صاحب؟

وکیل کے جواب نہ دینے پر وکیل صفائی (ملزم کے وکیل) نے کہا:
’’جناب والا! یہ بات بہت اہم ہے ۔ لہذا میںملزم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس کی اجازت دی جائے۔‘‘

جج نے اجازت دیتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر کو عدالت میں پیش کیاجائے ۔‘‘

وکیل صفائی: ’’ہاں ! جیسا کہ ہمارے مؤکل نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ بھی چور ہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی بھی کوئی مجبوری ہے جو آپ نے ایسی حرکت کی ؟‘‘

ڈاکٹر اچانک ا پنے اوپر عائد الزام کو برداشت نہ کرسکا اور بناسوچے سمجھے بے ساختہ بول پڑا:
’’ جی جناب!دراصل بات یہ ہے کہ میرے گھروالے مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے مجھ پر کئی لاکھ روپے خرچ کیے ۔ ‘‘

وکیل :’’توکیا ان مریضوں کا خون چوس کرپیسا وصول کریںگے؟‘‘ اس پر قہقوں سے عدالت گونج اٹھی۔
ڈاکٹر:’’ کیا مریض کا علاج کرنے کے بعد معاوضہ لینا جرم ہے؟اور جب تک میرا یہ جرم ثابت نہ ہوجائے مجھے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘مگر اس چورنے تومیرے ان روپیوں کو اڑالے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے کون سی تعلیم حاصل کی تھی ، جاہل کہیں کا۔‘‘

جاہل کا طعنہ سن کر ملزم چورجھلایا:
’’ جب ہمیں پڑھ لکھ کر مجرم ہی بننا تھا تو اس سے بہتر تھاکہ میں جاہل رہا، میںکسی کی زندگی کوداؤ پر لگا کر اس کے جذبات کی قیمت تو نہیں وصول کرتا۔ معاوضہ لینا جرم نہیں بلکہ جرم مریض کو لوٹنا ہے، جو میں پہلے بتا چکاہوں۔

ٹھیک ہے میں چور ہوں اور اس نام کے ساتھ گالیاں سن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر تا ہوں۔ مگر میں آپ جیسامہذب مجرم نہیں ، جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتا اور اسے لوٹتا ہے اور نہ میں ان مجرموں کی طرح ہوںجو ملاوٹ کرکے دو کا دس بنا کر عالیشا ن زندگی جیتے ہیںاور معاشرے میں باعزت صاحب سمجھے جاتے ہوں۔‘‘

چور اور ڈاکٹر کی اس زور دار کی بحث سے عدالت میں شور ہونے لگا۔مجبوراً جج صاحب نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑابجاتے ہوئے بولے: آڈر … آڈر ! جب تک کسی سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ خاموش رہے۔ وکیل صاحب آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

ڈاکٹر کے وکیل نے ملزم رمیش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں تو تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے ؟کیوں کہ چوکیدار نے تم کو گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑا ہے۔‘‘لہذا تم پر جرم ثابت ہوتا ہے۔‘‘

 اس پر ملزم نے جواب دیا:
’’ مجھ جیسے جاہل انپڑھ کو چور اچکا کہہ آپ لوگ بڑے فخر کرتے ہیں مگر آپ ہی بتایے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب کو کیا کہیں جواپنی چارسوبیسی سے مریضوں کو لوٹتا ۔میں مانتا ہوں کہ بنا ثبوت کوئی مجرم نہیں ہے۔ توممکن ہے، کل ہمارے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ ہو۔ عدالت کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔‘‘


Mujrim Published by Umang Sunday


٭٭٭

Wednesday 8 February 2017

Urdu Short Story: Bebasi ka Karb

کہانی :

بے بسی کا کرب


       مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تیزی سے دفتر گیا، جلدی جلدی کام کیا اوربقیہ کام کو پنڈنگ فائل میں ڈال کر باس سے اجازت لی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ بازار پہنچ کر سبزیاں لیںپھر ایک مٹھائی کی دکان سے سموسے اورمٹھائی لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔

