Wednesday 2 April 2014

آمیزش یا خلوص

محب اللہ قاسمی *
آمیزش یا خلوص
اس ترقی یافتہ دور میں بظاہر مختلف اقسام کی چیزوں کی کثرت ہے اور ہر چیز وافر مقدار میں  میسر ہے ،چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دور کونٹٹی (مقدار)کا ہے مگر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اس دورِکوننٹی میں کوالٹی (معیار)نہیں ہے۔اس صورت حال کا سبب ملاوٹ ہے ،جس نے کھر ے کوکھوٹا کیا ہے۔
ملاوٹ اشیاء خورد و نوش میں ہو تو براہ راست انسانی جسم کو متاثر کرتی ہے اور اگر دین وایمان میں ہو تو انسان کو دنیا و آخرت دونوںمیں ناکام و رسوا کرتی ہے۔آج ملاوٹ نے مزید آگے بڑھ کر خوبصورت پیکر میں پوشیدہ زہرکی شکل اختیار کرلی ہے، جو انسانی وجود کو فنا کے گھاٹ اتاردیتا ہے۔ایمان و عقائد میں خرافات و بدعات کی آمیزش ہوچکی ہے۔بعض مسلمانوں نے تو نام کے علاوہ ساراطور طریقہ غیر اسلامی اختیار کرلیاہے۔ گویا دودھ میں پانی نہیں بلکہ پانی میں دودھ ملایاگیاہے۔حالانکہ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
من تشبہ بقوم فہومنہم  (ابوداؤد)
 ’’جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں سے ہے۔‘‘
اگر ہم اس ملاوٹ کے مظاہر کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ یہ ہماری عبادات و معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے احساسات و جذبات اور نظریات میں بھی ملاوٹ ہے۔ ہماری دوستی محبت اورباہمی تعلقات بھی ملاوٹ کے شکارہیں۔کوئی چیز خالص نہیں ہے ۔ ریاکاری اور تصنع کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس منظر کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار کے ذریعہ شکوہ کیاہے  ؎
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اس دور کا انسان بظاہر دوستی تو خوب کرتا ہے مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیرخواہ ہے ، اس کا رازدار ہے؟یا یہ دوستی صرف ایک دکھاواہے، جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟پڑوسی سے دعاء سلام ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے یا محض رسماً اداکیے جانے والے بول ہیں۔اگرسلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگااور آپس میں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوںگے۔ پھر کامیابی کے بلند مقام تک پہنچنے میں کوئی چیز حائل نہ ہوسکے گی۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو پوری طرح اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام میں ملاوٹ ناپسندیدہ ہے جسے دھوکہ سے تعبیر کیاجاسکتاہے جو حرام ہے۔قرآن کریم کی درج ذیل آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
‘‘باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔‘‘ (البقرۃ:۴۲)
’’حقیقت میں تو امن ان ہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔‘‘ (انعام:82)
’’دیکھو ! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ خبردار ! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، وہ تو اْن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں پوشیدہ ہیں۔(ہود:5)
ان کویہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، یکسوہوکر۔ نماز قائم کریں ،زکوۃ دیں یہی سچا دین ہے۔ (البینۃ)
 ایمانی اخوت اور باہمی تعلقات کے تئیںاسلام نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد ایمان اور للہیت ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اہل ایمان باہم اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے مخلص و خیرخواہ ہوںگے۔ایسے لوگ روز قیامت عرش الٰہی کے سائے میں ہوںگے۔اس مسئلہ میں ہم سیرت نبوی ﷺ سے بھی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔
 ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی بازار سے گزرے تو وہاں ایک غلے کی بوری میں ہاتھ ڈالا اور اس غلے کو بھیگا ہوا پایا۔ پھر دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ، بارش کی وجہ سے گیلا ہوگیا ہے۔فرمایاتو تم نے اسے غلہ کے اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:جس نے دھوکہ دھڑی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔  (ترمذی)
اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا وہ ارشاد مزید ہماری رہنمائی کرتاہے، جس میں آپؐنے فرمایا:جس کسی نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا  اس نے شرک کیا اور جس کسی نے دکھاوے کی غرض سے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘(مسند احمد)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں تو اندیشہ ہے کہ اکثر اوقات ہم خود کو خالی ہاتھ محسوس کریںگے۔ہمارے اعمال میںجھوٹ، فریب ،ریاکاری کی ملاوٹ ہوگی۔ریاکاری کے تعلق سے ہم اکثرغفلت کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ آپؐ نے اسے شرک اصغر قرار دیاہے ۔ واقعہ یہی ہے کہ اس دور میں ایمان کے ساتھ ریاکاری کی آمیزش بڑھ گئی ہے بہت کم دینی امور بلا ریا ، نمود ونمائش کے انجام پاتے ہیں۔ ایسے ریاکار لوگوں کی آخرت میں سخت بازپرس ہوگی ۔
ایک طویل روایت میںنبی کریم ﷺنے ریاکارشہید،عالم اور سخی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ روز قیامت سب سے پہلے ان کا مقدمہ پیش کیاجائے گا اور ان کے نیک اعمال کے باوجود ریاکاری کی آمیزش کے سبب انھیںمنہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔(مسلم)
اس کے برعکس مخلص اور صالح لوگوں کا بلندمقام ہوگا ۔ جو اپنی اس خصوصیت کے سبب عرش الٰہی کے سائے میں ہوںگے۔اس تعلق سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’روز قیامت جب اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا سات قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جو اس سائے میں ہوںگے۔ ایک انصاف پسند حکمراں،وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں لگارہا۔وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہو۔وہ دوآدمی جو اللہ کی  خاطر باہم محبت کریں اور ان کا اکٹھااور جدا ہونا اللہ ہی کی خاطر ہو۔ ایک وہ شخص جسے ایک خوبصورت اورحسب نسب والی عورت نے اپنی طرف بلایا جس پر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ایک وہ شخص جس نے ریاونمود سے پاک ہو کر پوشیدہ طور سے صدقہ کیا حتی کہ اس کے بائیںہاتھ کو بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیاہے۔ ایک وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔(متفق علیہ،عن ابی ہریرۃ)
مذکورہ بالا روایت سے ہمیں خلوص کی اہمیت کابخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا ۔ اسلام نے خلوص کو بڑی اہمیت دی ہے۔اسی کے پیش نظر امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کا آغاز اس روایت سے کیاہے:
’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کو اس کی (اچھی یا بری ) نیت کے مطابق اچھا یا برا بدلہ ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ،اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی ، اس کی ہجرت ان ہی کی طرف سمجھی جائے گی اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت ان ہی مقاصد کے لیے ہوگی‘‘۔معلوم ہوا کہ ہر کام کے لیے اخلاص ضروری ہے۔ ہر نیک عمل میں اللہ کی رضا پیش نظر ہو۔ اگر کسی نیک عمل میں اخلاص کی بجائے کسی اور جذبے کی آمیزش ہوجائے گی تو عنداللہ مقبول نہیں ہوگا۔(ریاض الصالحین ص: 34)
صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا ۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لتے ۔ ذرا سا بھی ریا کا کو ئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پرواہ کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ دین دنیا میں کامیاب ہوئے۔اس دور کا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بنا جو رہتی دنیا کے لیے نمونہ ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بھی صالح ،صحت مند اور مثالی معاشرہ ہو تو جس طرح ہم غذا یا دیگر اشیاء میں ملاوٹ کواپنی صحت کے لیے نقصاندہ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے اعمال کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ دانستہ و نادانستہ طور پر کہیں ہم اس میں فسق و فجور کی آمیزش تو نہیں کررہے ہیں ، کہیں ہم راہ حق سے بھٹک تو نہیںگئے، جس کا ہمیں احساس بھی نہ ہواہو۔ ہم ہروقت باخبر رہیں اس لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اے نبیﷺ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘(کہف:104-103)    

