Tuesday 25 March 2014



امتحان آزمائش انسانی زندگی کاجوہرہے ۔ اسی سے اس کے اندرنکھار پیدا ہوتا ہے ۔  عربی کہاوت ہے :
عندالامتحان یکرم الانسان اویہان               امتحان کے بعد ہی انسان مکرم یا رسواہوتاہے۔
امتحان میں کامیابی مطلوب اور  پسندیدہ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ خواہ مدارس سے جڑے ہوئے ہوں یاکالج یا یونیورسٹیوں  میں  زیرتعلیم ہوں سب کے لیے امتحان کی بڑی اہمیت ہے اور وہ ایسا محسوس بھی کرتے ہیں ، اب ان میں  جوطلبہ ہوشیار اور  ذی شعورہوتے ہیں ،وہ اس کی تیاری کرتے ہیں  اور اپنے معیارکوبلندکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی یہ جدوجہد لائق تحسین ہے۔ غورکرنے کا مقام ہے ،کیااخری امتحان جس کی تیاری کے لیے خدانے انسان کو پیدا کیا، پوری زندگی عطاکی،تمام ضروریات کے اسباب وسائل پیداکیے ۔  اس کے لیے ضروری نہیں  کہ وہ اس کی بھی تیاری کرے ۔ جس کاانعام دنیوی انعام سے لاکھوں گنا بڑھا ہوا ہے۔ اس انسان سے زیادہ بے وقوف وبدحواس کون ہوگا جو کمترکوبہترپرترجیح دیتاہے ۔
خداکی عطاکردہ یہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے ،جوامتحان کے سادے اور اق کی طرح ہے، جس پر’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ کی مہرلگی ہوئی ہے۔ جس کا موضوع ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘اورغرض وغایت ’’وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالِانْسَ اِلَّالِیَعُبدُوْن‘‘ (سورۃذاریات:۵۶)ہے۔  میں  نے جن اور انسان کوصرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔  جسے لے کر پیدا ہونے والا ہر فرد بشراس دنیا میں  آتا ہے ،جوکہ دارالامتحان ہے۔  مگراس کے والدین جومختلف گروہوں  ،خاندان اور مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ، اس کے ورقِ حیات پر فطرت اسلام کی لگی مہر کو ہٹاکرکفروشرک ،یہودیت ونصرانیت وغیرہ کی مصنوعی مہرثبت کردیتے ہیں ۔
 فابواہ یہودانہ یجوسانہ اوینصرانہ۔ (الحدیث)پس اس کے والدین اسے یہودی بنالیتے ہیں  یانصرانی۔
اس طرح یہ بچہ اپنے والدین کے مذہب میں  شامل ہوجاتا ہے ۔ اس کا موضوع غرض و غایت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پھرجب یہ وہ بڑاہوتا ہے تواپنے آباء واجدادکی تقلید {حَسْبُنَا مَاوَجَدْنَا عَلَیْہ آبائَ نَا}(جس پرہم نے اپنے باپ کوپایاوہی ہمارے لے کافی ہے ۔ )کو دلیل مان کراسی پر قائم رہنا پسند کرتا ہے کوئی اگرغوروفکرکا سہارالیتا ہے تواپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ’’فطرت اسلام‘‘کی مہر کو بدستورباقی رکھنا مناسب سمجھتا ہے جو ’’وضع الشی علی محلہ ‘‘کا عین مصداق ہے۔
یہ آزمائش اور امتحان کاسلسلہ اس کی وفات تک جاری رہتا ہے۔ مگرجب موت آجاتی ہے تواس کے بعدسوائے پچتاوے اور مایوسی کے کچھ باقی نہیں  رہتا۔
{حَتّٰی جَائَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ اِرْجِعُوْنِo لَعَلِّی اَعْمَلُ صٰلِحًا فِیْمَاتَرَکْتُ کَلّاَاِنَّہٰاکَلِمَۃٌ قَائِلُہَاوَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌٔ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ}(مؤمنون: ۹۹)
ترجمہ :۔  ’’یہاں تک کہ ان میں  سے ایک کوموت آئی توکہا اے میرے رب ! مجھے دنیامیں واپس بھیج دے ،تاکہ جس کومیں  چھوڑآیاہوں اس میں  جاکرنیک عمل کروں (یادرکھو)ہرگزایسانہیں  ہوگا،یہ صرف ایک بات ہی ہے جسے وہ کہے گا‘‘۔
موت کے وقت اس پچھتاوے سے کچھ ہونے والانہیں  ہے ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اس دوران موضوع کومدنظررکھتے ہوئے اس کے تقاضوں  کوعملی طورپرانجام دیتا رہے۔  تاکہ وہ اس کے نامہ اعمال میں  درج ہوتاچلاجائے،جس میں  کامیاب ہونے والے ’’مومن‘‘اورناکامی (شیطان)کا شکارہونے والے ’’کافر‘‘دونوں کااندراج ہوتاہے۔ {یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ}(اٰل عمران: ۱۰)وہ وقت قابل رشک اور پرملال ہوگا،جس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے اور بہت سے سیاہ ہوں گے۔