گھرپہنچتے ہی بچوں نے اسے دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا: ’’ابوآگئے! ابوآگئے!!‘‘
رضیہ نے سبزی کی تھیلی میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا:’’پلیٹ لاؤ اور سنو،ایک اچھی سی چائے بنانا۔‘‘
بچے پلیٹ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔

 تبھی عامرنے جلدی سے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک رسگلہ اٹھا لیا، جس سے رس ٹپک رہاتھا۔
میں نے کہا: ’’رکوبیٹا…!‘‘ پھر اس کی گردن میں اپنا رومال باندھ دیا تاکہ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
 پھر کہا : ’’چلواب بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ۔‘‘

اتنے میں رضیہ ٹرے میں چائے لیے ہوئے آگئی۔

بچوں کو اس طرح جلدی جلدی کھاتادیکھ میں نے کہا:’’رضّوآج مجھے ابو یاد آرہے ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کس حال میں ہوںگے۔ جانتی ہو، جب ہم عامر کی طرح تھے تو میرے ابوروزانہ ہم لوگوں کے لیے مٹھائیاںلاتے،خوب کھلاتے اورجب ہم گھومنے جاتے تو ہمارے لیے من پسند  چیزیں بھی خرید دیتے تھے۔ہم لوگوں کو کبھی مایوس دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔آج میں پڑھ لکھ کر نوکری کے قابل ہوگیا ہوں اورچاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیںاور اپنی شراب کی گندی عادت کو چھوڑدیںمگر وہ میری بات نہیں مانتے ۔ ان کی یہ عادت ہم سب کی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔ جس شخص نیمیں زندگی بھر ہم لوگوں کے لیے سب کچھ کیا،آج میں اتنا بے بس ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہاہوں۔‘‘

باتوںباتوںمیں ہیمغرب کا وقت ہوگیا میںنے رضیہ سے کہا: ’’بچوں کو سنبھالو اورنماز کی تیاری کرو۔ بس مسجدسے نماز پڑھ کرآرہاہوں۔‘‘

یونہی دن گزرتے رہے ۔ میں کے دوبچے اورایک بچی تھی جو اب بڑے ہونے لگے تھے۔ اس کی آمدنی یوں تو کچھ خاص نہیں تھی،مگر پھر بھی کسی طرح گزر اوقات ہورہی تھی۔بچے ایک اسکول میں پڑھنے جاتے تھے ۔ وہ  پیسے بچا کر رضیہ کوبنابتائے اپنی والدہ کے نام گھر بھیج دیتاتھا۔

ایک دن بچوں نے ضدکی کہ وہ میلے میں گھومنے جائیںگے۔ میںنے منع کیا مگر جب بچوں نے ایک نہ مانی ، تب میں نے رضیہ سے پوچھا:
’’کچھ پیسے جمع ہوں تو دو؟میں تمھیں بعد میں واپس کردوںگا۔ بچوںکو گھمانے لے جانا ضروری ہے‘‘۔

پھر اس نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا۔
’’رضو!جانتی ہو،ایک بار ابو ہم سب کو لے کر ڈزنی لینڈ (مختلف مقامات پر لگنے والا بڑا میلہ) گھمانے لے گئے تھے۔ وہاں ہم لوگ بڑے بڑے جھولوں پر جھولے ،آئس کریم کھائی، ہوا مٹھائی بھی خریدی،بہت سے کھلونے بھی خریدے ۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لی تھیں۔ مگرمیں کیا کروں، میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہے کہ میں بچوںکو وہ سب کچھ دے سکوں جو مجھے میرے ابونے دیاتھا۔ تمہیں وہ چیزیں خرید کر دو جوتمھیں پسند آئے۔ آج پھر مجھے ان کی جدائی کا کرب ستارہاہے۔اب بھی وہ اپنی گندی عادت چھوڑدیں اورہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائیںتو یہ بات میرے لیے تمام خوشیوں سے زیادہ بڑھ کرہوگی۔‘‘