Ghazal: Jab tak na ada hoga

غزل ........ محب اللہ رفيق

وہ شخص ہی دنياں ميں محبوب خدا ہوگا
جس کے ليے اسوہ ہی آئينہ بنا ہوگا

اس پر نہ بھروسہ کر دشمن سے ملا ہوگا
اس دشمن جانی سے کب،کس کا بھلا ہوگا

صرف اس کی عبادت پر بخشش تو نہیں ممکن
بندوں کا بھی حق تجھ سے جب تک نہ ادا ہوگا

اس نسل کی حالت بھی  يونہی نہ ہوئی بد تر
اس ميں تو قصور آخر اپنا بھی رہا ہوگا

در يائے رواں خوں کا اعلان  يہ کرتا ہے

اس قتل کا منصوبہ پہلے سے بنا ہوگا


Monday 31 March 2014

Maal ek Nemat Gharibon ka is men Huq



مسلمانوں  کے موجودہ معاشرے کاجائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ آج مسلمان ایمان واعمال کے اعتبارسے ہی نہیں  بلکہ ظاہری واسباب اور  اقتصادی حالات کے لحاظ سے بھی کمزور،بے بس اور لاچارہیں ،ان میں  سے جو صاحب مال واہل ثروت انھوں  نے مال کواپنی تجوریوں  میں  جمع کر رکھا ہے وہ غریبوں  کی ضرورتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور  صرف اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں  یا اسراف بے جا کے شکارہیں ۔
ان کے اندر دینی حمیت اور ایمان کی چاشنی نہیں  ہے جس کے سبب خداسے ان کی دوری بڑھتی جارہی ہے ۔ پہلے ان کے اندر دین کاجو جذبہ پایا جاتا تھااور جسے ان کی سب سے بڑی طاقت مانا جاتاتھا اب اس کافقدان نظر آتاہے ۔  اب وہ غیرقوموں کی طرح تعصب کاشکارہیں  جوان کے جمعیت کوکھوکھلا کررہاہے۔  ان کے اندرپہلے جیسااتحادواتفاق نہیں جو ایمانی اخوت کے سبب انھیں  ایک جگہ جمع رکھ سکے ۔ وہ مختلف گروہوں  اور  فرقوں  میں بٹے ہوئے ہیں  ۔ ہرگروہ اپنی ذات برادری کواولیت دیتاہے اور  اس کے پڑوس میں رہنے والا کوئی دوسرامسلم بھائی خواہ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں مر رہاہومگر اسے پوچھتا تک نہیں  اور  اس کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں  کرتا۔  جب کہ یہ اسلام کاطریقہ نہیں ۔ کیوں کہ ایمان جیسے مضبوط رشتے کے سبب تمام مسلمانوں  کا ایک دوسرے پرحق بنتاہے یہی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے پھرہم الگ کیسے ہوسکتے ہیں ۔
مال ودولت کے سلسلے میں  مسلمانوں  کے درمیان دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں  ۔  کچھ لوگ ہیں  جو اپنی کوتاہ فہمی اور تنگ نظری کے پیش نظر مال کو جوکہ اللہ کی ایک نعمت ہے ،کچھ بھی اہمیت نہیں  دیتے وہ اسے ملعون گردانتے ہیں ۔ نتیجۃً وہ اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں  اور اہل وعیال کی آہ و بکا کوسن کردستِ سوال درازکرنے پرمجبورہوجاتے ہیں ۔  عورتیں  اپنے معصوم بچوں  کی خاطراپنی عزت نیلام کربیٹھتی ہیں  یا زہر دے کرانہیں  موت کی دائمی نیندسلادیتی ہیں ۔  قرآن کریم میں  مال کو اللہ کا فضل قرار دیاگیاہے:
’’اذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروافی الارض وابتغوامن فضل اللہ‘‘(الجمعۃ:۱۰  )
’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ )
پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔
خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔
’’ان اللہ یحب العبد الغنی التقی الخفی‘‘(مسلم) بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔
نبی کریم ﷺ اور کبارِ صحابہ ؓ کی حیات طیبہ پرنگاہ ڈالی جائے توانہوں نے بھی تجارت کی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اتنے مالدار تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جوسوناتھااسے کلہاڑی سے کاٹ کروارثوں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔ ان کی ہی شادی کے موقع پرآپ ؐ نے فرمایاتھاکہ ’’اولم ولوبشاۃٍ‘‘یعنی شادی ہوگئی تو لیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔  نکاح کے بعدولیمہ کرناسنت قراردیاگیا۔
حضرت مرزاجان جاناں ؒ کی نفاست اور اعلی معیاری طرز زندگی صوفیاکے مابین کافی معروف ومشہورہے ۔ ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ نیالباس تبدیل کرتے تھے۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے توعلم وعمل کے ساتھ ان کے پاس خدا نے مال ودولت بھی کافی فراوانی عطا کر رکھی تھی جس کاوہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں کیا جاتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں  متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق اداکرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)
اگرکسی کے پاس یہ مال نہ ہو تووہ ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال کرنا ذلت کی بات ہے۔
ا سی طرح وہ واقعہ بھی ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا ،پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹواوربازارمیں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی۔ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے بازومیں  جب تک قوت دی ہے تواسے دوسروں کے سامنے نہ پھیلایاجائے بلکہ اس کااستعمال ہواوراسی سے کما کراپنی ضرورتیں  پوری کی جائے۔
بہرحال ان تمام باتوں کو مدنظررکھتے ہوئے یہ کہنابالکل صحیح ہے کہ مال اللہ کی نعمت ہے جودینی خدمات کی انجام دہی کابہترین وسیلہ ہے اور  ہماری اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بھی ۔ لہذاصرف توکل پرٹیک لگائے ہوئے سستی اور  کاہلی کا مظاہرہ کرنا ،مسلمانوں کے لئے کسی بھی درجہ مناسب نہیں ہے۔ بقول علامہ اقبال   ؎
                                       عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث    
                                        مؤمن نہیں  جو صاحب لولاک نہیں  ہے
٭٭٭

