Friday 10 February 2017

Mujrim ۔ Urdu Short Story

مجرم

                                                      محب اللہ

رات کا سناٹا تھا، دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ،چوکیدار چوکنا ہوا ، اپنی لائٹ کی روشنی ادھر اُدھر دکھائی اچانک ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے تھیلے میں کچھ لیے ہوئے دیوار پھاندنے کی کوشش کررہاتھا۔اس نے چور چور کی آواز لگائی اور فوراً اس کو دبوچ لیا۔ ڈاکٹر صاحب(گھر کے مالک) نیند سے جاگے اوربھاگے ہوئے آئے۔ فوراً پولیس کو بلایااور چور کو پولیس کے حوالے کردیا۔
آج عدالت میں چو ر کی پیشی تھی۔ جج صاحب آئے اور کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا:’’ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے‘‘

ملزم کو پکڑے ہوئے پولیس آگے بڑھی۔

 ملزم نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا :جو رشوت خور ہیں وہ میرا ہاتھ نہ پکڑے اور خود ہی آکر کٹگہرے میں کھڑا ہوگیا۔

وکیل نے ملزم سے سوال پوچھا:’’تمہارا نام کیاہے؟ ‘‘

ملزم:’’رمیش‘‘
وکیل:’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
ملزم:’’وہ اب دنیا میں نہیں ہیں‘‘
وکیل:’’تمہاری تعلیم؟‘‘
ملزم:’’تیسری کلاس پاس ہوں‘‘

وکیل جج کو مخاطب کرتے ہوئے:’’جناب والا! ہمارے دیش میں جرائم کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ پڑھتے لکھتے نہیں ۔ ایسے ہی بچے ،نوجوان گلی محلوں میں جمع ہوکر چور ،لٹریرے بن جاتے ہیں، جو سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

وکیل نے ملزم کو پھر سے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:’’تم اتنے بڑے ہوتم نے تیسری جماعت تک ہی پڑھائی کی، آگے کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟‘‘

ملزم:’’ میرے ماں باپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے اسکول کی مہنگی فیس کون بھرتا ،جسے میرا باپ اپنی گھر کی ضروریات کاٹ کر پورا کرتا تھا۔ اسی طرح ان لڑکوں کاکھانا کھا کر جینا اور اپنے بیمار ماں باپ کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا جن کے درمیان میں پلا بڑھا تھا۔یہ زیادہ بہتر تھا یا اسکول جانا اور اسکول کی فیس ادانہ ہونے پر ڈانٹ سننا۔

وکیل صفائی نے جج سے درخواست کی:’’ جناب والا، میرے فاضل دوست کا ملزم سے ایسے سوالات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

وکیل : ’’جناب ! میں عدالت میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں ، اس لیے ملزم سے میرا یہ سوال ضروری تھا۔‘‘
جج نے کہا:’’آپ ملزم سے متعلقہ سوال ہی پوچھیں!‘‘
وکیل: ’’تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے۔ تمہیں چوری کرتے ہوئے رنگے ہا تھ پکڑا گیا ہے۔ تمہارے پاس سے نقد ی کے علاوہ سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تم مجرم ہو!کیو ںیہ بات درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
ملزم:’’ میں پکڑا گیا اس لیے چور ہوں!‘‘پھر ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اگر چور میں ہوں تو چور یہ بھی ہیں‘‘!

اس جملے سے عدالت میں سناٹاچھاگیا ۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور چور!۔
وکیل :’’جناب والا ! مجرم نے اقرار کرلیا ہے کہ وہ چور ہے۔ مگراپنے بچاؤ کے لیے اس نے ہمارے موکل ڈاکٹر کو چور ٹھہرایا۔‘‘

ملزم:’’ کیا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اپنے کمیشن کے چکر میں اضافی ٹسٹ، مہنگی دواؤں اور ہائی اسکور بل کے ذریعے نہیں لوٹتے؟ تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟یہی نہ کہ میں رات کے اندھیرے میں یہ کام انجام دیتا ہوں اور وہ دن کے اجالے میں ۔

اب بتائیے !ڈاکٹر صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ وکیل صاحب؟

وکیل کے جواب نہ دینے پر وکیل صفائی (ملزم کے وکیل) نے کہا:
’’جناب والا! یہ بات بہت اہم ہے ۔ لہذا میںملزم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس کی اجازت دی جائے۔‘‘

جج نے اجازت دیتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر کو عدالت میں پیش کیاجائے ۔‘‘

وکیل صفائی: ’’ہاں ! جیسا کہ ہمارے مؤکل نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ بھی چور ہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی بھی کوئی مجبوری ہے جو آپ نے ایسی حرکت کی ؟‘‘

ڈاکٹر اچانک ا پنے اوپر عائد الزام کو برداشت نہ کرسکا اور بناسوچے سمجھے بے ساختہ بول پڑا:
’’ جی جناب!دراصل بات یہ ہے کہ میرے گھروالے مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے مجھ پر کئی لاکھ روپے خرچ کیے ۔ ‘‘

وکیل :’’توکیا ان مریضوں کا خون چوس کرپیسا وصول کریںگے؟‘‘ اس پر قہقوں سے عدالت گونج اٹھی۔
ڈاکٹر:’’ کیا مریض کا علاج کرنے کے بعد معاوضہ لینا جرم ہے؟اور جب تک میرا یہ جرم ثابت نہ ہوجائے مجھے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘مگر اس چورنے تومیرے ان روپیوں کو اڑالے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے کون سی تعلیم حاصل کی تھی ، جاہل کہیں کا۔‘‘

جاہل کا طعنہ سن کر ملزم چورجھلایا:
’’ جب ہمیں پڑھ لکھ کر مجرم ہی بننا تھا تو اس سے بہتر تھاکہ میں جاہل رہا، میںکسی کی زندگی کوداؤ پر لگا کر اس کے جذبات کی قیمت تو نہیں وصول کرتا۔ معاوضہ لینا جرم نہیں بلکہ جرم مریض کو لوٹنا ہے، جو میں پہلے بتا چکاہوں۔

ٹھیک ہے میں چور ہوں اور اس نام کے ساتھ گالیاں سن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر تا ہوں۔ مگر میں آپ جیسامہذب مجرم نہیں ، جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتا اور اسے لوٹتا ہے اور نہ میں ان مجرموں کی طرح ہوںجو ملاوٹ کرکے دو کا دس بنا کر عالیشا ن زندگی جیتے ہیںاور معاشرے میں باعزت صاحب سمجھے جاتے ہوں۔‘‘

چور اور ڈاکٹر کی اس زور دار کی بحث سے عدالت میں شور ہونے لگا۔مجبوراً جج صاحب نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑابجاتے ہوئے بولے: آڈر … آڈر ! جب تک کسی سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ خاموش رہے۔ وکیل صاحب آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

ڈاکٹر کے وکیل نے ملزم رمیش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں تو تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے ؟کیوں کہ چوکیدار نے تم کو گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑا ہے۔‘‘لہذا تم پر جرم ثابت ہوتا ہے۔‘‘

 اس پر ملزم نے جواب دیا:
’’ مجھ جیسے جاہل انپڑھ کو چور اچکا کہہ آپ لوگ بڑے فخر کرتے ہیں مگر آپ ہی بتایے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب کو کیا کہیں جواپنی چارسوبیسی سے مریضوں کو لوٹتا ۔میں مانتا ہوں کہ بنا ثبوت کوئی مجرم نہیں ہے۔ توممکن ہے، کل ہمارے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ ہو۔ عدالت کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔‘‘


Mujrim Published by Umang Sunday


٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...