تبھی عامر جوتے کے فیتے باند ھتے ہوئے بولا: ’’ابو! ہم تیار ہوگئے‘‘۔
ناصر بھی کچھ کہنا چاہ رہاتھا کہ سارہ اپنی توتلی آواز میں بولی: ’’ابوتلونا۔۔ دلدی تلونا!‘‘
اتوار کا دن تھا۔ میں گھر پر ہی تھا کہ دروازے پر ایک مانگنے والی عورت آئی، جس کے ساتھ دوبچے تھے۔ حسب معمول رضیہ نے پوچھا : ’’کیابات ہے ؟ ‘‘

مانگنے والی خاتون نے کہا: بھوک لگی ہے، اگر کچھ کھانا اور ان بچوںکے لیے پرانا کپڑاہو تو دے دو،بڑی مہربانی ہوگی۔
رضیہ نے کہا: ’’ٹھیک ہے کھانا میں دے دیتی ہوں،مگرکپڑے میرے پاس نہیں ہیں،کہیں اور سے مانگ لو‘‘۔
تبھی میںنے کہا:’’ارے رضو، عامر اور ناصرکے پرانے کپڑے اسے آجائیںگے وہ دے دو۔ان کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں۔‘‘ پھر رضونے بہ مشکل اسے وہ کپڑے اسے دے دیے۔

گھنٹے دوگھنٹے گزرے ہوںگے کہ مانگنے والی ایک اور خاتون آئی ،جو رو رو کر فریاد کر رہی تھی : ’’ہم لوگ غریب ہیں، بچی کی شادی کرنی ہے، تھوڑی بہت امداد ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
رضونے کہا:’’ اب میں اسے کیا دوں؟‘‘
 تب میں نے کہا:’’ا سے سو روپے دے دو۔‘‘

اس پر رضیہ جھنجھلاکر بولی:’’ آپ کی یہ عادت ٹھیک نہیںہے۔ ایک تو میں ضرورت کے سامان کم کرکے بہ مشکل 10روپے 20روپے جمع کرتی ہوںاور آپ آئے دن ان میں سے کسی نہ کسی کو دلوادیتے ہیں۔ آخرہماری بھی تو ایک بیٹی ہے ، ہمیں بھی تواس کی شادی کرنی ہے۔ تمہارے ابوبڑے دانی تھے ،جوکچھ کمایا، سب کچھ لٹادیا،کیا ملاان کو؟ اب ایسی عادت میں پھنسے ہیں کہ کوئی ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔‘‘

رضیہ کی یہ باتیں سن کر مجھے زورکا جھٹکا لگا، گویاکسی نے اس کے منھ پر زنّاٹے دار طماچہ رسید کیا ہو۔اسی وقت یہیں سے اس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کی ایسی نگرانی کرے گا کہ گندی عادتیں انھیں چھوبھی نہ سکیں۔
ارے، یہ کس کا سامان ہے ،نکالو! چلو چلو، آگے بڑھتے رہوبھائی۔اس شور و غل نے مجھے نیندسے جگادیا۔
رضیہ نے بھی اس کی نیند پر کہا:’’ اب اٹھیے بھی کتنا سوتے ہیں آپ ! اور یہ نیند میں آپ کیا بڑ بڑا رہے تھے؟‘‘
میں نے جواب دینے سے قبل کھڑکی سے جھانکا اور کہایہ تو نئی دہلی اسٹیشن ہے!تب اسے پتا چلا کہ وہ خواب دیکھ رہاتھا۔ پھر رضیہ سے کہا: ’’رضو! لوگ خواب میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں مگر میں اپنا ماضی دیکھ رہا تھا۔‘‘

اتنے میں اچانک عامر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہا :’’ چلئے ابو، گھر چلیں،وہیں ظہر کی نماز پڑھیں گے۔ آپ کے پوتے اکرم اورانورآپ کابے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
عامر کی بات ختم ہوتے ہی خالد نے کہا : ’’مگرناصر نہیں آیا؟‘‘
عامر:’’ابووہ کمپنی ویزاپر ابوظبی گھومنے گیاہے۔میں آپ کو فون پر بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