Sunday 30 March 2014



انسان اس دنیا میں جوبھی نیک عمل کرے گا آخرت میں  اللہ کی بارگاہ میں  اس کابہتراوراجرعظیم کی شکل میں  پائے گا۔ ان ہی نیک اعمال میں  سے ایک عمل صدقہ ہے ۔  اسلام میں  صدقہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔  اسے انسان اور جہنم کے مابین حجاب قراردیاگیاہے اور  وہ دنیا میں  بھی انسان کو بہت سی مصیبتوں سے محفوظ رکھتاہے۔  صدقہ کا ایک معروف ومشہورمفہوم ہے جو عام طورپر لوگوں کے ذہن میں  گردش کرتارہتاہے۔ وہ ہے صاحب ثروت اور  مالدار لوگوں  کا اپنامال اپنی جیب سے نکال کرغریب مسکین لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کی خاطر ان کی جھولی میں  ڈال دینا۔ اسے قرآن و احادیث میں  ’’انفاق ‘‘ (مال خرچ کرنے )کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا صراحۃً حکم دیاگیا ہے اور  ایسا کرنے والے لوگوں کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔ صدقہ کے سلسلے میں  قرآن کا حکم ہے:
’’یہ صدقات تودراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں  کے لیے جوصدقات کے کام پر مامورہوں ،اوران کے لیے جن کی تالیف ِ قلب ہو۔  نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مددکرنے میں  راہ خدامیں  اور مسافرنوازی میں  استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا وبینا ہے۔  (توبہ:60)‘‘
جب نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو یمن روانہ کیاتو جوچندباتیں  ہدایت فرمائیں  ان میں  ایک بات یہ بھی تھی ۔ آپ ؐ کا ارشادہے :’’ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں صدقہ کو فرض قراردیاہے، جوتمہارے مالداروں سے لیاجائے گا اور تمہارے غرباء کو دیادیاجائے گا۔ ‘‘    (مسلم )
اس آیت اور حدیث سے مرادزکوۃ ہے۔ دیگر آیات اور احادیث میں  صدقات نافلہ کا حکم آیاہے۔  اس لیے صدقات کی ادائیگی میں  سستی نہیں  کرنی چاہیے، بلکہ اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے خواہ وہ مقدارمیں  تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ یہ گناہوں  کے بھڑکتے شعلوں کو ایسے ہی ٹھنڈاکرتاہے جیسے پانی آگ کے دہکتے انگارے کوسردکردیتاہے۔ اس حکم کی روشنی میں  صاحب حیثیت افراد، مستحقین پر خرچ کرتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ آخرت کرتے ہیں ۔  لیکن صدقہ کا صرف یہی مفہوم مناسب نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے: اتقوا النار ولوبشق تمرۃ ، فان لم تجدفبکلمۃ طیبۃ۔
’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ ایک کھجورکے ٹکڑے سے ہی کیوں  نہ ہو، اگرتمہارے پاس کچھ نہ ہوتو اچھی گفتگو کے ذریعے ہی صحیح مگراس سے بچو۔ ‘‘ (بخاری)
اس حدیث میں  جہنم سے نجات کے دوطریقے بیان کیے گئے ہیں ۔  ایک ہے مال خرچ کرنا خواہ اس کی مقدارکتنی ہی کم سے کم ہو۔  دوسراطریقہ ہے۔  اچھی بات کہنا ، جو کہ ایک معنوی چیزہے۔ اس میں  کچھ مال خرچ کرنے کی ضرورت نہیں  ہوتی۔
اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث ہے ، جس میں  تفصیل سے صدقہ کی چند صورتیں  بتائی گئی ہیں ۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:
علی کل مسلم صدقۃ، قال : أرأیت ان لم یجد، قال: یعمل بیدیہ فینفع نفسہ و یتصدق، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یعین ذا الحاجۃ الملہوف، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یأمر بالمعروف اوالخیر،قال : أرأیت ان لم یفعل، قال: یمسک عن الشر فانہا صدقۃ ۔    (متفق علیہ)
’’ہرمسلمان پر صدقہ ہے،ایک صحابیؓ نے کہا جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ آپ ؐ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے خود کونفع پہنچایا اور  صدقہ بھی کرے۔ صحابیؓنے کہا: اگروہ اس کی استطاعت نہ رکھتاہو؟ آپ ؐ نے فرمایا:لاچار،ضرورت مند کی مدد کرے،صحابیؓ نے کہا کہ اگر وہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ نیکی اور بھلائی کا حکم دے ۔ صحابیؓ نے کہا کہ اگروہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ دوسروں کوتکلیف پہنچانے سے باز رہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ تمام مسلمانوں پر ضروری ہے۔ اگرانسان خودکماکر اپنی اور ضرورت مندوں کی مدد کررہا ہے تو ایسا کرنا وہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا مگروہ اتنابے بس اور لاچارہے کہ یہ ضرورت پوری نہیں  کرسکتا تواس صورت میں  کئی طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حتی کہ اگروہ بھلائی کا حکم دے اور بری باتوں سے رکے تویہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ صدقہ کا یہی وسیع مفہوم ایک دوسری حدیث سے بھی معلوم ہوتاہے۔ آپؐ نے فرمایا:
عن ابی ہریرۃ ؓ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کل سلامی من الناس علیہ صدقۃ کل یوم تطلع فیہ الشمس:  تعدل بین اثنین صدقۃ، وتعین الرجل فی دابتہ فتحمل لہ علیہا او ترفع لہ علیہا متاعہ صدقہ، والکلمۃ الطیبہ صدقہ، و بکل خطوۃ تمشیہا الی الصلاۃ صدقۃ، وتمیط الاذی عن الطریق صدقۃ‘‘ (متفق علیہ)
