Monday 31 March 2014

Maal ek Nemat Gharibon ka is men Huq



مسلمانوں  کے موجودہ معاشرے کاجائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ آج مسلمان ایمان واعمال کے اعتبارسے ہی نہیں  بلکہ ظاہری واسباب اور  اقتصادی حالات کے لحاظ سے بھی کمزور،بے بس اور لاچارہیں ،ان میں  سے جو صاحب مال واہل ثروت انھوں  نے مال کواپنی تجوریوں  میں  جمع کر رکھا ہے وہ غریبوں  کی ضرورتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور  صرف اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں  یا اسراف بے جا کے شکارہیں ۔
ان کے اندر دینی حمیت اور ایمان کی چاشنی نہیں  ہے جس کے سبب خداسے ان کی دوری بڑھتی جارہی ہے ۔ پہلے ان کے اندر دین کاجو جذبہ پایا جاتا تھااور جسے ان کی سب سے بڑی طاقت مانا جاتاتھا اب اس کافقدان نظر آتاہے ۔  اب وہ غیرقوموں کی طرح تعصب کاشکارہیں  جوان کے جمعیت کوکھوکھلا کررہاہے۔  ان کے اندرپہلے جیسااتحادواتفاق نہیں جو ایمانی اخوت کے سبب انھیں  ایک جگہ جمع رکھ سکے ۔ وہ مختلف گروہوں  اور  فرقوں  میں بٹے ہوئے ہیں  ۔ ہرگروہ اپنی ذات برادری کواولیت دیتاہے اور  اس کے پڑوس میں رہنے والا کوئی دوسرامسلم بھائی خواہ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں مر رہاہومگر اسے پوچھتا تک نہیں  اور  اس کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں  کرتا۔  جب کہ یہ اسلام کاطریقہ نہیں ۔ کیوں کہ ایمان جیسے مضبوط رشتے کے سبب تمام مسلمانوں  کا ایک دوسرے پرحق بنتاہے یہی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے پھرہم الگ کیسے ہوسکتے ہیں ۔
مال ودولت کے سلسلے میں  مسلمانوں  کے درمیان دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں  ۔  کچھ لوگ ہیں  جو اپنی کوتاہ فہمی اور تنگ نظری کے پیش نظر مال کو جوکہ اللہ کی ایک نعمت ہے ،کچھ بھی اہمیت نہیں  دیتے وہ اسے ملعون گردانتے ہیں ۔ نتیجۃً وہ اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں  اور اہل وعیال کی آہ و بکا کوسن کردستِ سوال درازکرنے پرمجبورہوجاتے ہیں ۔  عورتیں  اپنے معصوم بچوں  کی خاطراپنی عزت نیلام کربیٹھتی ہیں  یا زہر دے کرانہیں  موت کی دائمی نیندسلادیتی ہیں ۔  قرآن کریم میں  مال کو اللہ کا فضل قرار دیاگیاہے:
’’اذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروافی الارض وابتغوامن فضل اللہ‘‘(الجمعۃ:۱۰  )
’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ )
پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔
خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔
’’ان اللہ یحب العبد الغنی التقی الخفی‘‘(مسلم) بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔
نبی کریم ﷺ اور کبارِ صحابہ ؓ کی حیات طیبہ پرنگاہ ڈالی جائے توانہوں نے بھی تجارت کی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اتنے مالدار تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جوسوناتھااسے کلہاڑی سے کاٹ کروارثوں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔ ان کی ہی شادی کے موقع پرآپ ؐ نے فرمایاتھاکہ ’’اولم ولوبشاۃٍ‘‘یعنی شادی ہوگئی تو لیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔  نکاح کے بعدولیمہ کرناسنت قراردیاگیا۔
حضرت مرزاجان جاناں ؒ کی نفاست اور اعلی معیاری طرز زندگی صوفیاکے مابین کافی معروف ومشہورہے ۔ ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ نیالباس تبدیل کرتے تھے۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے توعلم وعمل کے ساتھ ان کے پاس خدا نے مال ودولت بھی کافی فراوانی عطا کر رکھی تھی جس کاوہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں کیا جاتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں  متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق اداکرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)
اگرکسی کے پاس یہ مال نہ ہو تووہ ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال کرنا ذلت کی بات ہے۔
ا سی طرح وہ واقعہ بھی ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا ،پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹواوربازارمیں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی۔ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے بازومیں  جب تک قوت دی ہے تواسے دوسروں کے سامنے نہ پھیلایاجائے بلکہ اس کااستعمال ہواوراسی سے کما کراپنی ضرورتیں  پوری کی جائے۔
بہرحال ان تمام باتوں کو مدنظررکھتے ہوئے یہ کہنابالکل صحیح ہے کہ مال اللہ کی نعمت ہے جودینی خدمات کی انجام دہی کابہترین وسیلہ ہے اور  ہماری اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بھی ۔ لہذاصرف توکل پرٹیک لگائے ہوئے سستی اور  کاہلی کا مظاہرہ کرنا ،مسلمانوں کے لئے کسی بھی درجہ مناسب نہیں ہے۔ بقول علامہ اقبال   ؎
                                       عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث    
                                        مؤمن نہیں  جو صاحب لولاک نہیں  ہے
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...