تبھی عامر ایک شخص کو سگریٹ پیتا دیکھ بولا: ’’ ارے بھائی ،اپنے گھر جاکر پینا، کیوںاپنی اور دوسروں کی صحت کو خراب کررہے ہو۔‘‘

یہ جملہ سن کر خالد کو یقین ہوگیاکہ اس کی، بچپن کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ سب اسٹیشن سے باہر آئے ، اپنی کار  میں بیٹھے اور گھر کا رخ کیا۔


عامر نے حفظ کرنے کے بعد عصری تعلیم حاصل کی ۔بی ٹیک کے بعدوہ ایک بڑی کنٹرکشن کمپنی کا ایکزیکٹیو ڈائریکٹر بن گیاتھا۔ ناصر بھی ایم بی اے کرکے ایک مشہورکمپنی کا مینیجنگ ڈائرکٹر بن گیا تھا، جب کہ سارہ نے اردواور انگریزی سے ڈبل ایم اے کیا پھر اس کی شادی ایک عالم دین سے ہوئی ، جس کا کپڑوںکا بہت بڑا کاروبارتھا۔

Bebasi ka karb Inqulab Mumbai 18 July 2013


Sunday 5 February 2017

Fareeb - Urdu Short Stori

کہانی:
فریب

کیوں جی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا سوچ رہے ہیں۔ میں  پوتے کے پاس جار ہی ذرا دیکھوں کیوں رو رہاہے۔ ٹھیک ہے سدو (سعدیہ) جاؤ! مگر جلدی آنا!!

پھراس نے ٹیبل پررکھے ماچس سے سگریٹ جلایا اور کش لیتے ہوئییادوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔
25سال گزرگئے جب سدو دلہن بن کر گھر  آئی تھی۔ آج بھی میں اس واقعہ کو نہیں بھول پایا۔ سسرال والے ہمیشہ میرے عتاب کا شکار رہتے تھے اور میں من موجی، جو جی میں آیا کرتا گیا۔
لیکن وہ حسین خوبصورت پری جس کا چہرہ ہر دم میری نگاہوں کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ کہیں کھو گیا۔

میں بہت خوش تھا ، خوشی کی بات ہی تھی۔ میری شادی جو ہورہی تھی۔ لڑکی گاو?ں سے کچھ فاصلے پردوسرے گاو?ں کی تھی جسے میں اپنے والد صاحب اور کچھ کچھ دوستوں کے ساتھ جا کر دیکھا بھی تھا۔ لمبا قد ،صراحی دار گردن، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ کتابی ، رنگ بالکل صاف کل ملاکر وہ بہت خوبصورت تھی۔خاندان اور گھر گھرانہ بھی اچھا تھا۔

گھر میں سب لوگ خوش تھے ابا جان نے کچھ لوگوں سے بطور مہمان جن میں کچھ میرے دوست بھی تھے، شادی کی اس تقریب میں شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ابا جان مہمانوں کے استقبال میں کھڑے تھے اور گھروالوں سے جلدی تیار ہونے کے لیے کہہ رہے تھے۔

میرے سامنے ہر وقت اسی کا چہراگھومتا رہتا تھا، فون کا زمانہ تو تھا نہیں کہ فون کرتا جیسا کہ اس دور میں ہو رہا ہے۔

بارات لڑکی والوں کے دروازے پر پہنچ گئی۔مختصرضیافت کے بعد نکاح کی کارروائی شروع ہوئی۔قاضی صاحب کے سامنے میں خاموش بت کی طرح بیٹھا رہا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا کیا پڑھا گیا۔ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا اچانک جب قاضی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے قبول کیا۔