      اس حدیث میں  آپؐ نے انسان کے جسم میں  پائے جانے والے جوڑوں کا ذکر کیا ہے۔  صحیح مسلم کی روایت سے اس کی تعداد360معلوم ہوتی ہے۔  آج ماہرین طب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق روزانہ ان پر صدقہ واجب ہوتاہے۔ اس طرح ایک ہفتہ میں  تقریباًدوہزارپانچ سو بیس صدقات ہوئے۔  ان پر صدقہ کا حکم فرماتے ہوئے ، آپ ؐ نے ان کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  بیان کی ہیں ۔  اس کے لیے آپ نے جوطریقے بیان فرمائے ہیں  وہ نہایت آسان ہیں جنھیں  امیر و غریب یکساں  طورپر انجام دے سکتاہے۔ مثلاً دولوگوں کے درمیان انصاف کرنا خواہ سمجھابجھاکر یا ایک فیصلہ دے کر۔ لوگوں کی مدد کرنا بایں  مثلاً ایک شخص کے پاس سواری تو ہے مگروہ خودسے اس پر سوارہونا اس کے لیے دشوار ہے اور کوئی ساتھ بھی نہیں  ہے جو اس کی مدد کرے تو ایسے شخص کو اس کی سواری پرسوار کرنے میں  مددکرنا، یا پھر اس کا سامان سواری پر رکھنا وغیرہ۔ حدیث میں  کلمہ طیب کوبھی صدقہ قراردیاہے۔ خواہ یہ اللہ کی تسبیح وتہلیل بیان کرکے ہو، یا لوگوں کے مابین اپنی گفتگومیں  اچھے اخلاق کے ساتھ اچھے انداز میں  نرم لہجہ اختیارکرکے ہو۔  نماز کے لیے مسجد کی طرف بڑھنے والے قدم کو بھی صدقہ میں  شمار کیا گیاہے ۔ اس میں  مسافت کی قید نہیں  ہے۔  اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان  اپنے گھرسے وضوکرکے نمازکے لییمسجدجاتاہے تو اللہ اس کے ہرقدم پر اس کے درجات کو بلند کرتاہے۔  آخرمیں  نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔  یہ انسان کے لیے ایک اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے جس میں  دوسروں  کو تکلیف دینے سے بچناہی نہیں  بلکہ ہر اس چیزکو دورکردینا شامل ہے ، جو انسان کو راہ چلتے ہوئے تکلیف پہنچاسکتی ہے۔
اسی طرح صدقہ کی ایسی اور بھی بہت سی مثالیں  ہیں  جن میں  مال واسباب توصرف نہیں  ہوتے مگرانھیں  بھی صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنوے سے پانی نکال رہاہے۔ اس کا ڈول بھردے۔ یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردے ۔ یا کسی ضعیف وناتواں  کو راہ پارکرادے اور کسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردے ۔ اسی طرح خدمت خلق کی اور بھی دوسری صورتیں  ہوسکتی ہے جن میں  مال توصرف نہیں  ہوتا مگر ضرورت مندکی ضرورت ضرورپوری ہوجاتی ہے۔ حدیث میں  اس طرح کے عمل کو بھی صدقہ کہاگیاہے۔ حتی کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔  (ترمذی)
’’ تیرا اپنے بھائی کے چہرے پر ہنسی بکھیرنا صدقہ ہے۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔ گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دیکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔  کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔  پتھر،کانٹے اور ہدی کوراہ سے ہٹادینا ،تیرے لیے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں  پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
اس روایت میں  انسانی ہمدردی کی بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں ، جو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔  انسان جب کسی سے ملتاہے تو اسے یہ خیال ہوتاہے کہ اس سے جومل رہاہے ،یا خودوہ کسی سے مل رہاہے تو پتہ نہیں  وہ کس کیفیت میں  ہے۔  جس سے عام پر جھجھک ہوتی ہے مگرجب وہ مسکراکرملتاہے تو یہ پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔  اسی طرح دیگر اور بھی چیزیں جب انسان کسی کے لیے ایسا کرتاہے تواسے اندرونی طورپر بڑی خوشی ملتی ہے۔ یہ ایک اعلی اوصاف ہیں ،جن سے متصف انسان بااخلاق معلوم ہوتاہے۔  اس لیے آپ نے اس طرح کے عمل کوبھی صدقہ قراردیا ہے۔  جس کے دوررس نتائج سامنے آتے ہیں ۔ یہ اسلام کی بڑی خوبی ہے ،جواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ روزانہ انسان کے ہرجوڑپر صدقہ ہے۔  تم دولوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرویہ ایک صدقہ ہے، کسی انسان کی اس کی سواری کے سلسلے میں  اس کی مددکردو کہ اس کو سوارکرادو، یا اس کا سامان اس سواری پر رکھ دو یہ بھی صدقہ ہے۔  اچھی بات بھی صدقہ ہے۔  ہر قدم جونماز کے لیے آگے بڑھا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادو یہ بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
موجودہ دورمیں  لوگ ماحولیات کوبہتربنانے کے لیے درخت لگانے کی بات کرتے ہیں  اور اس پر کافی زوردیاجاتاہے ،جب کہ اس کی افادیت کے پیش نظرنبی کریم ﷺ نے چودہ سوسال قبل ہی اس کی اہمیت اور فوائد کی خاطر درخت لگانے کو صدقہ قراردیاہے ،کیوں کہ اس سے جہاں  ماحولیات پر بہتر اثر پڑتاہے وہیں اس سے عام جاندارکو بھی فائدہ ہوتاہے۔  اس تعلق سے نبی کریم کا ارشادہے:
مامن مسلم یغرس غرساً، الا کان ما أکل منہ لہ صدقۃ،  وما سرق منہ لہ صدقۃ، ولایرزؤہ أحد الا کان لہ صدقۃ۔      (ترمذی)
        ’’مسلمان کوئی درخت لگاتاہے اور اس میں  کوئی نقصان پہنچتا ہے کہ کسی نے اس سے پھل کھا لیا، تو یہ اس (درخت لگانے والے )کے لیے صدقہ ہے ۔  اسی طرح کسی نے اس سے چوری کرلی تو بھی یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘(ترمذی)
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ مسلمان اگرکوئی درخت لگائے ،اور اس کوئی انسان ، چوپایایاپرندہ کھالے تویہ اس کے لیے قیامت تک صدقہ ہے۔
انسان اپنی بیوی کے پاس اپنی نفسانی فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے جاتا ہے،جوافزائش نسل کا ایک طریقہ ہے ، مگر یہ عمل بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔  ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
و فی بضع احدکم صدقۃ، قالوا یا رسول اللہ، ایاتی احدنا شہوتہ، ویکون لہ فیہا اجر،قال: أرأیتم لو وضعہا فی حرام أکان علیہ وزر؟ فکذالک اذاوضعہا فی الحلال ،کان لہ أجر۔
’’ضرورت کی تکمیل کے لیے انسان کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں  سے ہرایک یہ عمل اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کرتاہے توکیا اس میں  بھی اجرہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: تمہارا کیاخیال ہے اگروہ اپنی یہ ضرورت کسی حرام جگہ پوری کرتا تواس پر گناہ نہیں  ہوتا؟ اسی طرح اس نے یہ حلال طریقہ اختیارکیا ۔ لہذا یہ اس کے لیے باعث اجرہے۔ ‘‘(مسلم )

اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  ہیں ۔ خواہ انفاق کے ذریعے ہو یا دیگرطریقوں سے اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔  صدقہ کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں  کوئی ننگابھوکا نہ رہے اور  معاشرہ ہر طرح کی گندگی اور شرسے پاک اور پرامن ہو۔ تمام بندگان خداکی تمام ضروریات کی تکمیل ہو۔  اسی لیے نبی کریم ﷺ نے صدقہ کے سلسلے میں  ایک جامع بات بیان فرمائی:’’کل معروف صدقۃ‘‘(ہرنیک کام صدقہ ہے)اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی واضح کردیاکہ ’’نیکی اور  بھلائی کے کسی بھی کام کو معمولی نہ سمجھو‘‘کیوں کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ 

Tuesday 25 March 2014



امتحان آزمائش انسانی زندگی کاجوہرہے ۔ اسی سے اس کے اندرنکھار پیدا ہوتا ہے ۔  عربی کہاوت ہے :
عندالامتحان یکرم الانسان اویہان               امتحان کے بعد ہی انسان مکرم یا رسواہوتاہے۔
امتحان میں کامیابی مطلوب اور  پسندیدہ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ خواہ مدارس سے جڑے ہوئے ہوں یاکالج یا یونیورسٹیوں  میں  زیرتعلیم ہوں سب کے لیے امتحان کی بڑی اہمیت ہے اور وہ ایسا محسوس بھی کرتے ہیں ، اب ان میں  جوطلبہ ہوشیار اور  ذی شعورہوتے ہیں ،وہ اس کی تیاری کرتے ہیں  اور اپنے معیارکوبلندکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی یہ جدوجہد لائق تحسین ہے۔ غورکرنے کا مقام ہے ،کیااخری امتحان جس کی تیاری کے لیے خدانے انسان کو پیدا کیا، پوری زندگی عطاکی،تمام ضروریات کے اسباب وسائل پیداکیے ۔  اس کے لیے ضروری نہیں  کہ وہ اس کی بھی تیاری کرے ۔ جس کاانعام دنیوی انعام سے لاکھوں گنا بڑھا ہوا ہے۔ اس انسان سے زیادہ بے وقوف وبدحواس کون ہوگا جو کمترکوبہترپرترجیح دیتاہے ۔
خداکی عطاکردہ یہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے ،جوامتحان کے سادے اور اق کی طرح ہے، جس پر’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ کی مہرلگی ہوئی ہے۔ جس کا موضوع ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘اورغرض وغایت ’’وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالِانْسَ اِلَّالِیَعُبدُوْن‘‘ (سورۃذاریات:۵۶)ہے۔  میں  نے جن اور انسان کوصرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔  جسے لے کر پیدا ہونے والا ہر فرد بشراس دنیا میں  آتا ہے ،جوکہ دارالامتحان ہے۔  مگراس کے والدین جومختلف گروہوں  ،خاندان اور مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ، اس کے ورقِ حیات پر فطرت اسلام کی لگی مہر کو ہٹاکرکفروشرک ،یہودیت ونصرانیت وغیرہ کی مصنوعی مہرثبت کردیتے ہیں ۔
 فابواہ یہودانہ یجوسانہ اوینصرانہ۔ (الحدیث)پس اس کے والدین اسے یہودی بنالیتے ہیں  یانصرانی۔
اس طرح یہ بچہ اپنے والدین کے مذہب میں  شامل ہوجاتا ہے ۔ اس کا موضوع غرض و غایت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پھرجب یہ وہ بڑاہوتا ہے تواپنے آباء واجدادکی تقلید {حَسْبُنَا مَاوَجَدْنَا عَلَیْہ آبائَ نَا}(جس پرہم نے اپنے باپ کوپایاوہی ہمارے لے کافی ہے ۔ )کو دلیل مان کراسی پر قائم رہنا پسند کرتا ہے کوئی اگرغوروفکرکا سہارالیتا ہے تواپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ’’فطرت اسلام‘‘کی مہر کو بدستورباقی رکھنا مناسب سمجھتا ہے جو ’’وضع الشی علی محلہ ‘‘کا عین مصداق ہے۔
یہ آزمائش اور امتحان کاسلسلہ اس کی وفات تک جاری رہتا ہے۔ مگرجب موت آجاتی ہے تواس کے بعدسوائے پچتاوے اور مایوسی کے کچھ باقی نہیں  رہتا۔
{حَتّٰی جَائَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ اِرْجِعُوْنِo لَعَلِّی اَعْمَلُ صٰلِحًا فِیْمَاتَرَکْتُ کَلّاَاِنَّہٰاکَلِمَۃٌ قَائِلُہَاوَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌٔ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ}(مؤمنون: ۹۹)
ترجمہ :۔  ’’یہاں تک کہ ان میں  سے ایک کوموت آئی توکہا اے میرے رب ! مجھے دنیامیں واپس بھیج دے ،تاکہ جس کومیں  چھوڑآیاہوں اس میں  جاکرنیک عمل کروں (یادرکھو)ہرگزایسانہیں  ہوگا،یہ صرف ایک بات ہی ہے جسے وہ کہے گا‘‘۔