اللہ کے قائم کردہ عدل وانصاف کے اس ترازوپرجو کچھ بھی رکھاجائے گا۔  بخوبی دیکھ لے گاوہ جان لے گا کہ اس نے کیا اچھے اعمال کئے اور کیا برے ،خواہ وہ ذرے کے برابرہی کیوں نہ ہو {فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ} (القران)پھر جس کے نیک اعمال زائد ہوں گے ،اس کا پلڑا بھاری ہوگااورجس کے نیک اعمال کم ہوں گے ،اس کا پلڑا ہلکا ہوگا ۔ جو اس کی کامیابی وناکامی کا معیارثابت ہوگا۔
{فَأَمَّامَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھَوَفِیْ عِیْشَۃِ الرَّاضِیَۃِ وَأَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ حَاوِیَّۃ }۔ وقال تعالیٰ ایضا۔ ومن خف موازینہ فاولیک الذ ین خسروانفسہم بماکانواباٰیٰتنا یظلمون۔ (القارعۃ:۵)
آخرت میں  کامیاب ہونے والوں کاکے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور خوشخبری بھی۔ {فَبَشِّرْہٗ بِمَغْفِرۃٍ وَأَجْرٍ  کَرِیْم}ان کا انعام جنت ہوگا۔
اِنَّ اللّٰہ یَدْخُلُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوْالصَّالِحَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الَانْہَارُ(الحج :۱۳)
ترجمہ:بلا شبہ اللہ تعالی مؤمنوں کواوران لوگوں کوجن لوگوں نے اعمال صالحہ کئے ایسے باغات میں  داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں  جاری ہوں  گی ۔
وہاں  اس کو نہ کوئی خوف ہوگا( کہ کہیں  موت اس کے انعام کے تلذذسے محرومی کا سبب نہ بن جائے )اورنہ وہ غمگین ہوں گے کہ( وہاں سے ان کو کچھ زمانے کے بعدنکال دیاجائے گا)۔
فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن(بقرۃ:۳۸)
رہے ناکام لوگ توان کو بھی بشارت دی جائے گی مگردردناک عذاب کی۔
فَبَشِّرْہٗ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (توبہ:۲۴)
یہ لوگ اپنے نامہ اعمال کو دیکھیں  گے اور کہیں  گے۔
{مَالِ لِہَذَاالْکِتَابِ لَایُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَلَاکَبِیْرَۃً اِلَّاأَحْصٰہَا}
’’ اس نامہ اعمال کوکیا ہوااس نے میرے چھوٹے بڑے سب کئے کرتوت کودرج کرلیاہے‘‘۔ (کہف:۴۹)
ان کا مقام اور ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ آخر میں  ایک گروہ اور جماعت وہ ہوگی جو کامیاب تو ہوگی مگراعلیٰ نمبرات نہ ہونے کے سبب ان کو بھی عارضی طورپر جہنم میں  ڈالدیاجائے گا۔
یہاں  ٹھہر کرکچھ سوالات ذہن کے خانے میں  گردش کرتے ہیں  کہ یہ تقاضہ کیا ہیں ؟جو موضوع ،غرض وغایت سب کو محیط ہیں  جس کے سبب انسان اتنے بڑے انعام واکرام کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس امتحان کی تیاری کے لئے کوئی توکتاب ہوگی جسکی تھیوری پریکٹیکل کو آسان کرسکے۔ اس کا کوئی ٹیچراورگائڈہوگا جس سے کچھ نوٹس گیس پیپر (Guess paper)تیارکئے گئے ہوں گے؟ان سوالات کاپیداہونا اہل فکرونظرہونے کی دلیل ہے ۔
بہرحال وہ مقتضیات       ’’آمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ ‘‘       ’’ایمان لاؤاورنیک کام کرو‘‘
ہیں ،جن کا مطلب ہے خداکے وجودکوتسلیم کرنا کہ وہ سارے جہاں  کا رب ہے ۔ دنیا کاسارانظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے اور محمدﷺکوخداکابندہ اور اس کارسول ماننا۔  اور یہ اقرارکرنا کہ آپ ؐکا  ہرقول فعل دلیل شرعی ہے ۔
)وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ وَحْیٌ یُوْحیٰ((النجم:۳)
نیک کام انجام دینا کہ اس میں خداکی اطاعت شامل ہے اور برے کاموں سے دامن کو بچاکررکھنا کہ اس میں  خداکی نافرمانی اور اس کی ناراضی ہے، جوجہنم کاباعث ہے ،پھروہ نصابی کتاب مقدس’’قرآن مجید‘‘جو درحقیقت ناظم امتحان اور رب کائنات کاہی کلام ہے، جس کا مقصدلوگوں کوزندگی کی ناکام تاریک کوٹھری سے نکال کرکامیابی کے روشن باب پر لا کھڑا کرنا ہے۔
کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہٗ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیٰ النُّورِ   (ابراہیم : ۱)
یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے اجالے کی طرف نکال لائے۔
اس امتحان کی تیاری کیلئے خدانے گائڈس اور اساتذہ کے طورپر بہت سارے انبیاء ورسل کو دنیا میں  مبعوث کیا ،جن کی آخری کڑی محمدعربی ﷺہیں ۔
{یَااَیہَا النَّبیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَنَذِیْراً وَدَاعِیاً اِلٰی اللّٰہِ بِاذْنِہ سِرَاجَاًمُنِیْراً}۔
جو اس درخواست کی تکمیل ہیں :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ   (بقرہ:۱۲۹)
 ’’ اے ہمارے رب بھیجئے ان میں  ان ہی میں کاایک رسول جوان کے سامنے آپ کی کتاب کی تلاوت کرے اور ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دے‘‘۔
ہُوَاللّٰہُ الّذِیْ بَعَثَ فِی الأُمِّیِّیِّنَ رَسُوْالًا مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّہُمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَال مُّبِیْنَo۔ (جمعہ:۲)
’’وہی ذات ہے جس نے ان پڑھوں  میں  ،ان ہی لوگوں میں سے ایک رسول بھیجا، جواس کی آیات کی تلاوت کرتاہے اور انہیں  پاکیزگی سکھاتا ہے اور انہیں  کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور وہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں  تھے۔ ‘‘
اس احکم الحاکمین نے اپنے رسولوں  اور گائڈس کو جن قوموں  میں  بھیجا توانہی کی زبان میں  بھیجا تاکہ احکام ِالٰہی کے افہام وتفہیم کا معاملہ آسان ہو۔
وَمَااَرْسَلْنٰا مِنْ رَسُوْلٍ الّابِلِسَانٍ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ۔ (ابراہیم: ۴)
’’اورہم نے نہیں  بھیجا کسی رسول کومگراس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ وہ (میری بات کو)ان کے سامنے وضاحت سے پیش کردے۔  ‘‘
مذکورہ مقدس کتاب، جس کی بعض عبارات احکام سے متعلق تھیں ، آپ کی سیرت مبارکہ نے اس کے اجمال کی تفصیل کردی ۔ آپؐ کے جانثارصحابہؓ نے آپ سے وہ سب کچھ سیکھا اور اسے عملی طورپرانجام دیاجوہمارے لئے ’’نوٹس‘‘کی حیثیت رکھتا ہے،جس پر آپ ؐنے اطیعوااللہ واطیعواالرسول کو مزید وسعت بخشتے ہوئے ارشادفرمایاتھا: ’’الصحابۃ کالنجوم بایہم اقتدیتم اہدیتم۔  اور مااناعلیہ واصحابی‘‘ ( صحابہ ستاروں  کے مانند ہیں  تم ان میں  جس کی بھی اتباع کروگے راہ ریاب ہوجاؤگے)گویا یہ آپ کی طرف سے ہدایت بن گئی کہ اگرتمہاری زندگی کے شب وروز اس طرح گزریں گے توتمہیں  اعلیٰ نمبرات ملیں گے۔
مگران تمام کے بعد بھی انسان چوں کہ خطاو نسیان کامرکب ہے لہذاان سے غلطی اور  گناہ کاسرزدہوناعین ممکن ہے اس لئے خدانے اس کی اس کمزوری کے مدنظر یہ فرمان جاری کیا: ’’توبواالی اللہ توبۃ نصوحا‘‘لہذامیں  اگرکسی سے کوئی غلطی ہوجاے توفوراًاللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے کرتوت پرندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ کرے ۔  خداچونکہ غافرالذنب وقابل التوب ہے۔ لہذاوہ اپنے ایسے بندے کوفوراًمعاف فرمادیتاہے۔ گویاتوبہ اس امتحان میں ہونے والی غلطیوں کومٹانے والا(Eraser)ہے۔
خداکے فرمان کو ’’قرآن ‘‘اس کے رسول کے اقوال وافعال کو ’’حدیث‘‘ اس نظام کو ’’اسلام‘‘اس کے ماننے والے کو ’’مسلمان‘‘اور اس کے طریقہ کارکو ’’اصول اسلام ‘‘کہا جاتا ہے۔  یہ فطرت انسانی کے لئے مکمل نظام حیات بن کر ظاہر ہوا ہے، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں  {فہدیناہ النجدین(القران)}صحیح و غلط کے دوراستوں کی تمیز کرتے ہوئے لوگوں کوراہ مستقیم پر چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔  اس کی منزل کامیابی، مقصد اپنے خالق ومالک کا تقرب اور اس کا دیدار ہے، جواس کے امتحان میں  کامیابی کاعمدہ اور  اعلیٰ نتیجہ ہے۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداًo(کہف :۱۱۰)
 )تو  جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں  کسی کو شریک نہ کرے)
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...