خیالوں کا سلسلہ منقطع ہو گیااورمیںبے ساختہ بول گیا:’’ ہاں ہاں میں نے قبول کیا۔‘‘
لوگوں کو تھوڑی حیرانی ہوئی کہ سب شرم سے پست آواز میں بولتے ہیں یہ تو عجیب لڑکا ہے۔ مگر کوئی کیا کہہ سکتا تھا بات صحیح تھی ،بولنا تو تھا ہی ذرا زور سے بول گیا۔

نکاح کے بعد مجھے زنان خانہ میں بلایا گیا ، میں نے سوچا ممکن ہے کہیں گھر میں مجھے اسے دیکھنے کا موقع ملے کہ دلہن کے جوڑے میں وہ کیسی دکھتی ہے مگر وہی پرانی بات مجھے وہاں دیکھنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ ایسی کوئی رسم بھی نہیں تھی۔خیر دل کو منا لیا اور اسے بہلاتے ہوئے کچھ تسلی دی ارے اتنا بے تاولا کیوں ہوتا ہے کہ شام میں تو وہ تیرے پاس ہی ہوگی۔ پھر جی بھر کے دیکھنا۔دل بے چارہ مان گیا۔پھرتھوڑی بہت شیرنی وغیرہ کھائی پھر دوستوں کیساتھ ہم گھر سے باہر چلے آئے۔
رخصتی کے بعد ہم لوگ اپنے گھر آگئے۔

ادھر میرا گھر سجایا جا چکا تھا مٹی کے کچے مکان میں سب کچھ سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک پلنگ پر دلہن کی سیج سجائی گئی ، پھول گل سے سارا گھرخوبصورت لگ رہا تھا۔ اندھیرا سا ہونے لگا تھا۔مگر دل میں خوشی کا دیا روشن تھا۔

عورتوں نے دلہن کا پرتپاک استقبال کیا اور اسے گھر کے اندر آنگن میں لے گئیں۔ بہت سی خواتین وہاں جمع تھیں، رونمائی کی رسم کے بعد رخصت ہونے لگیں۔اس وقت تک میرا داخلہ ممنوع تھا۔ تقریباً دس بجے میں مجلہ عروسی میں داخل ہوا۔

اور دروازہ بند کیا ہی تھا کہ کھٹکھٹاہٹ کی آواز آئی میں نے پوچھا کون؟ ادھر سے میری بھابی بولی! دیور جی میں ہوں! دروازہ کھولو یہ دودھ کا گلاس یہیں رہ گیا۔ خیر میں نے دروازہ کھولا اور اس سے شرارتی انداز میں کہا آپ بھی نہ۔ یہ سب پہلے سے رکھ دیتیں۔ ارے دیور جی اتنی بے چینی کیا ہے ، بٹیا اب یہیں رہیں گی، ٹھیک اب آپ جائیںگی بھی یا یوں ہی وقت برباد کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے دروازہ پھر سے بند کر دیا اور پلنگ پر اس کے قریب بیٹھ گیا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیا بولوں ؟ کیا کہوں؟ خیر جو کچھ میرے دل میں آیا اس کی تعریف میں بول دیا۔

مگر اس کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے کہا دیکھو اب جلدی سے مجھے اپنا خوبصورت اور چاند سا چہرہ دکھا دو میں اب اور صبر نہیں کر سکتا؟ پھر بھی کوئی آواز نہ آئی تو پھر میں نے کہا : ’’ٹھیک ہے اب مجھے ہی کچھ کر نا پڑے گا‘‘ اور میں نے اس کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھادیا۔

نظر پڑتے ہی میرے پاؤں سے زمین کھسک گئی، میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں۔

’’کیا بات ہے؟ آپ کچھ پریشان سے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم فکر نہ کرو۔‘‘میں نے اس کا جواب دیا۔
’’بات تو کچھ ضرور ہے؟ آپ چھپارہے ہیں؟‘‘
میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’کوئی بات نہیں صرف سردردہے۔‘‘
’’لائیے میں دبا دیتی ہوں۔‘‘اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں نہیں مجھے زیادہ درد ہو رہا ہے دبانے سے ٹھیک نہیں ہوگا دوا لینی ہی ہوگی ‘‘اور یہ کہہ کر میں گھر کے باہر چلا آیا۔