موت کے وقت اس پچھتاوے سے کچھ ہونے والانہیں  ہے ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اس دوران موضوع کومدنظررکھتے ہوئے اس کے تقاضوں  کوعملی طورپرانجام دیتا رہے۔  تاکہ وہ اس کے نامہ اعمال میں  درج ہوتاچلاجائے،جس میں  کامیاب ہونے والے ’’مومن‘‘اورناکامی (شیطان)کا شکارہونے والے ’’کافر‘‘دونوں کااندراج ہوتاہے۔ {یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ}(اٰل عمران: ۱۰)وہ وقت قابل رشک اور پرملال ہوگا،جس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے اور بہت سے سیاہ ہوں گے۔
اللہ کے قائم کردہ عدل وانصاف کے اس ترازوپرجو کچھ بھی رکھاجائے گا۔  بخوبی دیکھ لے گاوہ جان لے گا کہ اس نے کیا اچھے اعمال کئے اور کیا برے ،خواہ وہ ذرے کے برابرہی کیوں نہ ہو {فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ} (القران)پھر جس کے نیک اعمال زائد ہوں گے ،اس کا پلڑا بھاری ہوگااورجس کے نیک اعمال کم ہوں گے ،اس کا پلڑا ہلکا ہوگا ۔ جو اس کی کامیابی وناکامی کا معیارثابت ہوگا۔
{فَأَمَّامَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھَوَفِیْ عِیْشَۃِ الرَّاضِیَۃِ وَأَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ حَاوِیَّۃ }۔ وقال تعالیٰ ایضا۔ ومن خف موازینہ فاولیک الذ ین خسروانفسہم بماکانواباٰیٰتنا یظلمون۔ (القارعۃ:۵)
آخرت میں  کامیاب ہونے والوں کاکے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور خوشخبری بھی۔ {فَبَشِّرْہٗ بِمَغْفِرۃٍ وَأَجْرٍ  کَرِیْم}ان کا انعام جنت ہوگا۔
اِنَّ اللّٰہ یَدْخُلُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوْالصَّالِحَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الَانْہَارُ(الحج :۱۳)
ترجمہ:بلا شبہ اللہ تعالی مؤمنوں کواوران لوگوں کوجن لوگوں نے اعمال صالحہ کئے ایسے باغات میں  داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں  جاری ہوں  گی ۔
وہاں  اس کو نہ کوئی خوف ہوگا( کہ کہیں  موت اس کے انعام کے تلذذسے محرومی کا سبب نہ بن جائے )اورنہ وہ غمگین ہوں گے کہ( وہاں سے ان کو کچھ زمانے کے بعدنکال دیاجائے گا)۔
فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن(بقرۃ:۳۸)
رہے ناکام لوگ توان کو بھی بشارت دی جائے گی مگردردناک عذاب کی۔
فَبَشِّرْہٗ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (توبہ:۲۴)
یہ لوگ اپنے نامہ اعمال کو دیکھیں  گے اور کہیں  گے۔
{مَالِ لِہَذَاالْکِتَابِ لَایُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَلَاکَبِیْرَۃً اِلَّاأَحْصٰہَا}
’’ اس نامہ اعمال کوکیا ہوااس نے میرے چھوٹے بڑے سب کئے کرتوت کودرج کرلیاہے‘‘۔ (کہف:۴۹)
ان کا مقام اور ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ آخر میں  ایک گروہ اور جماعت وہ ہوگی جو کامیاب تو ہوگی مگراعلیٰ نمبرات نہ ہونے کے سبب ان کو بھی عارضی طورپر جہنم میں  ڈالدیاجائے گا۔
یہاں  ٹھہر کرکچھ سوالات ذہن کے خانے میں  گردش کرتے ہیں  کہ یہ تقاضہ کیا ہیں ؟جو موضوع ،غرض وغایت سب کو محیط ہیں  جس کے سبب انسان اتنے بڑے انعام واکرام کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس امتحان کی تیاری کے لئے کوئی توکتاب ہوگی جسکی تھیوری پریکٹیکل کو آسان کرسکے۔ اس کا کوئی ٹیچراورگائڈہوگا جس سے کچھ نوٹس گیس پیپر (Guess paper)تیارکئے گئے ہوں گے؟ان سوالات کاپیداہونا اہل فکرونظرہونے کی دلیل ہے ۔
بہرحال وہ مقتضیات       ’’آمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ ‘‘       ’’ایمان لاؤاورنیک کام کرو‘‘
ہیں ،جن کا مطلب ہے خداکے وجودکوتسلیم کرنا کہ وہ سارے جہاں  کا رب ہے ۔ دنیا کاسارانظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے اور محمدﷺکوخداکابندہ اور اس کارسول ماننا۔  اور یہ اقرارکرنا کہ آپ ؐکا  ہرقول فعل دلیل شرعی ہے ۔
)وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ وَحْیٌ یُوْحیٰ((النجم:۳)
نیک کام انجام دینا کہ اس میں خداکی اطاعت شامل ہے اور برے کاموں سے دامن کو بچاکررکھنا کہ اس میں  خداکی نافرمانی اور اس کی ناراضی ہے، جوجہنم کاباعث ہے ،پھروہ نصابی کتاب مقدس’’قرآن مجید‘‘جو درحقیقت ناظم امتحان اور رب کائنات کاہی کلام ہے، جس کا مقصدلوگوں کوزندگی کی ناکام تاریک کوٹھری سے نکال کرکامیابی کے روشن باب پر لا کھڑا کرنا ہے۔
کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہٗ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیٰ النُّورِ   (ابراہیم : ۱)
یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے اجالے کی طرف نکال لائے۔
اس امتحان کی تیاری کیلئے خدانے گائڈس اور اساتذہ کے طورپر بہت سارے انبیاء ورسل کو دنیا میں  مبعوث کیا ،جن کی آخری کڑی محمدعربی ﷺہیں ۔
{یَااَیہَا النَّبیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَنَذِیْراً وَدَاعِیاً اِلٰی اللّٰہِ بِاذْنِہ سِرَاجَاًمُنِیْراً}۔
جو اس درخواست کی تکمیل ہیں :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ   (بقرہ:۱۲۹)
 ’’ اے ہمارے رب بھیجئے ان میں  ان ہی میں کاایک رسول جوان کے سامنے آپ کی کتاب کی تلاوت کرے اور ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دے‘‘۔
ہُوَاللّٰہُ الّذِیْ بَعَثَ فِی الأُمِّیِّیِّنَ رَسُوْالًا مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّہُمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَال مُّبِیْنَo۔ (جمعہ:۲)
’’وہی ذات ہے جس نے ان پڑھوں  میں  ،ان ہی لوگوں میں سے ایک رسول بھیجا، جواس کی آیات کی تلاوت کرتاہے اور انہیں  پاکیزگی سکھاتا ہے اور انہیں  کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور وہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں  تھے۔ ‘‘
اس احکم الحاکمین نے اپنے رسولوں  اور گائڈس کو جن قوموں  میں  بھیجا توانہی کی زبان میں  بھیجا تاکہ احکام ِالٰہی کے افہام وتفہیم کا معاملہ آسان ہو۔
وَمَااَرْسَلْنٰا مِنْ رَسُوْلٍ الّابِلِسَانٍ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ۔ (ابراہیم: ۴)
’’اورہم نے نہیں  بھیجا کسی رسول کومگراس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ وہ (میری بات کو)ان کے سامنے وضاحت سے پیش کردے۔  ‘‘
مذکورہ مقدس کتاب، جس کی بعض عبارات احکام سے متعلق تھیں ، آپ کی سیرت مبارکہ نے اس کے اجمال کی تفصیل کردی ۔ آپؐ کے جانثارصحابہؓ نے آپ سے وہ سب کچھ سیکھا اور اسے عملی طورپرانجام دیاجوہمارے لئے ’’نوٹس‘‘کی حیثیت رکھتا ہے،جس پر آپ ؐنے اطیعوااللہ واطیعواالرسول کو مزید وسعت بخشتے ہوئے ارشادفرمایاتھا: ’’الصحابۃ کالنجوم بایہم اقتدیتم اہدیتم۔  اور مااناعلیہ واصحابی‘‘ ( صحابہ ستاروں  کے مانند ہیں  تم ان میں  جس کی بھی اتباع کروگے راہ ریاب ہوجاؤگے)گویا یہ آپ کی طرف سے ہدایت بن گئی کہ اگرتمہاری زندگی کے شب وروز اس طرح گزریں گے توتمہیں  اعلیٰ نمبرات ملیں گے۔
مگران تمام کے بعد بھی انسان چوں کہ خطاو نسیان کامرکب ہے لہذاان سے غلطی اور  گناہ کاسرزدہوناعین ممکن ہے اس لئے خدانے اس کی اس کمزوری کے مدنظر یہ فرمان جاری کیا: ’’توبواالی اللہ توبۃ نصوحا‘‘لہذامیں  اگرکسی سے کوئی غلطی ہوجاے توفوراًاللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے کرتوت پرندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ کرے ۔  خداچونکہ غافرالذنب وقابل التوب ہے۔ لہذاوہ اپنے ایسے بندے کوفوراًمعاف فرمادیتاہے۔ گویاتوبہ اس امتحان میں ہونے والی غلطیوں کومٹانے والا(Eraser)ہے۔
خداکے فرمان کو ’’قرآن ‘‘اس کے رسول کے اقوال وافعال کو ’’حدیث‘‘ اس نظام کو ’’اسلام‘‘اس کے ماننے والے کو ’’مسلمان‘‘اور اس کے طریقہ کارکو ’’اصول اسلام ‘‘کہا جاتا ہے۔  یہ فطرت انسانی کے لئے مکمل نظام حیات بن کر ظاہر ہوا ہے، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں  {فہدیناہ النجدین(القران)}صحیح و غلط کے دوراستوں کی تمیز کرتے ہوئے لوگوں کوراہ مستقیم پر چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔  اس کی منزل کامیابی، مقصد اپنے خالق ومالک کا تقرب اور اس کا دیدار ہے، جواس کے امتحان میں  کامیابی کاعمدہ اور  اعلیٰ نتیجہ ہے۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداًo(کہف :۱۱۰)
 )تو  جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں  کسی کو شریک نہ کرے)
٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...