باہر دیکھا سب لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔چھپ کر میں ندی کے کنارے جا بیٹھا۔’’یہ کیسے ہوا…؟ یہ تو سراسر فریب ہے۔ ‘‘
’’اتنی رات گئے تو یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘اچانک میرے دوست نے مجھے ٹوکا۔
’’یارابا کے ساتھ تو بھی تو تھا؟کیسی تھی؟پھر یہ کیا:اتنا بڑا دھوکا؟ لڑکی دکھائی گئی اورنکاح کسی دوسری کے ساتھ۔یہ شادی نہیں میری بربادی ہے۔ ‘‘

شاہد : ارے یار ذرا صبر سے کام لے۔
میں نے کہا:نہیں یارمیں کل ہی ابا سے بات کروں گا،اور لڑکی والوں کو بلا کر اس کی لڑکی واپس کروںگا۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ نہایت بھدا مذاق کیا ہے۔
تبھی میرادوسرا دوست خالدبھی وہاں آگیااوربولا :
’’ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے!لڑکی وہ نہیں ہے دوسری ہی سہی اچھی بھلی تو ہے نہ۔  اور ہاں! تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟
’’نہیں ! میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔سردرد کا بہانا بناکر چلا آیا ہوں۔‘‘

خالد نے کہا :’’ہاں! یہ تو نے اچھا کیا؟اس سے بتانا بھی مت۔اب شادی ہو گئی تو ہوگئی۔ بھلے ہی اس کے ماں باپ نے غلطی کی ہو پر اس میں اس لڑکی کا کیا قصور تم اسے واپس کر دوگے۔ اس سے اس کی بدنامی نہیں ہوگی۔ پھر کون اس سے شادی کرے گا۔ پھر وہ زندگی بھر ایسے ہی رہے گی۔ اپنے لیے نہیں اس کے لیے سوچ۔ جو اپنے گھر ، خاندان سے رخصت ہو کرتیرے گھر اپنی زندگی کی خوشیاں بٹورنے آئی ہے۔
’’وہ خوشیاں بٹورنے آئی ہے میری خوشیوں کا کیا؟‘‘خالد میری بات سن کر خاموش ہوگیا۔

میں نے بھی سوچااس کی بات تو ٹھیک ہے،مگرمیں کیسے بھول جاتا، وہ لڑکی، اس کی خوبصورتی ،اس کی بڑی بڑی چمکتی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی تھی۔

میرے لاکھ انکار اور احتجاج کے بعدجب کچھ نہ بن پڑا اوردوستوں کی باتیں سن کر مایوس ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح  اپنے گھر لوٹ آیا۔ دیکھا محترمہ سوئی ہوئی ہیں۔ 3بج رہے تھے۔میں بھی اپنا تکیہ لیے ہوئے الگ ایک طرف سوگیا۔

کچھ سال بعد جب قریب کے گاؤں سے خبر آئی کہ ایک عورت نے اپنے شورہر کا قتل کردیا اوراپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ وہی لڑکی تھی جس سے اس کی شادی ہونی تھی جس کی خوبصورتی پر وہ دیوانہ تھا۔اس وقت اس کے سرپر بجلی سی کوندگئی ارے یہ کیا ہوا ، تب اسے احساس ہوا حسن صورت ہو نہ ہو حسنِ سیرت ضروری ہے۔اس دھوکہ پر خدا کا شکر ادا کیا۔
اٹھو جی !یہ کیا؟ سامنے بستر لگا ہوا ہے اور آپ سگریٹ لیے ہوئے کرسی پر سو رہے ہیں۔
میں ہڑبڑا کر نید ہی بولا:’’ سدو تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘

’’ہاں ہاں! اب زیادہ تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہ بات کئی بار بول چکے ہیں۔‘‘اب چلیے بستر پر لیٹ جائیے میں آپ کے پاؤں دبادیتی ہوں۔!!

Fareeb Roznama Rastriye Sahara


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...